Friday 7 June 2024

مقالاتِ یوسفی شخصیات و تاثرات



مقالاتِ یوسفی

شخصیات و تاثرات

 جلد 1+ جلد 2

از : مولانا محمد یوسف لدھیانوی

پیشکش : طوبی ریسرچ لائبریری

29 ذوالقعدہ 1445 ہجری

MAQALAAT E YOUSAFI

SHAKHSIYAAT O TAASURAAT

BY: MAULANA MUHAMMAD YOUSAF LUDHAYANVI 

DOWNLOAD

VOL 1 + VOL 2

#TOOBAA_POST_NO_636

مزید کتب کے لیئے دیکھیئے  صفحہ " اکابر علماء اہل سنت و الجماعت (دیوبند)

TOPICS:

جلد اول :سیدی و مرشدی حضرت اقدس مولانا خیر محمد جالندھری,حضرت بنوری رحمہ اللہ,حضرت شیخ اور طحاوی شریف,الامام المجاہد فی سبیل اللہ,تحریک ختم نبوت کے قافلہ سالار,حضرت شیخ اکابر کی نظر میں,میرے حضرت بنوری کی چند حسین یادیں,حضرت مولانا محمد عبد اللہ بہلوی,مولانا فضل اللہ شاہ مونگیری,مولانا انعام کریم,مولانا اسعد الله,مولانا محمد الحسنى,مولانا اسحاق جلیس ندوی,حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی,شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان,حضرت قاری محمد حبیب اللہ,حضرت مولانا سید زوار حسین نقشبندی,مناظر اسلام مولانا محمد حیات,مولانا غلام غوث ہزاروی,محمود الملۃ و الدین,سیدی و مرشدی حضرت شیخ نور اللہ مرقده,حضرت شیخ کا رمضان,مولانا قاری رحیم بخش پانی پتی،حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی,مولانا لطف اللہ پشاوری, حضرت مولانا شمس الحق افغانی,حضرت مولانا نور الحسن بخاری,حضرت مولانا تاج محمود صاحب,حضرت مولانا عبد العزیز رائے پوری,حافظ حسام الدین صاحب,حضرت مولانا مفتی محمد عبد الله,حضرت مولانا محمد شریف جالندھری, حضرت حاجی محمد شریف صاحب ہوشیار پوری,حضرت مولانا عبید اللہ انور,حضرت الاستاذ شیخ الحدیث مولانا محمد عبد اللہ رائے پوری,جناب ڈاکٹر عبد الرزاق کے والد ماجد سکندر خان صاحب,جناب قیصر صاحب کی والدہ محترمہ,میرے والد ماجد,مولانا حافظ حبیب الله رشیدی,حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ کی اہلیہ محترمہ,مولانا عبد المنان,قطب الارشاد عارف باللہ حضرت ڈاکٹر عبد الحئی عارفی,حضرت مولانا قاضی عبد القادر,حضرت مولانا سید حکیم محمد ایوب مظاہری سہانپوری, حضرت مولانا نور احمد،شیخ القراء حضرت اقدس قاری فتح محمد پانی پتی مہاجر مدنی,حافظ جی حضور,صدر شهید غازی جنرل محمد ضیاء الحق,حضرت شیخ الحدیث مولانا عبد الحق اکوڑہ خٹک,حضرت مولانا محمد مالک کاندھلوی,حضرت مولانا محمد ادریس میرٹھی,استاذ العلماء حضرت مولانا محمد شریف کشمیری,بھائی صاحب ( محترم جناب چوہدری عبدالہادی مرحوم),حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن,حضرت مولانا نیاز محمد صاحب,حضرت مولانا مفتی علی محمد,حضرت مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی,حضرت مولانا مسیح اللہ خان,اہلیہ محترمہ مولانا مفتی نیاز محمد فتنی,حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی مدظلہ العالی کی شخصیت کا مختصر جائزہ,

