Sunday 14 April 2024

خَوانِ پُر نعمت ملفوظات حضرت مخدوم الملک شیخ شرف الدین یحیی المنیری
KHAWAAN E PUR NAAMAT MALFOZAAT HAZRAT SHEIKH SHARAF U DEEN YAHYA AL MUNEERI

خَوانِ پُر نعمت

(ملفوظات حضرت  مخدوم الملک شیخ شرف الدین یحیی المنیری)

اردو مترجم: ڈاکٹر محمد علی راشد شرفی الفردوسی

پیشکش : طوبی ریسرچ لائبریری

05 شوال المکرم 1445 ہجری

بشکریہ : ڈاکٹر نذیر احمد

KHAWAAN E PUR NAAMAT

(MALFOZAAT HAZRAT SHEIKH SHARAF U DEEN YAHYA AL MUNEERI)

URDU MUTARJIM : DR MUHAMMAD ALI RASHID SHARFI AL FIRDOSI

DOWNLOAD

#TOOBAA_POST_NO_608

مزید کتب کے لیئے دیکھیئے  صفحہ " تزکیہ و تصوف ، احسان و سلوک

 

TOPICS

maneri, firdausi, soharwardi, kubrawi, order, silsila, makhdoom jahan, makhdoome jahan, makhdoom yahya maneri, makhdum ul mulk, makhdoom e bihar, sufi, sufism, islamic sufism, balkhi, malfooz, almalfooz, malfuz, malfoozat, malfuzat, bihar, india, maner, balkh, khwaja sharfuddin yahya maneri, SHAIKH SHARFUDDIN, YAHYA MANERI, FIRDAUSI, SOHARWARDI, KUBRAWI, ORDER, SILSILA, MAKHDOOM JAHAN, MAKHDOOME JAHAN, MAKHDOOM YAHYA MANERI, MAKHDUM UL MULK, MAKHDOOM E BIHAR, SUFI, SUFISM, ISLAMIC SUFISM, BALKHI, MAULANA MUZAFFAR BALKHI, URDU TRANSLATION, MALFOOZ, ALMALFOOZ, MALFUZ, MALFOOZAT, MALFUZAT, BIHAR, INDIA, MANER, BALKH, KHWAJA SHARFUDDIN YAHYA MANERI, HAZRAT MAKHDOOM SHARF U DEEN BIN YAHYA MUNEERI, ملفوظات ، تصوف, تجدید تصوف, اصلاح تصوف, تزکیہ, احسان, سلوک ، معرفت, صوفیاء کا علمی مقام و مرتبہ, صوفیاء اور علم حدیث, سلسلہ سہروردیہ,  سلسلہ نقشبندیہ, سلسلہ شطاریہ, حضرت  مخدوم الملک شیخ شرف الدین یحیی المنیری,اردو ترجمہ,

 

مکتوبات صدی

مصنف: حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری قدس سرہ

نسخہ عہد مصنف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکتوبات صدی

مصنف: حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری قدس سرہ

مترجم اردو: شاہ الیاس یاس بہاری فردوسی /پروفیسر ڈاکٹر شاہ محمد نعیم ندوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکتوبات دو صدی

مصنف: حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری قدس سرہ

مترجم اردو: سید شاہ قسیم الدین احمد شرفی فردوسی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ارشاد الطالبین اور ارشاد السالکین،

دو مختصر رسالے از حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری قدس سرہ

مترجم سید ڈاکٹر محمد علی ارشد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فوائدِ رکنی، اردو ترجمہ

مکتوب حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ

ترجمہ: سید غلام صمدانی نقوی

۔۔۔۔۔۔۔

ملفوظ الصفر شیخ شرف الدین یحی منیری

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اوراد شرفی

 مصنفہ: مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحیی منیری

۔۔۔۔۔۔۔۔

تاریخ دعوت و عزیمت

حضرت مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی

تیسری جلد میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی، سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء، حضرت شیخ شرف الدین یحیی منیری کے سوانح حیات، صفات و کمالات، تجدیدی و اصلاحی کارنامے، تلامذہ و منتسبین و مسترشدین کا تذکرہ و تعارف ہے

٭درج ذیل مقالات مطلوب ہیں٭

مخ المعانی – ملفوظات حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری – اردو ترجمہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری کی دینی خدمات اور ان کے اثرات و نتائج

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلامی و ہندی تصوف اور شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کی دینی اور اصلاحی خدمات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کی کتاب ’’مکتوبات دو صدی‘‘ کا علمی اور تنقیدی مطالعہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکتوباتِ شیخ احمد یحییٰ منیری کا موضوعاتی و تجزیاتی مطالعہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شیخ یحییٰ منیری کی کتاب ’’مکتوبات دو صدی‘‘ کا علمی اور تنقیدی مطالعہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مخدوم الملک بہاری شیخ احمد شرف الدین یحییٰ منیری: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو

از:اسجد عقابی

شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کا تمام تر کارنامہ یہی نہیں ہے کہ انہوں نے ہندوستان کے باشندوں کو خدا کا راستہ دکھایا، معرفت الٰہی و تعلق مع اللہ کی ضرورت و اہمیت دل نشین کی، ہزاروں لاکھوں لوگوں کے دلوں میں عشق الٰہی اور خدا طلبی کی حرارت پیدا کردی اور سلوک و معرفت کے اسرار و نکات اور لطیف و بلند علوم کا اظہار فرمایا، بلکہ بعض دوسرے مصلحین امت اور محققین کی طرح ان کا یہ بھی عظیم روشن کارنامہ ہے کہ انہوں نے بروقت دین کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دیا۔ مسلمانوں کے دین و ایمان کو غالی صوفیوں کی بے اعتدالیوں، ملحدین کی تحریفات اور باطنیت و زندقہ کے اثرات سے محفوظ رکھا۔

