Friday, 8 October 2021

اسلام میں سُنت و حدیث کا مقام


 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


اسلام سُنت و حدیث کامقام

مترجم : ڈاکٹر مولانا احمد حسن ٹونکی

حواشی و تعلیقات : مولانا محمد ادریس میرٹھی

پیشکش : طوبیٰ ریسرچ لائبریری

1 ریبع الاول1443 ہجری

٭دوسری جلد کی فراہمی و تیاری کے لیئے احقر اپنے علم دوست منصور صاحب کا تہہ دل سے شکر گذار ہے ۔

ISLAM  ME SUNNAT O HADEEZ KA MUQAAM

RENDERED INTO URDU BY: DR MOULANA AHMED HASSAN TONKI

SPECIAL COURTESY OF MANSOR SAHIB FOR 2ND VOL

DOWNLOAD

VOL : 1 …… VOL: 2

مزید کتب کےلیئے دیکھیئے صفحہ "علوم الحدیث "

#TOOBAA_POST_NO: 315

عنوان الكتاب: السنة ومكانتها في التشريع الإسلامي

The Sunnah And Its Role In IslamicLegislation

Redered into english by : Faisal ibn Muhammad shafeeq

محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ

مستشرقین اور اعداء اسلام کی قرآن کریم میں معنوی تحریف کی کوشش

    متن قرآن کریم کی حفاظت کا تو اعلان ہوچکا ہے، اس کا امکان نہیں تھاکہ قرآن کے الفاظ میں ردوبدل کیا جاسکے، اس لیے دشمنان اسلام جو ہمیشہ اسلام کو مٹانے کے درپے رہے، قرآن کریم سے تو مایوس ہوگئے، انہوں نے قرآن کی معنوی تحریف کے لیے یہ چوردروازہ تلاش کیا کہ حدیث نبوی کو جو معانیِ قرآن کی محافظ ہے، ناقابل اعتبار ثابت کریں۔ یورپ کے مستشرقین اور دشمن اسلام ملاحدہ نے اپنے تمام وسائل اور دماغی وقلمی تمام طاقتیں احادیث کو بے وقعت بنانے کے لیے صرف کرنا شروع کردیں اور مسلمانوں میں ’’منکرین حدیث‘‘ کے نام سے منافقین کا جوگروہ آج موجود ہے غلام احمد پرویز وغیرہ انہوں نے انہی دشمنان اسلام کی راہنمائی میں اس مہم کو اور آگے بڑھایا ’’وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَیْھِمْ إِبْلِیْسُ ظَنَّہٗ‘‘ چنانچہ نئی نسل کے بہت سے افراد جو دینی تعلیم وتربیت سے بے بہرہ تھے، ان خیالات کا شکار ہوگئے۔ تاریخ فتنۂ انکارِ حدیث     انکار حدیث کے فتنہ کی تاریخ بہت قدیم ہے، سب سے پہلے خوارج نے اس کی بنیاد رکھی، صحابہ کرام کی تکفیر کر کے ان کی روایت کردہ احادیث کا انکار کیا اور صرف کتاب اللہ کو مانا۔ ان کے بالمقابل شیعہ نے کتاب اللہ کی تحریف اور احادیث کے انکار کا راستہ کھولا اور دین کا انحصار اپنے ائمہ کی روایت پر رکھا۔ معتزلہ نے تاویل کے راستہ سے فتنۂ انکار حدیث کو مزید قوت بہم پہنچائی، مگر یہ دور اسلام کی شوکت وعزت کا دور تھا، ان کی مساعی ناکام رہیں اور مسلمانوں نے جس طرح قرآن کو سینے سے لگایا اور علوم قرآن کی خدمت کو سرمایۂ سعادت سمجھا، اسی طرح احادیث نبویہ کو سر آنکھوں پر رکھا اور علوم حدیث کی خدمات اس محنت وعقیدت سے انجام دیں کہ تاریخ عالم اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے اور حضرت رسول اللہکے انفاسِ قدسیہ کی وہ حفاظت کی کہ عقل حیران ہے۔     