ترجمہ قرآن شیخ الہندؒ
کے تناظر میں اک علمی مکالمہ
٭انتساب ٭
٭بنام حضرت شیخ الہندمحمود حسن دیوبندیؒ ٭
جن کی ادائے " رسم ِ شبیری" کی بناءپر جنوبی ایشیاء کے
اربوں انسان"آزادی " کی فضاء میں سانس لے رہے ہیں۔
جن کی تجدیدِ تحریک " رجوع الی القرآن " کی مخلصانہ مساعی کی بدولت لاکھوں فرزندانِ توحید کے دلوں میں " قرآن فہمی " کی شمع روشن ہے۔
؎ستارہ حرف بناتے ہیں خواب لکھتے ہیں
تمھارے نام پر اک انتساب لکھتے ہیں۔
" بانجھ فکری" کا لٹمس ٹیسٹ(litmus test)
ہمارے گروپ لیڈر گاہے بگاہے ایسی شُرلیاں چھوڑتے رہتے جو کہیں نا کہیں سےانھیں "ٹوٹوں " کی صورت میں ہاتھ لگ جاتی ہیں ۔ یوں بظاہر ان کاگمان ہوتا ہے کہ وہ بڑی بلند فکری کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور شعور کےکسی بحرِ بے کراں میں غوطہ زن ہیں ، مگر حقیقتِ حال یوں ہوتی ہے کہ وہ کسی " لنڈے بازار کی اُترن" یا پرانے بے اعتدال کی " اُگلی" ہوتی ہے ۔ کوئی نئی تنقید یا نظریہ محال ہے جو کبھی خود پیش کر سکیں ،،،،، ہمیں " تقلیدِ آباء" کا طعنہ دینے والے ،خود بے راہ روی سے ہر" ایرے غیرے نتھو خیرے" کی آنکھ ، کان بند کیئےقدم بہ قدم پیروی کیئے جاتے ہیں۔ سلیم احمد نے کیا خوب کہا ہے؎
گمرہوں سے مت پوچھو کتنی دور آئے ہیں
ایسے چلنے والوں کو فاصلا نہیں لگتا
ایک اجنبی کے ساتھ کہاں نکل آیا
یہ تو میری بستی کا راستا نہیں لگتا
نوٹ: یہ تحریر اپنے یارانِ مکتب کے گروپ کے لیئےلکھی گئی ہیں اس لیئے اس میں کہیں کہیں " بے تکلفی" بھی دَر آئی ہے ، جن کا عام قارئین سے کوئی تعلق نہیں ، بس اُ ن الفاظ کو اسی خصوصی تناظر تک محدود رکھیئے گا۔
مورخہ 20۔07۔2021 کو یارانِ مکتب کے واٹس ایپ گروپ میں بڑے" دھوم دھڑکے اور دھڑلے "سے زیر ِ نظر" انکشاف" فرمایا گیا
"( یہ اوپر سورہ بقرہ کی آیت 229 اور 230 ہیں ، یہ ترجمہ ہے مولانا محمود الحسن صاحب کا جو دیوبندیوں کے شیخ الہند ہیں ،ان دونوں آیات کے ترجمہ میں براہ راست معنوی تحریف کی گئی
ہے۔
پہلی آیت میں انہوں نے ؛ الطلاق مرتان؛ کا ترجمہ کیاہے ؛طلاق رجعی ہے دوبار تک ؛ اس میں دو لفظ ؛رجعی؛ اور؛ تک؛ آیت کے کسی لفظ کا ترجمہ نہیں ہیں، قوسین لگاتے تو پتہ چلتا کہ یہ مترجم کے اپنے الفاظ ہیں، قوسین نہیں لگائے تو یہ براہ راست قرآن کا ترجمہ ہوگیا جبکہ قرآن میں ایسا کوئی لفظ نہیں، قرآن نے تو سرے سے رجعی کا لفظ استعمال ہی نہیں کیا، رجعی کا لفظ تو ایجاد ہی بعد کی ہے۔ یہ کتنی بڑی جسارت ہے کہ اپنے الفاظ قرآن میں ڈال دیے، تحریف اور کس کو کہتے ہیں، ان سے تو بہتر وہ مترجمین رہے جنہوں نے کم از کم قوسین ڈال کر یہ تو واضح کردیا کہ یہ ہم اپنی طرف سے کہہ رہے ہیں، لیکن شیخ الہند صاحب نے تو حد ہی کردی کہ اپنے الفاظ کو قرآن بناکر پیش کردیا۔
آگے آیت ۱۳۰ میں دیکھیں ؛ فان طلقھا ؛ کا ترجمہ کیاہے ؛پھراگرعورت کو طلاق دی یعنی تیسری بار؛ یہاں بھی انہوں نے وہی کام کیا جواوپرکی آیت میں کیا ہے، ؛ یعنی تیسری بار؛ یہ قرآن کے کن الفاظ کا ترجمہ ہے ؟ یہاں بھی یہ واضح تحریف ہے۔
اگر قوسین ڈالتے تو بھی تحریف ہی تھی لیکن اس سے کم ازکم یہ تو واضح ہوتا کہ یہ الفاظ مترجم نے اپنی طرف سے ملائے ہیں لیکن بغیر قوسین کے ترجمہ میں اپنی طرف سے اضافی الفاظ کو قرآن بناکر پیش کردیا گیا جو کتاب خدا پر زیادتی ہے۔
شیخ الہند صاحب کے ہاتھ کا لکھا ہوا مسودہ ہمارے سامنے نہیں اس لیے ہم نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے خود ایسے کیا ہے یا یہ بعد والوں کی کارستانی ہے، جو صورت بھی ہو یہ بہرحال تحریف ہے۔
پہلی آیت میں ؛ رجعی؛ کا لفظ نہ ڈالتے تو ترجمہ سے ہی واضح ہوجاتا کہ طلاقیں صرف دوہیں اور یہ بات مترجم صاحب کے مزعومہ نظریہ کے خلاف تھی اس لیے یہاں قرآن کو اپنے نظریہ کے مطابق بنادیا۔
دوسری آیت میں اگر ؛ یعنی تیسری بار؛ کے الفاظ نہ بڑھاتے تو ترجمہ سے واضح تھا کہ ؛ فان طلقھا؛ کا تعلق ؛ الطلاق مرتان ؛ سے نہیں بلکہ :فیماافدت بہ ؛ کے ساتھ ہے، اس صورت میں ان کا تین طلاق والا محل دھڑام سے نیچے گر جاتا، لہذا اپنے تعمیر کردہ محل کو قائم رکھنے کے لیے ترجمہ قرآن میں تحریف کردی ۔
یہود نے اپنی کتاب میں جو تحریف کی تھی وہ یہ تھی کہ تورات کے الفاظ و کلمات اور آیات کی جگہ بدل دیتے تھے ، کلمات کو آگے پیچھے کردیتے تھے؛ یُحرفون الکلم عن مواضعہ ؛ لیکن انہوں نے یہ خیانت و جسارت نہیں کی کہ الفاظ کا ترجمہ غلط کریں، جب تحریف ہی کرنی تھی تو براہ راست کتاب الہی کے کلمات میں کی جائے تاکہ پڑھنے والے کو یہ تو یقین ہوگا کہ یہ خدا ہی کے الفاظ ہیں، لیکن ہمارے مسلم علماء چونکہ یہ کام اس لیے نہیں کرسکتے تھے کیونکہ قرآن کی حفاظت اللہ نے اپنے ذمہ لے رکھی تھی اگر ایسا کرتے تو پکڑے جاتے اور لوگ انہیں دائرہ اسلام سے ہی خارج کردیتے لہذا وہ قرآن کے الفاظ تو نہ بدل سکے لیکن جابجا کسی نے قوسین لگا کر اور کسی نے بغیر قوسین کے ہی اپنے الفاظ ترجمہ قرآن کے ساتھ ملا دیے اور یوں معنوی تحریف کے مرتکب ہوئے، ؛ رہے رند کے رند اور جنت بھی ہاتھ سے نہ گئی؛ ۔
یہ حال تقریباً تمام ہی مترجمین کا ہے، مجھے کوئی ترجمہ ایسا نہیں ملا جس میں قوسین لگا کر اضافے نہ کیے گئے ہوں، یا بغیر قوسین کے ہی اپنے الفاظ کو قرآن بناکر پیش کیا گیا ہو۔
یہ بغیر قوسین والا کام زیادہ تر شیخ الہند محمود الحسن اور اعلی حضرت مولانا احمد رضا خان کے ترجموں میں ہے، اور یہ دونوں حضرات اپنے اپنے فرقہ کے بانی اور سر خیل ہیں ، ان کا فرمایا ہوا ان کے متبعین کے نزدیک فرمان رسول کی طرح ہے بلکہ ترجمہ قرآن کو دیکھیں تو ان کا فرمودہ تو فرمودہ خدا ہے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
مفتی محمد فاروق عمر علوی")
اب آئیے اس تحریر کا تجزیہ کر کے معترض کا مقدمہ دیکھتے ہیں۔
(1) " قرآن نے تو سرے سے رجعی کا لفظ استعمال ہی نہیں کیا، رجعی کا لفظ تو ایجاد ہی بعد کی ہے" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔صاحبِ تحریر کا دعوی " رجعی " کا لفظ قرآن میں نہیں !
(2) " دوسری آیت میں اگر ؛ یعنی تیسری بار؛ کے الفاظ نہ بڑھاتے تو ترجمہ سے واضح تھا کہ ؛ فان طلقھا " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تین طلاق والا محل دھڑام سے نیچے گر جاتا، لہذا اپنے تعمیر کردہ محل کو قائم رکھنے کے لیے ترجمہ قرآن میں تحریف کردی" ۔ مطلب ۔۔۔۔۔۔۔۔قرآن میں تیسری طلاق کا ذکر نہیں !
(3) "قرآن میں معنوی تحریف کردی"۔۔۔۔۔۔۔۔!
(4) "ان کا فرمایا ہوا ان کے متبعین کے نزدیک فرمان رسول کی طرح ہے بلکہ ترجمہ قرآن کو دیکھیں تو ان کا فرمودہ تو فرمودہ خدا ہے"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
٭آئیے ان 4 الزامات کا علمی جائزہ لیتے ہیں٭
نامعلوم یہ دھوکہ دہی " محرر " کی ہے یا یہ مستی"گروپ موڈریٹر" کی ہے کہ متنِ قرآن یعنی عربی آیات تحریر میں دی ہی نہیں گئ۔کیونکہ آیات کے درج کرنے سے نیچے کیئے گئے دعوے ریت کی دیوار ثابت ہونے تھے۔۔۔۔۔۔۔
٭سب سے پہلے زیرِ بحث سورہ بقرہ کی آیات پیش کرتے ہیں
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَاِمْسَاكٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌ بِاِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ شَيْئًا اِلَّآ اَنْ يَّخَافَـآ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّـٰهِ ۖ فَاِنْ خِفْتُـمْ اَلَّا يُقِيْمَا حُدُوْدَ اللّـٰهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْـهِمَا فِيْمَا افْتَدَتْ بِهٖ ۗ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّـٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا ۚ وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّـٰهِ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الظَّالِمُوْنَ (229)
فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَـهٝ مِنْ بَعْدُ حَتّـٰى تَنْكِـحَ زَوْجًا غَيْـرَهٝ ۗ فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَآ اَنْ يَّتَـرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّـآ اَنْ يُّقِيْمَا حُدُوْدَ اللّـٰهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّـٰهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ (230)
٭لفظ "رجعی " کا مادہ “root” " ر ج ع " کے حروف ہیں اس سے بننے والے الفاظ مختلف صیغوں
“ forms میں قرآن میں 51 مرتبہ کم و بیش آیا ہے ۔([1] )
اب اس سوال کا جواب بھی لیجیئے کہ کیا طلاق کے معاملہ میں "رجع " کا لفظ قرآن میں آیا ہے کہ نہیں؟ تو مزے کی بات ہے کہ 229 نمبر آیت سے بالکل اگلی آیت 230 میں یہ لفظ " یتراجعا" آیا ہے ۔ جب ہی ہم نے نشاندہی کی کہ معترضہ تحریر میں جان بوجھ کرآیات نہیں دی گئی تھی کیونکہ اس سے " رجعت " کے قرآنی لفظ نہ ہونے کا دعوی نہایت لغو اور سراسر دھوکہ دہی پر مبنی ہے۔
٭ علامہ راغب اصفہانی مشہور فقیہ، مفسر اور لغوی تھے۔([2])۔ اپنی کتاب مفردات القرآن میں " ر ج ع " کی تشریح و تفصیل کرتے ہوئے رقم کرتے ہیں "ر ج ع
اَلرُّجُوعُ: اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے مبدأ حقیقی یا تقدیری کی طرف لوٹنے کے ہیں ۔ خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتِہ ہو یا باعتبار جزؤ کے اور یا باعتبار (فعل کے ہو) الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رَجْعٌ کے معنی لوٹانے کے اور رَجْعَةٌ کا لفظ طلاق کے بعد رجوع کرنے یا موت کے بعد دنیا کی طرف لوٹنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چنانچہ محاورہ ہے:۔۔۔۔ فُلَانٌ يُؤْمِنُ بِالرَّجْعَةِ: فلاں رجعت پر ایمان رکھتا ہے اور رِجَاع کا لفظ خاص کر پرندے کے اپنی جماعت سے علیحدہ ہونے کے بعد واپس اس طرف لوٹ آنے پر بولا جاتا ہے چنانچہ رجوع کے معنی میں فرمایا:
لَىِٕنْ رَّجَعْنَآ اِلَى الْمَدِيْنَةِ (63: 8) اور یہ منافق کہتے ہیں کہ اگر مدینے لوٹ کر گئے۔
فَلَمَّا رَجَعُوْٓا اِلٰٓى اَبِيْهِمْ (12: 63) تو جب (یہ لوگ ) اپنے والد کے پاس لوٹ کر گئے۔
وَلَمَّا رَجَعَ مُوْسٰٓي اِلٰى قَوْمِهٖ (7: 150) اور جب موسیٰ علیہ السّلام اپنی قوم کی طرف لوٹے۔
وَاِنْ قِيْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا (24: 28) اور اگر تم سے کہا جائے کہ لوٹ آؤ تو (بے تامل) لوٹ آؤ۔ رَجَعْتُ عَنْ كَذَا: میں نے فلاں بات سے رجوع کر لیا رَجَعْتُ الْجَوَابَ: (متعدی) جواب دینا جیسا کہ قرآن پاک میں ہے :
فَاِنْ رَّجَعَكَ اللّٰهُ اِلٰى طَآىِٕفَةٍ (9: 83) اگر خدا تم کو (جہاد پر سے ان منافقوں کے) کسی گروہ کی طرف (صحیح و سلامت) لوٹا کر لے جائے ۔
اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ (11: 4) تم (سب) کو اللہ کے پاس لوٹ کرجانا ہے۔
اِنَّ اِلٰى رَبِّكَ الرُّجْعٰى (96: 8) بےشک (ان سب کو) تمہارے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔ اور آیت کریمہ:
اِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ (10: 4) اسی کی طرف تمہیں لوٹ کر جانا ہے ۔
مَرْجِعٌ رُجُوْعٌ سے بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ آیت: (ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ (2: 28) پھر اس کی طرف لوٹ کر جائیں گے ۔
میں ہے اور رَجْعٌ (متعدی) سے بھی ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ اس آیت میں ایک قرأت : (ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ (2: 28) پھر اس کی طرف لوٹائے جاؤگے۔ بھی ہے اور آیت کریمہ:
وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ اِلَى اللّٰهِ (2: 281) اور دیکھو اس دن (کی پرسش) سے ڈرو جب کہ تم اللہ کے حضور میں لوٹائے جاؤ گے۔
میں ایک قرأت تَرْجِعُوْنَ (بصیغۂ معروف) بھی ہے۔ اور آیت کریمہ:
لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ (43: 28) کہ (اب بھی) یہ لوگ باز آجائیں ۔
میں رَجُوْعٌ عَنِ الذَّنْبِ: یعنی گناہ سے باز آجانا مراد ہے اسی طرح آیت :
وَحَرٰمٌ عَلٰي قَرْيَةٍ اَهْلَكْنٰهَآ اَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ (21: 95) کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کے لیے ممکن نہیں ہے کہ توبہ کرکے شرک و کفر یا گناہوں سے باز آجائیں کیونکہ مرنے کے بعد توبہ نہیں ہے اسی بنا پر منافقین کو استہزاء کے طور پر کہا جائے گا ۔
ارْجِعُوْا وَرَآءَكُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًا ۭ (57: 31) (الایۃ) تو (ان سے کہا جائے گا) کہ (نہیں) اپنے پیچھے (یعنی دنیا) کی طرف لوٹ جاؤ اور (وہاں) کوئی اور روزنی تلاش کرو ۔
یعنی توبہ کر کے ایمان لاؤ جو اس روشنی کا سبب ہے۔ اور آیت کریمہ:
بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ (27: 35) کہ ایلچی کیا لر کر آتے ہیں ۔
میں يَرْجِعُ رجوع سے بھی ہوسکتا ہے اور رَجْعَ الْجَوابِ سے بھی جیسا کہ فرمایا:
يَرْجِــعُ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضِۨ الْقَوْلَ (34: 31) اور ایک کی بات ایک رد کر رہا ہوگا ۔
اور آیت کریمہ:
ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانْظُرْ مَاذَا يَرْجِعُوْنَ (27: 28) پھر ان سے (الگ) ہٹ جا۔ اور دیکھتا رہ کہ لوگ کیا جواب دیتے ہیں ۔
میں يَرْجِعُونَ رَجَعَ الْجَوَابَ سے ہے نہ کہ رجوع سے اور آیت کریمہ:
وَالسَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجْعِ (86: 11) اور پانی برسانے والے آسمان کی قسم ۔
میں رَجْعٌ کے معنی بارش کے ہیں اور بارش کو رَجْعٌ اس لیے کہا گیا ہے کہ اولاً سمندروں سے بخارات بن کر پانی اوپر چلا جاتا ہے اور پھر ہوا بارش کی صورت میں انہیں زمین پر واپس لے آتی ہے اور تالاب کو بھی رَجْعٌ کہا جاتا ہے یا تو اس لیے کہ اس میں بارش کا پانی جمع ہوتا ہے اور یا اس لیے کہ اس کی لہروں میں تلاطم ہوتا رہتا ہے محاورہ ہے: لَيْسَ لِكَلَامِهٖ مَرْجُوْعٌ: اس کی بات کا جواب نہیں ۔
دَآبَّةٌ لَّهَا مَرْجُوعٌ : وہ جانور جسے استعمال کے بعد بیچنا ممکن ہو ۔
نَاقَةٌ رَاجِعٌ: اونٹنی جو جفتی سے حاملہ نہ ہو گویا وہ نر کے نطفہ کو واپس لوتا دیتی ہے ۔
اَرْجَعَ يَدَهٗ اِلىٰ سَيْفِهٖ: اس نے تلوار سونتنے کے لیے ہاتھ کو واپس لوٹا یا۔
اَلْاِرْتِجَاعُ: (افتعال) واپس لے لینا۔ اِرْتَجَعَ اِبِلًا۔ نر شتر بیچ کر ان کے عوض مادہ شتر خریدنا اس میں اگر چہ بعینہ چیز کو لوٹانے کے معنی نہیں پائے جاتے لیکن پہلی تقدیر اً واپس لوٹانے کے معنی ملحوظ ہیں ۔
اِسْتَرْجَعَ فُلَانٌ۔ اِنَّا للهِ وَاِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ کہا ۔
اَلرَّجِيْعُ: (1) غنایا قرأت کے وقت آواز کو حلق میں لوٹانا ۔
(2) کوئی بات دوبارہ کہنا، اسی سے ترجيع فى الاذان ہے جس کے معنی اذان میں شہادتین کو ایک مرتبہ پست آواز سے کہنے کے بعد دوبارہ بلند آواز سے کہنے کے ہیں ۔
اَلرَّجِيْعُ: (1) انسان یا چوپایہ کا فضلہ، اسے اگر رجوع سے مانا جائے تو فعیل بمعنی فاعل ہوگا اور اگر رَجْعٌ (متعدی) سے مانا جائے تو فعیل بمعنی مفعول ہوگا ۔
جُبَّةٌ رَجِيْعٌ: وہ جبہ جسے ادھیڑ کر دوبارہ سلا گیا ہو ۔
(2) نیز رجیع اس سواری کو کہتے ہین کہ جو ایک سفر سے واپس آنے کے بعد متصل ہی دوسرے سفر پر چلی جائے اس کی مؤنث رَجِيْعَةٌ ہے اور کنایہ کے طور پر کثرت اسفار کی وجہ سے لاغر اور دبلی سواری کو بھی دابۃ رَجيع وَرَجْعُ سَفْرٍ کہہ دیتے ہیں ۔
(3) نیز مکرر کلام کو بھی رَجِيْعٌ کہا جاتا ہے۔
(4) وہ کلام جو بوجہ کراہت متکلم کی طرف لوٹادی جائے اسے بھی رَجِيْعٌ ہی کہا جاتا ہے ۔
( مأخوذ از : مفردات القرآن(اردو ) جلد اول ، تصنيف : امام راغب اصفہانی ، ترجمہ وحَواشِی : شیخ الحدیث مولانا محمد عبدُہ فیروز پوری رحمہ اللہ )
یہی قرآنی لفظ عربی سے اردو کے ذخیرہ الفاظ میں آیا، بہت معروف جملے آپ نے سُنے ہوں گے "ہمیں رجوع الی اللہ کرنے کی ضرورت ہے" یا " رجوع الی القرآن کی دعوت کو عام کرنا ہے " ۔ ہر زبان میں لفظ اپنے پس منظر “reference to the context” کے اعتبار سے معنی دیتا ہے اسی وجہ سے دوسری زبان میں ترجمہ کرتے وقت کبھی صرف لفظی ترجمہ کام دیتا ہے کبھی بامحاورہ مگرکبھی اپنے پس منظر کے اعتبار سے اصطلاحی ترجمہ کو دوسری زبان میں بھی “terminology” ہی میں کرنا لازمی ہوتا ہے قرآن کریم اسلام کی ترجمان اور مآخذ کتاب ہے ، اس کی اپنی شریعت ہے ، قانون ہے ، اک اصطلاحی زبان ہے ، ،،،،،،،،،،،،،،، ان اصطلاحات کا ترجمہ "قطعاً لفظی " نہیں ہو سکتا خصوصاً جب آپ قرآن کا بامحاورہ ترجمہ کریں گے تو لا محالہ " قرآنی " اصطلاح کا ترجمہ " اصطلاح " ہی میں ہوگا ۔
٭٭٭اب آئیے " رجعی " اور " طلاق " کے باہمی تعلق کو دیکھتے ہیں !!! حضرت شیخ الہند محمود حسن نے آیت 229 میں طلاق کے ساتھ" رجعی" کیوں ترجمہ کیا ہے ؟؟؟؟
لفظ " طلاق " قرآن کریم میں اپنے مختلف صیغوں (forms ) میں 14 بار آیا ہے۔
سورہ بقرہ 10۔سورہ طلاق 2۔سورہ احزاب 1۔سورہ تحریم 1، میں آیا ہے
٭ایک پوری سورت کا نام ہی " طلاق " ہے ۔
لفظ "طلاق ایک اصطلاح ہے"۔ اس کا لغوی معنی تو عربی میں " آزاد کرنے " کے ہیں۔مشہور لغت المعانی میں درج ہے
" طلاق(اسم) : آزادی ، رہائی ، چھٹکارا "([3])
یہ تو "الفاظ معنی "کے اعتبار سے ترجمہ ہے مگر کیا اس ترجمہ یا معنی کو اردو زبان میں قرآن کا ترجمہ کرتے وقت لکھا جائے گا یا پھر جو" طلاق" کے شرعی معنی ہیں جو کہ بطور " اصطلاح " استعمال ہوا ہے اس معنی کو لیا جائے گا اور اسی کے مطابق ترجمہ کیا جائے گا۔یعنی " شرعا مخصوص الفاظ کے ذریعہ زوجین کے درمیان قائم رشتہ زواج یا قید نکاح کو ختم کر دینا"([4])
قرآن، دینِ اسلام کی کتاب ہے اس کے مفسر کو ترجمہ کرتے وقت خوب پرکھ کر لفظ کا انتخاب کرنا ہوتا ہے کیونکہ اس لفظ کا خاص پس منظر ہوتا ہے ، لغت و گرائمر کے حساب سے صحیح ترین لفظ چننا ہوتا ہے ۔اب یہیں رُکیئے اور ذرا لغوی ترجمہ کیجیئے
٭الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ:
آزادی دو بار ہے !!!