سر زمین بہار نے جن نابغہ روزگار مشائخ عظام اور علماء اسلام کو جنم دیا ہے ان میں آپ کا مقام و مرتبہ بہت اعلیٰ و ارفع ہے۔ آپ صوفی ہونے کے ساتھ ساتھ وقت کے عظیم محدث، مفسر اور فلسفی تھے۔

 

ولادت با سعادت

آپ کی ولادت 661 ہجری ہے۔ آپ کا اسم گرامی احمد، لقب شرف الدین اور خطاب مخدوم المک بہاری ہے۔ آپ کے والد محترم کا نام شیخ یحییٰ تھا جو زبیر بن عبد المطلب کی اولاد میں سے ہیں۔ اس طرح آپ ہاشمی خانوادہ کے چشم وچراغ ہیں۔ ننھیالی رشتہ سے آپ حسینی سادات میں سے ہیں۔ آپ کے نانا شیخ شہاب الدین جگ جوت سہروردی اپنے زمانہ کے مشہور صوفی بزرگ تھے۔ اس اعتبار سے آپ کا خاندان دونوں جانب سے صاحب فضل و کمال کا گہوارہ رہا ہے۔

 

تعلیم و تربیت

آپ کی تعلیم کا سلسلہ آپ کے اپنے قصبہ سے شروع ہوا۔ اس وقت کے اعتبار سے متوسطات تک کی کتابیں آپ نے یہیں پڑھیں۔ آپ کا علمی ذوق و شوق قابلِ قدر تھا۔ آپ علم اور اہل علم کی تلاش و تتبع میں سرگرداں رہا کرتے تھے۔ جب طلب صدق قلب مومن میں موجزن ہو تو راہیں خود بخود ہموار ہوتی چلی جاتی ہے۔

شیخ شرف الدین ابو توامہ حنبلی دہلی سے سنار گاؤں (موجودہ بنگلہ دیش کا خطہ) کیلئے راہ سفر میں تھے۔ بغرض قیام منیر کے سرائے میں قیام کیا۔ آپ کے ساتھ شاگردوں کا گروہ تھا۔ سرائے میں قیام کے دوران آپ کا چرچہ عام ہوگیا۔ لوگ دور دراز سے استفادہ کیلئے تشریف لانے لگے۔ اسی اثناء میں یہ مژدہ جانفزا شیخ شرف الدین یحییٰ منیری کے کانوں تک پہنچا۔ آپ فوراً حاضر خدمت ہوئے۔ استاد کے تبحر علمی اور محققانہ و مدبرانہ کلام سے اس قدر متاثر ہوئے کہ شیخ کے قافلہ کے جلو میں سنار گاؤں کیلئے روانہ ہوگئے۔

آپ نے زمانہ طالب علمی میں وقت کی قدر و قیمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے تعلیمی مشاغل کے علاوہ کسی قسم کی مصروفیات کو اپنے گلے کا جنجال نہیں بنایا۔ ہمہ وقت کتابوں کے مطالعہ میں مستغرق رہا کرتے تھے۔ حتی کہ دیگر طالبین کے ساتھ بیٹھ کر کھانے سے احتراز کرتے، اس خیال کے مد نظر کہ اس میں وقت کا ضیاع زیادہ ہوتا ہے۔ جب آپ کی اس عادت کا اندازہ آپ کے استاد محترم کو ہوا تو آپ نے اپنے محبوب ترین شاگرد کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے کھانے کا نظم ان کے حجرہ میں ہی کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ اس طرح آپ نے اس مختصر وقت کی حفاظت کی جو چند ساتھیوں کے ساتھ کھانے میں ضائع ہوسکتا تھا۔ کتابوں سے اس قدر شغف تھا کہ آپ نے یہ معمول بنایا تھا کہ جو خطوط آپ کو اہل خانہ، رشتہ دار اور دیگر قرابت داروں کی جانب سے موصول ہوتے اسے بغیر پڑھے ہوئے ایک جگہ رکھ دیتے، مبادا کوئی ایسی خبر نہ ہو جس سے علمی مشاغل میں چند ساعتوں کیلئے خلل پڑجائے۔ آپ اپنے استاد محترم شیخ ابو توامہ حنبلی کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ آپ ایسے عالم تھے کہ تمام ہندوستان میں آپ کی جانب انگلیاں اٹھتی تھی، لیکن علم میں کوئی ان کا ہمسر نہ تھا۔

 

وطن واپسی

سنار گاؤں کے قیام کے دوران آپ کی علم دوستی، تواضع و انکساری، انابت الی اللہ، تعلق مع اللہ کو دیکھ کر آپ کے استاد شیخ ابو توامہ حنبلی نے روشن مستقبل کا اندازہ لگا لیا تھا۔ انہیں ایام میں استاد محترم کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے نکاح کے سنت کی ادائیگی کی۔ آپ کی زوجہ محترمہ آپ کے استاد کی بیٹی تھی۔ چند دنوں بعد رب ذوالجلال نے صحن چمن کو بیٹے کی عظیم نعمت سے منور فرمایا۔