حدیث نبوی ﷺسے مسلمانوں کاشغف دیکھ کر اس وقت اعداء اسلام نے وضع احادیث کا چور دروازہ نکالا اور من گھڑت روایات پھیلانا شروع کیں، تاکہ حق وباطل خلط ملط ہو کر حقیقت ملتبس ہوجائے۔ مگر حق تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت کے لیے ایسے رجال کا رپیدا کیے جنہوں نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کر کے رکھ دیا، انہوں نے فن رجال اور جرح وتعدیل مرتب کیا اور روایات کی چھان بین کر کے تمام اعداء اسلام یہودیوں، سبائیوں اور ملحدوں کی اس سازش کو خاک میں ملادیا۔ امتِ محمدیہ نے اپنے رسول کی احادیث کی حفاظت کے کام کو اتنا آگے بڑھایا کہ اصول حدیث کے مختلف فنون کی تعداد ایک سو کے قریب پہنچ گئی۔ بلاشبہ دین اسلام ابدی دین تھا، قیامت تک کی نسل انسانی کے لیے سرچشمۂ ہدایت تھا، ضروری تھا کہ دین اسلام کی یہ دونوں مشعلیں کتاب وسنت قیامت تک روشن اورہر قسم کی آندھیوں اور جھگڑوں سے محفوظ رہیں، تاکہ ہر دور میں اللہ کی حجت قائم رہے اور قرآن کریم کی یہ آیت ہر وقت صادق رہے: ’’وَکَیْفَ تَکْفُرُوْنَ وَأَنْتُمْ تُتْلٰی عَلَیْکُمْ أٰیٰتُ اللّٰہِ وَفِیْکُمْ رَسُوْلُہٗ‘‘۔   (آل عمران:۱۰۱) ’’اور تم کس طرح کافر ہوتے ہو اور تم پر تو پڑھی جاتی ہیں آیتیں اللہ کی اور تم میں اس کا رسول ہے‘‘۔ فرمانِ نبویؐ میں اس حقیقت کا اظہار اس طرح فرمایا گیا ہے: ’’ ترکت فیکم أمرین، لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللّٰہ وسنۃ رسولہمیں نے تم میں دوچیزیں چھوڑی ہیں، جب تک ان کو مضبوطی سے پکڑے رہو گے کبھی گمراہ نہ ہوگے، ایک کتاب اللہ اور دوسری اس کے رسولﷺکی سنت‘‘۔ قرآن کریم اور حدیثِ نبویہ   الغرض اس کا کوئی امکان نہیں کہ قرآن وحدیث کو ایک دوسرے سے جدا کیا جاسکے، نہ یہ ممکن ہے کہ قرآن کریم پر ایمان ہو اور حدیث نبوی سے انکار، کیونکہ قرآن کریم بار بار اس حقیقت کا اظہار کرتا ہے کہ حضرت رسول اللہ کی اتباع میں تمہاری نجات ہے اور آپ کی نافرمانی تباہی وبربادی کا موجب ہے، آپ کی مخالفت پر قرآن کریم سخت سے سخت وعیدیں سناتا ہے، آپ کی زندگی کو امت کے لیے اسوہ ونمونہ قرار دیتا ہے، قرآن کی تعلیم وتشریح اور اس کے اجمال کی تفصیل کو قرآن آپ کا فرض منصبی بتاتا ہے، حاصل یہ کہ دنیا وآخرت کی نجات وسعادت اور فلاح وبہبودی آپ کی پیروی میں ہے اور حق تعالیٰ کی محبت واطاعت کا معیار بھی آنحضرت کی متابعت کے سوا کچھ نہیں: ’’قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ‘‘۔ (آل عمران:۳۱)

