٭ کتاب الآثار (عربی) 5 اضافی خصوصیات کا حامل نسخہ : ناشر " الرحیم اکیڈمی۔ کراچی"۔
٭الآثار الإمام محمد بن الحسن الشيباني دار النوادر
٭منهج الإمام محمد بن الحسن الشيباني في "كتاب الآثار
٭مخطوطة كتاب الآثار۔محمد بن الحسن بن فرقد ( الشيباني )
٭الفقهاء :الإمام محمد بن الحسن الشيباني
٭کتاب الآثار
امام الائمہ، سراج الامت نعمان بن ثابت امام ابوحنیفہ کی طرف حدیث کی کئی کتابیں منسوب ہیں؛
(1)کتاب الآثار(2)مسندامام ابی حنیفہ(3)اربعینات امام ابی حنیفہ(4)وحدانیات امام ابی حنیفہ،
ان میں سے "کتاب الآثار" آپ کی تصنیف کردہ ہے؛ مگربہت سے حضرات نے اس کتاب کو ان لوگوں کی تصنیف قرار دے دیا ہے جواس کتاب کے رواۃ میں سے ہیں جوصحیح نہیں ہے؛ البتہ اس کے علاوہ باقی تینوں کتابیں آپکی تصنیف کردہ نہیں ہیں؛ بلکہ بعد کے لوگوں نے ان میں امام ابو حنیفہ کی روایت حدیث کوموضوع کے لحاظ سے جمع کیا ہے۔
جامعین کتاب الآثار
کتاب الآثار کوامام ابو حنیفہ سے مختلف تلامذہ نے مختلف دور میں روایت کیا ہے، جونسخے دنیا میں رائج ہیں وہ حسب ذیل ہیں
(1)کتاب الآثار بروایت امام محمد(2)کتاب الآثار بروایت امام ابو یوسف(3)کتاب الآثار بروایت حسن بن زیاد لؤلوی(4)کتاب الآثار بروایت حماد بن امام ابی حنیفہ(5)کتاب الآثار بروایت حفص بن غیاثؒ، یہ نسخہ زیادہ مشہور نہیں ہے(6)کتاب الآثار بروایت محمد بن خالد وہبیؒ جو "مسنداحمد بن محمد کلاعی" کے نام سے مشہور ہے(7)کتاب الآثار بروایت امام زفر جو "سنن زفر" کے نام سے بھی معروف ہے۔
اس کتاب "کتاب الآثار" کی ترتیب کتاب وار، وباب وار ہے؛ البتہ یہ ضرور ہے کہ امام ابو حنیفہ نے صرف ابواب کے عناوین تجویز فرمائے، کتب کے عناوین تجویز نہیں فرمائے؛ مگران کے سامنے کتب کی رعایت بھی تھی؛ کیونکہ ایک اصل سے متعلق ابواب آپ نے ترتیب وار ذکر کیے ہیں؛ البتہ "کتاب المناسک" کا عنوان خود آپ نے قائم فرمایا ہے، اس کے بعد پھرابواب کا ذکر کیا ہے۔ امام محمدکے نسخے میں کل 305/ابواب ہیں، اس کی ترتیب درحقیقت فن فقہ میں لکھی جانے والی کتاب کی ترتیب کے مطابق ہے؛ کیونکہ فن فقہ میں سب سے پہلے طہارت کا بیان کرتے ہیں؛ پھراس کے بعد کتاب الصلوٰۃ؛ جیسا کہ امام ابوداؤد اور امام ترمذیؒ نے اپنی کتاب کوفقہی طرز پر مرتب کیا ہے، برخلاف بخاری ومسلم وغیرہ کے انہوں نے اس کا لحاظ نہیں کیا، بس من وعن اسی فقہی انداز پر امام ابو حنیفہ کی کتاب "کتاب الآثار" مرتب کی گئی ہے۔