آپ بیوی بچہ کے ساتھ وطن مالوف کو روانہ ہوئے۔ 690 ہجری میں آپ وطن پہنچے، جب آپ وطن پہنچے ہیں اس وقت آپ کے والد محترم اس دار فانی سے کوچ کرچکے تھے۔ کچھ دنوں تک وطن میں قیام رہا، آپ محض درس و تدریس تک خود کو محدود نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ اس لئے آپ کا قیام وطن میں بہت مختصر رہا۔

 

بیعت و سلوک

وطن سے روانگی کے وقت آپ نے بچہ کو والدہ کے حوالہ کیا اور کہا کہ اب یہ میری امانت ہے۔ اسی کو آپ احمد شرف الدین سمجھیں۔ میرے متعلق چنداں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

آپ اپنے برادر شیخ جلیل الدین کے ہمراہ دہلی تشریف لائے۔ دہلی میں چند روزہ قیام کے دوران تمام شیوخ دہلی کی خانقاہوں میں پہنچے، لیکن آپ کو تشفی نہیں ہوئی۔ شیوخ دہلی کا حال دیکھ کر آپ نے فرمایا کہ اگر پیری مریدی یہی ہے تو ہم بھی شیخ ہیں۔ اخیر میں آپ سلطان الاولیاء شیخ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے دربار میں پہنچے۔ شیخ کے ساتھ علمی گفتگو ہوئی، آپ شیخ نظام الدین اولیاء سے متاثر ہوئے لیکن یہاں بھی آپ کو مقصود نہیں ملا۔ شیخ نظام الدین اولیاء نے بوقت رخصت پان کی ایک تھال پیش کی اور فرمایا کہ ایک شاہین بلند پرواز ہے لیکن ہمارے جال کی قسمت میں نہیں ہے۔ آپ دہلی سے پانی پت کیلئے روانہ ہوئے، یہاں شیخ بو علی قلندر پانی پتی کی بارگاہ میں پہنچے لیکن مقصود یہاں بھی نہیں ملا۔ مایوس ہوکر آپ دہلی واپس آگئے۔

 

شیخ نجیب الدین فردوسی کے دربار میں

دہلی اور پانی پت سے مایوس واپس ہونے کے بعد آپ کے بھائی شیخ جلیل الدین نے شیخ نجیب الدین فردوسی کا تذکرہ کیا۔ ان کے طریق اور مناقب بیان کئے۔ فضل وکمال کو بیان کیا، یہ سن کر آپ نے بھائی سے کہا کہ شیخ دہلی ( شیخ نظام الدین اولیاء) نے ہمیں پان کے پتے دے کر واپس کردیا ہے، اب دوسروں سے کیا امید کی جاسکتی ہے۔ بھائی نے اصرار کیا کہ صرف ملاقات کرنے میں کیا حرج ہے۔ بھائی کے اصرار پر آپ اس حال میں شیخ نجیب الدین فردوسی کی خانقاہ میں پہنچے کہ ایک پان منھ میں چبائے جارہے ہیں اور چند پان رومال میں بندھے ہوئے ہیں۔ شیخ نجیب الدین فردوسی نے آپ کو دیکھ کر فرمایا کہ منھ میں پان رومال میں لپٹے ہوئے چند پان اور دعویٰ یہ کہ ہم بھی شیخ ہیں۔ یہ سنتے ہی آپ نے منھ سے پان پھینک دیا اور مؤدب ہوکر بیٹھ گئے۔ کچھ وقفہ کے بعد بیعت کیلئے درخواست کی، شیخ نے بیعت فرمائی اور پھر خلافت دے کر واپس کردیا۔

 

صحرا نوردی

یہ سب کچھ اتنا جلدی ہوا کہ آپ متعجب ہوگئے لیکن شیخ کا حکم بجا لانا بھی ضروری تھا، چنانچہ آپ وہاں سے وطن کیلئے روانہ ہوگئے۔ راجگیر کے جنگلات کے پاس آپ خاموشی سے ساتھیوں سے الگ ہوگئے۔ آپ کے بھائی اور دیگر لوگوں نے تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ملی۔ آپ راجگیر کے جنگلات میں پیڑ پودوں اور پتوں پر گزارا کیا کرتے تھے۔ جنگلات کا یہ علاقہ ہندو جوگیوں کا بھی مسکن تھا، جو اپنے مذہب کے اعتبار سے مشقت اٹھایا کرتے تھے۔ طویل عرصہ تک آپ روپوش رہے اور کسی کو آپ کی خبر نہیں ہوئی۔ ان جنگلات میں آپ نے ہندو جوگیوں سے کئی معاملات میں علمی مناقشہ کئے، جس کے نتیجہ میں جوگیوں کی بڑی تعداد آپ کے دست مبارک پر مشرف بہ اسلام ہوئی ہے۔ جنگلات میں اپنے مجاہدہ اور ریاضت کے متعلق اپنے مرید قاضی زاہد سے فرمایا کہ میں نے جو ریاضتیں کی ہے اگر پہاڑ کرلیتا تو پانی ہوجاتا لیکن شرف الدین کو کچھ نہیں ہوا۔