’’ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمائے گا‘‘۔فرقِ باطلہ اور حدیث     بہر حال تمام فرقِ باطلہ خوارج، شیعہ، معتزلہ، قدریہ، جہمیہ اور مرجئہ وغیرہ نے احادیث کے خلاف جوہرزہ سرائی کی تھی (اور امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام احمداور دیگر محدثین ومتکلمین نے جس کا دندان شکن جواب دے کر ان کے حوصلے پست کر دیئے تھے) ہر دور میں ملاحدہ اسے جدید شکل وصورت میں پیش کرتے رہے ہیں، چنانچہ مستشرقین یورپ نے بھی اسی محاذ سے اسلام کی بیخ کنی شروع کی اور اس کے لیے ایک منظم مہم چلائی۔ جو زہر قدیم باطل پرستوں نے اگلا تھا، اسی کو دوبارہ نئی بوتلوں میں بھر بھر کر جدید نسل کے حلق سے اتار نے کی کوشش کی، کبھی کہا کہ احادیث تو دو سو سال بعد قلم بند ہوئی ہیں، ان کا کیا اعتبار؟ کبھی حاملین حدیث پر اعتراضات کیے، کبھی عقلی شبہات ووساوس پیش کیے اور ان راستوں سے نماز، اس کے اوقات، زکاۃ، روزہ، حج، قربانی وغیرہ، تمام عبادات میں شکوک وشبہات پیدا کیے، احکام شرعیہ کو اعتراضات کا نشانہ بنایا، ملائکہ،جنات، شیاطین، ارواح وغیرہ میں تاویل باطل کا راستہ کھولا، اس طرح کوشش کی گئی کہ خدانخواستہ اسلام کی بنیادوں کو ہلادیا جائے، مگر لسانِ نبوت سے یہ اعلان پہلے صادر ہوچکا تھا: ’’ یحمل ھذا العلم من کل خلف عدولہ  ینفون عنہ تحریف الغالین وانتحال المبطلین وتأویل الجاھلین ‘‘۔ ’’ہر آنے والی نسل میں کچھ عادل وثقہ حضرات اس علم دین کے حامل ہوں گے جو غلو کرنے والوں کی تحریف، باطل پرستوں کے غلط ادعا اور جاہلوں کی تاویل کو صاف کریں گے‘‘۔ سنت وحدیث پر مطبوعہ کتابیں   الحمدللہ! اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں ایسے رجال کار پیدا کیے، جنہوں نے باطل پرست جاہلوں کے اٹھائے ہوئے گردوغبار سے سنت کا چہرہ صاف کیا۔ امام شافعیؒ سے ابن وزیر یمانی صاحب ’’الروض الباسم‘‘اور شیخ جلال الدین السیوطی صاحب ’’ مفتاح الجنۃ فی الاحتجاج بالسنۃ‘‘ تک اور ان سے آج تک نہ صرف عربی اردو میں، بلکہ انگریزی اور یورپ کی دوسری زبانوں میں بھی قابل قدر تالیفات وجو د میں آئیں۔ گزشتہ پچاس سال کے عرصہ میں اہل علم نے بیسیوں گرانقدر تصنیفات سے علمی کتب خانوں میں بیش بہا اضافہ کیا۔ قدمائے امت نے جو کتابیں تصنیف فرمائیں، ان کی طویل فہرست راقم الحروف کی کتاب ’’عوارف المنن مقدمۃ معارف السنن‘‘ میں مذکور ہے جو ان شاء اللہ! عنقریب طبع ہوگی۔ اس تیس چالیس برس میں جو ذخیرہ اس موضوع پر مدون ہوا، ان میں چند کتابوں کا نام بطور نمونہ درج ذیل ہے: ۔۱ ۔الحدیث والمحدثون محمد محمد أبوزہو عربی(تاریخ حدیث و محدثین ،مترجم : پروفیسر غلام احمد حریری) ۔۲ ۔السنۃ قبل التدوین محمد عجاج خطیب عربی(تاریخ تدوین سُنت ، مترجم : مولانا حکیم عزیز الرحمن)۔ ۳۔ الأنوارالکاشفۃ شیخ عبدالرحمن یمانی عربی۔ ۴ ۔ظلمات أبی ریہ شیخ محمدعبدالرزاق حمزہ عربی۔ ۵۔ کتاب السنۃ موسیٰ جار اللّٰہ قازانی عربی۔ ۶۔ فی الحدیث النبوی شیخ مصطفی زرقاء شامی عربی۔ ۷۔ تدوین حدیث مولانا مناظراحسن گیلانی مرحوم اردو ۔۸ ۔بصائرالسنۃ مولانا امین الحق صاحب طوری اردو۔ ۔۹ فتنہ انکار حدیث افتخار احمد بلخی اردو۔ ۱۰۔ فتنہ انکار حدیث مولانا سرفراز صاحب اردو۔ ۱۱ ۔سنت قرآن کریم کی روشنی میں مولانا غفارحسن اردو ۔۱۲۔ حدیث قرآن کریم کی نظر میں ازراقم الحروف اردو   ۔ ۱۳۔ احادیث النبی الکریمﷺ پروفیسر روحی اردو۔ ۱۴۔ سنت کا تشریعی مقام مولانا محمدادریس میرٹھی اردو۔ ۱۵ Studies in Early hadith Literature۔ ڈاکٹر مصطفیٰ اعظمی انگریزی ۔مدرسہ عربیہ اسلامیہ کراچی کے درجہ تخصص کے رفقا نے حسب ذیل مقالات کتابی شکل میں مرتب کیے ہیں: الف۔ السنۃالنبویۃ والقرآن الکریم للأستاذ محمد حبیب اللہ المختار    عربی،اردو۔ ب۔ وسائل حفظ الحدیث وجھودالأمۃ فی ذلک ازمولوی عبدالحکیم سلہٹی اردو۔ ج۔ علم مصطلح الحدیث وأسماء الرجال وثمراتہ از مولوی عبدالحق دیروی عربی۔ د۔ کتابۃ الحدیث وأدوارتدوینہ از مولوی محمداسحق سلہٹی اردو۔ ھ۔ الکتب المدونۃ فی الحدیث وأصنافھاوخصا ئصھا از مولوی محمد زماں کلاچوی عربی۔ و ۔الصحابۃؓ ومارووہ من الأحادیث مولوی حبیب اللہ مہمندی عربی یہ چھ کتابیں ابھی تک زیورِ طبع سے آراستہ نہیں ہوئیں، جس وقت امت کے سامنے یہ ذخیرہ آئے  گا دنیا حیرت میں رہ جائے گی۔٭٭٭ اسی قیمتی ذخیرہ کی ایک قابل قدر کتاب الشیخ مصطفی سباعی مرحوم کی تالیف: ’’ السنۃ ومکانتھا فی التشریع الإسلامی ‘‘ اپنے موضوع پر اہم ترین کتاب ہے جو گیارہ سال قبل قاہرہ میں طبع ہوئی تھی۔ مؤلف موصوف اپنے وقت کے بہترین خطیب اور پرجوش صاحب قلم تھے، موصوف نے ازہر سے عالمیت واستاذیت کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے یہ موضوع اختیار کیا  حاشیہ:(۱)    مقالہ شائع شدہ ماہ نامہ دارالعلوم دیو بند ۱۳۵۶ھ تھا، چنانچہ پورے ایک سو مآخذ سے یہ کتاب نہایت فصیح وبلیغ زبان اور شیریں وشگفتہ اسلوب میں تحریر کی۔ یہ کتاب تیس کے قریب بڑے بڑے عنوانات پر مشتمل ہے جن میں سنتِ نبوی ﷺکے ہر گوشہ پر شافی بحث کی گئی ہے، ضمنی بحثیں نہایت عمدہ اور عجیب وغریب آتی ہیں۔ مستشرقین کی خرافات وشبہات کے نہایت مؤثر اور فاضلا نہ ومحققانہ جوابات کتاب کا بہترین اور قیمتی حصہ ہیں، اگر اس کتاب میں اس کے سوا اور کچھ نہ ہوتا تو اس کتاب کی قیمت کے لیے کافی تھا۔     مدرسہ عربیہ اسلامیہ کراچی کے دارالتصنیف نے چاہا کہ اس گنج گراں مایہ کواردو میں منتقل کیا جائے، تاکہ نئی نسل میں یورپ کے پھیلائے ہوئے زہر کے لیے تریاق کا کام دے اور جدید افکار میں سرایت کردہ سمّیت کے لیے اکسیر عظیم اور کبریت احمر ثابت ہو، ترجمہ کے لیے ہمارے مدرسہ کے درجۂ تکمیل کے فارغ التحصیل مولانا احمد حسن ایم اے کاانتخاب کیاگیا اور اس پر مولانا محمد ادریس میرٹھی استاذ حدیث مدرسہ عربیہ کی نظر اصلاحی نے سونے پر سہاگہ کا کام دیا، جلد اول طبع ہوچکی اور جلد دوم عنقریب زیور طبع سے آراستہ ہوگی۔ دعا ہے کہ حق تعالیٰ ہماری نئی نسل کو نئے فتنوں سے بچائے اور شیاطین یورپ ان کی متاعِ ایمانی کو لوٹنے کی جو تدبیریں کر رہے ہیں، اُنہیں خاک میں ملا دے۔ وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ صفوۃ البریۃ سیدنا محمد وآلہٖ وصحبہٖ وبارک وسلم٭٭٭

