Thursday, 8 February 2024

آسان بیان القرآن مع تفسیر عثمانی
AASAN BAYAN UL QURAAN MA TAFSEER E USMANI





 

آسان بیان القرآن مع تفسیر عثمانی

ترجمہ قرآن  و تفسیر موضح فرقان از: حضرت مولانا شیخ الہند محمود حسن دیوبندیؒ

خلاصئہ تفسیر : حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ

فوائدِ تفسیر : شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی

مرتبہ : مولانا محمد عمر انور بدخشانی

جلد اول : سورہ فاتحہ تا سورہ توبہ

جلد دوم : سورہ یونس تا سورہ قصص

جلد سوم : سورہ عنکبوت تا سورہ ناس

پیشکش : طوبی ریسرچ لائبریری

نشرر مکرر

27رجب المرجب1445ہجری

AASAN BAYAN UL QURAAN MA TAFSEER E USMANI

URDU TARJUMA QURAN BY: SHEIKH UL HIND ALLAMA MAHMOOD HASSAN DEOBANDI

KHULASA E TAFSEER : HAKEEM UL UMMAT MAULANA ASHRAF ALI THANVI

FAWAID E TAFSEER : SHEIKH UL ISLAM ALLAMA SHABBIR AHMED USMANI

DOWNLOAD

VOL 1 : SURAH FATIHA TO SURAH TAUBAH

VOL 2 : SURAH YOUNAS TO SURAH QASSAS

VOL 3 : SURAH ANKABOOT TO SURAH NAAS

#TOOBAA_POST_NO_587

مزید کتب کے لیئے دیکھیئے  صفحہ " قرآنیات

تفسیر عثمانی - اشاعتِ خاص : عالمین پبلیکیشن لاہور

TAFSEER E USMANI

(ENGLISH TRANSLATION)

تاثرات : 

مولانا محمد اسحٰق عالم

تین وزنی اور قابل قدر نام ایک ہی نسخے میں ایک ہی ٹیبل پر۔ مولانا اشرف علی تھانوی اور علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کی علمی آراء سے شاید ہی کوئی واقف نہ ہو۔ دقیق سے دقیق مسائل کو آسان الفاظ میں پرو دینا ان بزرگوں کا خاص وصف تھا۔ خاص طورپر حضرت تھانوی تو اس بابت اسپشلسٹ جانے جاتے ہیں۔  ہمارے والد صاحب رحمہ اللہ تفسیر میں عام طورپر حضرت تھانوی کی بیان القرآن کا ہی مطالعہ فرماتے تھے۔

مولانا عمر انور بدخشانی (Umar Anwar Badakhshani) بنوری ٹاؤن کے استاذ اور نوجوان فاضل ہیں۔ خدا انہیں اپنے شایان شان جزا عطا فرمادے۔ دو روز قبل  مولانا معاذ معروف کے ذریعے اپنی مرتب کردہ یہ خوبصورت کاوش مجھے بھیجی۔ دو دن اس کا مطالعہ کیا، طبعیت خوش ہوگئی۔ بنیادی طورپر یہ حضرت شیخ الہند کے ترجمہ کے ساتھ بیان القرآن اور تفسیر عثمانی کا ایک ایسا حسین مجموعہ ہے جسے جدید اور آسان انداز میں مرتب کیا گیا ہے۔ بلاشبہ آپ اسے آسان ورجن کہہ سکتے ہیں، جس میں مولانا عمر انور بدخشانی نے کچھ ضروری افادات کا اضافہ کرکے اس مرتبہ کو مزید مفید بنا دیا ہے۔

ہمارے وہ آئمہ حضرات جو اپنی مساجد میں باقاعدگی کے ساتھ قرآن کریم کا درس دیتے ہیں، ان کے لیے یہ تفسیر یقیناً مفید ثابت ہوگی۔

 