اسی زمانہ میں سلطان الاولیاء شیخ نظام الدین اولیاء کے مرید اور ان کے ہمنام مولانا نظام مولی کو جب معلوم ہوا کہ چند لوگوں نے راجگیر کے جنگل میں آپ سے ملاقات کی ہے تو آپ اپنے چند مریدوں کے ہمراہ ملاقات کیلئے جنگل کی سمت روانہ ہوگئے۔ تلاش بسیار کے بعد شیخ منیری سے ملاقات ہوئی، یہ سلسلہ شروع ہوا تو آہستہ آہستہ لوگوں کا جم غفیر جنگل کی سمت رخ کرنے لگا۔ علاقہ کی حساسیت اور زہریلے جانوروں کی موجودگی کی وجہ سے آپ نے متوسلین کو جنگل کی جانب رخ کرنے سے منع فرمایا اور خود ہفتہ میں ایک دن بروز جمعہ عوام کے درمیان تشریف لاتے، وعظ و نصیحت کے بعد دوبارہ جنگل کا رخ کرلیا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ عرصہ تک جاری رہا اور پھر چند متوسلین نے آپ کیلئے جنگل کے کنارے چھپر ڈال کر ایک مسجد کی تعمیر کرائی تاکہ آپ کچھ استراحت فرمائیں۔ یہ سلسلہ کچھ دنوں تک جاری رہا اور پھر شیخ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے متوسلین نے باضابطہ آپ کیلئے خانقاہ کی تعمیر فرمائی اور آپ کو سجادہ پر بٹھا دیا۔

 

یہ سلطان غیاث الدین تغلق کا زمانہ تھا، سلطان کے بعد جب محمد بن تغلق تخت پر براجمان ہوا تو اس نے خلوت نشیں صوفیاء کرام اور عزلت پسندی کے خوگر علماء کرام کو عوام الناس میں لانے کی کوشش شروع کردی۔ سلطان خود بھی علماء اور علم دوست تھے، چنانچہ ان کی کوشش بار آور ثابت ہوئی اور خانقاہوں میں بیٹھنے والے صوفیاء کرام لشکروں کے ساتھ میدان اور دیگر اسفار میں تطھیر قلوب کی خاطر رہنے لگے۔

سلطان محمد بن تغلق جب شیخ منیری کے احوال سے واقف ہوا تو اس نے بہار کے صوبہ دار مجد الملک کو خط لکھا کہ شیخ کیلئے خانقاہ تعمیر کی جائے اور پرگنہ راجگیر خانقاہ سے متمتع ہونے والوں کیلئے دے دیا جائے۔ جب یہ خط مجد الملک کے پاس پہنچا تو وہ شیخ منیری کے دربار میں پہنچا اور عرض کیا کہ آپ بخوبی واقف ہیں کہ اگر آپ نے قبول نہیں فرمایا تو اسے میرے لئے حکم عدولی پر محمول کیا جائے گا۔ سلطان کے مزاج سے ہر کوئی واقف ہے، پھر معلوم نہیں میری کیا شامت آئے گی۔ آپ نے مجد الملک کی بےکسی و لاچار گی کو دیکھتے ہوئے پیشکش قبول کرلیا۔ آپ کی خانقاہ تعمیر کی گئی جو اب تک موجود ہے۔ 724 ہجری سے 782 ہجری تک آپ خلق خدا کو دینی و روحانی تعلیم و تربیت سے آراستہ فرماتے رہے۔ یہ تقریباً نصف صدی کی مدت ہے۔ آپ کے متوسلین کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ آپ کے دست مبارک پر ایمان لانے والوں کی تعداد بہت بڑی ہے۔

 

علم حدیث

یہ ایک عام رجحان ہے کہ صوفیاء کرام علم حدیث میں بہت زیادہ قوی نہیں رہے ہیں۔ یا پھر ذکر و اذکار کی مشغولیت انہیں کتابوں کی طرف بہت زیادہ مراجعت سے مانع رہی ہے۔ لیکن شیخ احمد شرف الدین یحییٰ منیری کا حال الگ تھا۔ علم حدیث میں آپ ید طولی رکھتے تھے۔ علم حدیث کے مختلف علوم سے گہری واقفیت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے مخطوطات میں جا بجا احادیث کا ذکر ملتا ہے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحاق نے اپنی کتاب India’contribution to the hadith literature میں لکھتے ہیں کہ آپ کے خطوط میں جا بجا صحیحین، ابو یعلیٰ، شرح المصابیح اور مشارق الانوار کے حوالے درج ہیں۔ بعض خطوط میں آپ نے علم حدیث کے دیگر فنون پر طویل بحثیں رقم کی ہیں۔ یہ بھی قیاس کیا جاتا ہے کہ آپ کے پاس مسلم شریف کا نسخہ موجود تھا۔ آپ قرآن و حدیث کی متصوفانہ تعلیم پر سند کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو صرف بہار ہی نہیں بلکہ پورے ملک ہندوستان میں بخاری شریف و مسلم شریف کی تعلیم کا آغاز آپ کی ذات گرامی سے ہوا ہے۔ بعد کے زمانے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعہ صحیحین سمیت صحاح ستہ کی تعلیم کو بر صغیر میں فروغ ملا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے قیام کے بعد امام محمد قاسم نانوتوی اور آپ کے رفیق خاص قطب عالم مولانا رشید احمد گنگوہی نے اس کام کو مزید تقویت بخشی ہے۔

علم حدیث میں شیخ احمد شرف الدین یحییٰ منیری کو سلطان الاولیاء شیخ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ پر تقدم اور برتری حاصل ہے۔

 

