شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی حیات و خدمات
علوم اسلامیہ ششماہی انٹرنیشنل (خاص نمبر)
چیف ایڈیٹر : پروفیسر ڈاکٹر صلاح الدین ثانی
مصنفین :پروفیسر مولاناانوار الحسن شیر کوٹی ،ریحانہ تبسم فاضلی، ڈاکٹر فرحت عظیم، پروفیسر ڈاکٹر صلاح الدین ثانی،اے کے شمس ،عابد علی امنگ ، پروفیسر محمدبلال، ڈاکٹر قاری بدر الدین، علامہ سیّد سلیمان ندوی، مفتی محمدتقی عثمانی ،ڈاکٹر قاری فیوض الرحمٰن، مفتی محمدنعیم،مولانا ڈاکٹر محمداسعد تھانوی ، سیّد شعیب اختر،رضوان احمد ،سعید احمد صدیقی ،محمدپوپلزئی، بشریٰ بیگ ، پروفیسر نسرین وسیم، محمد عمار خان ناصر ،زرینہ قاضی
پیشکش : طوبیٰ ریسرچ لائبریری
14جمادی الاول1445ہجری
Sheikh ul islam allama shabbir ahmed usmani hayat o khidmaat
Uloom e islamiya shashmahi international (khaas number)
Editor-in-chief : Prof Dr Salah u Din Sani
#TOOBAA_POST_NO_563
مزید کتب کے لیئے دیکھیئے صفحہ "اکابر علمائے اہلسنت و الجماعت (دیوبند)"۔
حضرت مولانا علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ
حوالہ: روزنامہ مشرق، لاہور
تاریخ اشاعت: ۱۳ دسمبر ۱۹۹۶ء
شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کا شمار تحریکِ آزادی اور تحریکِ پاکستان کے ان عظیم المرتبت قائدین میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے علم و فضل، جہد و عمل اور ایثار و استقامت کے ساتھ تاریخ میں نئے ابواب کا اضافہ کیا اور آنے والی نسلوں کی رہنمائی کی روشن شمعیں جلا کر اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ علامہ شبیر احمد عثمانیؒ ایک ایسی جامع الکمالات شخصیت تھے جو بیک وقت اپنے دور کے بہت بڑے محدث، مفسر، متکلم، محقق اور فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صاحبِ بصیرت سیاستدان بھی تھے اور انہوں نے علم و فضل کے ہر شعبہ میں اپنی مہارت اور فضیلت کا لوہا منوایا۔
برصغیر کی سب سے بڑی دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کے قیام اور تعمیر و ترقی میں بانی دارالعلوم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے ساتھ جو حضرات شریکِ کار تھے ان میں مولانا فضل الرحمان عثمانیؒ بھی تھے جو اپنے وقت کے ممتاز ماہرِ تعلیم شمار ہوتے تھے۔ علامہ شبیر احمد عثمانیؒ انہی کے فرزند ہیں، ان کی ولادت ۱۰ محرم الحرام ۱۳۰۵ھ بمطابق ۱۸۸۵ء ہوئی۔ کم و بیش تمام تعلیم انہوں نے دیوبند میں حاصل کی اور ۱۹۰۸ء میں دورۂ حدیث کر کے سندِ فراغت حاصل کی۔ شیخ الہند مولانامحمود حسن دیوبندی قدس اللہ سرہ العزیز آپ کے استاد تھے جن کی سرپرستی اور رہنمائی آپ کو زمانۂ طالب علمی کے بعد بھی مسلسل حاصل رہی۔ فراغت کے بعد پہلے کچھ عرصہ فتح پوری مسجد دہلی کے مدرسہ میں پڑھاتے رہے اور بعد میں دارالعلوم دیوبند میں بحیثیت مدرس آگئے لیکن کسی تنخواہ یا وظیفہ کے بغیر محض فی سبیل اللہ تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ کچھ عرصہ ڈابھیل میں بھی تعلیمی خدمات سرانجام دیں۔ علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کو معقولات اور منقولات دونوں پر یکساں دسترس اور مہارت حاصل تھی۔ اور قدرت نے آپ کو گفتگو اور استدلال کا ایسا ملکہ عطا فرمایا تھا کہ بالآخر دنیا آپ کو اپنے وقت کے سب سے بڑے متکلم کی حیثیت سے پہچاننے لگی۔
شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ کی ہدایت پر دارالعلوم دیوبند کے فضلاء کو منظم کرنے کے لیے حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے جمعیۃ الانصار کی بنیاد رکھی تو مولانا عثمانیؒ نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ شیخ الہندؒ نے مالٹا کی اسارت کے دور میں قرآن کریم کا ترجمہ اور ابتدائی چند پاروں کے حواشی تحریر کیے مگر بعد میں زندگی نے وفا نہ کی تو ان کے حواشی کی تکمیل مولانا شبیر احمدؒ عثمانی نے کی اور قرآنی علوم و مہارت کو ایسی جامعیت کے ساتھ قلمبند کیا کہ بلاشبہ ان کی اس عظیم محنت پر ’’دریا کو کوزے میں بند کرنے‘‘ کی بات صادق آتی ہے۔ آج علمی حلقوں میں قرآن کریم کے متداول تراجم اور حواشی میں جو حیثیت اور اعتماد ’’تفسیرِ عثمانی‘‘ کو حاصل ہے وہ علامہ عثمانیؒ کی علمی عظمت کا زندہ ثبوت ہے۔ (تفسیر عثمانی کا نہایت مستند انگریزی ترجمہ بھی شائع ہوا ہے)حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے حدیث کی معروف کتاب مسلم شریف کی شرح ’’الفتح الملہم‘‘ کے نام سے لکھنا شروع کی مگر اس کی تکمیل نہ کر سکے۔ یہ شرح حدیث کی شروح میں ایک وقیع اور جامع شرح سمجھی جاتی ہے۔ ان دنوں جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی اس کی تکمیل میں مصروف ہیں۔(یہ شرح" تکملہ فتح الملہم " کے نام سے شائع ہو چکی ہے)۔
علامہ شبیر احمد عثمانیؒ علمی اور تحقیقی مصروفیات کے ساتھ ساتھ تحریکِ آزادی اور ملکی سیاسیات میں بھی مسلسل شریک رہے۔ آپ نے تحریکِ خلافت میں بھی سرگرم کردار ادا کیا۔ شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کی مالٹا کی نظربندی سے رہائی اور وطن واپسی کے بعد مولانا عثمانیؒ آپ کے ساتھ شریکِ جہد و عمل رہے۔ علی گڑھ میں حضرت شیخ الہندؒ بیماری کے باوجود تشریف لے گئے لیکن خطبۂ صدارت خود نہ پڑھ سکے، چنانچہ ان کی جگہ خطبۂ صدارت علامہ شبیر احمد عثمانیؐ نے ان کی موجودگی میں پڑھا۔ مولانا عثمانیؒ باقاعدہ طور پر جمعیۃ العلمائے ہند میں شامل تھے اور جمعیۃ کے مرکزی رہنماؤں میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ لیکن مسلم لیگ کی طرف سے ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کا مطالبہ سامنے آنے پر جمعیۃ العلمائے ہند میں اختلاف پیدا ہوگیا اور دارالعلوم دیوبند سے تعلق رکھنے والے علماء دو حصوں میں بٹ گئے۔ ایک حصہ نے مولانا حسین احمد مدنیؒ اور حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ کی قیادت میں تقسیمِ ہند کی مخالفت کی، جبکہ دوسرا حصہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ اور علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کی رہنمائی میں تحریکِ پاکستان کی حمایت میں کمربستہ ہوگیا۔
چنانچہ ۱۹۴۵ء میں کلکتہ میں تحریکِ پاکستان کے حامی علماء کا ایک بہت بڑا اجتماع ہوا جس میں جمعیۃ العلمائے اسلام کے نام سے نئی جماعت قائم کر کے علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کو اس کا سربراہ منتخب کیا گیا اور تحریکِ پاکستان میں باقاعدہ حصہ لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس طرح مسلم لیگ کے ساتھ جس دوسری جماعت نے اپنا پلیٹ فارم قائم کر کے تحریکِ پاکستان میں حصہ لیا وہ علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کی قیادت میں قائم ہونےوالی جمعیۃ العلمائے اسلام تھی۔ تحریکِ پاکستان کے حق میں تقریر و تحریر کے ذریعے رائےعامہ کو منظم کرنے کی جدوجہد کے علاوہ علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے صوبہ سرحد کا ریفرنڈمجیتنے کے لیے انتھک محنت کی۔ جبکہ ان کے دوسرے رفیق مولانا ظفر احمد عثمانیؒ نے سلہٹ کا ریفرنڈم جیتنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ صوبہ سرحد میں کانگریس کا اثر و رسوخ بہت زیادہ تھا اس لیے معروف مسلم لیگی رہنما پیر صاحب آف مانکی شریف نے لیگ کی قیادت کو لکھا کہ صوبہ سرحد کا ریفرنڈم اگر پاکستان کے حق میں جیتنا ضروری ہے تو اس کی صورت صرف یہ ہے کہ کہ علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کو صوبہ سرحد کے تفصیلی دورہ پر بھیجا جائے۔ چنانچہ علامہ عثمانیؒ نے صوبہ سرحد کے طول و عرض کے دورے کر کے رائے عامہ کو پاکستان کے حق میں ہموار کیا۔ سرحد اور سلہٹ کے ریفرنڈم میں ان دو بزرگوں کی اسی فیصلہ کن محنت کے اعتراف کے طور پر قیامِ پاکستان کے وقت پاکستان کا قومی پرچم سب سے پہلے کراچی میں مولانا شبیر احمدؒ عثمانی اور ڈھاکہ میں مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کے ہاتھوں لہرانے کا اہتمام کیا گیا۔