آسان بیان القرآن

از قلم : رفیع الزمان زبیری

اردو زبان میں قرآن مجید کی مستند، مختصر اور جامع تفسیروں میں دو تفسیروں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ایک ’’بیان القرآن‘‘ جو حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی تالیف ہے اور دوسری ’’تفسیر عثمانی‘‘ جو علامہ شبیر احمد عثمانی کی لکھی ہوئی ہے۔ان دونوں تفسیروں سے ایک ساتھ استفادہ کرنے کے لیے مولانا عمر انور بدخشانی نے ’’آسان بیان القرآن‘‘ کے عنوان سے ایک تفسیر مرتب کی ہے۔ اس میں ترجمہ شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحب کا ہے۔

مولانا عمر انور بیان کرتے ہیں کہ مادر علمی جامعہ علوم اسلامیہ ، بنوری ٹاؤن، کراچی میں اپنے زمانہ طالبعلمی میں انھوں نے والد مولانا محمد انور بدخشانی اور اپنے اساتذہ سے بار بار یہ سنا کہ اردو میں ’’ بیان القرآن‘‘ اور ’’ تفسیر عثمانی‘‘ کو ہمیشہ مطالعے میں شامل رکھنا چاہیے۔ مولانا انور بدخشانی جو ان دنوں قرآن کریم کا فارسی میں ترجمہ اور تفسیر لکھ رہے تھے، فرماتے تھے کہ قرآن کریم کے بہت سے مشکل مقامات پر کئی عربی تفسیروں کے مطالعے کے بعد جب وہ بیان القرآن یا تفسیر عثمانی کو دیکھتے ہیں تو ان میں بہت مختصر اور جامع تعبیر میں انھیں وہ بات مل جاتی ہے جو دیگر تفاسیر میں طویل عبارتوں میں بیان ہوئی ہے چنانچہ انھیں خیال آیا کہ تفسیر عثمانی کو عام فہم اور آسان انداز میں مرتب کرکے پیش کیا جائے تاکہ مطالعہ کرنیوالے کو آیت کے ترجمے کے ساتھ تفسیر بھی مل جائے اور یکسوئی سے قرآن کریم کے مطالب ذہن نشین ہوجائیں۔ انھوں نے اپنے اساتذہ اور ساتھیوں سے مشورہ کیا اور اللہ کا نام لے کر یہ کام شروع کردیا۔

مولانا عمر انورکہتے ہیں ’’دیگر مصروفیات کے ساتھ جیسے جیسے موقع ملتا میں یہ کام ازخود کمپیوٹر پر کرتا رہا۔ الحمد للہ تین ساڑھے تین سال کے عرصے میں ’’ تفسیر عثمانی‘‘ کی ترتیب نوکا کام مکمل ہوگیا۔ ساتھیوں کا اصرار تھا کہ اسے شایع کردیا جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے دل میں یہ بات ڈالی کہ تفسیر عثمانی کے ساتھ حضرت تھانوی ؒ کی شہرہ آفاق تفسیر ’’بیان القرآن‘‘ کے ترجمے اور تفسیری فوائد کو بھی آسان زبان میں ڈھال کر ساتھ ہی شامل کردیا جائے۔

اس طرح اردو زبان کے دو مستند و مقبول ترجموں اور تفسیروں سے ایک ساتھ استفادہ آسان ہوجائے گا۔ چنانچہ دسمبر 2012 میں مدینہ طیبہ میں ’’بیان القرآن‘‘ کے خلاصہ تفسیر کو آسان زبان میں منتقل کرنا شروع کردیا۔ جب یہ کام بھی مکمل ہوگیا تو ’’آسان بیان القرآن‘‘ کے عنوان سے اس کی اشاعت عمل میں آئی۔ ’’آسان بیان القرآن‘‘ میں ’’تفسیر عثمانی‘‘ کو مکمل شامل کیا گیا ہے۔ اس میں کسی قسم کی لفظی تبدیلی یا کمی نہیں کی گئی ہے۔ البتہ ’’بیان القرآن‘‘ میں چونکہ بہت سے مقامات پر دقیق عربی الفاظ اور مختلف فنون کی علمی اصطلاحات زیر استعمال تھیں جن کی وجہ سے اب ان کا سمجھنا عام قارئین کے لیے مشکل ہوگیا تھا اس لیے اسے آسان اردو میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اس اشاعت میں تفسیر بیان القرآن کے خاص اس حصے کو مدنظر رکھا گیا ہے جس کا تعلق عوام سے ہے۔ کیوں کہ اس تفسیر کا بڑا حصہ وہ ہے جس کا تعلق خواص اہل علم اور علما کرام سے ہے اور وہ عربی زبان میں ہے۔