مکتوبات شیخ منیری

ہندوستان میں جن دو اشخاص کے خطوط کو قبولیت عامہ حاصل ہے ان میں ایک تو شیخ منیری کی ذات گرامی ہے اور دوسرے شیخ مجدد الف ثانی کے مکتوبات ہیں۔ شیخ منیری کے مکتوبات کے متعلق مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ دعوت وعزیمت میں لکھتے ہیں کہ انسان کے مقام اور مرتبہ قلب انسانی کی وسعت و رفعت، انسان کی صلاحیتوں، اس کی ترقی کے امکانات اور محبت کی قدر و قیمت کے متعلق لکھا گیا ہے۔ اس موضوع پر نظم میں حکیم سنائی، فرید الدین عطار، مولانا روم نے بہت کچھ فرمایا ہے لیکن نثر میں مخدوم الملک بہاری شیخ احمد شرف الدین یحییٰ منیری کے مکتوبات سے زیادہ موثر طاقتور اور بلیغ تحریر نظر سے نہیں گزری ہے۔

آپ کے مکتوبات کا بڑا حصہ آج بھی موجود ہے، فضل وکمال کے متلاشی آج بھی ان کے قلم سے نکلے یاقوت و جواہر سے متمتع ہوتے ہیں۔

 

سفر آخرت

وفات نامہ میں آپ کے مرید شیخ زید بدر عربی لکھتے ہیں کہ پیراہن جسم مبارک سے اتار کر وضو کیلئے پانی طلب فرمایا، آستین چڑھا کر مسواک مانگی اور بآواز بلند بسم اللہ کہہ کر وضو شروع کیا، آپ ہر محل اور ہر فعل پر ادعیہ معمولہ پڑھتے جاتے تھے، دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھوئے مگر منھ دھونا سہو ہوگیا، شیخ خلیل نے یاد دلایا، آپ نے از سر نو وضو شروع کیا، تسمیہ بآواز بلند اور ادعیہ معمولہ پڑھتے رہے، حاضرین تعجب کرتے تھے کہ اس حال میں بھی سنت کی ادائیگی کا یہ حال ہے، قاضی زاہد نے داہنا پیر دھونے میں ہاتھ بڑھا کر مدد کرنا چاہی، تو آپ نے فرمایا ٹھہرو اور خود مکمل وضو کیا، پھر کنگھی طلب کی، داڑھی میں شانہ کیا، مصلی طلب کیا اور دو رکعت نماز ادا کی۔

یہ اس زمانے کی بات ہے جب آپ کی عمر ایک سو اکیس سال تھی، ضعف و نقاہت آخری حد کو پہنچ گئے تھے۔ بالآخر شب پنجشنبہ 6 شوال 782 ہجری کو آپ معبود حقیقی کی بارگاہ میں پہنچ گئے۔ آپ کی نماز جنازہ وصیت کے مطابق شیخ اشرف جہانگیر سمنانی نے پڑھائی۔

قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ جس نے ہندوستان میں علم حدیث میں صحیحین کا آغاز کیا، جس کے علومِ قرآنیہ کے قائل وقت کے کبار علماء رہے ہیں اور جن کے مکتوبات آج بھی خلق خدا کو راہ راست پر لانے کیلئے کافی و شافی ہے۔ لیکن اب ان کی تعلیمات اور ان کے تبرکات بعد والوں کی سست روی کی وجہ سے بہت حد تک دھندلے پڑتے جارہے ہیں۔ کیا بعید ہے کہ کوئی دیوانہ آج پھر سے ان کی تعلیمات کو مشعل راہ بنا کر راجگیر کے جنگلات کے اطراف میں پھیلے شرک و بدعات کی رسومات کو جڑ سے ختم کر دیں۔ اور پھر سے پورے علاقے اور پورے ملک میں ان کے فیوض و برکات دیکھنے کو مل جائے۔

https://www.baseeratonline.com/archives/111469

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

شیخ شرف الدین یحیی منیری اور علم حدیث

نام : احمد

لقب:شرف الدین

خطاب :مخدوم الملک

نسبت :منیری

نسب:آپ کا نسب زیبربن عبدالمطلب سے جاکر ملتاہے اس طرح آپ کا خاندان قریشی ہاشمی ہے۔آپ کے پردادا اپنے زمانہ کے بڑے عالم اورفقیہ تھے۔اور شام سے نقل مکانی کرکے بہار کے قصبہ منیر میں قیام پذیر ہوئے۔

ولادت:شعبان کے آخری جمعہ سنہ661ہجری مطابق 1263ء میں بہار شریف سے چند میل کے فاصلے پر منیر میں پیداہوئے۔شرف آگین تاریخ ولادت ہے۔

تعلیم:جب آپ کی عمر پڑھنے کے قابل ہوئی توآپ کو مکتب میں بٹھادیاگیا۔اس زمانہ میں مصادرمفتاح اللغات اوردوسری کتابیں درس میں رہیں۔ مفتاح اللغات آپ کو زبانی یاد تھی۔فرماتے ہیں۔

درایام خوردگی چندیں کتابہامارایادگردانید ۔چنانکہ مصادرومفتاح اللغات وجزاں درکتابہا ومفتاح اللغات جزوے بیستے خواہدبو،مقدار یک جلد یادگردانید وہربار یاد تمام می شنیدند۔بجائے آں قرآن یادمی گردانیدند(معدن المعانی ص24،بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت 3/179)

سن شعور کو پہنچے تو والد بزرگوار نے ان کو مولانا شرف الدین ابوتوامہ کی معیب میں مزید تعلیم کیلئے سنارگائوں بھیجا(یہ سنار گائوں اب بنگلہ دیش میں ہے)مولانا ابوتوامہ اپنے وقت کے بڑے ممتاز عالم اورمحدث تھے۔ بعض اسباب کی بناء پر دہلی چھوڑکر بنگالہ کا رخ کیاتواثنائے سفرمنیر بھی قیام کیااوریہیں حضرت شیخ یحیی ان کے علمی تبحر سے متاثر ہوئے۔(بزم صوفیہ،سید صباح الدین عبدالرحمن ص400)