کچھ پَلے پڑا قرآن کا ترجمہ ؟
ہم آپ کو بَرملا چیلنج دیتے ہیں، دنیا کی کسی زبان میں قرآن کا یہ ترجمہ ہو تو دکھائیے حالانکہ یہ “excat word meaning” کے اعتبار سے “perfect translation” ہے مگر قرآن کریم کے اعتبار سے بالکل غلط اور بھونڈا ترجمہ ہے ۔ آپ" اسلامی تصور ِ طلاق " کے بڑے سے بڑے مخالف کو لے آئیے وہ اس قرآنی لفظ "طلاق " کا ترجمہ " طلاق" ہی کرے گا،،،،، اس کی وجہ ؟؟؟
کیونکہ یہ ایک " اصطلاح ِ شرعی " ہے ۔ لہذا اس کا صحیح ترجمہ "اصطلاحی " ہوگا !!!!
٭لغوی ترجمہ کی اک بہترین مثال:" فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ نے ان تمام دشمنوں کو معاف فرمادیا جنھوں نے چند ماہ نہیں متواتر 13سال تک مکہ میں آپ پراور آپ کے صحا بہ کرامؓ پر عرصۂ حیات تنگ کررکھا ۔طرح طرح کی اذیتیں اور تکلیفیں پہنچائی تھیں۔ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے تھے اور آپ کو اپنا محبوب وطن چھوڑنے پر مجبور کردیا تھالیکن جب مکہ فتح ہوتا ہے تو نبی کریم ہزاروں جانثار صحا بہ کرام ؓ کے جلو میں حمد باریٔ تعالیٰ کی نغمہ سرائی کرتے ہوئے سرزمینِ حرم میں داخل ہوتے ہیں ۔سب سے پہلے بیت اللہ شریف تشریف لاتے ہیں،دوگانہ نماز ادا کرتے ہیں،اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتے ہیں، صحنِ حرم دشمنانِ اسلام سے بھرا ہوا ہے۔ وہ سراسیمہ اور خوفزدہ ہیں کہ آ ج ہمارے تمام اگلے پچھلے برے کرتوتوں کا حساب کتاب چکایا جائیگا کہ اچانک آواز بلند ہوتی ہے:
’’ اے قریش کے لوگو!تم سوچ رہے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟‘‘
تمام لوگوں نے کہا : اے محمد(ﷺ)!تم سے ہم کو خیر اور بھلائی کی امید ہے اس لئے کہ تم ہمارے بہترین بھائی ہو اور ہمارے شریف بھائی کے فرزند ارجمندہو!۔
اس کے بعدنبی رحمت محسنِ انسانیت نے ارشاد فرمایا :
آج تم لوگوں پر کوئی لعنت و ملامت نہیں،
اذْهَبُوا فَأَنْتُمْ الطُّلَقَاءُ
" تم لوگ آزاد ہو۔ "
٭ کیا خیال ہے کوئی مائی کا لعل بڑا لغت وعربی کا عالم فاضل اور نظم قرآن کا دعویدار یہ ترجمہ کر سکتا ہے
" جاو آج تم سب " طلاق یافتہ " ہو " ؟؟؟؟؟؟
٭٭٭اب آئیے لفظ " طلاق " کے عربی گرائمر(صرف و نحو) کی وضاحت کی طرف۔۔۔۔۔۔
پہلی بات لفظ طلاق" اسم جنس"ہے ، اسلیئے اوپر " المعانی" ڈکشنری کا حوالہ دیتے وقت لفظ " اسم" کو رنگین کر دیا تھا کہ توجہ رہے۔آپ کو معلوم ہوگا " اسم " اپنی حیثیت و نوعیت کے اعتبار سے کئی اقسام رکھتا ہے ۔۔۔۔۔ آسان الفاظ سمجھیئے اسم جنس کیا ہوتا ہے
ایسا اسم جسکی " اصل ہو اوروہ اس کی انواع(اقسام) " پر بھی بولا جا سکتا ہے
جیسے " انسان " : اب انسان میں مرد، عورت، بچہ، بوڑھا، جوان ، کمزور، پہلوان ،تندرست ، مریض سب انسان ہی کی قسم ہیں جب یہ کہا جائے یہ تندرست مرد ہے تو یہ بات خود بخود طے ہوگئی کہ "یہ ایک انسان" ہے۔
جب " طلاق" اسمِ جنس ہے تو یہ بات خود بخود سمجھ آ گئی کہ " طلاق کی اقسام ہوں گی "،،،، مثلا جب کہا جائے کہ " اس عورت کو شوہر نے طلاق دی تھی پھر رجوع کر لیا "
تو یہ بات واضح ہو گئی کہ اس عورت کے مرد نے اسے ایسی طلاق دی تھی جس میں وہ رجوع کر سکتا تھا"
مطلب رجوع کرنے یا نہ کرنے کے حساب سے طلاق کی مختلف اقسام ہیں جن کے " احکام قرآن نے سورہ بقرہ کی آیت 229 اور 230 "میں بیان کیئے ہیں۔
٭٭٭ اب اک اور عام فہم قاعدہ بھی ملاحظہ ہوقرآن نے لفظ استعمال کیا ہے " الطلاق "(ال+طلاق)،،،،،،،، آپ حضرات کو زبان و بیان کا یہ قاعدہ تو بخوبی یاد ہوگا کہ کیسی " اسمnoun پر" ال" آ جائے تو وہ اسم : اسم ِ معرفہ بن جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
غور کیجیئے قرآن یہاں سورہ بقرہ 229 میں " طلاق " کی اصطلاح استعمال کرتا ہے تو اس پر " ال " لے کر آگیا ہے یعنی اب " ال" کا ترجمہ بھی " طلاق " کے معنی میں شامل کرنا پڑے گا یوں بات صاف ظاہر ہے کہ طلاق کے معنی پر " ال: معرفہ" کا اثر ہوگا تو یقیناً " الطلاق" سے مراد " خاص طلاق " ہوگی۔
یہ دونوں تصریحات سامنے رکھیئے "اسم جنس" والی بھی(اس سے اقسامِ اطلاق، تعداد اور تفریق واضح ہوگی) اور " اسم معرفہ " والی (خاص طلاق کے مفہوم کو ادا کرنے والے ترجمہ کا معلوم پڑے گا) پھر دیکھیئے اس مراد کو پانے کےلیئے قرآن کے مترجمین نے " الطلاق " کے کیا کیا معنی کیئے ہیں۔ اس کے بعد شیخ الہند کے ترجمہ کی شان واضح کریں گے!!!
٭ ہم اس بحث کو مختصر رکھنے کے لیئے مفسرینِ برعظیم جنوبی ایشیاء([5] )تک محدود رہتے ہیں ۔
حضرت ملا احمد جیون([6]) کی " التفسیرات الاحمدیہ "
کا یہ عکسی حوالہ درج بالا ہے۔۔۔۔۔۔ کہاں 1064 ہجری کی تفسیر اور کہاں ایک شخص 1268 ہجری میں پیدا ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔ تقریباً شیخ الہند کی پیدائش سے دو سو سال پہلے کی تفسیر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس تفسیر میں بخوبی واضح ہے کہ طلاق کی ایک قسم " رجعی " ہے جس میں رجوع کیا جا سکے !
٭حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی([7])
شاہ صاحب کے نزدیک ترجمہ قرآن کا اہم ترین مقصد مسلمانوں میں قرآن فہمی کا ذوق پیدا کرنا تھا، اس لیے انہوں نے قرآنی آیت کے مفہوم کو اصل اہمیت دی ہے، لیکن الفاظِ قرآن سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا۔ اسی طرز نے بعد ازاں بین القوسین ترجمہ اور تفسیری حواشی کو رواج دیا۔ شاہ صاحب نے طول طویل بحثوں کے بجائے سادہ اور سلیس انداز میں قرآنی مقصود کو بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے۔ اور انہوں نے مشکل مقامات کی مختلف توجیہات اور متشابہات کی تاویلات میں غیر ضروری تفصیلات کو عقلی موشگافی قراردیتے ہوئے نظر انداز کر دیا ہے۔
(رجعی ، دو بار است ، بار سوم : واضح الفاظ ہیں )یہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا فارسی ترجمہ"فتح الرحمٰن" ہے ۔۔۔۔ شاہ صاحب نے ترجمہ قرآن 1738 عیسوی میں کیا([8]) جبکہ شیخ الہند کی پیدائش 1851ء کی ہے یعنی 113 سال بعد کی !!!!!! " کیا خیال ہے شاہ ولی اللہ پر بھی اک چوٹ نہ ماری جائے کہ " تحریف قرآن " کر دی ؟؟؟؟؟؟(نعوذباللہ ذلک)
آپ حضرات کی آسانی کے لیئے اس فارسی ترجمہ کا اردو ترجمہ بھی پیش کرتا ہوں جو مولانا مظہر دہلوی نے کیا ہے
٭٭٭شاہ صاحب کے بڑے صاحب زادے عبدالعزیز نام اور سراج الہند لقب تھا ۔ والد ماجد ہی کی خدمت میں ان کی اصل تعلیم وتربیت ہوئی البتہ بعض امہات کتب کادرس اپنے والد کے ممتاز تلامذہ جیسے شاہ محمد عاشق پھلتی اور محمد امین ولی اللہی سے بھی لیا۔ اپنے پدربزرگوار شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی وفات کے وقت ان کی عمر سترہ سال تھی۔ اوائل عمر میں کثرت امراض کے باوجود آپ نے مدۃ العمر درس و افادہ کابازار گرم رکھا اوراپنے والد کے جانشین مقرر ہوئے۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (25 رمضان المبارک 1159ھ— 7 شوال 1239ھ / 20 ستمبر 1746ء— 5 جون 1823ء) جو سراج الہند کے لقب سے مشہور ہیں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے فرزندِ اکبر تھے۔ ان کے جد محترم شاہ عبد الرحیم تھے۔ شاہ عبد العزیز کو علم کی وسعت کے ساتھ استحضار میں بھی کمال حاصل تھا۔ آپ کو قرآن مجید کےدرس سے خاص شغف تھا۔ آپ کے نواسے اسحاق بن فضل روزانہ ایک رکوع قرآن مجید ان کی مجلس میں تلاوت کرتے تھے جس کی تفسیر شاہ صاحب بیان کرتے تھے۔ اس حلقہ درس سے بے شمار فضلا پیدا ہوئے اور ملک کے کونے کونے میں پھیل گئے۔ آپ نے ۸۰ برس کی عمر پا کر ۹شوال ۱۲۳۹ھ/۱۸۲۳ء کو وفات پائی۔شاہ عبدالعزیز نے متعدد کتابیں تصنیف کیں۔ امراض کی شدت اورآنکھوں کی بصارت کے زائل ہو جانے کے سبب بعض کتابوں کو انہوں نے املا کرایا۔ ان کی اہم تصنیفات میں تحفہ اثنا عشریہ، بستان المحدثین، العجالۃ النافعۃ، فتاویٰ اور زیرتبصرہ تفسیر فتح العزیز ہے۔
یہ عبارت فتاوئ عزیزی(مترجم اردو) شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ابن شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی ہے ص نمبر 557۔۔۔۔۔۔۔۔ ترجمہ قرآن یا تفسیر عزیزی ( فتح العزیز) کی بجائے شاہ صاحب کے فتوئ سے عبارت پیش کرنے کی وجہ حاشیہ میں درج ہے)[9](
اگر یہ فتویٰ عمر کے آخری لمحہ کا بھی شمار کریں تب بھی شیخ الہند کی پیدائش سے 28 سال پہلے کا بنتا ہے۔([10])
٭ اب لیجیئے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے دوسرے بیٹے " شاہ رفیع الدین محدث دہلوی([11] ) کا ٭لفظی ترجمہ٭"
اب دیکھیئے اس شاہ صاحب " ال " کے ترجمہ کے لیئے " یہ " کا لفظ لائے ہیں ، مگر " لفظی ترجمہ کے باوجود لفظ طلاق کا ترجمہ " طلاق " سے ہی کیا ہے کیونکہ یہ ایک شرعی اصطلاح ہے۔" یہ " سے خاص"طلاق " کی طرف اشارہ ہوگیا حالانکہ " آیتِ قرآن میں " یہ " کسی لفظ کا ترجمہ نہیں مگر چونکہ الطلاق کو " اسم معرفہ " بیان کیا گیا ہے تو اسے " یہ " سے واضح کر دیا،،،، جس سے ہر عاقل خود بخود" طلاق کی اس قسم "کو سمجھ جاتا ہے کہ اس " خاص طلاق " کے علاوہ بھی طلاق کی قسم ہے جسے اگلی آیت 230میں بیان کیا گیا ہے۔
٭ 1200 ہجری یعنی آج سے 234 سال قبل " اردو کا پہلا " لفظی " ترجمہ کیا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمود حسن دیوبندی 1268ھ بمطابق 1851ء کو اترپردیش کے شہر بریلی میں پیدا ہوئے۔ (مطلب اردو کے پہلے ترجمہ سے بھی 68 سال بعد میں پیدا ہوئے۔
اب آتے ہیں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے تیسرے بیٹے ٭رئیس المفسرین ِ برعظیم جنوبی ایشیاءحضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی([12])۔آپ نے اردو کا پہلا باضابطہ بامحاورہ ترجمہ بنام " موضح قرآن "([13] )فرمایا اور اس شان سے کہ آج تک 237 سال گزر جانے کے بعد بھی اس ترجمہ کے رموز نرالے اور تاثیر دلپذیر ہے۔([14])
اب غور سے اس ترجمہ کوپڑہیئے پہلی چیز آپ کودائرہ میں نظر آئے گی وہ لفظ " تک " ہے یہاں حضرت شاہ صاحب نے " اسم جنس " کی رعائیت کرتے ہوئے ترجمہ فرمایا ہے کہ زیر بحث آیت میں جس طلاق کی " خاص نوع کا حکم بیان ہو رہا ہے وہ دو بار " تک " ہے۔
٭متعصب و متنفر،معترض سے ہم یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ " کیا حضرت شاہ عبدالقادرصاحب " بھی تحریف کے مرتکب ہوئے ہیں ؟؟
٭ دوسری بات " شاہ صاحب نے جو (تفسیری)حاشیہ لکھا ہے اس میں صاف صاف وہی مطلب ہے جسے شیخ الہند نے اپنے بامحاورہ ترجمہ قرآن کا حصہ بنایا ہے کیونکہ بامحاورہ ترجمہ کا مطلب ہی زیادہ سے زیادہ واضح ترجمانی اور مراد قرآنی کو بیان کرنا ہوتا ہے ۔
الحمداللہ خانوادہ حضرت شاہ ولی اللہ سے مولانا محمود حسن شیخ الہند کے ترجمہ قرآن کی مکمل "تائید ، توثیق اور سند" بیان کی گئی ہے ۔ کیونکہ دین خالص " سند " کا نام ہے ۔ مشہور تابعی عالم ابن سیرین ؒ فرماتے ہیں " ان ھذا العلم دین فانظروا عمن تاخذونه:یہ علم دین ہے ، پس تم دیکھو کہ کس سے حاصل کر رہے ہو"(طبقات ابن سعد،7/194، ط : دارالفکر، بیروت)([15])۔ بقول میر تقی میر
؎اس فن میں کوئی بے تہہ کیا ہو میرا معارض
اول تو میں سند ہوں پھر یہ میری زباں ہے
اہل دیوبند کا امام حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ سے کیا تعلق ([16]) ہے اس کے لیئے گروپ لیڈر کے " گُرو جی " کا بیان ملاحظہ ہو
https://www.facebook.com/ghamidicil/videos/2881548408780670
/۔۔۔۔۔۔۔
گروپ میں بارہا " گروپ لیڈر " سےعرض کیا گیا کہ" اپنے محبوب ِ من ومرجع([17])" کی مذکورہ بالا ویڈیو گروپ میں پوسٹ فرمائیں ، مگر معلوم نہیں انھیں اس امر سے کیا عذر درپیش ہے ؟؟؟ اس پر تو ہم بس یہی کہہ سکتے ہیں
وہ حق سے خوب واقف مگر نہ مانیں گے
کہ ُ ان کے ذہن پہ راغبؔ انا کا پہرا ہے
چلیئے خیر قصہ ابھی ختم نہیں ہوا ابھی تو " مدرسہ رحیمیہ دلی " اور سلسلہ ولی اللہی کے بڑے بڑے یگانہ روزگار مفسرین اور مترجمین ِ قرآن کے حوالہ جات آپ کی نَذر کرنے ہیں ۔
٭تفسیر مظہری ، مفسر قاضی ثناء اللہ پانی پتی([18]) رح ، ص346 جلد اول ، اردو
٭ شیخ الہند کی پیدائش سے 41 سال پہلے قاضی صاحب فوت ہو چکے تھے([19]) ،،،،،،،، یقینا کم از کم 50 سے ساٹھ سال پہلے کی تفسیر ہے
٭حضرت شاہ رؤوف احمد مجددیؒ( [20])"تفسیر رؤوفی"
٭یہ تفسیر 1833ء میں مکمل ہوئی یعنی شیخ الہند کی پیدائش سے 18 سال پہلے کی ہے۔
٭ مولانا فخر الدین احمد قادری کی" تفسیر قادری"
٭تفسیر قادری([21]) ، 1879ء میں شائع ہوئی ،،،،، شیخ الہند کے ترجمہ قرآن سے 38 سال پہلے۔
٭ "خلاصۃ التفسیر" از مولوی فتح محمد تائب لکھنوی(م۱۳۴۲ھ/۱۹۲۳ء):
مولوی فتح محمد تائب نے ترجمہ اور تفسیر بنام خلاصۃ التفاسیر لکھی۔ ان کا اسلوب بہت سلیس اور سادہ ہے۔ ایک عام آدمی بھی پڑھ کر سمجھ سکتا ہے۔تفسیر چار جلدوں پر مشتمل ہے۔ صفحات کی کل تعداد دو ہزار چھ سو چالیس ہے۔ یہ تفسیر لکھنو کے مطبع انوار محمدی میں ۱۳۰۹ھ مطابق ۱۸۹۱ء سے ۱۳۱۱ھ مطابق ۱۸۹۳ء تک طبع ہوتی رہی۔
٭شیخ الہند نے ترجمہ 1917ء میں کیا جبکہ یہ تفسیر ہے 1891ء کی ہے، یعنی 26 سال پہلے کی۔
٭ حضرت علامہ ابو محمدعبد الحق حقانی([22])"تفسیر فتح المنان المعروف تفسیر حقانی"
٭ص76، 77 جلد دوم مولانا حقانی نے اردو میں قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر فتح المنان فی تفسیر القرآن کے نام سے تالیف کی جو ’’تفسیر حقانی‘‘ کے نام سےمشہور ومعروف ہے جس کا شمار اردو کی مستند تفسیروں میں ہوتا ہے۔ یہ ترجمہ وتفسیر پہلی بار مطبع مجتبائی دہلی سے مکمل آٹھ جلدوں میں ۱۳۱۸ھ /۱۹۰۰ء میں منصئہ شہود پر آئی۔ تفسیر فتح المنان معروف بہ تفسیرِ حقانی کے ساتھ یہ ترجمہ ۸ جلدوں میں شائع ہوا۔ (٭٭٭٭٭ شیخ الہند کے ترجمہ سے 17 سال پہلے)
٭تفسیر"مواہب الرحمن" از مولانا سید امیر علی بن مطعم علی حسینی ملیح آبادی (ولادت ۱۲۷۴ھ/ ،وفات ۱۳۳۷ھ/۱۹۱۸ء):
٭یہ ترجمہ و تفسیر شیخ الہند کے ترجمہ قرآن سے 20-25 برس پہلے کا ہے ۔
افسوس شاہ ولی اللہ ؒ کے " مدرسہ رحیمیہ کے نہایت فاضل زکی عالم " علامہ نواب قطب الدین صاحب کی تفسیر " جامع التفاسیر " کی اولین جلدیں دستیاب نہیں ہو سکی بس یہی اک خاص حوالہ رہ گیا ہے ۔
اب فرمائیے
"1: شاہ ولی اللہ، 2: شاہ عبدالعزیز ، 3: شاہ رفیع الدین ،4: شاہ عبدالقادر ، 5: قاضی ثناء اللہ پانی پتی ، 6: شاہ روؤف مجددی ،7:شاہ فخرالدین قادری، 8: مولانا فتح محمد تائب لکھنئوی ،9:علامہ ابومحمد عبدالحق حقانی،10:علامہ سید امیر علی ملیح آبادی (إِذَا رَجَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ۗ/جب تم لوٹو، یہ دس پورے ہو گئے،بقرہ196)
"واہ کیا نیک فال نکلی ہے جب لوٹے تو پورے دس نکلے وہ بھی کامل کے کامل"
؎ابھی تو چند لفظوں میں سمیٹا ہے تجھے میں نے
ابھی تو میری کتابوں میں تیری تفسیر باقی ہے
کیا یہ سب کے سب " تحریف قرآن " کے مرتکب ہیں ؟؟؟؟
معاذ اللہ معاذ اللہ اس کے منہ میں خاک،،، کوئی اگر بَک دے "ہاں "!!!!!!