تفسیر بیان القرآن کا ایک خاص وصف سورتوں اور آیات کے درمیان نظم یعنی ربط و مناسبت کا اہتمام ہے چنانچہ خلاصہ تفسیر کے عنوان سے آیت کے ترجمے اور تفسیر سے پہلے آیت کا ماقبل سے ربط بھی آسان زبان میں کردیا گیا ہے۔ ربط آیات کے علاوہ سورتوں کے درمیان ربط کا بھی مولانا تھانویؒ نے بھی اہتمام فرمایا ہے۔ چونکہ قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے بسا اوقات ترجمہ کافی نہیں ہوتا اس لیے حضرت نے ترجمہ کے ساتھ قوسین میں کچھ تشریحی الفاظ یا جملے بڑھا کر قرآن کریم کے مضامین کی عمدہ وضاحت فرمائی ہے۔ البتہ قرآنی آیات کے ترجمے میں احتیاط اور امتیاز کے پیش نظر اسے خط کشیدہ بھی رکھا ہے جو ترجمہ کی علامت ہے۔ چنانچہ اس مجموعہ ’’آسان بیان القرآن‘‘ میں اس کا خاص اہتمام کیا گیا ہے۔ خط کشیدہ الفاظ میں ترجمہ قرآن ہے اور قوسین میں اس کی تفسیر ہے۔ ’’تفسیر بیان القرآن‘‘ میں ایک مستقل سلسلہ اخلاق و سلوک کے مسائل کا ہے یعنی جن آیات میں تزکیہ و اخلاقیات کا مسئلہ ہوتا ہے وہاں اس کی وجہ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ ’’آسان بیان القرآن‘‘ میں تزکیہ و اخلاق کے ان مسائل کو بھی آسان اور مختصر الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘

مولانا عمر انور کی ’’بیان القرآن‘‘ اور ’’تفسیر عثمانی‘‘ کو ایک جگہ جمع کرنے کی اس کوشش پر مولانا محمد انور بدخشانی نے تبصرہ فرمایا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس میں تین باتیں قابل توجہ ہیں۔ پہلی یہ کہ ’’آسان بیان القرآن‘‘ صرف تین جلدوں میں اردو کی دو اہم اور مستند تفسیروں پر مشتمل ہے۔ دوسری یہ کہ اس میں شیخ الہند مولانا محمود حسن کا مکمل ترجمہ قرآن شامل ہے اور تیسری اور اصل بات یہ کہ اس میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی تفسیر کو آسان الفاظ میں پیش کیا گیا ہے جو اس وقت کی ایک انتہائی اہم ضرورت تھی۔ ایک اور بات اس مجموعہ کی یہ بھی ہے کہ اس میں قرآن کریم کی دو تفسیروں کو یکجا کردیا گیا ہے لیکن امتیاز اور فصل کو برقرار رکھا گیا ہے۔ اس سے مجموعہ کی افادیت مزید بڑھ گئی ہے اور تفسیر قرآن کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے یہ سہولت اور آسان ہوگئی ہے کہ انھیں قرآن مجید کے دو ترجمے اور دو تفسیریں مطالعے میں ایک ساتھ مل جائیں گی۔

تفسیر ’’بیان القرآن‘‘ لکھنے کے دوران جن امور کی لازمی رعایت رکھی گئی تھی ان کا ذکر کرتے ہوئے حکیم الامت فرماتے ہیں ’’سب مسلمانوں پر فرض ہے کہ اپنے رب کو پہچانیں اور اس کی صفات اور اس کے احکام کو معلوم کریں اور تحقیق کریں کہ حق تعالیٰ کون سی باتوں سے خوش ہوتا ہے اور کون سی باتوں سے ناراض۔ اس کی خوشی کے کاموں کو کرنا اور اس کی ناخوشی کے کاموں سے بچنا، اسی کا نام بندگی ہے اور جو بندگی نہ کرے وہ بندہ نہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ آدمی جب پیدا ہوتا ہے سب چیزوں سے ناواقف اور انجان ہوتا ہے۔