سید صباح الدین کی اس تحریر سے پتہ چلتاہے کہ سن شعور کے بعد ان کے والد نے انہیں تعلیم کیلئے شیخ شرف الدین ابوتوامہ کی معیت میں بھیج دیا جب کہ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی تاریخ دعوت وعزیمت میں لکھتے ہیں۔

''راستہ میں بہار سے گزرتے ہوئے آپ نے(ابوتوامہ)چند روز منیر میں قیام کیا۔جوغالباًاس زمانہ میں دہلی سے سنارگائوں جاتے ہوئے ایک کاررواں سرائے اورآباد بستی تھی۔صاحب مناقب الاصفیاء کا بیان ہے کہ شیخ شرف الدین مولانا ابوتوامہ کے تبحرعلمی اورصلاح وتقوی سے بہت متاثر ہوئے اورفرمایا کہ علوم دین کی تعلیم ایسے ہی جامع علم وعمل شخص سے کرنی چاہئے۔ آپ نے اپنے والدین سے سنار گائوں جانے کی اجازت مانگی اوران کی اجازت سے مولانا شرف الدین کی ہمرکابی اختیار کی''۔(تاریخ دعوت وعزیمت3/180)

تاہم اس اختلاف سے قطع نظر کہ آپ کے والد نے آپ کو شیخ ابوتوامہ کے ساتھ بھیجا یاآپ کے دل میں موجزن شوق علم نے آپ کو شیخ ابوتوامہ کے ساتھ جانے کیلئے والد سے اجازت لینے پر مجبور کردیا۔آپ مولانا شرف الدین ابوتوامہ کے ہمراہ سنارگائوں پہنچے اورتحصیل علم مین مشغول ومنہمک ہوگئے۔

شوق علم:آپ کو اپنے اسباق اورمطالعہ میں اتناانہماک تھا کہ طلبہ اورحاضرین کے ساتھ دسترخوان پر سب کے ساتھ کھانے میں شریک ہونا گوارہ نہ تھا ۔مولانا شرف الدین نے آپ کے انہماک اوردلچسپی کو دیکھ کر آپ کیلئے انتظام کیاکردیاکہ کھاناان کی خلوت گاہ میں پہنچ جایاکرے۔(مناقب الاصفیاء ص132/131)

شادی:مولاناشرف الدین ابوتوامہ نے اپنے ہونہار شاگرد کی پوری قدردانی کی اوراپنی صاحبزادی کا ان سے نکاح کردیا ۔سنارگائوں ہی کے زمانہ قیام میں بڑے صاحبزادے شیخ ذکی الدین پیداہوئے۔(تاریخ دعوت وعزیمت3/183)

بیعت وریاضت:تعلیم مکمل کرنے کے بعدآپ سنہ691ہجری مطابق1291ء میں دہلی گئے۔شیخ نظام الدین اولیاء سے ملاقات کے بعد ہلی سے لاہور گئے اورشیخ نجیب الدین فردوسی کے مرید ہوئے۔ااس کے بعد انہوں نے تیس سال بہیااورراج گیر کے جنگلوں مین گزارے اورقرب الہی کیلئے عبادت ومراقبات اورریاضت ومجاہدہ کرتے رہے۔(علم حدیث میں برصغیر ہندوپاک کا حصہ)

افادہ وارشاد:آپ نصف صدی سے زائد تک خلق خدا کی ہدایت اورارشاد اورطالبین کی تعلیم وتربیت فرماتے رہے۔ شیخ حسن معز شمس کے بقول کم از کم ایک لاکھ انسان آپ کے حلقہ ارادت وعقیدت میں داخل ہوئے اورتین سوآدمی عارف کامل اورواصل بحق ہوئے ۔سینکڑوں ہندوفقیروں اورجوگیوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اورولی کامل ہوئے۔

وفات حسرت آیات:آپ کی وفات بھی اس شان سے ہوئی جس سے اسلام کی حقانیت اورصداقت واضح ہوتی ہے ۔دورحاضر کے مشہور مصنف ومورخ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں۔

''حضرت مخدوم شیخ شرف الدین یحیی منیری کے حالات زندگی اوران کے کمالات ومقامات کے متعلق جوکچھ ان کے معاصر تذکرہ نویسوں نے آنے والی نسلوں کیلئے قلمبند کیاہے وہ اگرچہ خود بہت ناکافی اورتشنہ تفصیل ہے اوران متفرق اورمنتشر حالات سے ان کی عظمت کا صحیح تصور نہیں ہوسکتا۔لیکن یہ حالات بھی اگر خدانخواستہ مفقود ہوجاتے اورصرف ان کی وفات کا حال جو ان کے خلیفہ خاص اورواقعہ کے عینی شاہد شیخ زین الدین بدر عربی نے تفصیل کے ساتھ قلمبند کیاہے محفوظ رہ جاتاتو ان کی عظمت اورمرتبت کا اندازہ کرنے کیلئے کافی تھا۔(تاریخ دعوت وعزیمت3/252)

(نوٹ:ان کے انتقال کے حالات کو تفصیل کے ساتھ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے تاریخ دعوت وعزیمت میں قلمبند کیاہے ۔تفصیل کے خواہشمند وہاں رجوع کرین)