یہ ایک ایسی کتاب ہے، جس کے مصنف کوتابعیت کا شرف حاصل ہے، آج دنیا میں کوئی ایسی کتاب نہیں پائی جاتی ہے، جس کویہ ناقابل فراموش فضیلت حاصل ہو۔اسلام میں فقہ کے نہج پر جوکتاب لکھی گئی، اس میں اوّلین کاوش امام صاحبؒ ہی کی ہے،یہ کتاب اسلام کی اولین مؤلفات میں سے ہے، اس لیے کہ امام صاحب علیہ الرحمہ کا زمانہ سنہ 150ھ تک کا ہے؛اس سلسلہ میں عموماً اولیت امام مالک اور ان کی کتاب "موطا" کی بتائی جاتی ہے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس انداز پر اولین تالیف امام صاحبؒ کی "کتاب الآثار" ہے، امام مالکؒ ودیگر حضرات جواس انداز سے کام کرنے والے ہیں، وہ ثانوی درجہ میں اس مذاق ومزاج کواپنانے والے ہیں"کتاب الآثار" کوامام اعظم ابوحنیفہ نے چالیس ہزار احادیث کے مجموعہ سے منتخب فرمایا ہے اور ان میں سے اپنی شہرۂ آفاق کتاب میں انیس ہزار احادیث کوجمع فرمایا ہے؛آپ سے امام محمدؒ نے روایت کرکے کتابی شکل میں مرتب فرمایا ہے۔
امام ابو حنیفہ کی جلالتِ قدر کے لیے اس سے زیادہ اور کیا درکار ہے کہ وہ امت میں امام اعظم کے لقب سے مشہور ہوئے اور ان کے اجتہادی مسائل پر اسلامی دنیا کی دوتہائی آبادی تقریباً چودہ سوبرس سے برابر عمل کرتی آ رہی ہے اور تمام اکابر ائمہ آپ کے فضل وکمال کے معترف ہیں، اس کتاب میں علم شریعت کوباقاعدہ ابواب پر مرتب کیا گیا ہے اور یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ فقہ حنفی کی بنیاد کتاب الآثار کی احادیث وروایات پر مبنی ہے۔
اصول و شرائط
امام ابو حنیفہ نے اپنے مقرر کردہ اصول وشروط کے پیش نظر اپنی صوابدید سے چالیس ہزار احادیث کے ذخیرہ سے اس مجموعہ کا انتخاب کرکے اپنے تلامذہ کواس کا املا کرایا ہے اور انتخاب کے بعد اس میں جومرویات لی ہیں وہ مرفوع بھی ہیں اور موقوف ومقطوع بھی، زیادہ ترحصہ غیر مرفوع کا ہے، مرویات کی مجموعی تعداد نسخوں کے اختلاف کی وجہ سے مختلف بھی ذکر کی گئی ہے، امام ابویوسفؒ کے نسخے میں ایک ہزار ستر کے قریب ہے اور امام محمدؒ کے نسخے میں صرف مرفوعات ایک سو بائیس ہیں۔
مشہور نسخے
سب سے مشہور نسخے دو ہیں، ایک امام محمدؒ کا اور دوسرا امام ابویوسفؒ کا اور یہی دونوں نسخے شائع بھی ہوئے ہیں اور ان میں بھی امام محمدؒ کا نسخہ زیادہ معروف متداول ہے اور علما نے بھی اس پر زیادہ کام کیا ہے، مثلاً امام طحاویؒ، شیخ جمال الدین قونویؒ، ابوالفضل علی بن مراد موصلیؒ اور ماضی قریب میں مفتی مہدی حسن صاحبؒ شاہجہاں پوری "سابق صدر مفتی دار العلوم دیوبند" نے "قلائدالازھار" کے نام سے اس کی نہایت ضخیم شرح لکھی ہے،مولانا عبد الباری فرنگی محلیؒ اور مولانا ابوالوفاء افغانیؒ کا کتاب الآثار پر حاشیہ بھی ہے؛ نیز شیخ عبد العزیز بن عبد الرشید اور شیخ محمدصغیرالدین نے اس کا اردو میں ترجمہ بھی کیا ہے اور شیخ عبد العزیز نے ترجمہ کے ساتھ کچھ اضافہ بھی کیا ہے اور اردو ترجمہ کے ساتھ مولانا عبد الرشید نعمانی کا کتاب الآثار کے تعارف سے متعلق ایک مبسوط مقدمہ بھی ہے، امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کے دونوں نسخوں کے ساتھ علامہ ابوالوفا افغانی کے عربی میں مقدمے بھی ہیں، ان کے علاوہ دیگر شراح ومحشین نے بھی مقدمے لکھے ہیں، امام ابویوسف کے نسخے پر مولانا ابوالوفاء کی