پھر سکھلانے سے سب کچھ سیکھ لیتا ہے اور بتلانے سے ہر چیز جان لیتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا پہچاننا اور اس کی صفات اور احکام کا جاننا بھی بتلانے اور سکھلانے سے آتا ہے لیکن جیساکہ حق تعالیٰ نے ان باتوں کو قرآن شریف میں خود بتلایا ہے وہ کسی کے کلام میں نہیں۔ اس لیے عام و خاص تمام مسلمانوں کو لازم ہے کہ وہ اپنے اپنے درجے کے مطابق کلام اللہ کو سمجھنے میں کوتاہی اور غفلت نہ کریں۔

سو قرآن شریف کے اوپر کے درجے کے مطالب اور خوبیاں تو عالموں کے سمجھنے کی بات ہے مگر جو لوگ علم عربی سے ناواقف ہیں ان کو بھی کم سے کم اتنا تو ضرور کرنا چاہیے کہ علمائے دین نے جو سلیس ترجمے ان کی زبان میں عوام کی واقفیت اور ہدایت کے لیے کر دیے ہیں، ان کے ذریعے سے اپنے معبود حقیقی کے کلام کو سمجھنے میں ہرگز کاہلی نہ کریں اور اس نعمت لازوال سے بالکل محروم نہ رہیں کہ یہ بہت بڑی بدبختی اور بدقسمتی ہے۔ اس میں یہ اندیشہ ضرور ہے کہ فارسی خواں یا اردو داں جو محاورات عرب سے ناواقف ہے سلیس ترجمہ دیکھ کر کچھ کا کچھ نہ سمجھ جائے۔ اس لیے لازم ہے کہ استاد سے سیکھنے میں کاہلی اور کوتاہی نہ کریں اور محض اپنی رائے پر اعتماد کرکے ثواب کی بجائے اللہ کا غصہ نہ کمائیں۔

 

(آج روزنامہ اسلام میں)

بیان القرآن کی تسہیل - - - اہم قرآنی خدمت

(از: سید عدنان کریمی)

جب ہم تفسیرِ قرآن کے طالب علم تھے تو ضلع دیامر کے ایک محنتی، جفاکش اور درویش منش اُستاد ہمارے نصیب میں آئے، نہایت برق رفتاری سے کلاس میں داخل ہوتے، شتاب شتاب ورق اُلٹتے اور یوں بلاتکان بولتے کہ بسا اوقات اُن کے ہلکان ہونے کا اندیشہ ہوتا۔ تکلّفات کی دنیا سے کوسوں دور رہتے تھے، فارغ اوقات میں بھی نصابی کتب کے مطالعہ میں مستغرق رہتے، یہی وجہ ہے کہ اُن کا اندازِ تفہیم انتہائی متاثر کن تھا، چٹکیوں میں بڑے بڑے سے مغلق اور پیچیدہ گتھیوں کو سلجھا دیتے تھے۔ ایک روز ہم چند دوستوں نے استادِ محترم کی طلاقتِ لسانی اور فصاحتِ معانی کا راز جاننے کا تہیہ کیا، اُن کے کمرے میں داخل ہوئے تو وہ چوکڑی مارے نصف درجن سے زائد کتابیں اپنے سامنے رکھے مطالعہ میں مصروف تھے، کبھی ایک کتاب کی طرف لپکتے تو کبھی دوسری کتاب کو پلٹتے، استغراق کا یہ عالَم تھا کہ دروازے کی چرچراہٹ سے بھی توجہ خطا نہ ہوئی۔ سلام کیے بنا ہم بیٹھ گئے، کچھ دیر بعد ہماری طرف متوجہ ہوئے تو ہم نے بلا کسی تمہید کے استفسار کیا:

"استاد جی! قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے کوئی آسان تفسیر بتادیجیے یا پھر وہ تفسیر بتائیے جس سے آپ مطالعہ کرتے ہیں"