شب پنجشنبہ16شوال786ہجری کو بوقت نماز عشاء عالم جاودانی کی طرف آپ نے رحلت کی۔تاریخ وصال ''پرشرف''ہے۔ وصیت کی تھی کہ نماز جنازہ کوئی ایساشخص پڑھائے جو صحیح النسب سید ہو،تارک مملکت ہو،حافظ قرآت سبعہ ہو،جنازہ رکھاہواتھا کہ عین اسی وقت حضرت اشرف جہانگیر سمنانی کا ورود مسعود ہوا،یہ تینوں شرطیں ان میں پائی جاتی تھیں اس لئے جنازہ کی نماز پڑھانے کی سعادت ان کے حصہ میں آئی۔مزارپرنوربہار شریف میں مرجع خلائق ہے۔(بزم صوفیہ432)

 

علوئے مرتبت:بزم صوفیہ میں آپ مخدوم الملک،مخدوم عالم،سلطان العاشقین،سید المتکلمین،برہان المتقین الصالحین،تاج الاولیائ،سراج الاولایاء اوریکتائے روزگار جیسے گرانقدر خطاب سے یاد کئے جاتے ہیں۔

نوٹ :اس موقعہ پر ضروری تھا کہ ان کے مکاتیب جو مکتوبات صدی ،دوصدی اورسہ صدی کے نام سے مشہور ہیں اس سے ان کی نادرتحقیقات اورعلمی معراج کے کچھ نمونے دکھائے جاتے اورپیش کئے جاتے اوربطور خاص ان کے مکتوبات جودرحقیقت علم ومعارف کا گنجینہ اورعلمی مکتوبات کی دنیا میں صرف مکتوبات شیخ مجدد الف ثانی ہی اس کی ہمسری کرسکتاہے۔میں انہوں نے انسان کی بلندی شان اورآدمیت کی معراج کے بارے میں جوگراں قدر تحقیقات پیش کی ہیں۔ کچھ سامنے رکھے جاتے لیکن موضوع دوسرا ہونے کی وجہ سے ہم اسے پیش نہیں کرسکتے۔ قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ مکتوبات کی جانب رجوع کریں۔ اب بحمداللہ اس کا اردو ترجمہ بھی آگیا ہے جس سے فارسی سے ناواقف حضرات بھی ان کے علمی خرمن سے خوشہ چینی کرسکتے ہیں)

مخدوم الملک شیخ شرف الدین بحیثیت محدث:صوفیائے کرام عام طورپر احادیث سے اشتغال نہیں رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر صوفیاء کرام انتہائی ضعیف اوربسااوقات موضوع حدیث سے استشہاد واستدلال کرتے ہیں۔لیکن یہ امر باعث دلچسپی اورتعجب ہے کہ بزم صوفیہ میں شیخ شرف الدین یحیی منیری کو حدیث اورعلوم حدیث سے اچھااشتغال بلکہ اس پر عبور حاصل تھا۔مکتوبات میں آپ نے بکثرت حدیثیں نقل کی ہین اوربسااوقات حدیث کی فنی حیثیت پر گفتگو بھی کی ہے اس سے پتہ چلتاہے کہ علوم حدیث پر آپ کی گہری نظرتھی۔حضرت مخدوم الملک کی محدثانہ حیثیت کے متعلق ڈاکٹر اسحاق ڈار نے اختصار کے ساتھ اچھاتبصرہ کیاہے۔مناسب ہوگاکہ اسے یہاں نقل کردیاجائے۔

''شرف الدین منیری علاقہ بہار کے ایک ممتاز محدث تھے۔ وہ حدیث سے متعلق تمام علوم مثلاًتاویل الحدیث،علم رجال الحدیث،اورعلم مصطلحات الحدیث پر پورا عبور رکھتے تھے۔انہوں نے اپنے مکتوبات اورتصوف کی کتابوں میں احادیث کثرت سے نقل کی ہیں۔اورصرف اسی پر اکتفا نہیں کیابلکہ بہت سے موقعوں پر انہوں نے علم حدیث کے مختلف پہلوئوں مثلاًروایت بالمعنی اورشرط الراوی وغیرہ پر اپنی تصانیف میں طویل بحثیں کی ہیں اورصحیحین ،مسند ابویعلی الموصلی ،شرح المصابیح اورمشارق الانور کے حوالے بھی دیئے ہیں۔قیاس کیاجاتاہے کہ امام نووی (متوفی672)کی شرح صحیح مسلم کا ایک نسخہ ان کے پاس موجود تھا اورانہوں نے اس کاغائر مطالعہ کیاتھا۔انہیں احادیث نہ صرف زبانی یاد تھیں بلکہ وہ ان کے مطابق عمل بھی کرتے تھے ۔چنانچہ انھوں نے محض اس وجہ سے خرپزہ کبھی نہ کھایا کہ انہیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خرپزہ کس طرح کھایاتھا۔ان اوصاف کے علاوہ شرف الدین منیری قرآن وحدیث دونوں کی متصوفانہ تعلیم پر بھی سند مانے جاتے تھے''۔(علم حدیث میں برعظیم پاک وہند کا حصہ)

حضرت مخدوم الملک چونکہ حضرت نظام الدین اولیاء کے ہمعصر ہیں اس لئے مناسب ہے کہ دونوں کی محدثانہ حیثیت کا تقابلی جائزہ لیاجائے۔

