Wednesday, 5 February 2025

مولانا عبدالباری ندوی شخصیت،علمی و دینی خدمات


 

مولانا عبدالباری ندوی

شخصیت،علمی و دینی خدمات

(خلیفہ مجاز حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی)

مرتب: وثیق احمد ندوی

پیشکش : طوبی ریسرچ لائبریری

MAULANA ABDUL BARI NADVI

SHAKHSIYAT, ILMI O DEENI KHIDMAAT

BY:WASEEQ AHMED NADVI

DOWNLOAD

#TOOBAA_POST_NO_815

مزید کتب کے لیئے دیکھیئے صفحہ" اکابر علماء اہل سنت و الجماعت

مولانا عبدالباری ندوی کی ولادت 11 اگست 1889ء کو "گدیہ" ضلع بارہ بنکی، اترپردیش میں ہوئی، آپ کا خاندانی سلسلہ مدینہ منورہ کے انصاری خاندان سے جا کر مل جاتا ہے۔

آپ کے والد ماجد حکیم عبد الخالق بارہ بنکوی طبیبِ ریاست اور ایک صاحب دل بزرگ تھے، زہد وتقویٰ، متانت وسنجیدگی، تہذیب وشائستگی انھیں وراثت میں ملی تھی وہ اپنے وقت کے مشہور شیخ طریقت حضرت مولانا محمد نعیم فرنگی محلی کے خلیفہ مجاز تھے، ابتداء میں آپ کے والد نے حصول علم کے لیے آپ کو ندوۃ العلماء لکھنؤ بھیجا لیکن بعض مضامین میں کمزور ہونے کی وجہ سے وہاں سے نکال کر  مولانا محمد ادریس نگرامی کی خدمت میں "نگرام" بھیج دیا ، وہاں ایک سال سے کم عرصے تک آپ کا قیام رہا پھر جب علامہ شبلی نعمانی نے ندوہ کا تعلیمی انتظام وانصرام سنبھالا تو دوبارہ ندوۃ العلماء لکھنؤ میں داخل کیے گئے ، آپ علامہ سید سلیمان ندوی کے رفقاء میں شامل تھے ۔

آپ نے جن  اساتذہ سے کسب فیض کیا ان میں علامہ شبلی نعمانی کے علاوہ مولانا فاروق چریاکوٹیؒ، مفتی عبد اللطیف ؒ، مولانا حفیظ اللہ ؒ اور مولانا شیر علیؒ جیسے نامور علماء اور یگانہ روزگار اہل فن شامل ہیں۔ لیکن علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کی خصوصی توجہ نے آپ کی شخصیت کو علم وفن کے بام عروج تک پہونچادیا ۔

آپ کو زمانہ طالبعلمی ہی سے علم فلسفہ سے خاص لگاؤ تھا اس لیے درسیات کے علاوہ فلسفہ قدیم و جدید سے گہری واقفیت حاصل کی اور زمانہ طالبعلمی ہی میں انگریزی زبان کی اچھی استعداد پیدا کرلی ، یہاں تک کہ فراغت کے بعد جب دکن کالج پونہ میں فارسی کے استاذ کی حیثیت سے آپ کی تقرری ہوئی تو آپ نے "دیوان ِحافظ" جیسی بلند اور رموز و تلمیحات سے پُر کتاب کو طلبہ کے سامنے فارسی اور اردو میں پڑھانے کے بجائے انگریزی زبان میں پڑھانا شروع کیا اور اپنی قابلیت سے طلبہ کو پوری طرح مطمئن کرلیا ، آپ نےکئی سال تک وہاں پروفیسر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیں پھر اس کے بعد گجرات کالج احمد آباد میں آپ کا تبادلہ ہوگیا۔

 آپ کی قابلیت کی دھاک اور علمیت کا سکہ بیٹھ چکا تھا کہ اسی دوران جامعہ عثمانیہ حیدر آباد کو فلسفہ کے ایک استاد کی ضرورت پیش آ گئی، اس وظیفہ کے لیے مولانا صدر یار جنگ حبیب الرحمن خان شروانی کو آپ سے بہتر کوئی اور شخص نظر نہ آیا حالانکہ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب کسی یونیورسٹی میں کسی وظیفہ کے لیے کسی اعلی ڈگری کے بغیر تقرر ناممکن سی بات تھی اور آپ کے پاس ندوہ کے علاوہ کسی اور عصری دانشگاہ کی کوئی ڈگری موجود نہ تھی، اس کے باوجود آپ کی تقرری ہوئی اور اس کے بعد ایک لمبے عرصے تک آپ جامعہ عثمانیہ حیدرآباد میں صدر شعبہ فلسفہ کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیتے رہے اور یہاں دوران قیام کئی اہم کتابوں کے ترجمے بھی کیے ۔