قیامِ پاکستان کے بعد شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ یہ وطنِ عزیز جو اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا ہے اس میں تحریکِ پاکستان کے قائدین کے وعدوں کے مطابق اسلامی نظام کے عملی نفاذ کا آغاز ہو۔ چنانچہ پہلی دستور ساز اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے علامہ عثمانیؒ نے اپنی ساری توجہ اور تگ و دو کا محور اسی نکتہ کو بنا لیا اور اس مقصد کے لیے ڈھاکہ میں جمعیۃالعلمائے اسلام پاکستان کا باقاعدہ اجلاس کر کے علماء کو اس اہم فریضہ کی تکمیل کی طرف توجہ دلائی۔ اس مرحلہ میں علامہ عثمانیؒ کی جدوجہد کے دو حصے تھے۔ ایک طرف وہ دستور ساز اسمبلی کے ارکان پر زور دے رہے تھے کہ وہ پاکستان کے دستور کی بنیاد اسلام کے عملی نفاذ پر رکھیں، اور دوسری طرف ان کی محنت دستور ساز اسمبلی سے باہر علماء کی قوت کو مجتمع کرنے کے لیے مسلسل جاری تھی۔ انہوں نے جمعیۃ العلمائے اسلام پاکستان کو زندہ و متحرک رکھنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ ان علماء سے بھی رابطہ قائم کیا جنہوں نے تحریکِ پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ آپ نے انہیں اس بات کی طرف راغب کیا کہ اب پاکستان بن چکا ہے اس لیے وہ بھی اس کی تعمیر و ترقی میں شریک ہوں اور اسلامی نظام کے عملی نفاذ کے لیے جدوجہد کریں۔
گوجرانوالہ کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب مولانا مفتی عبد الواحدؒ پاکستان کے قیام سے پہلے جمعیۃ العلمائے ہند اور کانگریس کے اہم رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔ وہ راوی ہیں کہ خود انہیں علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے بلایا اور کہا کہ اب وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ سب علماء باہمی اختلافات کو بھلا کر مل بیٹھیں اور پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک اسلامی ریاست بنانے کے لیے محنت کریں۔ مولانا مفتی عبد الواحدؒ کا کہنا ہے کہ علامہ عثمانیؒ اپنی زندگی کے آخری ایام میں نفاذِ اسلام کے مسئلہ پر اس قدر متفکر تھے کہ ان کی توجہ اور کسی بات کی طرف مبذول ہی نہیں ہوتی تھی اور وہ ہر وقت اسی سوچ میں مستغرق رہتے تھے۔
پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کی منظوری بنیادی طور پر علامہ شبیر احمد عثمانیؒ ہی کی جدوجہد کا ثمرہ ہے۔ یہ ’’قراردادِ پاکستان‘‘ کی نظریاتی اساس بنی اور اس نے پاکستان کی دینی حیثیت کو ہمیشہ کے لیے طے کر دیا۔ کشمیر پر بھارت کی فوجی یلغار علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کی زندگی میں ہوئی، چنانچہ انہوں نے پاکستان کی سالمیت کے تحفظ اور استحکام کے لیے جہاد کا فتویٰ دیا۔ اور نہ صرف علامہ عثمانیؒ نے بلکہ تحریکِ پاکستان کی مخالفت کرنے والے علماء کے سرخیل امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے لاہور میں ’’دفاعِ پاکستان کانفرنس‘‘ منعقد کر کے اعلان کیا کہ قیامِ پاکستان سے پہلے ہمارا جو اختلاف تھا وہ اب ختم ہوگیا ہے، پاکستان ہمارا وطن ہے اور اس کے ایک ایک چپہ کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے۔
دستور ساز اسمبلی میں قراردادِ مقاصد کی منظوری کے بعد علامہ شبیر احمدؒ عثمانی اس سلسلہ میں مزید عملی پیشرفت کے لیے اپنے رفقاء کے ساتھ صلاح و مشورہ کر رہے تھے کہ پیغامِ اجل آپہنچا۔ آپ بہاولپور ریاست کے وزیراعظم کی دعوت پر جامعہ عباسیہ کا سنگِ بنیاد رکھنے کے لیے بہاولپور تشریف لے گئے اور وہیں ۱۳ دسمبر ۱۹۴۹ء کو مختصر علالت کے بعد عالمِ فانی سے دارِ بقاء کی طرف کوچ کر گئے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔
بشکریہ: https://zahidrashdi.org/1100
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