حضرت نظام الدین اولیاء شروع میں ہندوستان کے مخصوص تعلیمی نظام اورماحول کی وجہ سے بہت حد تک علم حدیث سے ناآشنااوربیگانہ تھے۔ جب آپ منصب ارشاد وتربیت پر متمکن ہوئے اورولی وبزرگ کی حیثت سے دور دور آپ کا شہرہ ہوچکااس وقت آپ نے حدیث کی طرف توجہ کی اوراپنے زمانہ کے مشہور محدث شیخ محمد بن احمد الماریکلی المعروف کمال الدین زاہد سے مشارق الانوار کادرس لیا اورحدیث کی اجازت حاصل کی۔ اس کے باوجود شیخ نظام الدین اولیاء کو علم حدیث سے مکمل واقفیت نہ تھی اوراحادیث کاذخیرہ ان کے پاس مشارق الانوار کی حد تک محدود تھا۔علاوہ ازیں صحیح اورضعیف حدیث سے واقفیت اور اورمصطلحات الحدیث سے ان کو لگائو نہ تھا چنانچہ جب بادشاہ کے سامنے قرات خلف الامام کے مسئلہ پر علماء دہلی سے مناظرہ ہواتوانہوں نے اپنے استدلال میں جو حدیث پیش کی وہ محدثین کے نزدیک موضوع حدیث سمجھی جاتی ہے۔اس کے برخلاف شیخ مخدوم الملک شروع سے ہی ایک جید محدیث اورحنبلی عالم ابوتوامہ سے درس حدیث لیااوران کے زیر تربیت علوم حدیث پڑھین۔ اس وجہ کرآپ کو حدیث پرعبور اورعلوم حدیث سے واقفیت تھی۔ شیخ ابوتوامہ چونکہ باہر سے آئے تھے اس لئے ان کے پاس صحیحین اورحدیث کی دیگر کتابیں موجود تھیں جو اس وقت کے ہندوستان میں معدوم تھیں ۔اس سے بھی شیخ شرف الدین نے پورااستفادہ کیا ۔

ڈاکٹر اسحاق دونوں کی محدثانہ حیثیت کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں۔

''یہ دونوں بزرگ اسلام علوم کے جید عالم تھے۔علم حدیث کے مطالعہ میں شیخ شرف الدین نے سبقت حاصل کرلی تھی اوراس کا سبب یہ ہے کہ شیخ نظام الدین نے حدیث کامطالعہ بڑی عمر مین شروع کیا اوراس وقت اس موضوع پر صغانی کی مشارق الانوار کے علاوہ کوئی اورمستند مجموعہ ان کے زیر مطالعہ نہیں رہا۔لیکن شیخ شرف الدین کی تعلیم ایک حنبلی عالم ابوتوامہ کی نگرانی میں ہوئی تھی اورانہوں نے قدرتی طورپر حدیث کی تعلیم کو بہت اہمیت دی۔چنانچہ شیخ شرف الدین نے علم حدیث پر زیادہ عبور حاصل کرلیا۔اس کے علاوہ شیخ نظام الدین کے برعکس شیخ شرف الدین کوکافی تعددمین علم حدیث کی مستند کتابوں کا مطالعہ کرنے کا بھی موقعہ ملا۔جوغالباًانہوں نے اپنے استاد اوردوستوں سے حاصل کی تھیں۔ اس قیاس کی تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ شیخ زین الدین ساکن دیوہ نے ان کو مسلم شریف کاایک نسخہ بطورہدیہ دیاتھا''۔(علم حدیث میں برعظیم پاک وہند کاحصہ ص96)

یہ بات بہت ہی حیرت انگیز اوردلچسپ ہے کہ جب کہ گجرات کوچھوڑ کر سارے ہندوستان میں کیاعالم اورکیاجاہل اورکیاعوام اورکیاخواص۔سبھوں کا تکیہ اوربھروسہ صغانی کی مشارق الانور تھی ایسے ماحول میں بہار کے ایک دورافتادہ قصبہ منیر کے خانقاہ میں صحیحین کی موجودگی ایک راز اورمعمہ ہے اورشاید اس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ شیخ ابوتوامہ نے اپنی کتابیں شیخ شرف الدین کو ہدیہ کردی ہوں۔ جیساکہ بہت سے استاد اپنی کتابیں اپنی لائق اورجانشیں طالب کو کو دے دیتے ہیں۔

یہ بھی لائق ذکر ہے کہ انہوں نے صحیحین کی اپنے شاگردوں اومریدوںکو درس بھی دیاتھاچنانچہ ان کے کئی شاگرد اورمرید کے نام ہمیں تاریخ کی کتابوںمیں ملتے ہیں جنہوں نے ان سے صحیحین کی سند حاصل کی تھی۔یہ چیز بہار کیلئے سرمایہ امتیاز اورلائق فخر ہے اوریہ کہاجائے توبیجانہ ہوگا کہ سارے ہندوستان میں صحیحین کی تعلیم سب سے پہلے بہار کے ایک خانقاہ میں دی گئی ۔ہوسکتاہے کہ اس میں گجرات کا استثناء کردیاجائے۔کیونکہ وہاں ساحلی علاقہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے فضلاء اورعلماء عرب جاتے رہتے تھے اور اورعلم حدیث سے بھی اس خطہ کو اشتغال زیادہ تھا۔چنانچہ علی متقی کی کنزالعمال اورطاہر فتنی کی لغت حدیث پر لکھی گئی کتابیں ہندوستان میں علم حدیث کی خدمت کا ایک شاندار باب ہیں۔

ڈاکٹر اسحاق بجاطورپر لکھتے ہیں کہ

''کہاجاتاہے کہ ان کو نہ صرف بہار بلکہ پورے ہندوستان میں صحیحین کی تعلیم شروع کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔''(علم حدیث میں برعظیم پاک وہند کاحصہ)

تحریر بشکریہ : ابن جمال

 

 

مکمل تحریر اور تبصرے>>