نوٹ : یہ مضمون کئی دہائی قبل کا ہے اس میں مذکور غیر مطبوعہ کتب میں سے اب تک کافی طبع ہوچکی ہیں۔جیسا کہ ہماری پیش کردہ کتاب کی دوسری جلد بھی اب مطبوعہ ہے۔

 

ڈاکٹر مصطفیٰ سباعی اور محاکمۂ استشراق

ماہنامہ مفاہیم: مولانا معراج محمد

گردشِ ایام اور شامت اعمال کے سبب جب عالم اسلام، یورپی ملکوں کی کالونی بنا تو سیاسی و اقتصادی کے ساتھ ساتھ،اسے عقیدے و نظریے کی سطح پر بھی یلغار کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی مغربی مصنفین نے مشرقی علوم پر تحقیق کی ٹھانی اور ایک شعبۂ علمی’’ استشراق‘‘ وجود میں آ گیا۔ جہاں ایک طرف بہت سارےمسلمان اہل علم، اپنے ’’ فاتحین ‘‘ کی علمیت سے متاثر ہوئے وہیں بعض رجال العلم نے اِن ’’قابضین ‘‘ سے علمی مناقشے کا آغاز کیا۔ اس حوالے سے گزشتہ صدی میں جو نابغۂ روز گار شخصیات اسلامی دنیا میں پیدا ہوئیں ان میں ایک اہم شخصیت ڈاکٹر مصطفیٰ سباعی رحمہ اللہ کی بھی ہے۔آپ علماے سلف کی طرح علم وعمل دونوں میدانوں کے شہسوار تھے۔ شام میں اخوان المسلمین کی بنیاد انھوں نے رکھی تھی مگر ان کا اصل کارنامہ امت کا اپنی تہذیب و ثقافت پر اعتماد بحال کرنا، انھیں اپنے اسلامی تشخص پر فخر سکھانا اور مسلمانوں کے علوم اور تہذیب پر سے مستشرقین کی اڑائی ہوئی گردوغبار صاف کر کے اس کی حقیقی صورت سامنے لانا ہے۔زمانۂ طالب علمی میں ہی آپ نے مستشرقین پر کام شروع کیا اور آغاز ہی میں ان کی علمی کمزوریوں کو بھانپ گئے، جس کی تصدیق بعد کی علمی تحقیقات اور مستشرقین کے ساتھ نجی ملاقاتوں نے بھی کردی۔

اس ضمن میں آپ نے بہت کچھ سپرد قلم کیا۔انھوں  نے اپنی سب سے گراں قدر اور عظیم تصنیف ’’ السنة و مكانتها في تشريع الإسلامي‘‘  (حدیث  رسول ﷺ کا تشریعی مقام ، مترجم : پروفیسر غلام احمد حریری)میں ایک باب مستشرقین کی طرف سے سنت پر اٹھائے گئے اعتراضات و اشکالات کے ازالے کے لیے خاص کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے استشراق اور مستشرقین پر الگ سے بھی کام شروع کیا، مگر کچھ ہی آگے بڑھے تھے کہ زندگی نے ساتھ چھوڑ دیا۔ اس سلسلے میں جو کام ہوا تھا وہ’’المستشرقون:مالهاوما عليها‘‘(اسلام اور مستشرقین ، مترجم : مولانا سلمان شمسی ندوی) کے عنوان سے طبع ہوا ہے۔ جس میں انھوں نے استشراق کی تاریخ اور اغراض و مقاصد کے ساتھ ساتھ انصاف پسند  اورمتعصب مستشرقین کی نشاندہی بھی کی ہے۔ ان کا یہ کام مختصر ہونے کے باوجود بہت اہم ہے۔ انھوں  نے متاثر مغرب زدہ دانشوروں کا اجمالاً ذکر کیا ہےجن میں سرفہرست ڈاکٹر طہ حسین صاحب ہیں، جن کا کہنا ہے کہ ’’عربی ادب کے استاد اور ماہر کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا جب تک وہ فرانسیسیوں کے ان نتائج علم کو نہ دیکھ لے، جن تک وہ مشرقی تاریخ وادب اور مختلف زبانوں کے مطالعے سے پہنچ چکے ہیں۔ اور جب تک ہم اپنے قدموں پر کھڑے ہونے اور اپنے پروں پر اڑنے کے قابل ہو کر تاريخ وادب پر اُن کا علمی غلبہ ختم نہیں کر دیتے،اس وقت تک ہمیں اپنا علم ( تاریخ و ادب اور زبان وغیرہ ) انہی سے لینا پڑے گا‘‘۔ 