جلد دوم ,ابتدائیہ,پیش لفظ,فهرست,شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن,حضرت مولانا مفتی ولی حسن خان ٹونکی,امیر تبلیغ حضرت جی مولانا انعام الحسن,حضرت مولانا سید مصباح اللہ شاہ,حضرت مولانا محمد الحق صدیقی سندیلوئی,حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی,حضرت شیخ عبد الفتاح ابو غدة,قاری محمد عبد اللہ صاحب رحیمی,حضرت مولانا محمد منظور نعمانی,حضرت مولانا محمد عمر پالن پوری,مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار شہید,مفتی عبدالسمیع شهید,حضرت مولانا قاری زاہد الحسینی,مولانا محمد مجاہد کی شہادت,مولانا محمد الحق صاحب علوی,مولانا سعید احمد جلالپوری کی والدہ کی رحلت,حضرت مولانا محمد ادریس انصاری,مولانا ایوب جان بنوری,مولانا محمد عبد اللہ شہید,حکیم محمد سعید,مولانا محمد موسیٰ خان,حضرت مولانا سعید احمد خان, مولانا حافظ عبد الشکور,مولانا حکیم محمد اختر صاحب کی اہلیہ کی وفات,مولانا محمد طاسین قدس سره,حضرت مولانا عبد الکریم قریشی,صاحبزادہ حافظ محمد عابد,حضرت الحاج محمد احمد صاحب,حضرت مولانا سحبان محمود,حاجی محمد فاروق,قاری محمد ابراہیم,مولانا سید احمد رضا بجنوری,شیخ عبدالعزیز بن باز کی رحلت,حضرت مولانا محمد عبدالرشید نعمانی,مولانا مفتی محمد ولی درویش,مولانا عبید اللہ چترالی شہید,مولانا سید عطا احسن شاہ بخاری, قاری عبد الغفار,حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی,مفتی محمد انور شاہ کے والد ماجد,حضرت مولا نا بدیع الزمان,حضرت مولانا عبدائی بہلوی,

٭حضرت مولانا سیدابو الحسن علی ندویؒ٭

بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد لله وسلام على عباده الذين اصطفى !

۲۲ رمضان المبارک ۱۴۲۰ھ مطابق ۳۱؍ دسمبر ۱۹۹۹ء جمعہ کےوقت، روزہ کی حالت میں اور سورہ یسین کی تلاوت کرتے ہوئے ، دار العلوم ندوۃالعلما لکھنؤ کے صدر نشین، رابطہ عالم اسلامی کے تاسیسی رکن، مجلس شوری دارالعلوم دیوبند کے رکن ، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام کے صدر، مجلس انتظامی و مجلس عاملہ دار المصفین اعظم گڑھ کے سر براہ ، عربی اکیڈمی دمشق کے رکن مجلس شوری مدینہ یونیورسٹی کے رکن ، مجلس عاملہ مؤتمر عالم اسلامی بیروت کے رکن آل انڈیا مسلم پر سنل لا بورڈ کے صدر ، رابطہ الادب الاسلامی العالمیہ کے صدر، مجلس انتظامی اسلامک سینٹر جنیوا کے رکن ، سابق پروفیسر امارات اور وزیٹنگ پروفیسر مدینہ یونیورسٹی، آکسفورڈ سینٹر فار اسلامک اسٹڈیز آکسفورڈ یونیورسٹی کے صدر، عربی اردو میں بیسیوں کتابوں کے مصنف، عربیت کے امام ، عالم اسلام کی عظیم علمی وروحانی شخصیت اور عظیم مفکر و اسکالر ، اقلیم علم کے تاجد از اور سرمایہ ملت کے پاسبان حضرت اقدس مولانا ابو الحسن علی ندوی قدس سرہ رحلت فرمائے عالم آخرت ہوئے۔ انالله وانا اليه راجعون ان لله ما اخذوله ما اعطى وكل شئ عنده باجل مسمى -

راقم الحروف نے کئی سال قبل " میرے حضرت بنوری کی چند حسین یادیں" کے عنوان سے ماہنامہ اقرا ء ڈائجسٹ کیلئے لکھا تھا:

حق تعالیٰ شانہ کے جو بے پایاں انعامات واحسانات اس ناکارہ کے شامل حال ہیں ان میں سے ایک عظیم انعام یہ ہے کہ اپنے مقبول و محبوب بندوں کی محبت قلب میں ودیعت فرمائی اور ان سے ربط و تعلق نصیب فرمایا۔ فالحمد لله وله الشكر ۔ ہمارے حضرت عارف باللہ ڈاکٹر عبد الحی عارفی نور اللہ مرقدہ یہ شعر کثرت سے پڑھتے تھے :

گرچه از نیکان نیم لیکن به نیکال بسته ام

در ریاض آفرینش رشته گلدسته ام

چار بزرگوں کے ساتھ اس ناکارہ کو بچپن ہی سے عشق کی حد تک عقیدت و محبت تھی :

حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نور الله مرقدہ ، امام التبلیغ حضرت مولانا محمد یوسف الدہلوی نور اللہ مرقدہ، حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری نور اللہ مرقدہ، اور حضرت اسلطان القلم مولانا مناظر احسن گیلانی نور الله مرقدہ۔(شخصیات و تاثرات ص ۱۳۲، ۱۳۳)

مگر ہوش سنبھالنے کے بعد ان اکابر کے علاوہ پانچویں بزرگ، جن کے کمالات، علوم و معارف، فضل و احسان ، ورع و تقوی ، دعوت و عزیمیت، حق گوئی و بے باکی ، ملت اسلامیہ کی سربلندی کے لئے گھلنے اور پگھلنے سے میں زیادہ متاثر ہوا،جن کی خدمات پر بے حد رشک آیا اور جن سے غائبانہ عقیدت ، محبت میں بدل گئی وہ حضرت اقدس مولانا سید ابو الحسن علی ندوی قدس سرہ کی جامع الصفات اور ہمہ گیر شخصیت تھی۔

حضرت مولانا ابو الحسن لی ندوی المعروف بہ علی میاں قدس سرہ کے کس کس گوشہ حیات اور کمالات زندگی کو احاطہ تحریر میں لایا جائے ؟ اسے کس طرح شروع کیا جائے ؟ اور کہاں سے شروع کیا جائے ؟ کچھ سمجھ نہیں آتا، زبان و قلم اور الفاظ و حروف ساتھ نہیں دے رہے۔ حضرت مرحوم کی وفات کا سانحہ جہاں ہندو پاک کے مسلمانوں کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے وہاں عرب و عجم اور شرق و غرب اور دنیائے اسلام کے مسلمان ، اس صدمہ سے دوچار ہیں، حضرت مولانا علی میاں کی وفات سے ایک طرف اگر ان کے پسماندگان اور متعلقین غم زدہ ہیں،تو دوسری طرف ان کی وفات سے حجاز مقدس اور حرمین کے اکابر علماً اور ارباب اقتدار بھی اس صدمہ جانکاہ کو سہارنے کی ہمت نہیں پاتے، چنانچہ شیخ محمد بن عبد اللہ السبیل صدر شئون حرمین شریفین اور مسجد حرام کے خطیب و امام ،اس سانحہ پر اپنے تعزیتی مکتوب میں لکھتے ہیں :

محترم علماء کرام ، گرامی قدر ذمہ داران ندوۃ العلماً

اور ملت اسلامیہ ہند ،

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبركاته،

شدید قلبی رنج و اندوہ اور غم کے ساتھ عالم جلیل اور داعی عظیم حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کی وفات کی خبر ملی ، اللہ تعالیٰ اس عظیم صدمہ کو جھیلنے کی سکت آپ اور ہم سب کو عطا فرمائے ، اور آپ اور تمام پس ماندگان کو بیش از بیش اجر سے نوازے اور اس خسارے کی تلافی فرمائے ، ہم آپ سے تعزیت کرتے وقت خود بھی تعزیت کے مستحق ہیں بلکہ ساری امت اسلامیہ سے تعزیت کی جانی چاہئے۔ حضرت مولانا کا سانحہ وفات ایک زبر دست حادثہ ہے اور شدید آزمائش ہے جس سے تمام مسلمانان عالم اس وقت دو چار ہیں ۔ اس لئے کہ مولانا مرحوم نے دعوت الی اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کے لیے اپنی زبان و قلم اور جسم و جان کو وقف کر دیا تھا۔ اور اس میدان میں ان کے کارنامے نا قابل فراموش ہیں۔

اللہ تعالٰی ہمیں ، آپ کو اور تمام برادران اسلام کو اس صدمہ جانگاہ کو سہارنے کی طاقت عطا کرے اور عالم اسلام کی اس محرومی کی تلافی فرمائے۔

ہم اس موقع پر آپ کو یہ اطلاع بھی دینا چاہیں گے کہ خادم الحرمین الشریفین فہد بن عبد العزیز فرماں روائے مملکت سعودی عرب نے حرم مکی و مدنی دونوں جگہ ۲۶/رمضان ۱۴۲۰ھ بروز دو شنبہ بعد نماز عشا ( یعنی ستائیسویں شب) حضرت مرحوم کے لئے غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنے کا حکم جاری فرمایا ہے۔

اللہ تبارک و تعالٰی علامہ مرحوم کو اپنی رحمتوں سے ڈھانپ لے اور انہیں اپنے نیکو کار بندوں میں شامل فرمائے اور انہیں ابرار واتقیا شہداً وصالحین کے ساتھ اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کا تہ