تعلیقات بھی ہیں اور حافظ ابن حجر عسقلانی اور ان کے شاگردِ رشید قاسم بن قطلوبغا حنفی، دونوں حضرات نے کتاب الآثار لمحمد کے رجال پر "الایثار بمعرفۃ رجال کتاب الآثار" کے نام سے کتابیں لکھی ہیں، کتاب الآثار کے متعدد نسخے یا ان کے کافی اجزاء "مسانید امام اعظم" کے مجموعے "جامع المسانید" میں بھی شامل ہیں، مثلاً امام ابویوسف کے نسخے کی مرفوع روایات اور امام زفر وحفص بن غیاث کے علاوہ دیگر حضرات کے نسخے بھی اس میں شامل کر دیے گئے ہیں۔
مزید تفصیل کے لئے دیکھئے قلائد الازھار، ابوحنیفہ واصحابہ المحدثون، علوم الحدیث۔
محمد عمر فاروق
مدیر دار الشیبانی للافتاء والتحقیق
پہاڑپور ضلع ڈیرہ اسماعیل خان پاکستان
٭
*کتاب الآثار کے مصنف اور مشہور نسخوں میں سے ایک نسخہ کا تعارف*
کتاب الآثار امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث پر وہ کتاب ھے جو آپ نے اپنے تلامذہ کو املاء کروائی تھی اور اس کتاب کا انتخاب چالیس ھزار احادیث مبارکہ سے کیا ہے
اس کتاب کے مشہور نسخوں میں درج ذیل پانچ نسخوں کا ذکر ملتا ھے
*نسخہ امام زفر بن ھذیل*
*نسخہ امام ابو یوسف*
*نسخہ امام حسن بن زیاد*
*نسخہ امام حماد بن ابی حنیفہ*
*نسخہ امام محمد بن حسن الشیبانی*
ان پانچ نسخوں میں سے ہم تک جو باسند طریقے سے طبع ھو کر نسخے پہنچے وہ دو ہیں
*امام ابویوسف اور امام محمد کے طریق سے*
اس پوسٹ میں ہم *امام محمد بن حسن الشیبانی کے نسخے کا تذکرہ کریں گے کیونکہ ہمارے ہاں یہی متداول اور مشہور نسخہ عام دستیاب ھے
*کتاب الآثار بروایت امام محمد کے مصنف کا مختصر تذکرہ*
ولادت 132 ھجری میں ھوئی
آپ کا نام محمد بن حسن ھے
علاقہ واسط میں پیدا ھوئے
اور علاقہ رقہ میں قاضی رھے اپنے دور میں
*آپ کے شیوخ حدیث*
آپ کے شیوخ حدیث میں کثیر افراد ہیں جن میں سے چند مشہور کا تذکرہ ہم یہاں کرتے ہیں
امام الائمہ فی الحدیث امام ابوحنیفہ
امام دار الہجرت امام مالک
امام المحدثین سفیان بن عیینہ
امام ابن جریج
سعید بن ابی عروبہ
مجتہد شام حافظ الحدیث امام اوزاعی
امام المحدثین عبد اللہ بن المبارک
امام فن الرجال سند المحدثین امام شعبہ بن الحجاج
اور اسکے علاوہ کثیر تعداد ھے جن سے آپ نے اخذ علم الحدیث کیا
*آپ کے تلامذہ یعنی شاگرد*
امام محمد بن حسن الشیبانی سے کثیر خلق نے استفادہ و افاضہ حدیث کیا ھے چند مشہور زمانہ آپ کے تلامذہ کے اسماء درج ذیل ہیں
امام محمد بن ادریس الشافعی
امام المحدثین و حجۃ المحدثین امام احمد بن حنبل
امام اسد بن فرات
بانی اسماء الرجال امام اول فن اسماء الرجال امام یحی بن معین
امام احمد بن حفص الکبیر البخاری
امام اہل بلخ و مفتی بلخ امام خلف بن ایوب
ریحانۃ العلم الحدیث امام محمد بن سماعہ
*امام محمد بن حسن الشیبانی کا مقام محدثین کے ہاں*