ڈاکٹر سباعی صاحب نے اس پر کیا خوب تبصرہ کیا:’’بلا شبہہ یہ ہمارے فکری غلامی کے ادوار کی ترجمانی ہے، جس سے ہم اپنے جدید فکری اور علمی ثقافت کے آغاز میں ہوگزرے ہیں‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے طہ حسین صاحب کی کتاب’’الأدب الجاهلي‘‘کو مرجلیوث(David Samuel Margoliouth) کی آراکا ترجمہ قرار دیا ہے۔ 

ڈاکٹر علی حسن عبد القادر بھی مغرب سے متاثر تھے۔ ڈاکٹر سباعی نے ان کا بھی محاکمہ بھی کیا اور ان کی تصنیف ’’نظرة عامة في تاريخ الفقه الإسلامي‘‘ کو گولڈزیہر (Ignác Goldziher) کی ان تحریروں کا لفظی ترجمہ قرار دیا جو اس کی کتابوں ’’دراسات اسلامیہ‘‘ اور’’العقيدة والشريعة في الإسلام ‘‘میں ملتی ہیں۔

مصطفی سباعی صاحب نے ڈاکٹر حسن عبدالقادر صاحب کے ساتھ اپنے کالج کے دور کا ایک واقعہ بھی زیب قرطاس کیا ہے۔ جو ہمارے مغرب زدہ طبقے کی پوری عکاسی کرتا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ علی حسن عبدالقادر صاحب جرمنی سے نئے نئے پی ایچ ڈی کرکے آئے تھے۔جامعہ ازہر میں شیخ مراغی کے دور میں انھیں ہمیں تاریخِ تشریعِ اسلامی پڑھانے کے لیے مقرر کیا گیا۔سباعی صاحب لکھتے ہیں کہ حسن عبدالقادر صاحب کی پہلی گفتگو کچھ اس طرح تھی’’ میں تمھیں تاریخِ تشریعِ اسلامی ایسے منفرد علمی انداز سے پڑھاوں گا جس سے ازہر کا کوئی واسطہ بھی نہیں ہوگا۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں نے ازہر میں چودہ سال پڑھا ہے مگر اسلام مجھے سمجھ نہیں آیا۔ میں نے اسلام کو جرمنی میں طالب علمی کے زمانے میں سمجھا‘‘۔ہم طلبہ عالم حیرت میں آپس میں کہتے کہ شاید ہمارے استاد صاحب کوئی ایسی بات جرمنی سے لائے ہوں جس سے ازہر کا کوئی تعلق نہ ہو! بہرحال؛انھوں نے اپنے سامنے رکھی ہوئی ایک ضخیم کتاب سے ترجمہ کرتے ہوئے سنت نبوی کی تاریخ پڑھانی شروع کی۔ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ یہ گولڈ زیہر (Ignác Goldziher) کی’’دراسات ِ اسلامیہ‘‘ہے جس کی عبارات نقل کر کے ہمارے استاد صاحب اس سےعلمی حقائق باور کراتے ہیں۔ بہرحال اس طرح سلسلۂ درس جاری رہا اور ہم طلبہ اپنے مبلغِ علم کی حد تک ان کے ساتھ مناقشہ بھی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ انھوں نے امام زہری رحمہ اللہ پر امویین کے لیے حدیث گھڑنے کا الزام لگا دیا۔ ہم نے عرض کیا کہ وہ تو سنت کے امام ہیں، علماء کا مرجع ہیں، مگر وہ اپنی بات پر مصر رہے۔آخرکار میں نے ان سے گولڈ زیہر (Ignác Goldziher) کی امام زہری سے متعلق پوری تحقیق کا ترجمہ کرنے کا مطالبہ کیا جسے استاد صاحب نے منظور کیا اور متعلقہ حصہ دو، ورقوں میں ترجمہ کرکے مجھے دیا۔ اب میں مختلف مکتبوں میں جاکر امام زہری کی سیرت اور اس مشتشرق کے لگائے گئے الزامات کی تحقیق کرتا رہتا۔ اس دوران مکتبہ ازہر اور دارالکتب المصریہ میں کوئی کتاب یا مخطوطہ نہیں چھوڑا، جس میں سے میں نے امام زہری سے متعلقہ مواد جمع نہ کیا ہو۔میں کالج کے سبق کے اوقات کے بعد سے رات گئے تک اس کام میں مشغول رہتا، یہاں تک کہ تین ماہ گزر گئے۔جب پوری معلومات جمع ہوگئی تو میں نے اپنے استاد صاحب سے عرض کیا کہ گولڈ زیہر نے امام زہری سے متعلق عبارات میں تحریف کی ہے اور ان کی عبارات نقل کرنے میں خیانت سے کام لیا ہے، مگر جناب استاد کا جواب تھا:’’مستشرقین اور خصوصاً گولڈ زیہر انصاف پسند لوگ ہیں، وہ نصوص اور حقائق میں تبدیلی نہیں کرسکتے‘‘۔