آپ کا بھائی

محمد بن عبد اللہ السبیل

صدر امور حرمین شریفین ، امام و خطیب مسجد حرام، مکه مکرمه

(پندرہ روزہ تعمیر حیات لکھو ۶ ار رمضان تا ۳ شوال ۱۴۲۰ھ)

حضرت مولانا علی میاں قدس سرہ تکیہ کلاں رائے بریلی انڈیا میں مشہور علمی شخصیت حضرت مولانا عبدالحی ندوی کے گھر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گھر بریلی میں اپنے والد ماجد اور بڑے بھائی جناب حکیم عبدالعلی ندوی سے حاصل کی، اس کے بعد دار العلوم ندوۃ العلما لکھنؤ اور دار العلوم دیو بند سے تکمیل ہوئی۔ قرآن کریم کی تفسیر امام الاولیا حضرت مولانا احمد علی لاہوری قدس سرہ سے پڑھی، حضرت لاہوری سے ہی بیعت ہو کر مجاز بیعت قرار دئے گئے ، بعد میں آپ نے قطب الاقطاب حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوری قدس سرہ سے اصلاحی تعلق قائم فرمایا اور ان سے بھی خلافت و اجازت کی خلعت سے سر فراز ہوئے۔ علوم عالیہ وآلیہ کی تکمیل کے ساتھ ساتھ آپ نے فن ادب عربی میں رسوخ حاصل کیا ، بر صغیر اور عالم اسلام کی ممتاز شخصیت جناب پروفیسر خلیل عرب سے آپ نے عربی پڑھی ، اور اس میں اتنا کمال حاصل کیا کہ دنیائے عرب آپ کی فصاحت وبلاغت کا لو ہامانتی تھی۔ آپ کی تصانیف بر صغیر پاک و ہند سے زیادہ بلاد عرب میں محبوب و مقبول تھیں، بقول ایک عرب دانشور کے کہ : " اگر اس دور میں جاہلی شعرا اور ائمہ لغت عربی ہوتے تو وہ آپ کو سجدہ کرتے۔"

آپ عوام و خواص اور عرب و عجم کے امام اور محبوب تھے۔ آپ کی خدمات جلیلہ کے عوض سعودی عرب کی جانب سے آپ کو شاہ فیصل ایوارڈ دیا گیا، برونائی کے بادشاہ نے عالم اسلام کی عظیم شخصیت اور خدمات عالیہ کے عوض آپ کو اپنے ملک کا سب سے بڑا ایوارڈ دیا، اسی طرح انہیں ابو ظہبی حکومت کی طرف سے بھی سب سے بڑے ایوارڈ کا مستحق قرار دیا گیا ، مگر ایوارڈوں سے حاصل ہونے والی لاکھوں ڈالر کی رقم حضرت مرحوم نے مجاہدین افغانستان اور دینی مدارس کو عطیہ کردی۔

لیکن جہاں تک حضرت مرحوم کی ذات، ان کی اولوالعزمی اور مرتبہ و مقام کا تعلق ہے ، وہ دنیا کے بڑے سے بڑے انعام اور ایوارڈ سے بالاتر تھی۔ جن دنوں سعودی حکومت نے حضرت اقدس کو ان کی خدمات کے اعتراف میں شاہ فیصل ایوارڈ دیا تھا ، انہیں دنوں راقم الحروف نے ماہنامہ بینات میں حضرت کی شخصیت سے متعلق جن تأثرات کا اظہار کیا تھا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے یہاں نقل کر دیا جائے" سعودی حکومت کی جانب سے امسال شاہ فیصل ایوارڈ" عالم اسلام کے مایہ ناز مفکر حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی مدظلہ العالی کو دیا گیا۔ سعودی حکومت کی طرف سے معارف پروری کا یہ اظہار لائق تحسین ہے۔ اور اسلامی حکومتوں کے لئے لائق تقلیدبھی۔ جہاں تک حضرت مولانا کی ذات گرامی کا تعلق ہے ان کی شخصیت دنیا کے کسی بڑے سے بڑے انعام سے بالا تر ہے۔ وہ اس قافلہ کے نمائندہ ہیں جو "إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ " کے فلسفے پر یقین رکھتا ہے اور جس کے نزدیک پوری دنیا مچھر کے پر کے برابر قیمت نہیں رکھتی۔ اس لئے ہمارے نزدیک "شاہ فیصل ایوارڈ سے حضرت کی عزت ووقار میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ بلکہ یہ اس ایوارڈ کے لئے باعث صد نازش ہے کہ مولانا نے اسے قبول فرمالیا ہے۔

