دروس القرآن : علامہ شمس الحق افغانی
حضرت مولانا شمس الحق افغانی کی وفات پر مولانا سمیع الحق کے تعزیتی تاثرات
وادریغا۔ کہ ابھی ہم حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمیؒ کے ماتم سے فارغ نہیں ہوئے تھے کہ ۱۶؍اگست منگل کی شام کو عین غروب آفتاب کے ساتھ ہم نے علم و معرفت کا ایک اور آفتاب بھی سپرد خاک کر دیا۔ ایک کے غروب سے کائنات رنگ و بو پر تاریکی چھاگئی تو دوسرے کے پنہاں ہونے سے کائنات علم وفضل میں ظلمت آگئی۔ علامۂ یگانہ، محقق زمانہ، متکلم اسلام ،شمس العلوم والمعارف فیلسوف اسلام علامہ شمس الحق صاحب افغانیؒ سابق شیخ التفسیر دارالعلوم دیوبند،سابق وزیر معارف ریاست قلات بلوچستان۔ سابق صدر مدرس جامعہ اسلامیہ ڈابھیل،سابق شیخ الحدیث والتفسیر اکیڈمی علوم اسلامیہ کوئٹہ،سابق شیخ التفسیر جامعہ اسلامیہ بہاولپور،خلیفہ مجاز حضرت مولانا مفتی محمد حسنؒ قدس اللہ سرہ العزیز واصل بحق ہوئے جو پچھلے دو ایک سال سے صاحب فراش تھے۔ ۱۶؍اگست صبح نو بجے سانحۂ ارتحال پیش آیا، نماز جنازہ اسی دن ۶ بجے شام ان کے گائوں ترنگ زئی تحصیل چارسدہ میں حضرت شیخ الحدیث مولانا عبدالحق مد ظلہٗ نے پڑھائی اور نماز کے بعد حاضرین سے جس میں بڑی تعداد علماء و صلحاء کی تھی علامہ مرحوم کے فضائل و مناقب پر مختصر خطاب فرمایا۔ دارالعلوم حقانیہ سے بڑی تعداد میں اساتذہ و طلباء نے بھی خصوصی بسوں کا انتظام کرکے جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل کی۔ غروب آفتاب کے وقت اس علامۂ دوران کی تدفین عمل میں آئی، شام کی ڈھلنے والی تاریکیوں میں لوگ واپس ہو رہے تھے تو ارباب صدق و صفا اور اصھاب علم و فضل کے اس قدر تیزی سے رخصتِ سفر باندھنے پر کتنے اصحابِ درد تھے جن کے دل ڈوبتے جا رہے تھے اور زبانِ حال سے کوئی کہہ رہا تھا۔ ؎
اٹھے جاتے ہیں اب اس بزم سے ارباب نظر
گھٹے جاتے ہیں میرے دل کے بڑھانے والے
مولانا کی ولادت ۷؍رمضان المبارک ۱۳۱۸ھ مطابق۵ ستمبر ۱۹۰۱ء ایک علمی خاندان میں ہوئی،نام شمس القمر رکھا گیا جو بعد میں شمس الحق سے تبدیل ہوا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد سرحد و افغانستان کے مشاہیر علم و فضل سے علوم و فنون کی تکمیل کی، ۱۹۲۰ء میں دارالعلوم دیو بند پہنچ کر ۱۹۲۱ء میں علامۃ العصر سید انور شاہ کشمیریؒ سے دورئہ حدیث پڑھ کر سند فراغ حاصل کی۔ پھر دارالعلوم دیو بند کی طرف سے ہندوستان کے ارتدادی فتنوں کی سرکوبی میں لگ گئے اور شُدھی تحریک کی روک تھام میں بھرپور حصہ لیا۔ وہ ابتداء سے ہی علمی میدان کے شہسوار تھے۔ علم وفضل کے ہتھیار سے آریہ سماج کے مشہور مناظرین کو بڑے بڑے اجتماعات میں عبرتناک شکست دی۔ اس کامیابی پر ان کے اکابر اساتذہ نے دلی مسرتوں کا اظہار کیا اور دل کھول کر دعائیں دیں۔
ماہنامہ الحق کو سب سے زیادہ یہ شرف حاصل ہوا کہ اس نے اپنے آغاز ہی سے علامہ مرحوم کے علوم و مقالات کو پہلی بار شائع کیا۔ حضرت علامہؒ کے اکثر تصانیف و رسائل کا زیادہ تر حصہ اولاً الحق میں شائع ہوتا رہا اور اس طرح مولانا کے علمی فیوضات سے بیرونی دنیا کو استفادہ و تعارف کا موقع ملا۔ اُن کی مادری زبان پشتو تھی مگر اُردو میں نہایت شُستہ تقریر فرماتے، تحریر کے ساتھ تقریر کا ایسا ملکہ کم ہی پشتون علماء کو حاصل ہوا۔ وہ کسی علمی موضوع پر گفتگو کرتے تو ساری مجلس پر اسلامی عظمت و حقانیت کا رنگ چھا جاتا۔ وہ اسلام کی حقانیت کے ترجمانی اورعلمی دنیا کا سرمایۂ افتخار تھے اور جب چلے گئے تو اپنا بدل اور نظیر نہیں چھوڑ سکے کہ اس دور میں ایسے وسیع النظر علماء تو کیا ان سے بہت کم درجے کے اصحاب علم و دانش کا وجود عنقا بنتا جا رہا ہے۔ حق تعالیٰ مولانا مرحوم کو ان کی علمی عظمتوں کی طرح وہاں بھی بلند و ارفع درجات سے نوازے اور انکے پسماندگان کو صبرجمیل نصیب ہو ۔