تب میں نے جمعية الهداية الإسلامية میں اس موضوع پر محاضرے کا اہتمام کیا۔ ادارے نے ازہری علماء اور طلبہ کو بھی شرکت کی دعوت دی،حاضری بھرپور رہی۔ اپنے استاد حسن عبدالقادر صاحب کو بھی میں نے شرکت کی دعوت دی اوراپنی معروضات پر رائے کے اظہار کی درخواست کی تھی، چنانچہ انھوں نے   یہ دعوت قبول کی اور تشریف لے آئے۔جب میں نے گفتگو کا اختتام ان الفاظ میں کیا: ’’ اس مسئلے میں میری یہ رائے ہے اور یہی رائے ہمارے علماء کی بھی ہے۔ اگر ہمارے استاد حسن عبدالقادر صاحب اس پر مناقشہ کرنا چاہتے ہیں تو ان سے تشریف آوری کی درخواست ہے‘‘۔  ڈاکٹر صاحب نے اسٹیج پر تشریف لاکر برسرمجلس فرمایا: ’’ میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نہیں جانتا تھا زہری کون ہیں،حقیقت یہ ہے کہ میں نے زہری کو ابھی پہچانا ہے،مجھے آپ کی معروضات پر کوئی اعتراض نہیں‘‘ اور مجلس برخاست ہوگئی۔ 

کتاب کا سب سے اہم حصہ وہ ہے جس میں ڈاکٹر سباعی صاحب نے مستشرقین کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کی روداد بیان کی ہے، لکھتے ہیں:’’ پہلے میری ملاقات جامعہ لندن کے پروفیسر اینڈرسن سے ہوئی۔ یہ پروفیسر صاحب ہمارے کٹر مسلکی طبقے کی طرح ٹھیٹھ مقلد واقع ہوئے تھے۔ کہنے لگے کہ میں نے ایک فاضل ازہر کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے نااہل اس لیے قرار دیا کہ اس نے اپنے مقالے میں اس بات پر دلائل پیش کیے تھے کہ اسلام عورت کو اس کے پورے حقوق دیتا ہے۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا: ’’آخر آپ اسے کیسے نااہل کر سکتے ہیں جبکہ آپ لوگ اپنی جامعات میں آزادیٔ فکر کے دعوےدار ہیں‘‘؟پروفیسر نے جواب دیا:’’کیونکہ وہ از خود ثابت کرنا چاہتا تھا کہ اسلام نے عورت کو فلاں فلاں حقوق دیے ہیں، تو کیا وہ اسلام کا کوئی مستند ترجمان تھا؟ کیا وہ ابوحنیفہ یا شافعی تھا کہ اسلام کا ترجمان بنا ہوا تھا؟مزید یہ کہ اس کے نتائج کی تائید میں فقہاء کی تصریحات موجود نہیں تھیں۔ وہ آدمی خود پسندی کا شکار تھا جس کو ابوحنیفہ اور شافعی سے بڑھ کر اسلام سمجھنے کا زعم تھا‘‘۔