تو بھیا!!! ایسے" اسلام" کو سو سلام ،،،،،، ایسے دین سے بے دین بھلے کہ 1400 سال سے اُمت پہ قرآن کے معانی و مفہوم پوشیدہ تھے 15 صدی میں یک بیک " فہم قرآن " کا ایسا چشمہ ( اصلاً تو ناسور) پھوٹ پڑا کہ " آنجناب کے " محققین سے پہلے کسی کو یہ مفاہیم و معانی کی دَرک نہیں لگی "۔۔۔ تو پھر اس دین کا "خدا ہی حافظ" !!!
میاں!!! الحمداللہ، اسلام پر اک سیکنڈ کے لیئے بھی کبھی ایسا لمحہ نہیں آیا جس میں قرآن کی کسی آیت کا کوئی معنی یا مفہوم اُمت سے چوک گیا ہو !!!! ہم اِسی مسلسل ، متوارد اسلام کے وارث و امین اور ادنیٰ ترجمان ہیں جس کی سند" متصلاً " حضرت رسالت پناہ ﷺ تک بلا تعطل و انقطاع پہنچتی ہے ۔
آپ سو بار یہ بہتان لگائیے کہ یہ تقلید ِ آباء ہے تو ہوا کرے آئیے آپ کو دکھائیں قرآن کیا کہتا ہے
اَمْ كُنْتُـمْ شُهَدَآءَ اِذْ حَضَرَ يَعْقُوْبَ الْمَوْتُ اِذْ قَالَ لِبَنِيْهِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ بَعْدِيْۖ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰـهَكَ وَاِلٰـهَ اٰبَآئِكَ اِبْـرَاهِيْمَ وَاِسْـمَاعِيْلَ وَاِسْحَاقَ اِلٰـهًا وَّاحِدًاۚ وَّنَحْنُ لَـهٝ مُسْلِمُوْنَ (133)بقرہ
کیا تم حاضر تھے جب یعقوب کو موت آئی تب اس نے اپنے بیٹوں سے کہا تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟ انہوں نے کہا ہم آپ کے اور آپ کے باپ دادا ابراھیم اور اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے جو ایک معبود ہے، اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں۔
" غور سے ترجمہ ملاحظہ کیجیئے جناب ِ من ،،،،،،،،، اب اگر آپ کو اپنے آباء و اجداد کے گمراہ ہونے کا خیال ہے تو اس میں ہمارا کیا قصور ؟؟؟؟؟؟
٭ اب آئیے معترض کے ہفواتِ بے بنیاد کی طرف " رجعی"،"تک" "ایجاد" ،"تیسری بار"، مزعومہ" ، "تحریف معنوی "، اپنا محل "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی "تحقیق"
پہلے آیات 229، 230 کا ترجمہ شیخ الہند( [23])ملاحظہ کیجیئے !!!
۲۲۹. طلاق رجعی ہے دو بار تک اس کے بعد رکھ لینا موافق دستور کے یا چھوڑ دینا بھلی طرح سے اور تم کو روا نہیں کہ لے لو کچھ اپنا دیا ہوا عورتوں سے مگر جب کہ خاوند عورت دونوں ڈریں اس بات سے کہ قائم نہ رکھ سکیں گے حکم اللہ پھر اگر تم لوگ ڈرو اس بات سے کہ وہ دونوں قائم نہ رکھ سکیں گے اللہ کا حکم تو کچھ گناہ نہیں دونوں پر اس میں کہ عورت بدلہ دیکر چھوٹ جاوے یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں سو ان سے آگے مت بڑھو اور جو کوئی بڑھ چلے اللہ کی باندھی ہوئی حدوں سے سو وہی لوگ ہیں ظالم
۲۳۰. پھر اگر اس عورت کو طلاق دی یعنی تیسری بار تو اب حلال نہیں اسکو وہ عورت اسکے بعد جب تک نکاح نہ کرے کسی خاوند سے اس کے سوا پھر اگر طلاق دے دے دوسرا خاوند تو کچھ گناہ نہیں ان دونوں پر کہ پھر باہم مل جاویں اگر خیال کریں کہ قائم رکھیں گے اللہ کا حکم اور یہ حدیں باندھی ہوئی ہیں اللہ بیان فرماتا ہے ان کو واسطے جاننے والوں کے "
اگر آپ اردو ادب کی تاریخ سے ذرا بھی دلچسپی ہو تو ذرا تصور کیجیئے 1917ء تک اردو نثر کا دامن کس قدر زرخیز ہو چکا تھا ، کسی بھی زبان کی ابلاغی قوت اس کے دامن میں موجود علوم سے ہوتی ہے ،"اردو کا دہلوی دبستان" اپنے عروج پر ہے، خواجہ میر درد ، میر تقی میر ، مومن خان مومن ،غالب سے شاعری کا انداز و بیاں داغ دہلوی و حالی تک پہنچ چکا ہے ، سرسید احمد خان ، ڈپٹی نذیر احمد ، سجاد حیدر یلدرم، شبلی نعمانی ، مرزا حیرت دہلوی ،مولوی اسمعٰیل میرٹھی ، بابائے اردو عبدالحق ،ابولکلام آزاد ، سید سلیمان ندوی ، اردو نثر (تحریر)کے میدان میں جھنڈے گاڑ چکے ہیں ۔ حیدر آباد دکن یونیورسٹی کے " دارالترجمہ " سے مغربی علوم و فنون کی کتب کے معیاری اردو تراجم منظر عام پر آ رہے ہیں ۔ ترقی پسند تحریک کے سوشلسٹ ، فیض احمد فیض، ظہیر کاشمیری ، منٹو ، سردار جعفری اپنے نظریات کو اردو کے الفاظ میں ڈھال رہے ہیں ۔ اردو نظم نظیر اکبر آبادی سے ہوتی ہوئی ڈاکٹر اقبال کے قلم سے بامِ عروج پر ہے ۔
اس پس منظر کو ذرا تصور میں رکھیئے اور" مذہبی ادب" کا جائزہ لیجیئے " اردو تراجم ِ قرآن پاک " کا زریں دور شروع ہو چکا ہے، شاہ عبدالقادر ، اور شاہ رفیع الدین نے اردو ترجمہ قرآن کو ثقاہت کی بلندیوں پر فائز کر دیا تھا ۔ ان کے تلامذہ نے " دینی ادب میں کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ، قرآن، حدیث ،فقہ و تصوف کے بہترین تراجم بطور سوغات
اُ مت کو دیئے ۔ یوں ایک ایسا دور ہے جہاں ہر فن و علم کا ترجمہ اردو زبان میں منتقل ہو رہا ہے اور زبان ایسی تندو توانا ہو چکی تھی کہ " اصطلاحات " کا بوجھ سہار پائے ۔۔۔۔۔۔
ایسے زرخیز دور میں شیخ الہندؒ([24] )" شاہ عبدالقادرؒ " کے ترجمہ کو بنیاد بنا کر ترجمہ قرآن پیش کرتے ہیں اور اُ ن کی حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ عبارت زیادہ سے زیادہ سلیس ہو مگر معنی و مفہوم کے اعتبار سے جامع ہو ، اس کے لیئے اک کہنہ مشق علامہ نے 50 برس کی علمی ریاضت کے بعد ترجمہ کرتے وقت " قرآن کی ساری آیات واحکام ، آنحضرت ﷺ کی فرمودہ تمام احادیث ، صحابہ کرام رضوان علیھم اجمعین، فقہا کرام کے استنباطات، لغت و زبان کے سب نکتہ داں ، اور اپنے پیش رو مفسرینِ برعظیم ہند کے مناہج و اسالیب کو سامنے رکھ کر عین مفہوم قرآن کو ادا کرنے والی عبارت تخلیق کی ،،،،، بس یہی ان کا سب سے بڑا جرم قرار پایا !!!!! آخر اُنھوں نے اپنے سے پہلوؤں کوگمراہ کیوں نہ قرار دیا !!! ڈھٹائی سے یہ اعلان کیوں نہ کیا " کہ آج سے پہلے قرآن کے معنی کو مفاہیم کو کوئی نہیں سمجھ پایا ،،،،،، نزول قرآن کے 1300 سال بعد مجھے ان حقائق کا سراغ ملا ہے ،،،،، مجھ سے پہلےسب کے سب سراپا جہل مرکب تھے ، محرف قرآن تھے !!! بس ان دعوؤں سے حضرت شیخ الہند کا دامن خالی ہے،،،، وہ تو نہایت ادب و عاجزی([25] )سے ۔۔۔۔۔۔ عین اُ س تواتر ، تسلسل ،توارد،اتصال کے امین ، ناشر اور ترجمان ہیں جس فہم کی آخری " کڑی " اعلم الناس ، معلم ِ اعظم ، مرشدِ اعظم ،مُربئ اعظم سید الانبیاء خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کے آستانہ سے بندھی ہے۔ اور سُن لیجیئے ببانگ دھل کہتے ہیں " ہمیں اسی پہ فخر ہے ، یہی ہماری سعی و مشقت کا سب سے بڑا انعام اور سرمایہ زندگی ہے ، یہی ہماری تگ و دو کی منتہا ہے!!!!!
یہ سب سوچ کر دل لگایا ہے ناصح،
نئی بات آپ کیا سمجھا رہے ہیں؟
٭شیخ الہند علامہ محمود حسن دیوبندیؒ کی وارثانِ علم و حکمت کو سب سے اہم نصیحت٭
اس نصیحت کا اولین(جو آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہے) مصداق تو حضرت شیخ الہند کے سلسلہ علم سے متوسل صاحبانِ علم و معرفت ہیں، شیخ کیا فرماتے ملاحظہ کیجیئے :
" حضرات علمائے کرام نے عوام کی بہبودی کی غرض سے جیسے سہل اور آسان معتدد ترجمے شائع فرما دیئے ہیں، ایسے ہی اس کی بھی حاجت ہے کہ علی العموم مسلمانوں کو ان ترجموں کے سیکھنے اور اُن کے سمجھنے کی رغبت دلائی جائے ، علمائے کرام خاص طور سے ترجموں کو سمجھنے اور پڑھنے کی ضرورت ، اور اس کی منفعت دلنشین کرانے میں کوتاہی نہ فرمائیں، بلکہ ترجمہ کی تعلیم کے لئے ایسے سلسلے بھی قائم فرما دیں کہ جو چاہے بسہولت اور اپنی حالت کے مناسب اور اپنی فرصت کے موافق حاصل کر سکے۔واللہ الموفق و المعین۔(مقدمہ ترجمہ قرآن موضح فرقان از: شیخ الہندؒ)([26] )
٭ تفسیر عثمانی کے سائے میں
(شیخ الہند نے جو ترجمہ قرآن لکھا اس پر تفسیر سورۃ نساء تک لکھنے پائے تھے کہ داعئی اجل کو لبیک کہنے کا وقت آن پہنچا،،،، پھر بقیہ پاروں کی تفسیر ان کے شاگرد رشید علامہ شبیر احمد عثمانی نے مکمل فرمائی جسے اب " تفسیر عثمانی " کہا جاتا ہے)
تفسیر عثمانی میرے رجوع الی القرآن کے سفر کی" پہلی محبت " ہے ۔ پہلا عشق سیانے کہتے ہیں کبھی بھلائے نہیں بھولتا ۔ پہلی اولاد ، پہلا پوتا/پوتی ، پہلا نواسا/ نواسی غرض کے ہر رشتہ کے اظہار کا پہلا مظہر جو پیار ، توجہات اور قلبی تعلق کی بدولت شفقتیں ، عنایات ، الطاف و اکرام سمیٹتا ہے وہ شاذ و نادر ہی کسی دوسرے کے حصہ میں آتا ہے ، حقیقت یہ کہ " آپ بیتی ہے " کہ پہلے والا" تعلق "پھر اوروں کو نہیں ملتا۔ سو فیض نے کہا ناں " مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ"۔ غالبا دوسری "محبت" کو یہ باور کروایا ہے۔از راہ_ تفنن) ۔
خیر ہم نے تو پھر گلشن قرآنی کے ہر رنگ( [27])کے گل کو سینے سے لگا کر یہی وضاحت پیش کی " کہ تیرا احسان بجا !!! مگر میرے محبوب پہلی سی محبت نہ مانگ"۔
تفسیر عثمانی کا سر گود میں رکھ کر رات بھر اس عالم میں رہا ہوں کہ :
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
پہروں ایسے گزرگئے کہ :
تری یاد جب آئی تنہا ہی آئی
خوشی یاد آئی نہ غم یاد آئے
سرکار!!! الحمداللہ ثم الحمداللہ ہم تک دین صحیح سند ثقہ حضرات سے پہنچا ہے تو ہم کیوں منہ موڑیں اُ س دین سے جو اک " سنہری کڑی " ہے آقا سرکار ِ دوعالم ﷺ کے قدموں تک پہچانے والی ۔۔۔۔۔۔۔
ہم تو وہی دعا مانگتے ہیں جو سیدنا یوسف علیہ السلام کی زبان سے جاری فرمائی اور قرآن نے ابد تک کے لیئے محفوظ فرما دی
فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِۚ اَنْتَ وَلِـيِّىْ فِى الـدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِىْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِىْ بِالصَّالِحِيْنَ (101)یوسف
، اے آسمانو ں اور زمین کے بنانے والے! دنیا اور آخرت میں تو ہی میرا کارساز ہے، تو مجھے اسلام پر موت دے اور مجھے صالحین میں شامل کر دے۔
اجازت ہو تو آکرمیں بھی اُن میں شامل ہوجاؤں
سُنا ہے کل ترے دَر پر ہجومِ عاشقاں ہوگا
اے رب ِ کریم !!! شیخ مکرم اور خاص کرحضرت شیخ الہندؒ سے لے کر حضرت آدم علیہ السلام تک جو بھی جتنے بھی " صالحین "ہیں آخرت میں اُ ن کاقرب و شفاعت نصیب فرما،،،،، اے رب ذوالجلال میں اقرار کرتا ہوں میرے شیوخ ، اساتذہ اور معلمینِ دینی سب کے سب کو " صالح " اور" ہدایت یافتہ" مانتا ہوں اور اُنھی کےطرزِ عمل کو حق اور راہِ راست سمجھتا ہوں ۔
قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِـىٓ اَدْعُوٓا اِلَى اللّـٰهِ ۚ عَلٰى بَصِيْـرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِىْ ۖ وَسُبْحَانَ اللّـٰهِ وَمَـآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ (108)یوسف
"کہہ دو یہ راستہ ہے کہ میں لوگوں کو اللہ کی طرف بلا رہا ہوں، بصیرت کے ساتھ میرا اور میری اتباع کرنے ولواں کا، اور اللہ پا ک ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں"۔
٭تصویر کا دوسرا رُخ٭
بظاہر تو یہاں پہنچ کے بات ختم ہو جاتی مگر اب بات نکلی ہے تو دور تلک جائے گی۔1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کی برعظیم ہند سے حکومت مکمل طور پر ختم ہوگئی ۔اور انگریز پورے خطہ پر قابض ہوگئے، یوں" تجدد پسندی" کا اک نیا دور شروع ہوا جس کے بانی مبانی سرسید احمد خان تھے ، سید جو " سر" بن چکے تھے اُنھوں نے " عقلیت پسندی " کو دین کا معیار قرار دیا ،،،،، سو جس چیز کی اُنھیں عقلاً سمجھ آئی اُسے برقرار رکھا باقی ہر بنیاد کو تہہ و بالا کر ڈالا کیا قرآن کی تفسیر ، کیا حدیث کا مقام، کیا فقہ کی حیثیت ، کیا تصوف کا مرتبہ ، اُنھوں نے ازسرنو ہر شئے پر قلم اُٹھایا اور بڑی بے باکی سے اپنی مزموعہ عقل کے خلاف ہر شئے پر خطِ تنسیخ پھیرتے گئے ، مسلمانوں کی مرکزیت منتشر ہو چکی تھی ، لہذا اس بے لگام تحریک نے ہمنواؤں کی کھیپ کی کھیپ تیار کردی،،،، ہمیں اُن کی ذاتی خوبیوں سے انکار نہیں مگر مذہب کے ساتھ جو کھلواڑ " سر " "سید" نے کیا اُ سکی پرچھائیاں اب تک مہیب سائے کی طرح لپیٹے ہوئے ہیں۔سرسید نے اپنی نثرمیں سادگی اور معروضیت کا ڈول ڈالا اور سرسید کے رفقا نے بھی اس طرز کو اختیار کیا۔ خواجہ الطاف حسین حالی ، علامہ شبلی، مولوی نذیر احمد، مولوی ذکاءاللہ سبھی نے تحریک علی گڑھ سے روشنی حاصل کی اور اردو زبان و ادب کو فکر و نظر کے نئے زاویے دیے۔اردو ادب کے لحاظ سے تو یقیناً سرسید نے ناقابل فراموش خدمات سرانجام دیں،،،،، مگر دینی اعتبار سے ایسا مکتب فکر وجود میں آیا جس کے بازی گر " ڈپٹی نذیر احمد ،عبداللہ چکڑالوی، شبلی ،عرشی ، نیاز فتح پوری ، حمیدالدین فراہی([28])،عنایت اللہ مشرقی([29] )،امین احسن اصلاحی([30] )، پرویز([31]) ،رحمت اللہ طارق، تمنا عمادی ، عمر عثمانی([32] )،جاوید احمد غامدی جیسے صاحبان ہیں۔یہ سب وہ حضرات ہیں جنھوں نے "انکار حدیث "([33] )کا فتنہ پروان چڑھایا۔مندرجہ ذیل تمام حوالہ جات فریق مخالف کے لیئے " الزامی جواب " کے تحت نقل کیئے ہیں وگرنہ ہمارا ان پر نہ اعتماد ہے نہ اعتقاد !!!
اِسی کامزا ہو تو کیا کیجیئے
کہا مانتے ہیں وہ حجت کے بعد
٭1۔ سر سید احمد خان نے بھی نامکمل تفسیر قرآن لکھی( [34])
٭سرسید کے پیرو کار ومعتقد اور مداح مولانا الطاف حسین حالی "حیات جاوید"میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’سرسید نے اس تفسیر میں جابجا ٹھوکریں کھائی ہیں اور ان سے رکیک لغزشیں سرزد ہوئی ہیں‘‘۔
٭ نواب محسن الملک "جو کہ "سرسید احمد خان "کےقریبی تعلق داروں میں سے تھے سرسید کو لکھے اپنے خطوط میں سرسید کی "تفسیرالقرآن" پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں...
نواب محسن الملک بنام سر سید احمد خان
9 اگست 1892ء حیدرآباد دکن
جناب
عالی!