امام محمد بن حسن کا محدثین کے ہاں مقام جاننے کے لیے اتنا جاننا ہی کافی ھے کہ ائمہ اربعہ میں سے دو مشہور امام سیدنا امام الشافعی و امام احمد بن حنبل کا شمار آپ کے تلامذہ میں ھوتا ھے اور مشہور ناقد و امام اسماء الرجال حفاظ الحدیث شمس الدین الذہبی جیسی ھستی نے آپ کے مناقب پر مکمل کتاب لکھی ھے جس کا نام ھے *مناقب ابی حنیفہ و صاحبیہ*
*کتاب الآثار بروایت امام محمد کا تعارف*
یہ کتاب دراصل امام ابوحنیفہ کی تصنیف ھے اور اسکے کئی نسخے ہیں جن کو آپکے۔متعدد تلامذہ نے آپ سے روایت کیا ھے ان نسخوں میں سے سب سے زیادہ مشہور نسخہ امام محمد کا روایت کردہ ھے
واضح رھے کہ کتاب الآثار کے اس نسخہ کو امام محمد سے روایت کرنے والے کئی حضرات ہیں جن میں سے زیادہ مشہور درج ذیل تین تلامذہ ہیں
*امام ابو سلیمان جوزجانی*
*امام ابوحفص الکبیر*
*امام اسماعیل بن توبہ القزوینی*
*شاگرد اول ابو سلیمان جوزجانی کی دو اسناد*
پھر ان تینوں میں سے پہلے امام ابو سلیمان جوزجانی کا روایت کردہ نسخہ متعدد محدثین کی مرویات میں سے ھے *جن میں سے ایک امام محمد بن محمود الخوارزمی ہیں* امام خوارزمی نے اس نسخہ کو تین سندوں سے روایت کیا ھے جن میں سے صرف ایک سند یہاں نقل کر رھے ہیں
*یوسف بن عبد الرحمن بن علی بن جوزی وہ عبد المنعم بن عبد الوہاب سے وہ احمد بن عبد الجبار سے وہ علی بن محسن تنوخی سے وہ ابراہیم بن احمد الطبری سے وہ محمد بن احمد الرازی سے وہ ابو عامر عمر بن تمیم سے وہ ابوسلیمان جوزجانی سے اور وہ امام محمد بن حسن سے روایت کرتے ہیں (اس کتاب الآثار کے پورے نسخہ کو)
اسی طرح یہ نسخہ *مسند الشام حافظ الحدیث امام محمد بن یوسف الصالحی کی مرویات سے بھی ھے* اور ان کا امام محمد تک سلسلہ سند درج ذیل ھے
قاضی عمر بن حسن نووی وہ حافظ ابن حجر عسقلانی سے وہ تقی الدین عبد اللہ بن محمد سے وہ احمد بن ابوطالب سے وہ محمد بن محمد بن عمر سے وہ محمد بن عبد الباقی سے وک ابوالفضل بن خیرون سے وہ حسین بن علی الصیمری سے وہ ابراہیم بن احمد سے وہ محمد بن احمد سے وہ ابو عامر بن تمیم سے وہ ابو سلیمان جوزجانی سے اور وہ امام محمد بن حسن سے اس نسخہ کو کامل طور پر روایت کرتے ہیں
*دوسرے شاگرد امام ابو حفص الکبیر کی روایت سے ایک سند*
ان کی سند سے بھی کتاب الآثار کو کثیر محدثین سے سماع کیا اور اسکو اپنی اسناد سے آگے نقل کیا ہم یہاں صرف ایک سند کا ذکر کرتے ہیں جو شیخ الاسلام حافظ الحدیث امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی سند ھے اور ابن حجر عسقلانی باوجود شافعی المذہب ھونے کے اس کتاب کو اپنی سند سے نقل کرتے ہیں
حافظ ابن حجر عسقلانی کی سند یہ ھے
ابو عبد اللہ حریری سے وہ قوام الدین اتقانی سے وہ احمد بن اسعد بخاری سے وہ حسین بن علی سغناقی سے وہ محمد بن نصر بخاری سے وہ محمد بن عبد الستار کردری سے وہ عمر بن عبد الکریم سے وہ عبدالرحمن بن محمد سے وہ نجم الدین حسین سے وہ ابو زید الدبوسی سے وہ ابوحفص استروشی سے وہ حسین بن محمد سے وہ امام عبد اللہ الحارثی سے وہ ابو عبد اللہ بن ابوحفص سے وہ اپنے والد ابو حفص سے وہ امام محمد سے اور وہ امام ابوحنیفہ سے کتاب الآثار کو نقل کرتے ہیں