ڈاکٹر مصطفیٰ سباعی صاحب جب آکسفورڈ پہنچے تو وہاں شعبہ ٔاسلامیات کا سربراہ ایک یہودی تھا جو ٹھیک سے عربی نہیں بول سکتا تھا۔ ڈاکٹر سباعی صاحب کو حیرت ہوئی کہ یہ صاحب طلبہ کو ز مخشری کی کشاف سے قرآنی آیات، بخاری و مسلم سے احادیث، حنفی اور حنبلی فقہ کی امہات کتب فقہ کی تدریس کر رہے تھے جبکہ وہ کسی عام رسالے سے عربی عبارت سمجھنے پر قادر نہیں تھے۔ڈاکٹر صاحب نے جب ان سے مطالعہ کے مآخذ کا پوچھا  تو گولڈ زیہر(IgnácGoldziher)،  مرجلیوث(David Samuel Margoliouth) اور شاخت(Joseph Schacht) کا حوالہ دیا۔لیڈن(نیدر لینڈ)  میں ڈاکٹر صاحب کی ملاقات معروف جرمن یہودی مستشرق شاخت سے ہوئی۔ جب گولڈ زیہر کی غلطیوں کا انھیں بتایا گیا توپہلے تو وہ مانے ہی نہیں لیکن دلائل اور مثالوں سےبات واضح ہونےکے بعد انھوں  نے ’’ حق آپ کے پاس ہے،گولڈ سے غلطی ہوئی ہے‘‘۔ڈاکٹر سباعی نے کہا:’’ کیا یہ محض غلطی ہے؟‘‘، مسٹر شاخت نے جواب دیا:’’آپ خواہ مخواہ کیوں بدگمانی کرتے ہیں‘‘۔ جب مزید شواہد پیش کیے گئے تو مسٹر شاخت پر غصے کے آثار نظر آنے لگے اور ہاتھ ملنے لگے۔ڈاکٹر صاحب نے گفتگو کےاختتام پر ان سے کہا۔ ’’ پہلے کوئی مستشرق غلطی کرتا تو عموما ہم اس کے انتقال کے بعد ہی اس کی غلطی پکڑ پاتے۔ جب تک وہ غلط بات نقل درنقل کے بعد علمی حقیقت کا روپ دھار چکی ہوتی۔ اب ہم غلطی پکڑنے میں جلدی کرنے لگے ہیں،اب آپ زندگی میں ہی اس کا تدارک کرلیں ‘‘۔ اسی ملاقات میں ڈاکٹر صاحب نے مسٹر شاخت  کو آگاہ کیا کہ اب آپ جلد از جلد اپنے اسلاف کی اغلاط کا  تدارک کیجیے۔

انھوں نے ایک اور بہت انوکھا واقعہ بیان کیا ہے۔ ڈاکٹر امین مصری نے (جو ازہر کے شعبۂ اصولِ دین کے فاضل تھے) جامعہ لندن سے شاخت پر تنقیدی مقالہ لکھنا چاہا تو انھیں اجازت نہیں ملی۔ پروفیسر اینڈرسن نے صاف انکار کیا، وہ وہاں سے مایوس ہوکر کیمبرج چلے گئے۔ وہاں انھیں صاف کہا گیا کہ اگر ڈاکٹریٹ کی ڈگری میں کامیابی چاہیے تو مسٹر شاخت پر تنقید سے بچ کر رہنا ہوگا، کیونکہ جامعہ اس کی اجازت نہیں دے گی۔تب انھوں نے اپنا موضوع بدل لیا۔

کتاب کے آخری حصے میں ڈاکٹر صاحب نے اس خواہش کا بھی اظہار کیا ہے کہ اگر ہمارے کچھ لوگ مستشرقین کے کام کا اس طرح سے ناقدانہ جائزہ لیں جس طرح انھوں نے ہمارے اسلاف کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ پھر مستشرقین اس کام کو دیکھیں تو انھیں اندازہ ہوسکے کہ جو طریقہ انھوں نے ہمارے دین اور تاریخ میں حقائق دریافت کرنے کے لیے وضع کیا ہے اس سے کیسے نتائج نکلتے ہیں اور اس طرح ان کے ہوش ٹھکانے آجائیں۔

آج بھی ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کے لوگ حسن عبد القادر صاحب کی طرح اس غلط فہمی  کا شکار ہیں کہ مستشرقین؛ غیر جانب دار، منصف مزاج اور معتدل ہوتے ہیں، اور ان کا رویہ خالص علمی ہوتا ہے، مگر حقائق اس کے بر خلاف ہیں، اور استشراق کا گہرا مطالعہ کرنے والے تقریباً تمام اہلِ علم اسی نتیجے پر پہنچے ہیں جو ڈاکٹر سباعی صاحب نے بیان کیا ہے۔

 

 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