آج کل میں
آپ کی تفسیر دیکھ رہا ہوں جسے درحقیقت اب تک اچھی طرح بلکہ سرسری طور پر بھی نہ
دیکھا تھا اور اس کے نہ دیکھنے کا سبب آپ سے کہہ بھی دیا تھا۔ غالباً آپ اس بات سے
تو خوش نہ ہوں گے کہ میں اب تک آپ کی رایوں سے اتفاق نہیں کرتا اور ہر بحث میں اسے
قرآن کی وہ تفسیر جس کو کوئی قرآن کے مطالب کی تشریح اور تفصیل اور تفسیر سمجھے،
نہیں سمجھتا۔ بلکہ اکثر جگہ تفسیر کو تفسیر القول بما لایرضی بہ قائلہ (یعنی کسی
قول کی ایسی تفسیر کرنا جو اس کے کہنے والے کا مقصد نہ ہو۔ اسماعیل) تصور کرتا ہوں۔
مگر اس میں شبہ نہیں ہے کہ جس مضمون کو آپ نے لکھا ہے، ایسی عمدگی اور خوبی اور
صفائی سے بیان کیا ہے کہ اگر آدمی نہایت ہی راسخ الاعتقاد نہ ہو تو ضرور اس کی
تصدیق کرنے لگے اور بلاشبہ ایک جادو کئے ہوئے آدمی کی طرح آمنا و صدقنا پکارنے
لگے۔ واقعی خدا نے دل کے حالات کو الفاظ میں ادا کرنے اور تحریر میں لانے کی عجیب
حیرت انگیز قوت اور طاقت آپ کو دی ہے کہ اگر اسے جادو کہیں یا سحر تو بے محل نہ
ہو۔ مگر افسوس ہے کہ آپ نے ان مسائل کو جو آج کل
یورپ کے وہ تعلیم یافتہ لوگ جو مذہب کے پورے پابند اور معتقد نہیں ہیں، صحیح اور
یقینی اور غیر قابل الاعتراض سمجھتے ہیں، مان لیا اور قرآن کی آیتوں کو، جن میں ان
کا ذکر ہے، ایساتاویل کر دیا کہ وہ تاویل ایسے درجے پر پہنچ گئی کہ اس پر تاویل کا
لفظ بھی صادق نہیں ہو سکتا۔ آپ نے مسلمان مفسروں کو تو خوب گالیاں دیں اور برا
بھلا کہا اور یہودیوں کا مقلد بتایا، مگر آپ نے خود اس زمانے کے لامذہبوں کی باتوں
پر ایسا یقین کر لیا کہ ان کو مسائل محققہ صحیحہ یقینیہ قرار دے کر تمام آیتوں کو
قرآن کی ماول کر دیا۔ اور لطف یہ ہے کہ آپ اسے تاویل بھی نہیں کہتے (تاویل کو تو
آپ کفر سمجھتے ہیں) بلکہ صحیح تفسیر اور اصلی تفسیر قرآن کی سمجھتے ہیں۔ حال آں کہ
نہ سیاق کلام، نہ الفاظِ قرآنی، نہ محاوراتِ عرب سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
اگر آپ میرے اس شبہے کو کسی طرح دور کر سکیں تو مجھے ایسی خوشی ہو کہ کسی اور چیز
سے نہ ہو۔ اس لئے کہ اکثر مقامات اس کے ایسے عمدہ اور پاکیزہ اور اعلیٰ درجے کے ہیں
کہ بعد قرآن و حدیث کے اگر کوئی اسے وردِ زبان کرے اور دل پر نقش تو دنیا میں عالم
اور سچا مسلمان ہو اور عاقبت میں ان ثوابوں کا مستحق جو سچے مسلمانوں کے لئے خدا
نے مقرر کئے ہیں۔
محسن الملک
دوسرے خط میں یوں نقد کرتے ہیں:
"میرے نزدیک آپ دومصیبتوں میں سے کسی ایک میں سے بھی نہ نکل سکے,
کہیں قرآن کےمعنی سمجھنے میں غلطی کی اور کہیں "نیچر"اور"لاءآف نیچر" کےثابت کرنے میں,
بعض جگہ توآپ قرآن کامطلب "وہ" سمجھے "جونہ خدا سمجھا,نہ جبرئیل,نہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم,نہ صحابہ,نہ اہل بیت,نہ عامہ مسلمان"
اور کہیں نیچرکےدائرے سے نکل گئے اور "مذہبی آدمیوں کی طرح پرانے خیالات اور پرانی دلیلوں اور پرانی باتوں کےگن گانے لگے"
چناچہ آپ کی تفسیر میں دونوں باتوں کا جلوہ نظر آتاہے
"جہاں آپ نے"دعا اور اجابت دعا "کے مشہور معنوں سے انکار کیا, معجزات و خرق عادات کو ناممکن سمجھ کر "حضرت عیسی علیہ السلام" کےبےباپ کے پیداہونے اور ان کی طفلی کےزمانے کےواقعات اور احیائے اموات وغیرہ باتوں کو "اہل کتاب کی کہانیاں" بتایا
وہاں آپ نے دکھادیا کہ" آپ کی تفسیر, قرآن کےالفاظ اور سیاق عبارت اور اس کےعام منشاء سے کچھ مناسبت اور مطابقت نہیں رکھتی"
"خط بنام سرسید از نواب محسن الملک..."([35])
سر سید کے ہمعصر اور اک بزعم خویش مجتہد اعظم اور ڈپٹی کا لقب پانے والے "ڈپٹی نذیر احمد نے جو تبصرہ اس تفسیر پر کیا ہم تو اسے نقل کرنے سے بھی عارکھاتے ہیں اس لیئے آپ کو" اردو محاورات کے بادشاہ ڈپٹی صاحب " کا اقتباس خود ہی براہ راست پڑھائے دیتے ہیں۔"مواعظ حسنہ"([38])میں صاحب فرماتے ہیں۔
سرسید کی تفسیر ([36])کے عکسی حوالے درج ذیل ہیں
٭ہمارے مضمون کا یہ سب طویل عکسی اقتباس ہے ۔ جہاں آپ سر سید کی نثر سے لطف اندوز ہوں گے وہیں بغور سرسید کے کیئے ترجمہ پر بھی نظر جمائیے گا ۔ یہ ترجمہ تفسیر حضرت شیخ الہند کے ترجمہ قرآن سے 37 سال قبل لکھا گیا ہے
آپ ہی اپنے ذرا جور و ستم کو دیکھیں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
٭خود سر سید" کسے" تفسیر " اور دین کی تشریح کا اہل جانتے تھے؟؟؟؟
اُنھی کے قلم سے آپ کے نظر نواز ہے
" اپنی کتاب " آثار الصنادید " میں حضرت سراج الہند شاہ عبدالعزیز صاحبؒ کے تذکرہ میں
" خود رائیت " اور "بے استادی " کو "آفت گردانتے" ہیں درج ذیل عکسی اقتباس میں سرخ خط کشیدہ عبارت ملاحظہ کیجیئے ،،،،،،،،،،،،،، مگر دل تھام کر !
٭2۔ ڈپٹی نذیر احمد دہلوی نے " غرائب القرآن "([37]) کے نام سے قرآن کا ترجمہ تفسیر کیا۔اس میں بہت زیادہ محاورتی اردو استعمال کی گئی تھی۔
٭ حالیؔ ، ڈپٹی نذیر احمد کے ترجمہ کے بہت بڑے مداح اور بعد کے مترجمین کو ڈپٹی صاحب کا مقلد قرار دیتے تھے"([38]) ۔محاوراتی نثر کے بے تاج بادشاہ "ڈپٹی نذیر احمد دہلوی " کے الفاظ پربھی تاک تاک کےنظر رکھیئے!!!! ہم بس بلا تبصرہ گزر جاتے ہیں۔ فیصلہ آپ کے ضمیر کا !!!! یہ ترجمہ و تفسیر 1895ء میں مکمل کیا یعنی حضرت شیخ الہندؒ کے ترجمہ قرآن سے 22 سال قبل بقول مولانا ڈپٹی نذیر احمد مرحوم اردو زبان کے جتنے بھی تراجم ہیں سب کے سب شاہ عبدالقادر کے ترجمے کے مترجم ہیں۔مفصل تبصرہ حاشیہ میں عکسی ملاحظہ کیجیئے([39])
٭3۔مولانا آزاد کو بیسویں صدی کے بہترین اردو مصنفین کی نمایاں فہرست میں سے شمار کیا جاتا ہے۔ مولانا آزاد نے کئی کتابیں لکھیں جن میں غبار خاطر، انڈیا ونس فریڈم (انگریزی)، تزکیہ، "ترجمان القرآن "سر فہرست ہیں۔ اس کے علاوہ الہلال نامی اردو کا ہفت روزہ اخبار جولائی 1912ء میں کلکتے سے جاری کیا۔
ایک وقت تھا مولانا آزاد،سرسید احمد خان کو مذہبِ جدید کا مجتہد ِ اعظم گردانتے تھے اور خود کو اُس مذہب کا مجتہد منتسب([40])..
(((ترجمان القرآن‘‘ کا اصل امتیاز اس کا ترجمہ ہے، مولانا لکھتے ہیں:
’’ترجمان القرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اس کی تمام خصوصیات کا اصل محل اس کا ترجمہ اور ترجمہ کا اسلوب ہے۔ اگر اس پر نظر رہے گی تو پوری کتاب پر نظر رہے گی۔ وہ اوجھل ہو گئی تو پوری کتاب نظر سے اوجھل ہو جائے گی۔‘‘(ابوالکلام آزاد، ترجمان القرآن، جلد۳)
مولانا آزاد چونکہ ایک صاحب طرز ادیب تھے، اس بنا پر’’ ترجمان القرآن‘‘ ان کے انشا کا بھرپور مظہر ہے، تاہم جہاں تک اصول تفسیر کا تعلق ہے تو وہ ائمۂ تفسیر ہی کی تتبع کرتے نظر آتے ہیں اور بہت کم کوئی ایسی راے قائم کرتے ہیں جو اسلاف کی راے کے برخلاف ہو۔ مولانا کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے قرآن کو اپنے عہد میں ایک زندہ کتاب کے طور پر پیش کیا ہے جو مسلمانوں کے لیے واحد راہنما ہو سکتی ہے۔ سید سلیمان ندوی ([41])نے ’’ترجمان القرآن‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’مصنف ترجمان القرآن کی یہ دیدہ وری داد کے قابل ہے کہ انھوں نے وقت کی روح کو پہچانا اور اس فتنۂ فرنگ کے عہد میں اسی طرزوروش کی پیروی کی جس کو ابن تیمیہ اور ابن قیم نے پسند کیا تھا اور جس طرح انھوں نے اس عہد کے مسلمانوں کی تباہی کا راز فلسفۂ یونان کی دماغی پیروی کو قرار دیا، اسی طرح اس عہد کے مسلمانوں کی بربادی کا سبب ترجمان القرآن کے مصنف نے فلسفۂ یونان و فرنگ کی ذہنی غلامی کو قرار دیا اور نسخۂ علاج وہی تجویز کیا کہ کلام الٰہی کو رسول کی زبان و اصطلاح اور فطرت کی عقل و فلسفہ سے سمجھنا چاہیے۔‘‘(ابوسلمان شاہجہانپوری، ابوالکلام آزاد(بحیثیت مفسر و محدث)۲۱۔۲۲)
افسوس کہ مولانا یہ ترجمہ مکمل نہ کر سکے، تاہم اس وقت ’’ترجمان القرآن‘‘ کے عنوان سے جو کچھ موجود ہے اور جس میں سورۂ فاتحہ کی وہ تفسیر بھی شامل ہے جو اصلاً ’’البیان‘‘ کا حصہ ہے، ایک شاہکار ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔)))([42])
٭اس اقتباس کی روشنی میں مولانا آزاد کاترجمہ اور تفسیر " معترض کذاب " کی آنکھیں کھولنے کے لیئے کافی ہے !!! یہ پوری عبارت خورشید ندیم صاحب کے مضمون سے لی گئی ہے جو جاوید احمد غامدی صاحب کی ویب سائیٹ پر موجود ہے: لنک
https://www.javedahmedghamidi.org/#!/books/5aa677a15e891e8f44a455ee?chapterNo=0
٭ 4۔مولانا ابوفاثناء اللہ امرتسری ؒ : برعظیم جنوبی ایشیاء کے اُ ن عظیم سپوتوں میں سے اک تھے جنھوں نے اسلام پر اعتراضات کرنے والی مشنریوں ، پادریوں ، آریائی پنڈتوں ، قادیانی دجالوں سے خوب جم کر مناظرے کیئے اور ہر میدان میں مدمقابل کے دانت کٹھے کیئے ۔ آپ دارالعلوم دیوبند کے مردِ حُر حضرت شیخ الہندؒ کے نامور شاگرد تھے ۔یہ بھی قدرت کا کرشمہ اور اہل ِ علم کے وسعتِ ظرف کی اعلےٰ نشانی ہے کہ مولانا ثناء اللہ امرتسری اپنے زمانہ کے احناف کے مقتدا ءو مرجع علامہ محمود حسن دیوبندی حنفی کے " اہل حدیث " شاگرد تھے۔آپ نے قرآن کی معتدد تفاسیر عربی و اردو میں رقم کی ہیں ۔ اہل حدیث مکتبہ فکر میں" تفسیر ثنائی "اردو کی مقبول ترین تفسیر ہے۔ لیجیئے اِسی کا اقتباس
خوب یاد رہےیہ ترجمہ و تفسیر 1895ء کا ہے یعنی اپنے استاد شیخ الہند([43])کے ترجمہ قرآن سے 22سال پہلے کا ہے۔
٭5۔ مولانا فتح محمد جالندھری "جالندھری صاحب " اُس جماعت کا حصہ تھے جو " ڈپٹی نذیر احمد" کے ترجمہ پر نظرِ ثانی کا کام کرتی تھی( [44] )٭"فتح الحمید" مولانا کا ترجمہ قرآن پہلے پہل 1900 ءمیں امرتسر سے شائع ہوا مولانا کسی فقہی، کلامی یا فرقی گروہ سے وابستہ نہیں تھے اس لیے ان کا ترجمہ قرآن تمام مسلمانوں میں یکساں مقبول اور متداول ہے۔ اردو میں قرآن کا اولین ترجمہ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی کا سب سے ممتاز ترجمہ سمجھا جاتا تھا۔ مولانا جالندھری لکھتے ہیں کہ"ہم ان تمام صاحبوں کو یقین دلاتے ہیں جو شاہ صاحب کے ترجمہ کے دلدادہ ہیں کہ ہم نے اسے اس درجہ سہل سلیس اور بامحاورہ کر دیا ہے کہ زبان کے لحاظ سے جو جو خوبیاں ترجمے میں ہونی چاہیے وہ سب اس میں موجود ہیں۔ یوں سمجھنا چاہیے کہ شاہ صاحب کا ترجمہ اگر مصری کی ڈلیاں ہیں تو یہ ترجمہ شربت کے گھونٹ. نہایت آسان، سریع الفہم کہ پڑھتے جائیے اور سمجھتے جائیے". وقت گزرنے کے ساتھ زبان میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ اسی سبب سے دعوہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی نے اس ترجمہ کو مزید آسان، سلیس اور بامحاورہ کر کے ازسر نو طبع کیا چونکہ یہ ترجمہ کتاب اللہ کا ترجمہ ہے، گروہی، فرقی ،مکتبی رجحانات سے پاک اس لیے ریڈیو پاکستان نے اسے اپنے ترجمہ کے طور پر منتخب کیا اور جب صوت القرآن شروع کیا گیا تو اس کے لیے اسی ترجمہ کو منتخب کیا گیا۔([45])
لیجیئے صاحبو!!! ترجمہ حاضر خدمت ہے اپنا مطمحِ نظر خوب پہچان لیجیئے ، خیال رہے یہ ترجمہ بھی ہمارے مخدوم شیخ الہند ؒکے ترجمہ سے 17 سال پہلے کا ہے!!!!
مکتبہ سرسید، فراہی ،شبلی و ابوالکلام کا اک ملغوبہ ہمیں "٭6۔ مولانا سید ابوالاعلےمودودیؒ " کے ہاں بھی نظر آتا ہے۔ جہاں مولانا اپنی تفسیر "تفہیم القرآن " حدیث کے معاملہ میں سرحد کے اُس پار نظر آتے ہیں([46])، وہیں اپنی کتاب " سُنت کی آئینی حیثیت "میں اِس طرف کے آدمی دکھائی دیتے ہیں ۔ بہرحال کوئی شک و شبہ نہیں مولانا مودودی اک کرشماتی جاذبیت کی شخصیت تھے 20 صدی کے مسلم نوجوان کو جس مفکر کے قلم نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ " مولانا مودودی" ہی کا تھا۔خاص استعماری دور کے " الحاد " ، "تشکیک" ، اشتراکیت " ، "سرمایہ داری"، اور " انکارحدیث " کے حملوں کے خلاف مولانا "سدِ سکندری " ثابت ہوئے اور "اسلام"، رسالت مآب ﷺ،اور "اسلامی قوانین " کے دفاع میں مولانا کا لہجہ اور اسلوب بالکل بھی " معذرت خواہ" نہیں بلکہ " اقدامی " اور " ابلاغی" اپروچ کے ساتھ مولانا نے " اسلام " کو " کُل انسانیت" کے لیئے " نجات دہندہ دین " کے طور پر پیش کیا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی اک مسلمہ حقیقت ہے کہ فاضل مفکر کے قلم سے ایسی "خطائیں " بھی سرزد ہو گئیں، جن کا تنقیدی جائزہ لینا " معاصرین اہل علم و مفکرین " نے لازمی جانا، انِ میں ہماری محبوب شخصیت ، ہماری روحانی انسپائیریشن،اور "علم و فکر" کے مرجع " مفکر الاسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن ندوی ؒ "([47] )بھی ہیں۔
مولانا ندویؒ([48] )نے " مولانا مودودیؒ" کی جدوجہد اور علمی خدمات کے اعتراف کے ساتھ" نہایت " احتیاط " ، اعتدال " اور " دلائل کے توازن " سے ان کی"فکری کوہتائیوں " کی طرف متوجہ کیا ہے۔([49])
بہرکیف مولانا مودودیؒ اپنے آپ کو " مولانا ابوالکلام کے قلم " کا جانشین قرار دیتے ہیں اور اُ نکا دعویٰ ہے کہ " تفہیم القرآن میں "قرآن کی عربئ مبین کی ترجمانی کے لیئے اردوِ مبین " کا التزام کیا گیا ہے ۔ آپ خود ملاحظہ فرمائیے
٭لیجیئے " اردوئے مبین میں آپ کا مطلوبہ حوالہ "دو طلاقیں ، " رجوع " " رجعی " اور " تیسری طلاق "
کے چشم کُشا الفاظ !!!!!
الحمداللہ بندہ تو ایسے صاحبانِ علم و ظرف کا خوشہ چیں ہے جو باوجود اختلاف کے کسی "علمی شخصیت" کے مطالعہ پر قدغن نہیں لگاتے،،،،، تفہیم القرآن کے بارے میں ہمارے شیخِ مکرم کیا فرماتے ہیں؟ خود ہی سماعت فرمائیے
https://www.youtube.com/watch?v=09SLVcKWcms
ہمارے یار راجہ صاحب ایسے حلقئہ فکر سے وابستہ ہو گئے ہیں جسے " علماء سے بَیر ہے "۔اکثر گروپ میں وہ بلا سوچے سمجھے ایسے پوسٹ فارورڈ کر دیتے ہیں جس میں "حُب ِ علی سے زیادہ بغضِ معاویہ " جھلکتا ہے ۔یوں خواہ مخواہ کی سُبکی مول لے لیتے ہیں۔اپنی اس قبیح عادت میں وہ اس قدر پختہ ہو گئے ہیں کہ سراپا اقبال کا شعر نظر آتے ہیں
واعظ ثبوت لائے جو مے کے
جواز میں
اقبالؔ
کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے
٭چلیئے میاں ! آپ بیر ہی رکھیئے ہم آپ کو اک اور دنیا میں لیئے چلتے ہیں۔نہ مدرسہ نہ مُلاں نہ مولوی ،،،،، آئیے اک چکر عصر حاضر کی یونیورسٹیز کا لگا لیں ،،،، تھوڑا ماحول بدل جائے گا۔ڈاکٹریٹ ڈاکٹر اور پروفیسرز ہی پروفیسرز!!! تیسرا پہلو!!!
٭" تینتیس برس تک صدر مدرس کے عہدہ پر فائز رہنے والے محمود حسن نے جدیدیت کے اُبھرتے آفتاب کے سامنے قدیم علوم کے چراغ کی ناصرف حفاظت کی بلکہ اس احساس کو بڑی دلسوزی سے اجاگر کی کیا کہ" علی گڑھ" اور "دیوبند" ایک ہی منبع کے دو چشمے ہیں۔ شیخ الہند نے اسکولوں ، کالجوں اور مدرسوں کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج کو پُر کرنے میں اہم کردار ادا کیاجامہ ملیہ اسلامیہ کی تاسیس19 اکتوبر1920ء کو بمقام ِ علی گڑھ آپ کا تاریخی خطبہ پڑھا گیا ۔آپ نے فرمایا:
"اے نونہالانِ وطن! جب میں نے دیکھا کہ میرے اس درد (آزادئ وطن)کے غمخوار،جس میں میری ہڈیاں پگھلی جا رہی تھیں،مدرسوں اور خانقاہوں میں کم اور اسکولوں کالجوں میں زیادہ ہیں تو میں نے اور میرے چند مخلص احباب نے ایک قدم علی گڑھ کی طرف بڑھایا اس طرح ہم نے ہندوستان کے تاریخی مقاموں" دیوبند اور علی گڑھ" کا رشتہ جوڑا"۔([50])
٭1۔ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم:
اسرار 26 اپریل، 1932ء کو موجودہ بھارتی ریاست ہریانہ کے ضلع حصار میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ لاہور منتقل ہو گئے اور گورمنٹ کالج سے ایف ایس سی کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ 1954ء میں انہوں سے کنگ ایڈورڈ کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد 1965ء میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی سند بھی حاصل کی۔ آپ نے 1971ء تک میڈیکل پریکٹس کی۔دوران میں تعلیم آپ اسلامی جمیت طلبہ سے وابستہ رہے اور فعال کردار ادا کرتے ہوئے ناظم اعلی مقرر ہوئے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔ تاہم جماعت کی انتخابی سیاست اور فکری اختلافات کے باعث آپ نے اس سے علحیدگی اختیار کرلی اور اسلامی تحقیق کا سلسلہ شروع کر دیا اور 1975ء میں تنظیم اسلامی کی بنیاد رکھی جس کے وہ بانی قائد مقرر ہوئے۔تنظیم اسلامی کی تشکیل کے بعد آپ نے اپنی تمام توانائیاں تحقیق و اشاعت اسلام کے لیے وقف کردی تھیں۔ آپ نے 100 سے زائد کتب تحریر کیں جن میں سے کئی کا دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔ آپ نے قرآن کریم کی تفسیر اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر کئی جامع کتابیں تصنیف کیں۔ مشہور بھارتی مسلم اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک سے ان کے قریبی تعلقات تھے اسی ضمن میں انہوں نے بھارت کے کئی دورے بھی کیے۔ عالمی سطح پر آپ نے مفسر قران کی حیثیت سے زبردست شہرت حاصل کی۔ بلا مبالغہ ان کے سیکڑوں آڈیو، ویڈیو لیکچرز موجود ہیں جن کے دنیا کی کئی زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں۔ بلاشبہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اسلام کا صحیح تشخص ابھارنے میں وہ اہم ترین کردار ادا کیا جو تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔
٭اس پہلے کہ ڈاکٹر صاحب کی بیان کردہ تفسیر سے عکسی اقتباس پیش کروں۔ چند اہم بیانات جو ہمارے موضوع بحث شخصیت سے متعلق ہیں وہ آپ کی نذر ہیں۔ڈاکٹر صاحبؒ لکھتے ہیں
1۔"راقم کو یقین ہے کہ چودہویں صدی ہجری کے مجدد تھے حضرت شیخ الہندؒ ! اور ان کی جامعیت کبریٰ کے مظہر اتم ہیں ان کے تلامذہ بحیثیت مجموعی! اور اگرچہ ان میں سے کوئی بھی ان کی سی جامعیت کا مظہر تو نہ تھا تاہم ان میں سے ہر ایک نے برصغیر پاک و ہند کی ماضی قریب کی تاریخ پر نہایت گہرا اثر ڈالا ہے."۔
2۔"اور اب اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ اس
ظاہری افتراق و انتشار میں تالیف و اجتماع کی صورت پیدا کی جائے اور ان بکھرے ہوئے
اثرات کو از سر نو سمیٹ کر تعمیر نو کی سعی کی جائے !! اس شان کے ساتھ کہ ؎
دھرتی کے
کونوں کھدروں میں پھر اپنے لہو کی کھاد بھرو!