یہ سب کچھ اس بات کی بین و واضح دلیل ھے کہ محدثین کا اس کتاب کے ساتھ خصوصی اعتناء و لگاؤ رہا ھے اور وہ اسکو اپنی اپنی اسناد سے نقل کرتے رھے اور اس سے استفادہ کرتے رھے
*کتاب الآثار پر محدثین کرام کا کام*
اس کتاب پر محدثین نے مفصل شروحات و تراجم و تخریجات اور صرف اسکے رواۃ پر مستقل کتب تحریر کی ہیں ہم چند ایک کا ذکر کر رھے ہیں
حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کے روات پر مستقل کتاب لکھی جس کا نام ھے *الایثار بمعرفۃ رواۃ الآثار*
اسی طرح حافظ عسقلانی کے شاگرد عظیم حنفی محدث قاسم بن قطلوبغا نے بھی اس کے رواۃ پر ایک کتاب لکھی ھے
اس کتاب کی ایک شرح حافظ الحدیث مجتہد منتسب سرخیل احناف امام ابو جعفر الطحاوی نے لکھی ھے جو امام ابو سعد المسعانی جیسے محدث کہ مرویات سے ھے
*محدثین کا کتاب الآثار کی روایات سے کثرت سے دلیل پکڑنا*
اس کتاب کی عظمت و افادیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ھے کہ امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری میں ایک معلق یعنی بلاسند روایت نقل کی تو ابن حجر عسقلانی نے اسکی سند کو کتاب الآثار کے حوالے سے نقل کیا وہ لکھتے ہیں
*وصلہ محمد بن الحسن فی کتاب الآثار عن ابی حنیفہ عن حماد عنہ بلفظ*
یعنی اس حدیث کو امام محمد بن حسن نے اپنی سند سے نقل کیا ھے (فتح الباری ج12 ص402)
اسی طرح ایک اور حدیث کی تحقیق میں رقم طراز ہیں کہ
*واخرج محمد بن الحسن فی الآثار عن ابی حنفیہ بسند لہ عن ابن عباس نحو ذلک*
یعنی امام محمد بن حسن نے کتاب الآثار میں بسند ابی حنیفہ ابن عباس سے اسی طرح نقل کیا ھے (فتح الباری ج9ص811)
اسی طرح ابن حجر عسقلانی نے الہدایہ کی احادیث کی تخریج کی جس کا نام ھے *الدرایہ لتخریج احادیث الہدایہ* اس میں تقریبا پچاس سے زائد مقامات پر اسی کتاب الآثار سے حدیث کی تخریج کی ھے اور بہت سارے مقامات پر اسنادہ صحیح کہا ھے
اسی طرح حافظ الحدیث جمال الدین زیلعی نے بھی *نصب الرایہ* میں تقریبا ایک سو سے زائد مقامات پر اسی کتاب الآثار کی احادیث سے تخریج فرمائی ھے
جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت ھے کہ کتاب الآثار عند المحدثین و محققین و مخرجین و شارحین معتبر و مستند کتاب ھے اور وہ باقاعدہ اسکو سماعت کرتے رھے اور دلیل کے طور پر اسکو اپنی اسناد سے آگے نقل کرتے رھے اور اسکی روایات کو دلیل بناتے رھے
مزید کتب ملاحظہ کیجیئے "فقہ و فقہاء و فقہی احکام"۔
2 comments:
ڈاؤنلوڈ کی سہولت نہیں ہے
بالکل ہے آپ پوسٹ میں لکھا Download کلک کیجئے
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