اپنے مخصوص انداز میں "بے وقووفوں" کے قاف میں مبالغہ اور ایک اضافی واؤ کی مدد سے نون ساکن پر ایسا رنگ جمایا کہ ہم کھلکھلا اُٹھے۔ اپنے تکیہ کلام سے ہماری خاطر مدارات کے بعد بولے:

"یہ دیکھیے! پانچ چھ تفاسیر میرے سامنے ہیں، لیکن جو رنگ اور مزہ بیان القرآن میں ہے وہ کسی اور تفسیر میں کہاں! مولانا تھانوی کی بیان القرآن میں جو شگفتگی، سلاست، روانی، تفہیم، تعلیم اور نکات کا ذخیرہ ہے وہ کئی کتابوں کا ماحصل اور خلاصہ ہے، اپنی ذات میں انجمن شخصیت نے اپنی تفسیر کو بھی تمام تفاسیر کی انجمن بنا ڈالی ہے جس سے بطورِ انسائیکلو پیڈیا بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ اب یہی دیکھ لیں کہ "ولو بسط اللہ الرزق" والی آیت کے ذیل میں حضرت تھانوی نے ایسے ایسے اچھوتے نکات بیان کیے ہیں کہ آدمی ششدر رہ جاتا ہے۔ آپ طالب علموں کو تو بس اسی کا مطالعہ کرتے رہنا چاہیے خواہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ آپ پڑھتے رہیں آپ پر اسرار و رموز کھلتے جائیں گے۔ جیسے خوش نویسوں کے ہاں حُسنِ خط کے لیے "می نویس ومی نویس ومی نویس" کا اصول ہے، ٹھیک اسی طرح یہاں بھی پڑھتے، مستقل پڑھتے اور پابندی سے پڑھتے رہنے کو اصول بنالینا چاہیے۔ "

بس پھر اس دن کے بعد ہم بیان القرآن خرید لائے، کور چڑھا کر اس ارادہ سے شیلف میں سلیقہ سے رکھ دیا کہ جب کبھی فرصت یا امتحان کے زمانہ میں موقع ملا تو دلجمعی سے اس کا مطالعہ کریں گے لیکن خدا بھلا کرے اُستادِ محترم کا، کہ اب تو روزانہ بیان القرآن کی جامعیت و نافعیت پر اُن کا درس ہوتا، اُن کی تقریر دلپذیر نے شیلف کی کتاب کو درسگاہ کی تپائی تک پہنچا دیا۔ تکرار و مطالعہ کے وقت کھول کر بیٹھے تو یوں لگا جیسے کوئی وزنی بوجھ ہمارے کندھوں پر ہے، مقامِ معیّن پر پہنچے تو عبارت کا معنوی حجم ہمارے قد کاٹھ سے دوگنا، زبان و بیان ہماری سمجھ سے بالاتر، تشریح و تفسیر ہماری فہم سے وراء الوراء۔ تفسیر بند کر کے رکھ دی، چند دنوں بعد بیان القرآن سے استفادہ کا دوبارہ شوق چُرایا، پھر طبع آزمائی کی، تمام حواس و جہات کے ساتھ تفسیر پر جُت گئے، پورے صفحہ میں جونہی چار جملے سمجھ آنے لگے تو مسرّت کا عالَم دیدنی تھا، خوشی خوشی میں درسگاہ کی کھڑکی کی طرف جاتے، خوامخواہ میں تھوکتے، پھر آکر اپنی جگہ سنبھالتے، اسی طرح کرتے کرتے کوئی آدھے پارے میں دو چار نکات اپنے تئیں سمجھ گئے تو خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا، شادمانی میں ہر دوست کو اپنی ذہانت اور تفسیری مطالعہ کا حوالہ دیتے نہ تھکتے۔ بہرکیف نصابی سرگرمیوں کے ذیل میں تفسیرِ قرآن کے مطالعہ کی ابتدائی مشقوں نے ہمیں بیان القرآن کے رومان میں مبتلا کردیا، جیسے جیسے اسباق میں آگے بڑھتے گئے تو وہ درویش منش دیامری اُستاد تو دیامر کو پیارے ہوگئے لیکن مطالعۂ بیان القرآن کی جوت جگا گئے۔ یہی وجہ ہے کہ جب جب بھی بیان القرآن کو پڑھا تو ایک نیا لطف ملا اور ہر وقت یہ خواہش دامن گیر رہی کہ کاش کوئی حضرت تھانوی کی علمی زبان کو جدید دور کی سہل اور متداول زبان میں ڈھال کر اگلی صدی کی تشنگی دور کرنے کا سامان پیدا کردے۔ یہ خیال خواب ہی رہا لیکن کیا معلوم تھا کہ ایک دن یہ خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہوکر رہے گا۔