پھر مٹی
سینچو اشکوں سے پھر اگلی رُت کی فکر کرو!!
اور اسی کے
لیے کمر ہمت کَسی ہے حضرت شیخ الہندؒ کے اس ادنیٰ عقیدت مند‘ اور
ان کے علم و فضل اور جذبہ و جوش عمل کے اس ادنیٰ خوشہ چیں نے"۔
3۔"چنانچہ راقم اللہ کو گواہ بنا کر عرض کرتا ہے کہ راقم کے دل میں بلا تکلف و تصنع از خود محبت و عقیدت پیدا ہو جاتی ہے ہر اُس شخص سے جس کا ادنیٰ سے ادنیٰ تعلق رہا ہو حضرت شیخ الہندؒ سے. یا جسے ادنیٰ سے ادنیٰ نسبت حاصل ہو اُن کی ذات گرامی سے!"۔
4۔"اولاً تو راقم کو مولانا(اخلاق حسین قاسمی) کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا ہے کہ انہوں نے راقم کا اس درجہ اعزاز و اکرام فرمایا کہ اُسے بھی برصغیر کی ’’دعوتِ رجوع الی القرآن‘‘ کے اُس ’’سلسلۃ الذھب‘‘ میں منسلک کر دیا جس کا سر آغاز تو تھے امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور اُن کے جلیل القدر فرزند (رحمہم اللہ) درمیانی کڑی کی حیثیت حاصل ہے حضرت شیخ الہندؒ کو.اور پھر ان کی ذاتِ مجمع الصفات سے جو متعدد لڑیاں شروع ہوئیں اُن میں سے ایک مشتمل ہے مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور اور مولانا احمد علی لاہوریؒ پر‘ تو دوسری میں شامل ہیں مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم اور مولانا ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم"۔
5۔"اس تحقیق و تفتیش کے دوران جو ’’انکشافات‘‘ مجھ پر ہوئے ان میں سے اہم ترین حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ المعروف بہ ’’شیخ الہند‘‘ کی عظمت شان اور جلالت قدر کے بارے میں تھا. جن سے اس وقت تک میں اصلاً تو ان کے ترجمۂ قرآن کے حوالے ہی سے واقف تھا اور اس کی بنا پر میرے دل میں ان کے لیے ایک گونہ محبت و عقیدت بھی موجود تھی. مزید برآں اُن کی ذاتی عظمت‘ ان کے تقویٰ و تدیُّن ‘ اُن کے اخلاص و للہیت‘ان کا علم و فضل‘ان کے مجاہدانہ کردار‘ان کی عالی ہمتی اور جہاد حریت اور تحریک استخلاصِ وطن میں ان کے مقام و مرتبہ کا تو کسی قدر اندازہ تھا لیکن ان کی وسعت نظر‘ان کی عالی ظرفی‘ان کی معاملہ فہمی‘ان کی انسان شناسی‘ان کی وسعت قلب‘ اور سب سے بڑھ کر ان کی عاجزی و انکساری کا کوئی اندازہ راقم کو نہ تھا. یہی وجہ ہے کہ ان کی ذاتی عظمت کے اس پہلو کے ’’یکبارگی‘‘ انکشاف سے راقم پر ایک مبہوتیت سی طاری ہو گئی. چنانچہ اس موقع پر جو تحریر راقم کے قلم سے نکلی اُس میں ایک والہانہ آمد کی کیفیت بدرجہ ٔاتم موجود ہے! ۔٭ وہ دن اور آج کا دن! راقم کی پختہ رائے ہے کہ چودہویں صدی ہجری کے مجدد حضرت شیخ الہندؒ تھے! اس لیے کہ ان کی سی ’’جامعیت کبریٰ‘‘ کی حامل کوئی دوسری شخصیت اس پوری صدی میں کم از کم مجھے نظر نہیں آتی.٭ "۔
6۔"بہرحال راقم الحروف کا تو حضرت شیخ الہندؒ کی شخصیت سے ابتدائی تعارف ہی تفسیری فوائد کی وساطت سے علامہ عثمانی ؒ ہی کے ذریعے سے ہوا تھا اور راقم اپنی گردن پر ایک احسان عظیم سمجھتا
ہے شیخ الہندؒ مولانا محمود حسن دیوبندی اور شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ کا کہ علامہ اقبال مرحوم کے اشعار سے ایک مبہم سے جذبہ ملّی اور
’’میلان الی القرآن‘‘ کے حصول ‘ اور ابتداء ً مولانا سید ابو الاعلیٰ
مودودی مرحوم اور مولانا امین احسن اصلاحی کی تصانیف اور بعد ازاں مولانا مودودی
کی ’’تفہیم القرآن‘‘ اور مولانا اصلاحی کی ’’تدبر قرآن‘‘ کے ذریعے معانی قرآن
کے ساتھ ابتدائی تعارف کے بعد جب راقم نے بھی آزادانہ طور پر علم و حکمت قرآن کے
بحر ذخار میں غوطہ زنی شروع کی تو اس پورے
عرصے میں میرا ’’عروۃ وثقٰی‘‘ ترجمہ شیخ الہندؒ اور حواشی شیخ الاسلام ہی رہے ہیں. جنہوں نے مجھے بفضلہ تعالیٰ نئی
نکتہ طرازیوں اور دور دراز کی تاویلوں سے حفاظت میں رکھا ہے.
اور اس اعتبار سے بھی میں اپنے
آپ کو بواسطہ شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ منسلک اور متوسل سمجھتا ہوں شیخ الہندؒ حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ سے! "۔
٭درج ذیل تحریر ی عکس میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے " فہم قرآن" کا سورس بتایا ہے٭
٭ اوپرے ذکر کیئے گئے،6 تحریری اقتباسات اور 1 عکسی اقتباس " ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی کتاب "جماعتِ شیخ الہند اور تنظیمِ اسلامی" سے لیئے گئے ہیں۔ احباب کی خدمت میں کتاب کا لنک حاضر ہے۔
" بیان القرآن "([51] )از ڈاکٹر اسرار احمد کا حوالہ نورِ نظر ہو
٭2۔ڈاکٹر حامد حسن بلگرامی([52])مصنف " تفسیر فیوض القرآن "
٭3۔ڈاکٹر محمود الحسن عارف( صدر شعبہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ۔اعزازی بادشاہی مسجد لاہور، سربراہ ادارہ علم القرآن لاہور، نگران مترجمین قرآن کمیٹی)
٭4۔ ڈاکٹر عبدالرؤف ظفر: پروفیسر ڈاکٹر عبدالرؤف ظفر ان نابغہ روز گار ہستیوں میں سے ایک تھے جو تشریعی اور عصری دونوں علوم میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔ آپ نے گلاسکو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری امتیازی حیثیت میں حاصل کی۔ اور بہاولپور یونیوسٹی میں حدیث کے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ مسند سیرت کے ڈائریکٹر تھے۔
٭5۔پروفیسر ڈاکٹر دین محمد: پشاور یونیورسٹی شعبہ اسلامیات کے سربراہ رہے، آپ نےشاندار بامحاور ہ اور لفظی ترجمہ قرآن بزبان اردو رقم فرمایا ہے ۔ قرآنی عربی اور ترجمہ سیکھنےکے لیئے انتہائی آسان ہے۔([53])
جناب من !!!"سُودیشی میں بہت بات ہو چکی ذرا بَدیشی" کا ذائقہ بھی چکھ لیں!!!
6*INSPIRED by TAFHEEM UL QURAAN*
7Muhammad Taqi-ud-Din al-Hilali([54] )+ Muhammad Muhsin Khan([55])
LO AND BEHOLD MY DEAR!!! BOTH MENS ARE NOT DEOBANDIS !!!
٭تیسرے پہلو سے زیر بحث آیات کے معنی مفہوم و مُراد کا جائزہ لیتے ہوئے آپ کی خدمت میں آپکے قبیلہ کا اک معتبر حوالہ پیشِ خدمت ہے ، بلکہ یہ دیکھیئے ان "8۔ڈاکٹر " صاحب کی قرآن سمجھنے کے لیئے اپروچ کیا ہے !!!
فرمائیے " زبانِ یار " سے کس کے "بوسیدہ کھنڈرات" دھڑام سے زمین بوس ہوئے جاتے ہیں ؟؟؟؟
؎ کچھ سوچ کر ہی ہوا ہوں موجِ دریا کا حریف
ورنہ میں جانتا تھا عافیت ساحل میں ہے
پروفیسرز ڈاکٹرذ حضرات کا حوالہ چل رہا ہے تو کیوں ناں " ڈاکٹر شکیل اوج" سربراہ شعبہ معارف ِاسلامیہ کراچی یونیورسٹی، مدیر اعلےٰ سہ ماہی "مجلہ التفسیر" کے مضمون سے بھی قارئین کومتعارف کروا دیا جائے دامن قرطاس تنگ ہوا جاتا ہے راحتِ قارئین کے خیال سے صرف مضمون کا عنوان آپ کے ذوق کی نذر کرتا ہے لنک کھول مطالعہ کرنا آپ کی ، علمی ہمت ، تحقیق اور جذبے جستجو کا متمنی ہے٭ شیخ الہند کی قرآن فہمی٭!!!!
ہمارے حضرت الاستاد مربی و محسن باوجود دیوبندی المسلک ہونے کے کبھی کسی دوسرے مکتبہ فکر کے اہل علم سے خوشہ چینی کرنے سے اِبا نہیں کرتے، یہی وجہ ہے کہ اُن کے عالی ظرف اور وسعتِ دامن سے وابستہ ہوا ہوں۔اکثر اُن سے اردو ترجمہ قرآن کے متعلق سوال کیا جاتا ہے تو آپ " فتح محمدخان جالندھری ترجمہ([56] )تجویز فرماتے ہیں"۔ اک مثال اُنھی کی لیجیئے، ہمارے شیخِ مکرم نے اپنے حلقہ متوسلین کے لیئے جو ترجمہ قرآن پسند فرمایا ہے اور اُسے اپنے اصحاب کے ذریعہ پاکستان میں نہایت اعلے معیار کے ساتھ حال ہی میں شائع کیا ہے وہ ترجمہ قرآن، ہندوستان کی محترم علمی شخصیت اور جماعتِ اسلامی ہند کے رکن و رفیق " مولانا فاروق خان صاحب([57]) " کا ہے۔ لیجیئے اس" ارمغانِ علمی "سے بھی "قلب و نظر" کو منور کیجیئے۔
٭چوتھا پہلو٭
آپ کو اہل مذہب کا اختلاف تو خوب کھَلتا ہے مگر کبھی اتفاق نہیں جچتا،،،، آپ اختلاف و فرقہ کی راگنی تو بہت چھیڑتے ہیں لیکن " اتحاد کے " سُروں سے سُر " ملتے آپ کوکیوں سُنائی نہیں دیتے۔ بس اسلیئے کہ آپ کی اک ہی دنیا ہے جس کی یک رنگی سے آپ مبہوت ہوئے بیٹھے ہیں ۔ اس چمن میں " رنگ و بوُ " کی عجب رنگینی ہے۔کالے شیشوں کا چشمہ آپ نے ناک پر جو ٹِکائے رکھا ہے اس سے " علم کی فضائے بے کراں میں بکھری " قوسِ قزح" کب نظرآتی ہے۔بقول شہزادؔ احمد
شوق کہتا ہے کہ ہر جسم کو سجدہ کیجیئے
آنکھ کہتی ہے کہ تو نے ابھی دیکھا کیا ہے؟
آئیے اک نظارہ ذرا کھلی آنکھوں سے ہمارے ساتھ کیجیئے!!!!
درج بالا عکسی اقتباس " ترجمۃ القرآن مع مطالبُ الفرقان " سے ہے ذرا دنیائے علم کی کہکشاں کی اس اجماعی کاوش کی " اصابت و ثقاہت" پر نظر کیجیئے۔ ہر مکتبہ فکر و مسلک کے مقتدر علماء کا متفقہ و منظور شدہ ترجمہ قرآن ہے۔ اگر آپ کو ہر سُو " اختلاف " نظر آتا ہے تو آئیے آپ کے لیئے " اتحاد" کے دریچے بھی وَا ہیں ، بشرطیہ کہ آپ کا مطمحِ نظر " اتحادِ اُمت " ہو، نا کہ افتراق !!!!!
راجہ صاحب آپ کے دین کی طرف رجوع کی جہاں خوشی ہوتی ہے وہیں اس بات کا قلق بھی ہے کہ " دین کی مستحکم روایت" کے نا صرف "منکر " نظر آتے ہیں بلکہ حد درجہ " بدگُماں " بھی ، یہی وجہ ہے کہ آپ اپنے فہمِ دین کے لیئے " مآخذ شخصیات " سے اختلاف کے دائرہ کار کو نہایت درجہ "علمی " ، " اخلاقی " اور" مئودبانہ" حدودمیں دیکھنا پسند فرماتے ہیں ۔ جب کہ فریقِ مخالف کے لیئے آپ ایسے" ٹوٹے" مسلسل پھیلاتے رہتے ہیں جن سے نا صرف" اہانتِ عمائدین ِ مذہب " کا مواد ٹپکتا ہے بلکہ خود " دین " کے ساتھ کھلواڑ اور " علم ِ دین " کے تمسخر کا ناسور پھوٹتا ہے۔خدارا " دین ِ اسلام " سمجھنے کی سنجیدہ کوشش کیجیئے ۔ بھلے ہم سے اختلاف کریں مگر اپنے لیئے کچھ نا کچھ "علمی " معیارات " طے کر لیجیئے۔ تاکہ اک صحت مند " مباحثہ " کا خوشگوار ماحول بن سکے ۔"ٹوٹے مافیا" کے"شرانگیز چنگل" سے اپنے"منطق و دلیل" کے " نخلستاں " کو تو آزاد کراوئیے۔آپ اور آپ کی " سرکار"جو پوری اُمت کے اساطین سے الگ اپنی "ڈیڑھ اینٹ کی مسجد" میں عقلِ کُل بنے بیٹھے ہیں،،،، وہ بھی ہمیں " اختلاف " کا طعنہ دیتے ہیں ! یاللعجب
سورج میں لگے دھبا فطرت کے کرشمے ہیں
بُت ہم کو کہیں کافر اللہ کی مرضی ہے!
٭اتمامِ حجت کے لیئے آپ کے لیئے تیر بہدف نسخہ لائے ہیں سو ملاحظہ فرمائیں یقیناً" سرور" آئے گا!
جاوید احمد غامدی: " البیان " میں رقطراز ہیں
یہ طلاق (ایک رشتۂ نکاح میں) دو مرتبہ (دی جا سکتی) [608] ہے۔ اِس کے بعد پھر بھلے طریقے سے روک لینا ہے یا خوبی کے ساتھ رخصت کر دینا ہے۔ اور رخصت کر دینے کا فیصلہ ہو تو تمھارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم نے اِن عورتوں کو دیا ہے، اُس میں سے کچھ بھی اِس موقع پر واپس لو۔ یہ صورت، البتہ مستثنیٰ ہے کہ دونوں کو اندیشہ ہو کہ وہ حدود الٰہی پر قائم نہ رہ سکیں گے۔ پھر، (لوگو)، اگر تمھیں بھی اندیشہ ہو کہ وہ حدود الٰہی پر قائم نہیں رہ سکتے تو (شوہر کی دی ہوئی) اُن چیزوں کے معاملے میں اُن دونوں پر کوئی گناہ نہیں ہے جو عورت فدیے میں دے کر طلاق حاصل کر لے۔ یہ اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں، سو اِن سے آگے نہ بڑھو اور (جان لو کہ) جو اللہ کے حدود سے آگے بڑھتے ہیں، وہی ظالم ہیں۔
608٭ یعنی یہ طلاق جس کا ذکر اوپر ہوا ہے اور جس میں شوہر اپنا یہ فیصلہ زمانۂ عدت میں واپس لے سکتا ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ طلاق کے بعد اگر کسی شخص نے رجوع کر لیا ہے اور اُس کے بعد بھی نباہ نہیں ہو سکا تو اِسی رشتۂ نکاح میں اُس کو ایک مرتبہ پھر اِسی طرح طلاق دے کر عدت کے دوران میں رجوع کر لینے کا حق حاصل ہے، لیکن ایک رشتۂ نکاح میں دو مرتبہ اِس طرح طلاق اور طلاق سے رجوع کے بعد یہ حق کسی شخص کے لیے باقی نہیں رہتا۔
پھراگر (دو مرتبہ طلاق سے رجوع کے بعد) شوہر نے (اِسی رشتۂ نکاح میں) بیوی کو (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اب وہ اُس کے لیے جائز نہ ہوگی، جب تک اُس کے سوا کسی دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرے۔ لیکن اگر اُس ـ (دوسرے شوہر) نے بھی اُس کو طلاق دے دی تو پہلے میاں بیوی کے لیے ایک دوسرے کی طرف رجوع کر لینے میں کوئی مضایقہ نہیں ہے، اگر یہ توقع رکھتے ہوں کہ اب وہ حدود الٰہی پر قائم رہ سکیں [612] گے۔ یہ اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں جنھیں وہ اُن لوگوں کے لیے واضح کر رہا ہے جو علم حاصل کرنا چاہتےہوں۔
612٭ تیسری مرتبہ طلاق کے بعد رجوع کا حق تو باقی نہیں رہتا، لیکن وہی میاں بیوی اگر دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو اِس کے لیے قرآن نے یہاں تین شرطیں بیان فرمائی ہیں: ایک یہ کہ عورت کسی دوسرے شخص کے ساتھ نکاح کرے۔ دوسری یہ کہ اُس سے بھی نباہ نہ ہو سکے اور وہ اُسے طلاق دے دے۔ تیسری یہ کہ وہ دونوں سمجھیں کہ دوبارہ نکاح کے بعد اب وہ حدود الٰہی پر قائم رہ سکیں گے۔ پہلی اور دوسری شرط میں نکاح سے مراد عقد نکاح اور طلاق سے مراد وہی طلاق ہے جو آدمی نباہ نہ ہونے کی صورت میں علیحدگی کا فیصلہ کر لینے کے بعد اپنی بیوی کو دیتا ہے۔
( بغیر کسی قطع و برید کے حرف بحرف درج بالا اقتباس نقل کیا ہے اب فرمائیے"دو مرتبہ ہے،" رجوع " اور " تیسری طلاق " کا ثبوت اس تحریر میں ہے کہ نہیں ؟؟؟؟؟)
اب بھی اگر آپ "معترض" کے دعویٰ پر قائم ہیں تو ہمیں شدت سے انتظار ہے کہ آپ کب " غامدی " صاحب کو تحریف معنوی کا مرتکب قرار دیں گے؟اور تو اور یہ بریکٹوں ( ) والا ترجمہ کرنے پر آپ نے کب سے انھیں خدا رسول بنا لیا ؟؟؟بلکہ اُن سے بھی بڑھ کر ؟؟؟؟؟؟؟؟
کیا توقع کریں زمانے سے
ہو گر جراتِ سوال ہمیں
ہم ترے دوست ہیں فرازؔمگر
اب نہ اور اُلجھنوں میں ڈال ہمیں
الحمد اللہ ! احقر نے استدلال کے لیئے پوری تحریر میں کہیں خالص دیوبندی مکتبہ فکر سے حوالہ نہیں دیا سوائے ایک مقام (پروفیسرڈاکٹر دین محمد) کے،،،،،، ہم نے"سخن فہمی" پوری تحریر پہ "غالب" رکھی ہے ناکہ "طرفدار ی" ۔ میں چاہتا تو میرے لیئے اپنے سلسلہ کےسند "اکابر دیوبند کی قرآنی خدمات([58] )" سے فریق مخالف و معترض کے لیئے اک " عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ" فرش تا عرش ایستادہ کرنا کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا !!! بحمداللہ یہ تحریر ہر منصف مزاج کے لیئے "کانٹے کی تول "ثابت ہوگی کہ پوری تحقیق ،ذمہ داری اور دیانتداری کے ساتھ رقم کی گئی ہے ۔
؎اپنے لیئے پیمانہ بنا رکھا ہے ہم نے
معیار ہے، معیار سے کچھ کم نہیں کہتے
نُّورٌ عَلَی نُورٍ يَهدِي اللَّه لِنُورِه مَن يَشَاء ﴿35﴾النور
نورؔ علیٰ نور، خوب روشنی پر روشنی ایسی کہ سارا عالم منور ہو جائے، اپنے اس نور کی طرف اللہ جس کو چاہے ہدایت فرما دے !!!([59])
اے یارانِ مکتب! دین ِ اسلام کے بتائے ہوئے طریقے کوئی ہنسی مذاق نہیں کہ اک اُچٹتی نظر ڈالی اور گزر گئے بلکہ یہ شریعت ِ محمدیﷺ اک " باقاعدہ علم " ہے ۔ یہ بات تو آپ معلوم ہی کہ بالغ ہوتے ہی نماز روزہ فرض ہو جاتا ہے اِ سی طرح اس بات کا ادراک ہونا چاہیئے کہ نکاح کرنے والے کو " نکاح، طلاق" کے ضابطے اور قوانین کا جاننا بھی " فرض عین " ہے ۔اس لیئے بندہ کی درخواست ہے آپ سورہ بقرہ کی آیات 228 تا 242 پوری تفصیل و تشریح کے ساتھ خوب غور و فکر سے سمجھیئے۔ آپ کی آسانی کے لیئے " مفتی محمد سعید خان صاحب کے تفسیری دروس" کے لنک آپ کی خدمت میں پیش کیئے جاتے ہیں
آیات224تا228
https://www.youtube.com/watch?v=r5dx_-Ld2Ig&list=PL2tOjkuOXs-zDlDRg_Nfv3DTHRet3yZkA&index=60
آیت229
https://www.youtube.com/watch?v=z_JkmIpDT7g&list=PL2tOjkuOXs-zDlDRg_Nfv3DTHRet3yZkA&index=61
آیات 229تا231
https://www.youtube.com/watch?v=beQie_HA8MY&list=PL2tOjkuOXs-zDlDRg_Nfv3DTHRet3yZkA&index=62
آیات231تا232
https://www.youtube.com/watch?v=jluscS6PVNA&list=PL2tOjkuOXs-zDlDRg_Nfv3DTHRet3yZkA&index=63
آیات 233 تا 235
https://www.youtube.com/watch?v=0927cOKjZwM&list=PL2tOjkuOXs-zDlDRg_Nfv3DTHRet3yZkA&index=64
آیات236 تا 242
https://www.youtube.com/watch?v=mGVJDOdl69U&list=PL2tOjkuOXs-zDlDRg_Nfv3DTHRet3yZkA&index=66
اور اگر آپ درج بالا لیکچرز سُن نہیں سکتے تو پھر یہ نہایت آسان کتاب پڑھ لیجیئے تاکہ " اسلام کے عائلی قوانین(جن کا سیکھنا مجھ پر آپ پر " فرض" ہے اُنھیں بآسانی جان سکیں
٭ اسلام کا قانون ِ طلاق : مولانا شہاب الدین ندوی٭
٭ ارے میرے پیارے!!! آپ کے معترض کی خاک چٹکیوں میں اُ ڑائی جاسکتی تھی مگر میں نے جان بوجھ کر "احادیثِ مبارکہ " کا باب نہیں کھولا کیونکہ مجھے معلوم ہے یہاں کوئی " شکم پرست، منہ پھٹ" انکار کرنے میں اک لمحہ نہ لگاتا، حالانکہ " طلاق " کے متعلق کم و بیش 1400 احادیث میں احکام آئے ہیں۔لیکن بحیثیت ِ دوست ،اک عرصہ کا تعلق اور یاد اللہ ہے آپ سے ،سو صرف اک حدیث اس بزم میں پیش کرتا ہوں،، ذرا تحمل سے غور کیجیئے گا۔۔۔۔!!!