حق تعالیٰ شانہ نے حضرت مولانا کو محض اپنی عنایت و موہبت سے، جن فطری خصائص و کمالات جن ملکات حمیدہ اور جذبات صالحہ جس سوزو گداز اور درد دل، جس قلب سافی اور نفس مطمئنہ سے نوازا ہے اور پھر ان کے سینہ بے کینہ میں اسلام اور عالم اسلام کی سربلندی اور اصلاح امت کے لئے گھلنے اور پگھلنے کی جو دولت ودیعت فرمائی ہے اور پھر ان کی زبان و قلم سے اسلام کی پیغام رسانی کا جو کام لیا ہے اس کا اصل صلہ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بے حد و بے پایاں صلہ۔ ان کو خدا تعالیٰ کے سوا کون دے ہے۔ اور وہ آخرت کے سوا کہاں مل سکتا ہے، تاہم ثم يوضع لہ القبول فی الارض" کے مطابق دنیا میں جو محبوبیت و مقبولیت انہیں اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے وہ اسی موہبت کا ایک ثمرہ ہے۔ حضرت مولانا نے مشرق و مغرب اور عرب و عجم میں مسلسل اسلام کی دعوت کا صور پھونکا ہے۔ اور وہ پوری انسانیت کو اسلام کے خوان یغما پر جمع ہونے کی دعوت دے رہے ہیں۔ وہ ہمیں کبھی امریکہ ولندن پہنچ کر مغرب سے صاف صاف باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ کبھی قاہرہ میں "اسمعی یا مصر" کی اذان دیتے ہیں۔ اور کبھی "اسمعوها منى صريحة ايها العرب" کے ذریعے معدن اسلام (عرب) کے نمائندوں کوجھنجھوڑتے ہیں۔ کبھی دریائے کابل سے دریائے یرموک" تک پہنچ کر عالم اسلام کے مقتداؤں کو بیدار کرتے ہیں۔ کبھی انہیں "انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر " کی کہانی سناتے ہیں۔ (جس کا ایک رخ وجد آفرین ہے تو دوسرا خون افشاں)۔ کبھی ان کے سامنے تاریخ دعوت و عزیمت کھول کر رکھتے ہیں۔ کبھی انہیں "اسلامیت و مغربیت کی کشمکش کے ہولناک پہلوؤں سے آگاہ کرتے ہیں۔ کبھی انہیں آج کے نظریاتی قافلوں سے ہٹ کر کاروان مدینہ" میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ الغرض مولانا کی دعوت شرق و غرب عرب و عجم اور افریقہ وایشیاء کی حد بندیوں سے بالا تر ہے وہ پوری انسانیت کو ۔۔۔۔۔۔۔ سسکتی بلکتی انسانیت کو مادی زخموں سے چور چور انسانیت کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے وابستگی کی دعوت دیتے ہیں۔ سعودی حکومت اور دیگر اسلامی ممالک کی طرف سے مولانا موصوف کی دینی خدمات کی قدر دانی کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ اس دعوت کو اپنائیں جو مولانا مدظلہ کی طرف سے مسلسل پیش کی جارہی ہے۔ اور جس کے لئے ان کی پوری زندگی وقف ہے"۔

حضرت مولانا علی میاں قدس سرہ کا اس بیچ مداں کے ساتھ نہایت مشفقانہ تعلق تھا۔ وہ اپنے چھوٹوں کے ساتھ ان کی حیثیت سے بڑھ کر اعزاز واکرام کا معاملہ فرماتے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حیات پر آپ کی عربی تصنیف " المر تضی " شائع ہوئی تو اپنے دستخطوں کے ساتھ جناب مولانا قاری سید رشید الحسن صاحب زید مجدہم کی وساطت سے ناکارہ کو بھجوائی اور فرمائش کی کہ اس پر "بینات " میں تبصرہ کیا جائے۔ راقم الحروف نے اس کا اول سے آخر تک مطالعہ کیا اور حضرت اقدس کو عریضہ لکھا کہ : اس کی تعریف میں کچھ کہنا " مادح خورشید مداح خود است " کا مصداق ہو گا ماشاء اللہ کتاب میں بہت ہی اہم معلومات جمع ہو گئی ہیں اور نہایت الجھے ہوئے مضامین کو بہت ہی عمدہ اور سلجھنے ہوئے انداز میں پیش فرمانا آنجناب ہی کے لائق تھا۔

اس کے علاوہ غالباً کچھ طالب علمانہ اشکالات بھی پیش کئے ، اس پر حضرت مرحوم نے اس ناکارہ کی جس طرح حوصلہ افزائی فرمائی وہ میری سوچ و فکر سے کہیں زیادہ اونچی تھی، چنانچہ حضرت مرحوم نے اس خط کی رسید بھیجتے ہوئے لکھا :

رائے بریلی

فاضل گرامی و محبت سامی جناب مولانا محمد یوسف صاحب

زیدت معاليكم.