بیان القرآن کی تسہیل کا خواب دیکھتے دیکھتے پورے پندرہ سال بیت گئے۔ نہ جانے وہ گھڑی کیسی بابرکت ہوگی کہ جس گھڑی استاد زادے مولانا عمر انور بدخشانی کا فون موصول ہوا، بات چیت کے دوران بتانے لگے کہ میرا بیان القرآن پہ کام جاری ہے، دعا کیجیے کہ یہ مبارک کام خیر و عافیت سے پایہ تکمیل کو پہنچے۔ یہ سُننا تھا کہ میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہا، اپنی خواہش اور اپنا خواب پورا ہوتا صاف نظر آرہا تھا، دیامر سے بدخشاں تک کا سفر سہل دکھائی دے رہا تھا۔ چار پانچ مزید دعاؤں کا تحفہ دے کر اب اس مبارک و مسعود محنت کی تکمیل کا انتظار تھا۔ کچھ دنوں بعد وہ گنج ہائے گراں مایہ عمدہ طباعت، بہترین ڈیزائننگ، دیدہ زیب ٹائٹل، شاندار اسلوب اور نہایت سلیقہ سے مرتب کردہ تسہیل شدہ تفسیر بنام "آسان بیان القرآن مع تفسیر عثمانی" کی صورت میرے سامنے تھی۔ مرتب موصوف نے نہایت محنت اور عرق ریزی سے دس دس پاروں کی ایک ایک جلد بنائی ہے، تین جلدوں پر مشتمل تسہیل شدہ ذخیرہ میں ایسا انوکھا کام کیا گیا ہے کہ شاید ہی پہلے کبھی اس نوعیت کا کوئی کام ہوا ہو۔ واضح رہے کہ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رح کا ترجمہ مع مولانا شبیر احمد عثمانی رح کے فوائدِ تفسیریہ پر مشتمل "تفسیر عثمانی" اور مولانا اشرف علی تھانوی رح کی تفسیر "بیان القرآن" کو جو اہمیت و مقام حاصل ہے وہ کسی صاحبِ علم سے مخفی نہیں، بہت ساری قدیم و جدید تفاسیر مذکورہ دو تفسیروں کی خوشہ چین رہی ہیں، جن میں سرفہرست مفتی شفیع عثمانی، مولانا ادریس کاندھلوی اور مولانا عبدالماجد دریابادی کی تفاسیر ہیں۔ تفسیر عثمانی کا اپنا رنگ اور اسلوب ہے اور تفسیر بیان القرآن کا اپنا انداز اور ذوق ہے، تاہم تفسیر عثمانی ایک حد تک قابل فہم ہے لیکن بیان القرآن کی دقیق علمی اصطلاحات اور مغلق ابحاث سمجھنا شاید ہر کس وناکس کے بس میں نہیں۔ مرتب موصوف نے تفسیر عثمانی کے فوائدِ تفسیریہ کو ہوبہو نقل کیا ہے جبکہ ساتھ میں تفسیر بیان القرآن کے مغلق اور دقیق مباحث کو عام فہم انداز میں موجودہ دور کی زبان سے ہم آہنگ کرتے ہوئے پیش کیا ہے اور یہ پیشکش محض مرتب موصوف کی اپنی نری تخلیقات اور اجتہاد نہیں بلکہ اس باب میں بھی اکابرین کے تراجم و تفاسیر اور مفاہیم و معانی سے اکتسابِ فیض کیا گیا ہے۔ یوں ایک پنتھ دو کاج کے مصداق ایک مجموعہ میں برصغیر کے دو مستند ترجمے (حضرت شیخ الہند کا ترجمہ، حضرت تھانوی کا ترجمہ) اور دو مستند و معروف تفسیریں (بیان القرآن، تفسیر عثمانی) یکجا ہوگئیں ہیں۔ اس تسہیل شدہ "مجمع التفسیرین" کی اشاعت کے بعد قرآن کریم کے طالب علموں کو مراجعت کے لیے نصف درجن سے زائد اردو تفاسیر بیک وقت سامنے رکھنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی، ایک ہی مجموعہ سے دو رنگ، دو اسالیب اور دو مزاجوں سے استفادہ کا موقع میسر آئے گا۔