"عن المقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ قال قال رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا انی اُوتیتُ القرآن ومِثْلَہُ ألا یوشک رجلٌ شبعان علی أریکتہ یقول علیکم بِہذا القُرآن فَمَا وَجَدْتُمْ ... فیہ مِنْ حلالٍ فاحلُوہ وما وَجَدْتُمْ فیہ منْ حرامٍ فحَرِمُوہ وأن ما حَرم رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کما حرم اللّٰہ“ الحدیث. (رواہ ابوداود،السنن،صحیح،للالبانی ، الجزء الثالث ، رقم الحدیث 3848)
ترجمہ: "مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا۔ سن رکھو! مجھے قرآن بھی دیاگیا اور قرآن کے ساتھ اس کے مثل بھی، سن رکھو! قریب ہے کہ کوئی پیٹ بھرا تکیہ (دولت مند/ متکبر شخص)لگائے ہوئے یہ کہنے لگے کہ لوگوں! تمہیں یہ قرآن کافی ہے بس جو چیز اس میں حلال ملے اسی کو حلال سمجھو! حالانکہ اللہ کے رسول کی حرام بتلائی ہوئی چیزیں بھی ویسی ہیں جیسی اللہ تعالیٰ کی حرام بتلائی ہوئی۔"
معترض نے جھوٹ گھڑا کہ:" اور یہ دونوں حضرات اپنے اپنے فرقہ کے بانی اور سر خیل ہیں ، ان کا فرمایا ہوا ان کے متبعین کے نزدیک فرمان رسول کی طرح ہے بلکہ ترجمہ قرآن کو دیکھیں تو ان کا فرمودہ تو فرمودہ خدا ہے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔"
٭یہ صاحب اس قابل ہی نہیں کہ براہِ راست اس پر کوئی تبصرہ کیا جائےاس"ملامتی "پر یہی کہا جا سکتا ہے
؎سلیم میرے حریفوں میں یہ خرابی ہے
کہ جھوٹ بولتے ہیں اور خراب لکھتے ہیں!
معترض ، کذاب نے جو " شیخ الہندؒ " کے متبعین پر نہایت معتصبانہ اور گٹھیا جملے کس کر اپنی سیاہ باطنی سے "دنیائے علم ومعرفت " کی "ثقاہت و عدالت "کو مجروح کرنے کی ناکام سعئ کی ہے۔اُس کی بابت ہم " بارگاہ ِ الہی " میں استغاثہ و رجوع کرتے ہیں۔
٭پہلی بات: سُبْحَانَكَ هذَا بُهتَانٌ عَظِيمٌ ﴿16﴾النور
"اللہ تو پاک ہے ! یہ تو ایک بہت بڑا بہتان ہے"۔
٭دوسری بات : أَعُوذُ بِاللّه أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهلِينَ ﴿67﴾البقرہ
"اللہ کہ پناہ لیتا ہوں کہ نادانوں جیسی بات کروں"۔
٭تیسری بات: أُوْلَـئِكَ جَزَآؤُهمْ أَنَّ عَلَيْهمْ لَعْنَة اللّه وَالْمَلآئِكَة وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ﴿87﴾آل عمران
" ان کی سزا یہ ہے کہ ان پر اللہ کی طرف سے لعنت اور فرشتوں کی طرف سے بھی پھٹکار ہے اور تمام انسانوں کے نزدیک یہ لوگ ملعون ہیں"۔
٭چوتھی بات: رَبِّ احْكُم بِالْحَقِّ وَرَبُّنَا الرَّحْمَنُ الْمُسْتَعَانُ عَلَی مَا تَصِفُونَ (112)الانبیاء
"دعا کرتے ہیں کہ اے میرے رب ! سچا سچا فیصلہ فرمادے اور اے لوگو! جو تم بکواس کرتے ہو اس کے مقابلے میں ہمارے مہربان رب کی مدد ہی ہم کو بہت کافی ہے"۔
اختتام پر یہ بھی واضح کرتے چلیں کہ معترض کا پورا واویلا "تمنا عمادی کی الطلاق مرتان " کی جگالی" ہےاسلیئے کذاب ،معترض و معتصب کو ہم اک مشور دیتے ہیں، گو " شرم " عاری اس" مفتری "سے کچھ اُمید نہیں مگر" دل کے ہاتھوں" ہم بھی مجبور ہیں!!!
؎تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیئے
اندکے از غمِ دل گفتم وبسے ترسیدم
کہ تُو آزردہ شوی ورنہ سخن بسیار است
٭نگران تحقیق و نظرِ ثانی: مفتی امجد حسینؔؔ صاحب(مدیر: فقہ السنہ اکیڈمی)٭
تفصیلی مواقع کے لیئے دیکھیئے " المعجم المفھرس لأ لفاظ القرآن الکریم "،،،،،، محمد فواد عبدالباقی۔ دارالاشاعت کراچی [1]
2۔ان کا پورا نام ابو القاسم حسین بن محمد بن مفضل بن محمد ہے اصفہان میں پیدا ہوئے جس کی نسبت سے امام راغب اصفہانی کے نام سے مشہور ہیں
جن کی زندگی کے مفصل حالات معلوم نہیں۔ زندگی کا بیشتر حصہ بغداد اور اصفہان میں گزارا اور قیمتی تصانیف چھوڑیں جن میں۔ ایک رسالہ میں فوائد القرآن لکھے جو اب نایاب ہے، کہتے ہیں علامہ زمخشری صاحب تفسیر کشاف نے اس سے بہت استفادہ کیا۔ امام راغب علم و فضل میں یگانۂ روزگار تھے، مؤلفِ جامع علوم و فنون ہونے کے ساتھ بلند پایہ صوفی بھی تھے اور ادب و فلسفہ، جملہ علوم میں ان کا پایہ بہت بلند تھا اور انہوں نے قرآن پاک کی ایک بہت بڑی تفسیر بھی لکھی ہے۔
علامہ ذہبی نے ان کا تذکرہ “ طبقات المفسرین ” میں کیا ہے اور امام سیوطی ان کو لغت و نحو کے ائمہ میں شمار کرتے ہیں، مختلف تذکروں میں حکیم، ادیب، مفسر، کی حیثیت سے ان کا تعارف کروایا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف ہمہ فنی امام تھے اور بیک تفسیر و لغت کے امام ہونے کے ساتھ بہت بڑے حکیم اور صوفی تھے۔امام راغب کی وفات
۔ ایضاً[4]
[5] ۔برصغیر پاک و ہند میں قرآن فہمی اور تفسیری خدمات کا علمی اور تحقیقی جائزہ(پی ایچ ڈی مقالہ:محمد حبیب اللہ قاضی)
[6] ۔حضرت مُلا احمد جیون رح کی شخصیت یوں بھی بہت پُرکشش ہے آپ محی الدین سلطان اورنگ زیب عالمگیر کے استادعالی مقام تھے ،،،،،،،،آپ کا نام احمد عرف ملا جیون اور نسب نامہ یہ ہے۔ شیخ احمد بن ابی سعید بن عبد اللہ بن عبد الرزاق بن خاصہ الصدیق صالحی نسب نامہ خلیفہ اول صدیق اکبر تک پہنچتا ہے۔ والد بزرگوار کا نام نامی ابو سعید ہے۔ آپ کی والدہ شاہ عالمگیر کے داروغہ مطبخ میر آتش عبد اللہ عرف نواب عزت خاں امیٹھوی کی ہمشیرہ محترمہ تھیں۔ آپ کا خاندان علم و تقوی کے لحاظ سے مضافات لکھنؤ میں نہایت مقبول اور مرجع عام و خاص تھا۔ ملا احمد جیون کی اس تصنیف کی اہم بات یہ ہے کہ موصوف کے زمانہ طالب علمی کی یہ تصنیف ہے جب کہ آپ ابھی عمر کے اکیسویں برس میں داخل ہوئے تھے اور اپنی درسی مصروفیات کو جاری رکھتے ہوئے تقریباً چھ سال کے قلیل عرصہ میں اس تصنیف کو مکمل کر لیا۔ چنانچہ کتاب کے آخر پر خود فرماتے ہیں: "کہ میں نے اس کتاب یعنی تفسیر الآیات الشرعیہ کی تصنیف کا کام امیٹھی میں اپنی عمر کے سولہویں برس میں شروع کیا جب میں حسامی پڑھا کرتا تھا۔ اور یہ 1064ھ کا واقعہ ہے۔ اور امیٹھی ہی میں نے 1069ء میں اس کتاب کو مکمل کر لیا جب میں شرح مطالع الانوار پڑھتا تھا اور اس وقت میری عمر اکیسویں برس میں تھی۔
[7]۔ شاہ ولی اللہ: پیدائش: 1703ء، انتقال:1762ء) برصغیر پاک و ہند میں عہد مغلیہ کے مشہور عالم دین، محدث اور مصنف تھے۔ مجدد الف ثانی اور ان کے ساتھیوں نے اصلاح کا جو کام شروع کیا تھا شاہ ولی اللہ نے اس کام کی رفتار اور تیز کردی۔ ان دونوں میں بس یہ فرق تھا کہ مجدد الف ثانی چونکہ مسلمانوں کے عہد عروج میں ہوئے تھے اس لیے ان کی توجہ زیادہ تر ان خرابیوں کی طرف رہی جو مسلمانوں میں غیر مسلموں کے میل جول کی وجہ سے پھیل گئیں تھیں لیکن شاہ ولی اللہ چونکہ ایک ایسے زمانے سے تعلق رکھتے تھے جب مسلمانوں کا زوال شروع ہو گیا تھا اس لیے انہوں نے مسلمانوں کے زوال کے اسباب پر بھی غور کیا اور اس کے علاج کے بھی طریقے بتائے۔٭ شاہ ولی اللہ کا ایک بڑا کارنامہ قرآن مجید کا فارسی ترجمہ ہے۔ پاکستان و ہندوستان میں مسلمانوں کی علمی زبان فارسی تھی۔ قرآن چونکہ عربی میں ہے اس لیے بہت کم لوگ اس کو سمجھ سکتے تھے۔ شاہ ولی اللہ نے قرآن مجید کا فارسی ترجمہ کرکے اس رکاوٹ کو دور کر دیا۔ اس طرح زیادہ سے زیادہ لوگ اسلام کی تعلیم سے واقف ہونے لگے۔
شاہ ولی اللہ ترجمۂ قرآن کے علاوہ اور بہت ساری کتابوں کے مصنف ہیں۔ یہ کتابیں علم تفسیر، حدیث،فقہ، تاریخ اور تصوف پر ہیں۔ ان عالمانہ کتابوں کی وجہ سے وہ امام غزالی، ابن حزم اور ابن تیمیہ کی طرح تاریخ اسلام کے سب سے بڑے عالموں اور مصنفوں میں شمار ہوتے ہیں۔
ان کی سب سے مشہور کتاب "حجۃ اللہ البالغہ" ہے۔ امام غزالی کی "احیاء العلوم" کی طرح یہ کتاب یھی دنیا کی ان چند کتابوں میں سے ہے جو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھی جائیں گی۔ اس کتاب میں شاہ ولی اللہ نے اسلامی عقائد اور اسلامی تعلیمات کی وضاحت کی ہے اور دلیلیں دے کر اسلامی احکام اور عقاغد کی صداقت ثابت کی ہے۔ اصل کتاب عربی میں ہے لیکن اس کا اردو میں بھی ترجمہ ہو گیا ہے۔
شاہ ولی اللہ دہلوی رحمت اللہ علیہ نے اسلامی ریاست اور اس کے نظام کے بارے میں ایک انتہائی قیمتی اور منفرد کتاب ازالۃالخفاء عن خلافۃ الخلفاء فارسی زبان میں تالیف کی تھی، یہ کتاب دوہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہے اور انتہائی پرمغز ابحاث پر مشتمل ہے۔اس کتاب کا اردو ترجمہ مولانا عبدالشکور فاروقی مجددی نے کیا ہے جو قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی سے شائع ہوا ہے۔ مولانا محمد بشیر سیالکوٹی مدیر دارالعلم اسلام آباد نے 2013 میں اس کتاب کا عربی زبان میں ترجمہ مکمل کر دیا۔ جو مئی 2016ء میں دو ضخیم جلدوں دارالعلم آبپارہ مارکیٹ اسلام آباد سے شائع ہوا۔
شاہ ولی اللہ اپنی کوششوں کی وجہ سے غزالی، ابن تیمیہ اور مجدد الف ثانی کی طرح اپنی صدی کے مجدد سمجھے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے زوال کے بعد جو بیداری پیدا ہوئی اور اس وقت خطے میں اسلامی جو احیائی تحاریک موجودہ ہیں ان کے بانی شاہ ولی اللہ ہی ہیں۔ شاہ ولی اللہ جہاں خود ایک بہت بڑے عالم، مصلح اور رہنما تھے۔ وہاں وہ اس لحاظ سے بھی بڑے خوش قسمت ہیں کہ ان کی اولاد میں ایسے ایسے عالم پیدا ہوئے جنھوں نے ہند وپاک کے مسلمانوں کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا۔
[8] ۔ شاہ ولی اللہ کی قرآنی خدمات کے لیئے درج ذیل کتب دیکھیئے
٭شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی قرآنی فکر کا مطالعہ: ڈاکٹر سعود عالم قاسمی
٭شاہ ولی اللہ دہلوی کی قرآنی خدمات(مجموعہ مقالات) ڈاکٹر یسین مظہر صدیقی
٭ تذکرہ " شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ، ماہنامہ الفرقان،خاص اشاعت، لکھنئو
.[9] یہ تفسیر نامکمل صورت میں پائی جاتی ہے سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کی ابتدائی ایک سو چوراسی آیات کی تفسیر پہلی جلد میں ہے اور آخر کے دو پاروں کی تفسیر علیحدہ علیحدہ جلدوں میں ہے اوریہ جلدیں متعدد بار شائع ہو چکی ہیں۔ ( ہماری زیر بحث آیات سورہ بقرہ کی 229 اور 230 ہیں جبکہ شاہ صاحب کی دستیاب تفسیر صرف 184 نمبر آیت تک ہے۔
[10] ۔حالات و خدمات کے لیئے دیکھیئے کتاب " شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور ان کی علمی خدمات: ڈاکٹر ثریا ڈار (پی ایچ ڈی مقالہ)
[11] ۔ شاہ محمد رفیع الدین دہلوی محدث، مفسر۔ امام الہند شاہ ولی اللہ دہلوی کے صاحبزادے(1163ھ/1750ء - 1233ھ/1818ء)
آپ کا پورا نام رفیع الدین عبد الوہاب تھا،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بیٹے اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے کے چھوٹے بھائی تھے۔آپ کے دوسرے بھائیوں شاہ عبد القادر اور شاہ عبد الغنی کا شمار بھی چوٹی کے محدثین و فقہا میں ہوتا ہے۔برصغیر میں آپ کی شہرت پہلے لفظی اردو ترجمہ قرآن کی وجہ سے ہے۔ جو آپ نے 1200ھ میں مکمل کیا۔آپ کا رسالہ " تفسیر آیت نور " علوم کا گنجینہ ہے۔
[12] ۔ عالم ،عامل،فقیہ فاضل، زاہد،عابد خصوصاً فقہ و تفسیر میں یگانۂروزگار،صاحبِ ورع واتقاء صادق الفراست تھے،تمام علوم آپ نے بھائی شاہ عبد العزیز سے حاصل کیے،تمام عمر تدریس و تنشیر علوم میں رہ کر خاص و عوام کو اپنے چشمۂ فیض سے سیراب کیا اور اپنے والد ماجد کی تعلیمات کوپھیلایا۔ہمہ وقت درس و افادہ میں مشغول اور دہلی کی اکبر آبادی مسجد میں مقیم رہتے تھے۔
امام المفسرين حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی امام المفسرین حضرت شاہ عبدالقادر امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے چھوٹے بیٹے تھے۔ حضرت شاہ عبدالقادر کی پیدائش احمد شاہ کے عہد میں 1167ھ بمطابق1753ء میں ہوئی۔حضرت شاہ عبدالقادر نے علوم و فنون کی تکمیل بڑے بھائی حضرت شاہ عبدالعزيز دہلوی سے کی- تحصیل علوم کے بعد حضرت شاہ عبدالقادر نے مسجد اکبر آبادی ميں تعلیم و تدريس شروع کی۔جبکہ آپ کے دوسرے بھائی مدرسہ کلاں میں تعلیم و تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔مشہور نقشبندی بزرگ حضرت شاہ فضل رحمان گنج مراد آبادی کے بقول حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کےصاحبزادوں میں سے حضرت شاہ عبدالقادر صاحب نسبت بزرگ تھے۔آپ انتہائی خلوت پسند تھے۔آپ نے چالیس سال مسجد اکبر آبادی میں اعتکاف کی حالت میں قرآن کامشہور عالم ترجمہ موضح القران تحریر فرمایا۔ سرسید احمد خاں آثار الصناوید میں لکھتے ہیں کہ آپ کا دہلی والوں کو اس وقت پتہ چلا جب آپکا جنازہ مسجد سے قبرستان لے جایا جا رہا تھا۔آپ کی زاہدانہ زندگی بارے سرسید نے لکھا ہے کہ آپ کے بڑے بھائی آپ کو سال بھر میں دو جوڑے کپڑے اور دو وقت کا کھانا بھیجا کرتے تھے۔حضرت شاہ عبدالقادر کو کشف کی بڑی قوت تھی حضرت شاہ عبدالعزیز رمضان شروع ہونے پر معلوم کرایا کرتے تھے کہ پہلی تراویح میں شاہ عبدالقادر نے ایک پارہ پڑھا یا سوا پارہ پڑھا۔ اگر ایک پارہ پڑھا تو شاہ عبدالعزیز سمجھ جاتے کہ رمضان تیس کا ہوگا اور سوا پارہ پڑھا تو رمضان انتیس کا ہوگا ساری عمر اس کے خلاف کبھی نہ ہوا۔
حضرت شاہ عبدالقادردہلوی کا ترجمہ کردہ موضح القرآن روز اول 1790ء کے لگ بھگ سے ہی مسلمانان برصغیر میں نہایت مقبول و مسلّم بلکہ الہامی ترجمہ کے نام سے مشہور رہا ہے۔ ہر دور کے اہل بصیرت نے اسے الہامی ترجمہ قرار دیا۔ یہ ہندوستان میں قران مجید کا پہلا اردو ترجمہ مانا جاتا ہے اور تمام تراجم کیلیے بمنزلہ اساس ہے، اس ترجمہ پر شاہ صاحب کے چالیس برس خرچ ہوئے، شاہ عبدالقادر کا ترجمہ قرآن موضح القرآن قرآن پاک کے مابعد اردو ترجموں کے لیے مینارہ نور ثابت ہوا بقول مولانا ڈپٹی نذیر احمد مرحوم اردو زبان کے جتنے بھی تراجم ہیں سب کے سب شاہ عبدالقادر کے ترجمے کے مترجم ہیں۔ موضح القرآن کے نام سے یہ پہلا اردو میں بامحاورہ ترجمہ قران تھا۔ مولانا عبدالحئی لکھنوی لکھتے ہیں قرآن پاک کے ترجمے سے پہلے شاہ صاحب نے ایک خواب دیکھا کہ ان پر قرآن حکیم نازل ہوا ہے۔ انھوں نے اپنے برادر بزرگ، شاہ عبدالعزیزؒ سے اس کا ذکر کیا۔ شاہ عبدالعزیزؒ نے کہا کہ بے شک یہ خواب صحیح ہے، وحی کا سلسلہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسکے بعد منقطع ہوچکا ہے لیکن اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو قرآن عزیز کی خدمت کی ایسی توفیق عطا فرمائے گا جو اس سے پہلے کسی کے حصے میں نہیں آئی۔ چنانچہ ان کے خواب کی تعبیر ترجمہ قرآن موضح القرآن کی صورت میں جلوہ گر ہوئی۔
[13] ۔محاسن موضح ِقرآن:تحقیق و تصنیف : مولانا اخلاق حسین قاسمی
٭شاہ عبدالقادرؒ کی قرآن فہمی۔از: مولانا محمدفاروق خان صاحب
[14] ۔شاہ عبدالقادر دہلویؒ کے ترجمہ قرآن کا لسانی و ادبی مطالعہ(پی ایچ ڈی مقالہ) محمد سلیم خالد
٭تاریخ اردو ادب، جلد دوم ،ڈاکٹر جمیل جالبی،مجلس ترقی ادب لاہور ص1049 تا1060 (تحقیقی تبصرہ بر موضح قرآن کے لیئے دیکھیئے)
٭اردو نثر کے ارتقاء میں علماء کاحصہ: ڈاکٹر ایوب قادری(پی ایچ ڈی مقالہ۔ترجمہ موضح قرآن کے فنی محاسن کے لیئے دیکھیئے)
[16] ۔(ایک یمنی محدث کی شہادت) علامہ سید مناظر احسن گیلانی کی سنیئے :"مولانا محمد قاسم نانوتویؒ سے امیر شاہ خاں نے ایک واقعہ نقل کیا ہے، کہ سفر حج میں حضرت کا جہاز یمن کے ساحل کےکسی بندرگاہ پر ٹہر گیا، معلوم ہوا کہ ابھی چند دن رُکا رہے گا، حضرت نانوتویؒ کو کسی نے خبر دی کہ اس بندرگاہ کے شہر میں کہنہ سال معمر بزرگ محدث رہتے ہیں ان کی ملاقات کو حضرت تشریف لے گئے، مل کر مولانا نانوتویؒ ان کے علم سے بہت متاثر ہوئے اور درخواست کی کہ حدیث کی سَند اجازت ہو، اسپر محدث صاحب نے پوچھا تم کس کے شاگرد ہو؟ انھوں نے اپنے استاد مولانا عبدالغنی مجددیؒ کا نام لیا، محدث صاحب ناواقف تھے، پوچھا عبدالغنی کس کے شاگرد تھے؟ جواب ملا : شاہ اسحاقؒ کے، شاہ اسحاقؒ سے بھی وہ ناواقف تھے، پوچھا وہ کس کے شاگرد تھے؟ کہا شاہ عبدالعزیز صاحب ؒ کے،شاہ عبدالعزیز صاحب ؒ کا نام سن کر محدث صاحب رُکے بولے ان کو میں جانتا ہوں، اور اسکے بعد فرمایا :
"شاہ ولی اللہ ؒ طوبیٰ کا درخت ہے، جسطرح جہاں جہاں طوبیٰ کی شاخیں ہیں وہاں جنت ہے اور جہاں جہاں اسکی شاخیں نہیں وہاں جنت نہیں ہے۔یونہی جہاں شاہ ولی اللہؒ کا سلسلہ ہے وہاں جنت ہے اور جہاں انکا سلسلہ نہیں ہے وہاں جنت نہیں ہے"۔(تذکرہ شاہ ولی اللہؒ، مولانا سید مناظر احسن گیلانی، ص196،نوید پبلیشرز ، لاہور)