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ،

گرامی نامہ مورخہ ۲۱ جمادی الآخرۃ، مجھے ایک طویل سفر کی وجہ سے تاخیر سے ملا، پڑھ کر بڑی مسرت ہوئی ، یہ کتاب کی پہلی رسید ہی نہیں سند بھی ہے ، میں آپ کی پسندیدگی کو قبولیت کی ایک علامت سمجھتا ہوں ، دوسرا ایڈیشن پریس جارہا ہے اس میں اہم تصحیحات اور بعض ترمیمات کردی گئی ہیں جن سے توازن و اعتدال میں اضافہ ہو گیا ہے ، ان شاء اللہ طباعت کے بعد کتاب ارسال خدمت کی جائے گی۔بینات میں تعارف کا اشتیاق رہے گا۔ ڈاکٹر زاہد علی صاحب کی کتاب ( ہمارا اسماعیلی مذہب اور اس کی حقیقت“۔ ناقل ) شائع کر کے آپ نے ایک اہم خدمت انجام دی ہے کتاب پہنچ گئی میں نے " تاریخ دعوت و عزیمت " کے پہلے حصہ میں اس سے مدد لی تھی، اور اس کے اقتباسات پیش کئے تھے۔کارڈ لکھنے کی معافی چاہتا ہوں اس لئے کہ اس کے جلد پہنچنے کی امید ہوتی ہے۔ والسلام.

مخلص

ابوالحسن علی (۲۲/ فروری ۱۹۸۹ء)

حضرت کی وفات سے امت ایک عظیم رہبر و راہ نما اور مشفق و مربی سر پرست اور باخدا عارف ربانی سے محروم ہو گئی، اور مجالس علم و عرفان اور طبقہ اہل علم یتیم ہو گئے ہیں۔

حضرت مرحوم کی ذات سے اللہ تعالٰی نے وہ کام لیا جو پوری ایک جماعت کے لئے مشکل ہے، یہ ان کی مقبولیت عند اللہ اور موفق من اللہ ہونے کی علامت ہے کہ ان کے لمحات زندگی کو دین اور اشاعت دین کے لئے قبول فرمالیا گیا۔

حضرت مرحوم کی عمر اس وقت تقریباً ۸۵ برس تھی۔ دو سال قبل آپ پر فالج کا حملہ ہوا تھا، مگر صحت یاب ہو گئے تھے۔ ۲۲ / رمضان المبارک کو روزہ رکھا، طبیعت ہشاش بشاش تھی ، غسل فرمایا، کپڑے تبدیل فرمائے سورہ کہف کی تلاوت کا معمول تھا مگر اس دن سورہ کہف سے پہلے سورہ یسین شروع فرمادی۔

سورہ یسین کی گیارہویں آیت "فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَّاَجْرٍ كَرِیْمٍ" پر پہنچے ہی تھے کہ دل کے درد کی شکایت ہوئی، طبی امداد دینے کی کوشش سے پہلے ہی وہ روزہ کی حالت میں ، تلاوت کرتے کرتے عین ، جمعہ کے وقت اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور اپنے پسماندگان، متعلقین اور لاکھوں عقیدت مندوں کو سوگوار اور یتیم چھوڑ کر جوار رحمت الہیہ میں چلے گئے۔ (فاناللہ وانا اليه راجعون.) اللہ تعالیٰ حضرت مرحوم کے ساتھ رضاور ضوان کا معاملہ فرما کر ان کے درجات کو بلند فرمائے ، ان کے پسماندگان اور متعلقین کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔ جامعہ علوم اسلامیہ کے اساتذہ ، کارکنان اور ادارہ بینات حضرت کے پسماندگان سے دلی تعزیت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت مولانا کے مشن کو آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین

(ماہنامہ بینات کراچی ذی قعده ۱۴۲۰)

اقتباس :شخصیات و تآثرات جلد دوم ص 429

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