فی زمانہ یہ ہمارا علمی المیہ ہے کہ ہم قرآن کریم کو وقت نہیں دیتے، قرآن فہمی کا ذوق عنقا ہوتا جارہا ہے، قرآن کا درد ہمیں سے چھین لیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں ماہرینِ عقلیات و جدلیات تھوک کے حساب سے پائے جاتے ہیں، شناورانِ فقہ و فلسفہ کی ایک بڑی کھیپ موجود ہے لیکن قرآن شناسوں کی شدید قحط ہے۔ آج ہماری قرآن فہمی کی میراث دوسروں کے قبضے میں ہیں، اگرچہ وہ "دوسرے" قرآن کی تشریح اپنے اپنے فہم کے مطابق کرتے ہیں لیکن اخلاص کے ساتھ خدمتِ قرآن کے جذبہ نے اُنہیں دیگر سے ممتاز کر رکھا ہے، قرآن اپنے قدردانوں سے بے وفائی نہیں کرتا بلکہ مالا مال کر کے اوجِ ثُریّا پر پہنچا دیتا ہے۔ افسوس سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ قرآن کریم ہمارے ہاں ثانوی حیثیت بھی نہیں رکھتا بلکہ صرف ثالثی کے طور پر تحالف و معاہدات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، ہماری پستی، تنزلی اور انحطاط کی صرف ایک ہی وجہ قرآن اور فرمانِ خداوندی سے دوری ہے۔

آئیے! عہد کریں کہ آج سے قرآن کریم کو پڑھیں گے، سمجھ کر پڑھیں گے اور قرآن فہمی کا ذوق ناصرف اپنے اندر پیدا کریں گے بلکہ دوسروں کو بھی اس سے روشناس کروائیں گے۔ روزانہ اگر پابندی سے چند آیات کے تراجم و تفاسیر کے مطالعہ کا معمول بنالیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہماری پستی عروج میں بدل جائے۔ مطالعۂ قرآن جیسے مبارک کام کی ابتدا اگر مذکورہ تفسیر سے کی جائے تو زیادہ سود مند ثابت ہو۔ عام فہم اور دلنشین اندازِ بیاں کے ساتھ تسہیل شدہ "آسان بیان القرآن مع تفسیر عثمانی" عوام و خواص دونوں کے لیے یکساں مفید ہے۔ آئیے! قرآن کریم کا مطالعہ شروع کرتے ہیں۔

(مولانا عمر انور بدخشانی کی فیس بک وال سے کاپی)

 

1 comments:

Anonymous نے لکھا ہے کہ

ما شاء اللہ۔ بہت عمدہ كاوش ہے۔ دل خوش ہو گیا ہے دیكھ كر۔ اللہ تعالى مرتب كو جزائے خیر عطا فرمائیں اور اكابر علماء كی كتب وعلوم كی اسی طرح تسہیل واشاعت كی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تعالى ہم سب كو قرآن پاك پڑھنے اور سمجھنے كی توفیق عطاء فرمائیں۔ آمین۔ طوبی ریسیرچ لائبریری ما شاء اللہ روز بروز جدید وقدیم كتب سامنے لا رہی ہے، ڈیجیٹل كتب سے استفادہ كرنے والوں پر ان كا احسان عظیم ہے۔ (ہمایوں وقاص، خادم شعبہ تخصص فی الإفتاء وعلوم الحدیث، معہد عثمان بن عفان، لانڈھی كراچی)۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