۔ مزے کی بات لفظ " مرجع " جس سے رجوع کیا جائے بھی " ر ج ع " سے بنا ہے۔[17]
[18] ۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی اپنے عہد کے عظیم فقیہ، محدث، محقق اور مفسر تھے۔ مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی انہیں بیہقی وقت کہا کرتے تھے۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے انہیں بیہقی وقت کا لقب دیا اور مرشد گرامی مرزا مظہر جان جاناں نے علم الہدی کا لقب دیا اور ان کے ساتھی انہیں ثناء اللہ کی بجائے سناءاللہ(اللہ کی چمک) کہتے جس سے ان کے روحانی مرتبے اور مقام کی نشان دہی ہوتی ہے۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے حافظ محمد عابد لاہوری سنامی احمدی لاہوری نقشبندی شیخ محمد عابدسنامی کے دست حق پرست پر بیعت کی اور علم طریقت (نقشبندیہ) حاصل کیا۔ ان کے وصال کے بعد اور ایک روایت کے مطابق ان کے ارشاد پر میرزا مظہر جان جاناں دہلوی سے کسبِ فیض کیا۔ میراز مظہر جان جاناں ان کے جوہر سے بہت متاثر تھے انہیں علم الہدٰی کا لقب دیا انہوں نے قاضی ثناء اللہ کے بارے میں یہ بھی فرمایا کہ اگر اللہ تعالی نے بروز حشر مجھ سے پوچھا کہ میری بارگاہ میں کیا تحفہ لائے ہو تو میں کہوں گا ثناء اللہ پانی پتی لایا ہوں ۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی کی مبسوط عربی تفسیر قاضی ثناء اللہ پانی پتی 1730-1731ء ١١٤٣ ھ کو پانی پت میں پیدا ہوئے۔ آپ شیخ جلال الدین کبیر الاولیاء کی اولاد سے ہیں۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے سات برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا۔ اور بعد میں دوسرے علوم کی تحصیل میں مشغول رہے۔ تحصیل علم کی خاطر دہلی گئے۔ جہاں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے حدیث کا علم حاصل کیا۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے شاہ محمد عابدستانی کے ہاتھ پر بیعت کی۔ ان کے وصال کے بعد حضرت میرزا مظہر جان جاناں سے کسبِ فیض کیا۔ علم کی تحصیل کے بعد وطن واپس آئے اور بقیہ عمر افتاء، تصنیف وتالیف اور نشر علوم میں گزاری دی۔ آپ نے پانی پت میں منصب قضاء بھی اختیار کیا اور اس بلند عہدے کا نہایت احسن طریقے سے حق ادا کیا۔ قاضی ثناء اللہ پانی پتی اپنے عہد کے عظیم فقیہ، محدث، محقق اور مفسر تھے۔ مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی انہیں بیہقی وقت کہا کرتے تھے۔ فقہ اصول میں آپ مرتبہ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے۔ تفسیر وکلام میں وتصوف میں آپ کو یدطولیٰ حاصل تھا۔ آپ کی تیس سے زائد تصانیف وتالیفات ہیں۔ ان میں مشہور تصنیف زیر تبصرہ کتاب تفسیر مظہری عربی زبان میں دس جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کو آپ نے اپنے مرشد مرزا مظہر جانجاناں کے نام سے منسوب کیا۔ تفسیر کا انداز محدثانہ ہے۔ یہ تفسیر قدمائے مفسرین کے اقوال اور تاویلات جدیدہ کی جامع ہے۔ اس کا اردو ترجمہ کے فرائض حضرت علامہ قاضی سید عبدالدائم الجلالی البخاری نے سراانجام دیئے ہیں جو کہ خود بہت بڑے مفسر قرآن ہیں ۔ آپ کی تفسیر " بیان السبحان " اردو کی اعلیٰ تفاسیر میں شمار ہوتی ہے۔
وفات یکم رجب 1225ھ مطابق 02/08/1810
[19] ۔تذکرہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی۔از: ڈاکٹر محمودالحسن عارف(پی ایچ ڈی مقالہ)خدمات واحوال کے لیئے کتاب دیکھئے
[20] ۔ حضرت شاہ رؤوف احمد مجددیؒ نہ صرف روحانی شخصیت تھے بلکہ آپ علوم قدیم و جدید پر بھی مکمل عبور رکھتے اور اردو و فارسی کے شاعر بھی تھے۔ حضرت شاہ رؤوف احمد مجددیؒ جن کا تاریخی نام رحمٰن بخش تھا 1786ء میں مصطفی آباد (رام پور) میں 14 محرم الحرام کے دن پیدا ہوئے۔ آپ نے تعلیم اپنے ماموں حضرت شاہ سراج احمد مجددیؒ، مفتی شرف الدینؒ رام پوری اور محدث دہلوی حضرت شاہ عبدالعزیزؒ سے حاصل کی جبکہ روحانی منازل شاہ غلام علیؒ دہلوی اور حضرت فیض بخشؒ المعروف شاہ درگاہیؒ کے زیر سایہ طے کیں۔
حضرت شاہ روؤف احمد رافت مجددی کا سلسلہ نسبت حضرت مجدد الف ثانی کے واسطہ سے خلیفہ دوم حضرت سیدنا عمر فاروقؓ سے جاملتا ہے۔ حضرت شاہ رؤوفؒ نے کئی کتابیں لکھیں۔ ان میں سے قرآن مجید کی تفسیر (تفسیر رؤوفی) سب سے زیادہ مقبول ہوئی۔
حضرت شاہ رؤوف احمد مجددیؒ نے تفسیر رؤوفی جس کا اصل نام تفسیر مجددی ہے کا آغاز حمد اور نعت رسول مقبولؐ سے کیا ہے۔
تفسیر رؤوفی آسان اردو میں لکھی گئی ہے جس میں مشکل اور ثقیل الفاظ کم سے کم استعمال کئے گئے ہیں۔ اس میں بہت سی معلومات بھی درج ہیں جن سے پڑھنے والے قارئین کی معلومات میں اضافہ ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ بہت سی حقیقتوں سے بھی آگاہ ہوجاتا ہے جوکہ عام کتب پڑھنے سے میسر نہیں آسکتیں۔
اس تفسیر کی بہت سی خوبیوں کے علاوہ ایک خصوصی خوبی یہ ہے کہ اس میں مسائل پر آسان اور سادہ انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے جس سے قاری کو بہت سے حقائق سے آگاہی ہوتی ہے اور وہ اس پر عمل کرکے اپنی زندگی کو مصائب ومشکلات سے پاک اور آسان بناسکتا ہے۔ تفسیر کی اشاعت عکس کے ذریعے ہونے کے باوجود نمایاں اور واضح ہے۔
[22] ۔تفسیر
فتح المنّان المشھور بہ تفسیر حقّانی ابومحمد عبدالحق حقانی کی 5 جلدوں پر مشتمل اردو تفسیر
قرآن نہایت
عمدہ اور عالمانہ ہے۔
اس کا اصل
نام " فتح المنان " ہے،
مولانا عبد الحق حقانی دہلوی اس کے مؤلف ہیں اور اسی نسبت سے
" تفسیر
حقانی " کے نام سے معروف و مشہور ہے، اس تفسیر میں روایت کو کتاب حدیث سے اور
درایت کو اس فن کے علما محققین سے جمع کیا گیا ہے، اُردو میں اصل مطلب قرآن کو
واضح کیا گیا ہے، شانِ نزول میں روایتِ صحیحہ نقل کی گئی ہیں، آیات احکام میں اول
مسئلہ منصوصہ کو ذکر کرکے پھر اختلاف مجتہدین اور
ان کے دلائل کی وضاحت کی ہے، اعراب کی مختلف وجوہ میں سے جو مصنف کی نگاہ میں قوی
تھی اس کا ذکر کیا گیا ہے، معانی اور بلاغت کے متعلق نکات قرآنیہ پر بھی گفتگو ہے،
کوئی حدیث بغیر سند کتب صحاح
ستہ وغیرہ
کے نہ لائی گئی ہے، قصص میں جو کچھ روایت صحیحہ یاکتب سابقہ سے ثابت ہے یا خود
قرآن میں جو کچھ وارد ہے اس کو بیان کر دیا ہے، آیات میں ربط پر خاص توجہ ہے،
مخالفین کے شکوک وشبہات جس قدر تاریخی واقعات یامبداء ومعاد کی بابت کیے جاتے ہیں،
سب کا جواب الزامی اور تحقیقی دیا گیا ہے اور نفس ترجمہ میں تفسیر کو قوسین کے
درمیان لایا گیا ہے، تکرار، رطب ویابس اور کسی خاص مذہب کی تائید میں غلو سے
اجتناب ہے اور مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرنے کے بعد قرآن مجید کی حقانیت کو واضح
کیا گیا ہے، بائبل اور دوسری مذہبی کتابوں سے تقابلی مطالعہ اور سرسیداحمد
خان کی
فکری لغزشوں پر تنبیہ اس تفسیر کا خاص موضوع ہے اور یہ تفسیر سلف کی عمدہ تفاسیر
کا لب لباب اور عطر ہے۔
تفسیر حقانی کی نمایاں خصوصیات
1۔ آیات میں ربط پر خاص توجہ ہے۔
2۔ شان نزول میں روایت صحیحہ نقل کی گئی ہیں۔
3۔ کوئی حدیث بغیر سند کتب صحاح ستہ وغیرہ کے نہیں لائی گئی ہے۔
4۔ اس تفسیر میں روایت کو کتاب حدیث سے اور درایت کو اس فن کے علما محققین سے جمع کیا گیا ہے۔
5۔ آیات احکام میں اول مسئلہ منصوصہ کو ذکر کرکے پھر اختلاف مجتہدین اور ان کے دلائل کی وضاحت کی ہے۔
6۔ اعراب کی مختلف وجوہ میں سے جو مصنف کی نگاہ میں قوی تھی اس کا ذکر کیا گیا ہے۔
7۔ علم معانی و بلاغت وغیرہ کی اصطلاحات اور رموز نکات اور معانی و بلاغت کے متعلق نکات قرآنیہ پر بھی گفتگو ہے۔
8۔ قصص میں جو کچھ روایت صحیحہ یا کتب سابقہ سے ثابت ہے یا خود قرآن میں جو کچھ وارد ہے اس کو بیان کر دیا ہے۔
9۔ ہر ایک آیت کے مشکل الفاظ کے معنی اور اردو میں پوری تشریح لکھنے کے بعد عام فہم تفسیر۔
10۔ مخالفین کے شکوک و شبہات جس قدر تاریخی واقعات یا مبداء و معاد کی بابت کیے جاتے ہیں، سب کا جواب الزامی اور تحقیقی دیا گیا ہے۔
11۔ تکرار، رطب و یابس اور کسی خاص مذہب کی تائید میں غلو سے اجتناب ہے اور مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرنے کے بعد قرآن مجید کی حقانیت کو واضح کیا گیا ہے۔
13۔ بائبل اور دوسری مذہبی کتابوں سے تقابلی مطالعہ اور سرسید احمد خان کی فکری لغزشوں پر تنبیہ اس تفسیر کا خاص موضوع ہے۔
14۔ منطق و فلسفہ سے استدلال فن مناظرہ کے مباحث
15۔ علما کرام اور عربی دان حضرات کے لیے آیات کی تفسیر سے پہلے ترکیب نیز صرفی نحوی لغوی تشریح و تحقیق۔
16۔ صوفیائے کرام کے فیوضات و ملفوظات اور تصوف کے اسرار و نکات کی باریکیاں آیات کی تفسیر کے ضمن میں اپنا خاص رنگ اور روحانی اثر دکھا رہے ہیں
[23] ۔14 نومبر 1978ء رات ساڑھے گیارہ ہو رہے تھے کہ میں اچانک نیند سے بیدار ہوگئ ، فوری طور پر دوبارہ نیند آنا مشکل تھا اسلیئے میں نے کسی مصروفیت کے لیئے ٹی وی آن کر دیا ، اسی وقت یونیورسٹی کے طلباء کے لیئے دینی اور معلوماتی پروگرام " قرآن فہمی " اختتام پذیر ہو رہا تھا، " صاحبِ مقرر جناب جسٹس پیر کرم شاہ" اپنی گفتگو سمیٹ رہے تھے کہ انھوں نے کہا "اچھا میں آپ کو قرآن فہمی کا ایک آسان نسخہ بتاتا تھا ہوں" میرے کان کھڑے ہوگئے آپ نے فرمایا " آپ چالیس روز بلا ناغہ قرآن حکیم کا مطالعہ شیخ الہند حضرت محمود حسن کے اردو ترجمہ کے ساتھ کیجیئے،اللہ تعالے کے فضل سے یہ کتاب آپ سے ہم کلام ہو جائے گی"۔ صبح ہوتے ہی میں نے اس نسخئہ کیمیا کو حاصل کیا اور 15 نومبر1978ء تہجد کے نوافل کی ادائیگی کے بعد اس مبارک کتاب سے ہم کلام ہونے کی آرزو میں سورۃ المبارکہ " العلق" سے آغازِ تلاوت کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب میرا معمول ہوگیا کہ میں جتنا مطالعہ کر پاتی اسے جس طرح شیخ الہند کے ترجمہ اور حضرت شبیر احمد عثمانی کے حاشیہ پر تفسیر کے مطابق سمجھنے کی کوشش کرتی، تحریر کی شکل میں محفوظ کر لیتی،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،میں نے اُس وقت اشاعت کی غرض سے ہرگز نہیں لکھی تھی، یونہی لاشعوری طور پر آٹھ دس ماہ یہ تحریر لکھتی رہی اور اس کے بعدمیں نے اسے اپنی صندوقچی میں بند کردیا ،،،،،،،،،،،،،، آٹھ دس برس بیت گئے اس دوران میرا سفر جاری رہا ،،،،،،،،،،،،،،، مگر 5 برس پہلے اللہ کے کرم سے ایسی روحانی توانائی عطا ہوئی کہ مسودہ صندوقچی سے باہر نکالا ،،،،،،،،،،،،،،،،، اور اسے دوبارہ ترتیب دیا اور پاکستان آکر اشاعت کی کوشش کرنا شروع کی"(دل میں اُترتے حرف ، محترمہ کہکشاں ملک ،انتخاب از : ص 12، 13 ، 14)
[24] ۔ حضرت شیخ الہند کا ترجمہ قرآن میں انہماک اور ایک اہم انکشاف: ”حضرت شیخ الہند ؒکے لئے ترجمہ قرآن کرنا اِس قدر اہمیت کا کام تھا کہ حضرت ؒ کی جلاوطنی مالٹا کے دوران جب جہاز کو سمندری طوفان سے سابقہ پڑا تو حضرت نے اپنے رفقاء سفر کے سینوں کے ساتھ ترجمہ کیئے ہوئے چند پاروں کے اوراق بندھوا دیئے تھے کہ کہیں کوئی صورت بچاؤ کی نکل آئے تو یہ اوراق بھی محفوظ رہیں( بروایت علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ،مقدمہ ،تفسیر عثمانی،بجنو ر) آخر آہستہ آہستہ اِس کام میں مکمل انہماک اور شغف کے نتیجہ میں خود فرماتے تھے کہ ”جیل میں قید کی تنہائیوں میں، مَیں نے مسلمانوں کے زوال اور بدحالی پر غور کیا تو دو وجوہات میرے سامنے آئیں کہ آپس کا اختلاف و افتراق اور قرآن کریم سے دوری، یہ مسلمانوں کے زوال کی سب سے بڑی وجوہ ہیں( بروایت مفتی اعظم محمد شفیعؒ،وحدت اُمت،دارالاشاعت،کراچی)٭اسی قرآن فہمی سے آپ نے مسلمانوں کو روشناس کروانے کے لئے خاندان ِولی اللہ کی روایات عظیمہ کو مشعلِ راہ بنایا۔
[25] ۔ "مولانا ابوالوفاثناء اللہ امرتسری ؒاپنے استاد شیخ محمودالحسنؒ کی یاد یوں فرماتے ہیں "موصوف بڑے پایہ کے عالم تھے۔ ہر فن کی تعلیم دیتے تھے مگر حدیث کے ساتھ آپ کو خاص اُنس تھا۔ میرا چشم دید واقعہ بلکہ روزانہ کے واقعات میں کہ آپ جس چوکی پر حدیث کی کتاب رکھ کر پڑھاتے تھے۔ منطق اور فلسفہ کی کتابیں اِس پر نہیں رکھتے تھے۔ یہ واقعہ میں اپنی ساری مدت ِ تعلیم میں دیکھتا رہا۔“ (قرآن حکیم کے اردو تراجم (پی ایچ ڈی مقالہ)ص 422/ڈاکٹر صالحہ شر ف الدین)
[26] ۔ شیخ الہند نے اپنے ترجمہ سے پہلے اک بہت اہم مقدمہ اور اصول تراجم بیان فرمائے ہیں اہل علم کو اسے بغور مطالعہ کرنا چاہیے جس کے لیئے لنک پیش خدمت ہے
https://web.facebook.com/groups/247334475311797/posts/2608630825848805 /
٭شیخ الہند کا اصل مقدمہ ترجمہ قرآن: مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی
[27] ۔ اہل دیوبند کی قرآنی تراجم و تفاسیر کی اجمالی فہرست
اور"قرآنی خدمات "پر ایک مختصر سا مضمون ملاحظہ ہو
[28] ۔حمید الدین فراہی اور جمہور کے اُصولِ تفسیر تنقیدی و تحقیقی مطالعہ(پی ایچ ڈی مقالہ)
[29] ۔خاکسار تحریک مذہب و سیاست کی روشنی میں: مولانا منظور نعمانی ، ماہنامہ الفرقان، اگست 1939ء، لکھنئو، انڈیا
[30] ۔اصولِ اصلاحی اور اصولِ غامدی کا تحقیقی جائزہ:عبدالوکیل ناصر/// ٭ انکارِ حدیث کا نیا روپ: غازی عزیز
[31] ۔تفسیر مطالب الفرقان کا علمی و تحقیقی جائزہ:ڈاکٹر حافظ محمد دین قاسمی(پی ایچ ڈی مقالہ)////٭پرویز اور قرآن: علامہ مفتی مداراللہ مدار نقشبندی
[32] ۔قرآن اور عورت : ڈاکٹر حافظ محمد دین قاسمی
[33] ۔انکارِ حدیث کے نتائج : شیخ الحدیث علامہ سرفراز خان صفدرؒ
[34] ۔ ’’تفسیرالقرآن ‘‘ جو
’’تحریف القرآن ‘‘قرار پائی۔اپنی تفسیرالقرآن میں لکھا ہے کہ :
’’جو لوگ
یہ سمجھتے ہیں کہ اس پتھر کے بنے ہوئے چوکھونٹے گھر میں ایسی متعدی برکت ہے کہ
جہاں سات دفعہ اس کے گرد پھرے اور بہشت میں چلے گئے ،یہ ان کی خام خیالی ہے۔ اس
چوکھونٹے گھر کے گرد پھر نے سے کیا ہوتا ہے‘ اس کے گرد تو اونٹ اور گدھے بھی پھر
تے ہیں تو وہ کبھی حاجی نہیں ہوئے‘‘۔ (تفسیر القرآن ج:۱)
کعبہ سارے
جہاں کے مسلمانوں کا قبلہ ہے اور اس کے قبلہ قرار دیئے جانے کا حکم قرآن کریم اور
احادیث صحیحہ میں ہے مگرسرسید لکھتے ہیں:
’’کعبہ کی
طرف منہ کرکے نماز پڑھنا اسلام کا کوئی اصلی حکم نہیں ہے۔ نماز میں سمت قبلہ کوئی
اصلی حکم ،مذہب اسلام کا نہیں ہے‘‘۔ (تفسیر القرآن ج:۱)
سرسید کے
سامنے اسلام کی تقریباً۱۲سو
سال کی تاریخ موجود تھی مگر انھوں نے مذہبی احکامات اور عقائد کو سمجھنے کے لئے اس
کا سہارا نہیں لیا اور اپنی الگ راہ نکالی۔ اس کا نتیجہ یہ رہا کہ سرسید نے
ملائکہ، جنت ودوزخ ، جنات اور ابلیس کے وجودسے انکار کردیا اور معجزات وکرامات ان
کے نزدیک مجنونہ باتیں قرار پائیں۔
مسلمانوں کے راسخ الاعتقاد طرز کو ان کے مستقبل کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے سرسید نے مغربی طرز کی سائنسی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے جدید اسکولوں اور جرائد کا اجرا کیا اپنے کلامی مکتبِ فکر کی بنیاد ڈالی جو معتزلہ کے افکار کا چربہ تھا مگر اس کے کلامی نظریات مقبول نہ ہو سکے اس لیے صرف سائنسی علوم کی اشاعت تک محدود رہا۔سر سید کی اسلام کو سائنس اور جدیدیت کے ساتھ ہم آہنگ بنانے کے لیے عقلیت پسند (معتزلہ) روایت کی وکالت نے عالمی طور پر اسلامی اصلاح پسندی کو متاثر کیا اور ناقابل تلافی نقصان دیا۔نیچریت ایک فکری تحریک ہے جو سر سید احمد خان نے شروع کی تھی۔ سر سید احمد خان دراصل جدید معتزلہ کے بانی تھے، وہ تاویلات کے ذریعے اسلامی عقائد کو انسانی عقل اور مغربی فکر و فلسفہ کے تابع کر کے رکھنے کے قائل تھے۔ دین کی مادی (Materialistic) تشریح کرتے لہٰذا حجیت سنت کے قائل نہ تھے۔ اپنے اس نظریے کو وہ "نیچَرِیَت" (Naturism) کہتے تھے۔ چنانچہ لکھتے ہیں: ’’جو ہمارے خدا کا مذہب ہے وہی ہمارا مذہب ہے۔ خدا نہ ہندو ہے نہ عرفی مسلمان، نہ مقلد نہ لامذہب نہ یہودی اور نہ عیسائی، وہ تو پکا چھٹا ہوا نیچری ہے‘‘۔
عصرِ حاضر میں ڈاکٹر جاوید احمد غامدی مذہب کی اتّباعِ عقل و جِدّت (Rationalification and modernization of religion) کے علمبردار ہیں۔ وہ سر سید احمد خان، امین احسن اصلاحی اور غلام احمد پرویز کو اپنا مؤثر بتاتے ہیں اور (جدید زمانے کے ساتھ مطابقت رکھنے والے) اسلام کے حامی ہیں۔