فلسفہ آپ کا خاص موضوع تھا،

سید الطائفہ علامہ سید سلیمان ندویؒ فرماتے ہیں کہ ؛

ہمارے زمرۂ علماء میں فلسفۂ جدید کا واقف کار مولانا عبد الباری ندویؒ سے بڑھ کر کوئی نہیں۔

مولانا حبیب الرحمن خاں شیروانی ؒ نے نظام حیدرآباد کے سامنے جب آپ کی کتاب "مذہب وعقلیات" پیش کی تو فرمایا کہ سائنس نے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ہے۔

مولانا عبد الماجد دریابادیؒ تحریر فرماتے ہیں کہ : فلسفی کہلانے کے مستحق صرف اور صرف باری صاحب ہی ہیں ۔

مولانا اشرف علی تھانویؒ نے آپ کی کتاب "مذہب وعقلیات" کے متعلق فرمایا

کہ "یہ مذہب کا آہنی قلعہ ہے، اگر اب بھی اس میں کوئی پناہ نہ لے تو اس کی مرضی"

آپ کے علمی کمالات کے متعلق مولانا علی میاں رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ

,, وہ دبستان ِشبلی کے ایک کامیاب وممتاز ادیب وصاحب قلم تھے، تحریر میں پختگی وشگفتگی، زبان وادب کی چاشنی، جملوں کی برجستگی دونوں پہلو بہ پہلو ہوتے، اور یہی مولانا شبلیؒ کی تربیت کا فیضان تھا۔

وہ عالم باعمل تھے اپنے عقائد ونظریات میں انتہائی پختہ اور اپنے دینی معاملات میں بہت سخت تھے اور کسی قسم کی رواداری کے قائل نہ تھے یہاں تک ایک مرتبہ مولانا حسین احمد مدنی نے آپ کے بارے میں فرمایا کہ مولانا عبد الباری چاہتے ہیں کہ شیطان مرجائے اور یہ ممکن نہیں ۔

آپ مولانا حسین احمد مدنی سے بیعت تھے اور مولانا اشرف علی تھانوی سے بھی بیعت وارادت کا تعلق رکھتے تھے اور آخری عمر میں اسی سرچشمہ کے خوشہ چیں تھے، آپ کو مولانا تھانوی سے اجازت وخلافت بھی حاصل تھی۔

آپ کی اہم تصنیفات درج ذیل ہیں :

1.   مذہب اور سائنس

2.    مذہب اور عقلیات

3.   جامع المجددین

4.    تجدید تصوف وسلوک

5.   تجدید تعلیم وتبلیغ

6.    تجدید معاشیات

7.    تفسیر سورۂ عصر

8.   حدیقہ نفسیات

9.    نظام تعلیم واصلاح

10. علم اخلاق

11.عملی نباتیات

12.  مبادئ علم انسانی ( بارکلے کی کتاب Principle of human knowledge کا ترجمہ )

13.  نتائج فلسفہ (مشہور فلسفی James  william کی تصنیف ’’Pragmatism‘‘  کا ترجمہ )

14۔ فہم انسانی

15۔ اخلاقیات

16۔برکلے

17۔ معجزات اور عقلیات جدیدہ

18۔ مقدمہ ما بعد الطبیعات

19۔طریق اور تفکرات

اس کے علاوہ بھی بہت سے ترجمے اور مطبوعہ و غیر مطبوعہ علمی کام ہیں آپ کی کوٹھی لکھنؤ میں سیتاپور روڈ پر شیعہ کالج کے نزدیک واقع ہے۔

آخر علم وفلسفہ کے اس بے لوث خادم کی کتاب زندگی کا ورق 20 جنوری 1976 کو پلٹ گیا اور قبرستان ڈالی گنج لکھنؤ میں سپرد خاک کردیا گیا ۔

http://sphbooks.org/urdu/maulana-abdul-bari-nadvi

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