[35] ۔دونوں خطوط کے لیئے دیکھیئے "تحریر فی اُصول التفسیر:سید احمدخان،مطبع مفید عام آگرہ،1892ء"(احقر کے پاس یہ عکسی نسخہ خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ انڈیا ،اشاعت1995ء کا ہے)
٭" برصغیر میں اُ صول تفسیر کے مناہج و اثرات تجزیاتی و تنقیدی مطالعہ(پی ایچ ڈی مقالہ) ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن " اپنے موضوع پر شاندار تحقیق ہے۔
[36] ۔تفسیر القرآن سر سید کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ: پروفیسر الیاس،بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد
٭سرسید کی تفسیری تجددپسندی ایک مطالعہ : ڈاکٹر محمد شہباز منج
[37] ۔مزرا فرحت اللہ بیگ (شاگرد ڈپٹی نذیر احمد)کی”نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی “1927ءکی تحریر ہے۔
[38] ۔مولوی نذیر احمد آثار و احوال:ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی،ص286، مجلس ترقی اردو ادب لاہور
[40]۔حوالہ کے لیئے دیکھیئے" آزاد کی کہانی خود آزاد کی زبانی - بہ روایت ملیح آبادی " کتاب کا لنک حاضر خدمت ہے
[41] ۔آپ یادِ رفتگاں میں علامہ عثمانی کے متعلق رقمطراز ہیں ”موصوف کے مضامین اورچھوٹے رسائل تو متعدد ہیں ، مگر حقیقت یہ ہے کہ اِن کے تصنیفی اور علمی کمال کا نمونہ اردو میں اِ ن کے قرآنی حواشی ہیں جو حضرت شیخ الہندؒ کے ترجمے کے ساتھ چھپے ہیں۔ان حواشی سے مرحوم کی قرآن فہمی اور تفسیروں پر عبور اور عوام کی دل نشینی کے لئے ان کی قوتِ تفہیم حدِّ بیان سے بالا ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ ان حواشی سے مسلمانوں کو بڑا فائدہ پہنچا ہے۔ اِن حواشی کی افادیت کا اندازہ اِس سے ہوگا کہ حکومت افغانستاان نے اپنے سرکاری مطبع سے قرآنی متن کے ساتھ حضرت شیخ الہند ؒکے ترجمہ اور مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی ؒ کے حواشی کو افغان مسلمانوں کے فائدے کے لئے فارسی میں ترجمہ کر کے چھاپا ہے۔(یادِ رفتگاں کا لنک حاضر خدمت ہے)
[42] ۔ افکار کی دنیا میں ہر تحریر" نقد و فکر" کے ترازو میں تُلتی ہے جہاں مولانا آزاد کے معترف موجود ہیں وہیں اُن کے طرز و افکار کے نہایت ثقہ ناقد بھی موجود ہیں "صاحبِ ترجمان القرآن " پر علامہ سید یوسف بنوری ؒ نے اپنے شیخ الاستاذ مکرم کی کتاب"مشکلات القرآن" کے مقدمہ یتیمة البیان فی شییٴ من علوم القرآن میں نقد فرمایا جسے آپ اردو ترجمہ"منتخبات اُصول تفسیر و علومِ قرآن " ص 126 تا 130 پر مطالعہ کر سکتے ہیں۔
[43] ۔مولانا امرتسری کا اپنے استاد کے متعلق مشاہدہ حاشیہ نمبر22 ملاحظہ کیجیئے۔
[44] ۔مولوی نذیر احمد آثار و احوال:ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی،ص267، مجلس ترقی اردو ادب ، لاہور
[45] ۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد نسیم عثمانی مولانا جالندھری کے ترجمہ پر اس طرح رقم طراز ہیں:ان کا ترجمہ قرآن مجید با محاورہ ہونے کے ساتھ ساتھ مستند سمجھا جاتا ہے اور امت مسلمہ کے تمام فرقوں کے لیے قابل قبول ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد نسیم عثمانی ،اردو میں تفسیری ادب پر ایک تاریخی تجزیاتی جائزہ، ص۔۳۳
[48] ۔ داعئی کبیرمولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی ؒ:آپ اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ”جب ترجمہ قرآن اور تفسیر کی تدریس کی خدمت دارالعلوم (ندوۃ العلماء) میں سپرد ہوئی تو مولانا شبیر احمد عثمانی ؓ کے حواشی کی قدر آئی جن میں انہوں نے مفسرین کے اقوال کا عطر اور ان کی تحقیق کا وہ حصہ نقل کر دیا ہے جس کو اِس زمانہ کا سلیم ذہن آسانی کے ساتھ قبول کر لیتا ہے۔ اس میں مولاناکی سلاستِ فکر، حسنِ انتخاب اور تحریر کی شگفتگی بخوبی عیاں ہے۔ میں نے دیوبند کی ایک ملاقات میں مولانا سے اپنا یہ تاثر ظاہر کیا،مولانا کو بڑی مسرت ہوئی اور بعض صاحبوں سے اس کو نقل کیا"(میرے مطالعہ قرآن کی سرگذشت) اپنے اِسی تجربہ و تاثر کی بناء پرحضرت ندوی ؒ نے ”شاہ فہد قرآن پرنٹنگ کمپلکس مدینہ منورہ وزارت اوقاف سعودی عرب کے جانب سے ”تفسیر عثمانی“ شائع کرنے کے موقع پر بطور توثیق و تعریف کہا ”اردو زبان میں یہ سب سے اچھا ترجمہ و تفسیر ہے اس کی طباعت و اشاعت ہونی چاہئے"۔
[49] ۔عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح: مولانا سیدابوالحسن علی ندوی
[50] ۔موجِ کوثر :شیخ اکرام، ص201 تا 203،ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، 2004ء، لاہور
[51] ۔ ڈاکٹر صاحب نے خود ترجمہ و تفسیرقرآن لکھنے کے متعلق کیا فرمایا تھا؟؟؟؟ سماعت فرمائیے
[52] ۔ حامد حسن بلگرامی بن سید محمود حسن بلگرامی 2 اگست 1908ء بمطابق 1326ھ کو بھار ت کے علاقہ بلگرام الہ آباد(اُترپردیش)، بھارت میں پیدا ہوئے۔ وطن کی نسبت نام کا جزو بن گئی۔ آپ خاندانی طور پر زیدی واسطی سادات خاندان سے متعلق تھے۔ ابتدائی عمر میں والدین کا سایہ شفقت سر سے اٹھ گیا۔ یتیمی کے عالم میں تعلیم کے سفر کا آغاز کیا۔ الہ آباد یونیورسٹی (بھارت) سے بی اے اور ایم اے (اردو) کیا اس کے بعد اسی درسگاہ سے اردو میں علامہ اقبال پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ 1937ء کو بھارت کی نامور درسگاہ دون پبلک اسکول ڈیرہ دون سے اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔ اس اسکول میں وہ واحد مسلمان استاد تھے۔ 1948ء کو پاکستان منتقل ہو گئے اور کچھ ہی روز قیام کے بعد اسی سال لندن یونیورسٹی (برطانیہ) میں پاکستان کی زبان تہذیب اور کلچر کے لیکچرار مقرر ہوئے اور پانچ سال کے بعد 1953ء میں وطن واپس آئے۔ حکومت پاکستان کے تحت مرکزی پلاننگ بورڈ میں پہلے ڈپٹی چیف اور پھر سربارہ تعلیمات کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 1960ء کو ہی محکمہ اوقاف پنجاب کی جانب سے ائمہ و خطباء مساجد کی تربیت کے لیے ’’علما اکیڈمی‘‘ کا قیام عمل میں آیا، جس میں آپ کو ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔ اس کے بعد فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے بہاولپور کی ’’جامعہ عباسیہ‘‘ کا نام ختم کرکے ’’اسلامیہ یونیورسٹی‘‘ نام تجویز کیا اور آپ نے وہاں پانچ سال تک وائس چانسلر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ بہاولپور سے واپسی پر مختلف تعلیمی اور تالیفی سرگرمیاں رہیں ڈیڑھ برس ملک عبد العزیز یونیورسٹی جدہ میں اسلامی تعلیمات کے متعلق پروفیسر رہے۔ اس کے بعد کچھ عرصہ مرکز تعلیمات اسلامی کے مشیر کی حیثیت سے کام کیا ۔تفسیر فیوض القرآن اردو 2 جلدیں بہاولپور کے قیام کے دوران تحریر فرمائی۔
[53] ۔آپ نے انگلش ، فارسی ،پشتو ترجمہ قرآن کے ساتھ ساتھ عربی میں تفسیر نبویﷺ" کے نام سےقرآنی خدمات سرانجام دی ہیں۔
([54]) . Hilali worked with Muhammad Muhsin Khan in the English translation of the meanings of the Qur'an and Sahih Al-Bukhari. Their translation of the Qur'an has been described as ambitious, incorporating commentary from Tafsir al-Tabari, Tafsir ibn Kathir, Tafsir al-Qurtubi and Sahih al-Bukhari.
([55] ). Muhammad Muhsin Khan (Pashto/Dari/Arabic: محمد محسن خان ; 1927 – 14 July 2021) was an Islamic scholar and translator of Afghan origin, who lived in Madinah and served as the Chief of Department of Chest Diseases at the King Faisal Specialist Hospital and Research Center. He translated both the Quran and Sahih Al-Bukhari into English. He was the director of the clinic of Islamic University of Madinah.
[56] ۔جن کے مفصل احوال اور حوالہ آپ پچھلے صفحات میں ملاحظہ کر چکے ہیں۔دوسرے پہلو کا نمبر شمار 5۔ اوردیکھیئے حاشیہ نمبر32 دیکھیئے
[57] ۔ موصوف کی اک شاندار کتاب آپ پہلے ملاحظہ فرما چکے ہیں بطور قندِ مکرر پیشِ خدمت ہے " شاہ عبدالقادر کی قرآن فہمی"۔
[58] ۔Contribution of Darul-'Ulum Deoband to the Development of Tafsir(Ph.d thesis-bilal ahmed wani.
[59] ۔ آئیندہ آیات ِ قرآنی کے سب تراجم " تشریح القرآن : مولانا عبدالکریم پاریکھ" سے ماخوذ ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کتابیات و مآخذ واسنادِ محولہ
1) القرآن الکریم فرقان الحمید
2) چراغِ نیم شب : سلیم احمدؔ
3) ۔مفردات القرآن(اردو ) جلد اول ، تصنيف : امام راغب اصفہانی ، ترجمہ وحَواشِی : شیخ الحدیث مولانا محمد عبدُہ فیروز پوری رحمہ اللہ
4) المعجم المفھرس لأ لفاظ القرآن الکریم : محمد فواد عبدالباقی
5) برصغیر پاک و ہند میں قرآن فہمی اور تفسیری خدمات کا علمی اور تحقیقی جائزہ(پی ایچ ڈی مقالہ:محمد حبیب اللہ قاضی)
6) ۔المعانی عربی اردو ڈکشنری: آن لائن
7) 3۔حضرت ملا احمد جیون: " التفسیرات الاحمدیہ
8) محی الدین سلطان اورنگ زیب عالمگیر: رشید اختر ندوی
9) ۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی : فارسی ترجمہ قرآن"فتح الرحمٰن"
10) ۔تذکرہ شاہ ولی اللہؒ، مولانا سید مناظر احسن گیلانی
11) مظہرالقرآن: مولانا مظہر دہلوی
12) شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی قرآنی فکر کا مطالعہ : ڈاکٹر سعود عالم قاسمی
13) شاہ ولی اللہ دہلوی کی قرآنی خدمات(مجموعہ مقالات) ڈاکٹر یسین مظہر صدیقی
14) " شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ، ماہنامہ الفرقان،خاص اشاعت، لکھنئو
15) فتاوئ عزیزی(مترجم اردو): شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی
٭ تفسیر عزیزی ( فتح العزیز): شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی
16) شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور ان کی علمی خدمات: ڈاکٹر ثریا ڈار
17) شاہ رفیع الدین محدث دہلوی: ٭لفظی ترجمہ٭
18) تفسیر آیت نور: شاہ رفیع الدین محدث دہلوی
19) رئیس المفسرین ِ برعظیم جنوبی ایشیاء:حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی: موضح قرآن
20) (مستند موضح قرآن :تصحیح و تدوین علامہ اخلاق حسین قاسمی)
21) محاسن موضح ِقرآن:تحقیق و تصنیف : مولانا اخلاق حسین قاسمی
22) شاہ عبدالقادرؒ کی قرآن فہمی۔از: مولانا محمدفاروق خان صاحب
23) شاہ عبدالقادر دہلویؒ کے ترجمہ قرآن کا لسانی و ادبی مطالعہ(پی ایچ ڈی مقالہ) محمد سلیم خالد
24) تاریخ اردو ادب، جلد دوم ،ڈاکٹر جمیل جالبی،مجلس ترقی ادب لاہور
اردو نثر کے ارتقاء میں علماء کاحصہ: ڈاکٹر ایوب قادری
25) فوائد جامعہ شرح عجالہ نافعہ:علامہ ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی
26) تفسیر مظہری ، مفسر قاضی ثناء اللہ پانی پتی
27) تذکرہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی: ڈاکٹر محمودالحسن عارف
28) حضرت شاہ رؤوف احمد مجددیؒ:تفسیر رؤوفی
29) مولانا فخر الدین احمد قادری : تفسیر قادری
30) "خلاصۃ التفسیر" از مولوی فتح محمد تائب لکھنوی(م۱۳۴۲ھ/۱۹۲۳ء)
31) ٭ حضرت علامہ ابو محمدعبد الحق حقانی:"تفسیر فتح المنان المعروف تفسیر حقانی
32) تفسیر"مواہب الرحمن" از مولانا سید امیر علی بن مطعم علی حسینی ملیح آبادی (ولادت ۱۲۷۴ھ/۱۲۷۴ھ،وفات ۱۳۳۷ھ/۱۹۱۸ء)
33) مفتی اعظم محمد شفیعؒ:وحدت اُمت،دارالاشاعت،کراچی
34) قرآن حکیم کے اردو تراجم :ڈاکٹر صالحہ شر ف الدین
35) تفسیر عثمانی: علامہ شیخ الہند محمود حسن ؒ /علامہ شبیراحمد عثمانی
36) دل میں اُترتے حرف :محترمہ کہکشاں ملک
37) شیخ الہند کا اصل مقدمہ ترجمہ قرآن: مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی
38) موجِ کوثر :شیخ اکرام،ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، 2004ء، لاہور
39) سر سید احمد خان: تفسیر قرآن
40) حمید الدین فراہی اور جمہور کے اُصولِ تفسیر تنقیدی و تحقیقی مطالعہ(پی ایچ ڈی مقالہ)
41) خاکسار تحریک مذہب و سیاست کی روشنی میں: مولانا منظور نعمانی ، ماہنامہ الفرقان، اگست 1939ء، لکھنئو، انڈیا
42) اصولِ اصلاحی اور اصولِ غامدی کا تحقیقی جائزہ:عبدالوکیل ناصر
43) انکارِ حدیث کا نیا روپ: غازی عزیز
44) تفسیر مطالب الفرقان کا علمی و تحقیقی جائزہ:ڈاکٹر حافظ محمد دین قاسمی(پی ایچ ڈی مقالہ)
45) پرویز اور قرآن: علامہ مفتی مداراللہ مدار نقشبندی
46) قرآن اور عورت : ڈاکٹر حافظ محمد دین قاسمی
47) انکارِ حدیث کے نتائج : شیخ الحدیث علامہ سرفراز خان صفدر
48) تحریر فی اُصول التفسیر:سید احمدخان،مطبع مفید عام آگرہ،1892ء
٭ مواعظ حسنہ:مجموعہ مکتوبات ڈپٹی نذیر احمد دہلوی ، مرتبہ:مولوی سید عبدالغفور شہباز،بار اشاعت 5، 1339 ہجری،دلی پرنٹنگ پریس دہلی
49) تفسیر القرآن سر سید کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ: پروفیسر الیاس،بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد
50) سرسید کی تفسیری تجددپسندی ایک مطالعہ : ڈاکٹر محمد شہباز منج
51) مولانا الطاف حسین حالی :حیات جاوید
52) آثار الصنادید: سر سید احمد خان
53) ڈپٹی نذیر احمد دہلوی : غرائب القرآن
54) مزرا فرحت اللہ بیگ (شاگرد ڈپٹی نذیر احمد):نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی
55) مولوی نذیر احمد آثار و احوال:ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی،مجلس ترقی اردو ادب، لاہور
56) ترجمان القرآن: مولانا ابوالکلام آزاد
57) آزاد کی کہانی خود آزاد کی زبانی : بہ روایت عبدالرزاق ملیح آبادی
58) منتخبات اُصول تفسیر و علوم قرآن۔مترجم مولانا سلمان بنوری
59) یادِ رفتگاں: علامہ سید سلیمان ندوی
60) تفسیر ثنائی: مولانا ثناء اللہ امرتسری
61) مولانا فتح محمد جالندھری: فتح الحمید
62) پروفیسر ڈاکٹر محمد نسیم عثمانی:اردو میں تفسیری ادب پر ایک تاریخی تجزیاتی جائزہ
63) مولانا سید ابوالاعلےمودودیؒ:تفہیم القرآن
64) سُنت کی آئینی حیثیت: مولانا سید ابوالاعلےمودودی
65) تفہیم القرآن اور احادیث : مفتی ساجد قریشی
66) سوانح مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ: مولانا بلال حسنی ندوی
67) میرے مطالعہ قرآن کی سرگذشت: مفکراسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ
68) عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح: مولانا سیدابوالحسن علی ندوی
69) ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم: جماعتِ شیخ الہند اور تنظیمِ اسلامی
70) بیان القرآن :از ڈاکٹر اسرار احمد
71) ڈاکٹر حامد حسن بلگرامی: تفسیر فیوض القرآن
72) ڈاکٹر محمود الحسن عارف: اردو ترجمہ قرآن
73) ڈاکٹر عبدالرؤف ظفر: آسان ترجمہ قرآن
74) پروفیسر ڈاکٹر دین محمد: تعلیم القرآن
75) آسان ترین ترجمہ و تفسیر : ڈاکٹر فاروق خان
76) ڈاکٹر شکیل اوج: شیخ الہند کی قرآن فہمی
77) مولانا فاروق خان صاحب: اردو ترجمہ قرآن
78) " ترجمۃ القرآن مع مطالبُ الفرقان: جماعتِ مترجمین و مفسرین
79) جاوید احمد غامدی: " البیان "
80) تشریح القرآن : مولانا عبدالکریم پاریکھ
81) اہل دیوبند کی قرآنی تراجم و تفاسیر کی اجمالی فہرست : مدیر طوبیٰ ریسرچ لائبریری
82) ABDUL HAMEED ALLANI : ENGLISH TRANSLATION OF QURAN
83) Contribution of Darul-'Ulum Deoband to the Development of Tafsir(Ph.d thesis-bilal ahmed wani.
84) Muhammad Taqi-ud-Din al-Hilali+Muhammad Muhsin Khan: THE NOBLE QURAN
85) اسلام کا قانون ِ طلاق : مولانا شہاب الدین ندوی
86) ابوداود،السنن
87) https://www.youtube.com/playlist?list=PL2tOjkuOXs-zDlDRg_Nfv3DTHRet3yZkA
88) https://toobaa-elibrary.blogspot.com/
89) http://www.seerat.net/Tafseer/tafseer.aspx
92) https://archive.org /
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ترجمہ قرآن شیخ الہندؒ کے تناظر میں اک علمی مکالمہ
پیشکش:مدیر طوبیٰ ریسرچ لائبریری و بلاگ
14 ذوالحجہ 1443 ہجری
TARJUMA QURAAN SHEIKH UL HIND K TANAZUR ME IK ILMI MUKALMA
Presented by: TOOBAA RESEARCH LIBRARY & BLOG
:PDF: DOWNLOAD#TOOBAA_POST_NO: 311
نوٹ: ورڈ سے پی ڈی ایف میں تبدیل کرتے پی ڈی ایف فائیل میں کچھ چیزیں نہیں آئی۔ براہ کرم مضمون کا بالاستعیاب مطالعہ بلاگ لنک پر ہی کیجیئے تاکہ مکمل تحریر نظر نواز ہو !!!
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