اللھم افض علیہ من شابیب رحمتک وعفوک واد خلہ الجنۃ واستقبنا من علومہٖ وبرکاتہ آمین (الحق گست ۱۹۸۳ء)
مستشرقین کے مصحفِ عثمانی پر شبہات کا تنقیدی مطالعہ: علامہ شمس الحق افغانیؒ کے افکار کی روشنی میں
تمہید
مستشرقین نے ایک عرصے سے قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور سیرتِ طیبہ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہوا ہے، مختلف اسالیب و اطوار سے اسلام اور شعائرِ اسلام پر اعتراضات کئے جاتے ہیں اور دینی علوم سے بے خبر سادہ لوح لوگوں کو اسلام سے بےزار کرنے کی ناکام سعی کی جارہی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے دینِ اسلام کو تاقیامت برقرار رکھنا ہے اور اسلامی تعلیمات کو اپنی اصل شکل میں رہنا ہے اس لئے ہر زمانے میں دینی تعلیمات پر وارد ہونے والے شبہات کے جوابات کے لئے اللہ تعالیٰ اہلِ حق میں سے کچھ لوگوں کو موفق فرماتے ہیں جو عقلی و نقلی دلائل کی روشنی میں ان شبہات کے علمی و تحقیقی جوابات فراہم کرتے ہیں اور اس طرح قرآن و سنت کی حفاظت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ علمائے اسلام میں سے جن حضرات نے ابتدائی ادوار میں مستشرقین کے اعتراضات کو اپنا موضوعِ تحقیق بنایا اور ان کا مدلل رد کیا ان میں مولانا شمس الحق افغانیؒ کا نام بھی نمایاں ہے۔
مولانا شمس الحق افغانیؒ نے مختلف جہات سے مستشرقین کے اعتراضات کو موضوعِ بحث بنا کر ان کے تسلی بخش جوابات دئیے ہیں، قرآن کریم ، علوم القرآن، احادیث مبارکہ اور سیرتِ طیبہ کے حوالے سے مستشرقین نے جو اعتراضات کئے ہیں آپؒ نے تقریباً ان سب کے علمی جوابات دئیے ہیں، مستشرقین نے جن میدانوں کو موضوعِ تحقیق بنا کر ہدفِ تنقید بنایا ہے ان میں مصحفِ عثمانی بھی شامل ہے جس پر انہوں نے طرح طرح کے شبہات کئے ہیں، ان شبہات کا اصل مقصد دینِ اسلام کی بنیاد کو مشکوک بنانا اور اس طرح دینی تعلیمات سے لوگوں کے اعتماد کو ختم کرنا ہے، جن کے جوابات علامہ شمس الحق افغانیؒ نے اپنی مختلف کتابوں اور تحریرات میں دئیے ہیں، زیرِ نظر ریسرچ پیپر میں علامہ شمس الحق افغانیؒ کے افکار کی روشنی میں مستشرقین کے ان شبہات کے علمی جوابات دینے مقصود ہیں جو انہوں نے مصحفِ عثمانی پر کئے ہیں۔
سابقہ تحقیقات کا جائزہ
اس موضوع پر ذخیرہ احادیث میں کافی مواد پایا جاتا ہے ۔ محدثین نے اپنی کتابوں میں ان روایات کو جمع کیا ہے جن میں جمع وتدوین قرآن کا تذکرہ ہے، امام بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں باب قائم کیا ہے: باب جمع القرآن ۔[1] اس کے بعد مفسرین نے ان روایات سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی تفاسیر میں اس پر خوب بحث کی ۔ چونکہ یہ علوم القرآن کا موضوع ہے اس لئے علوم القرآن کے بنیادی مصادر میں اس کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ علامہ زرکشی البرھان [2]میں اور امام جلا ل الدین سیوطیؒ الاتقان [3]میں اس موضوع کو زیرِ بحث لائے ہیں۔ اس کے بعد علوم القرآن کی جو کتابیں آئی ہیں ان میں مصاحف عثمانیہ کا تذکرہ ہے۔[4] یہاں تک کہ اس موضوع پر مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔[5] اس کے برعکس مستشرقین نے اس موضوع کو ہدف تنقید بنایا ہے۔ چنانچہ نولڈیکی ،[6] آتھر جیفری، [7]اور دیگر مستشرقین نے اس پر مستقل کام کیا ہے۔ عصر جدید کے محققین نے اس موضوع پر اسلامی اور استشراقی افکار کا جائزہ پیش کیا ہے۔ حافظ محمود اختر نے پنجاب یونیورسٹی سے بعنوان "تدوین قرآن پر مستشرقین کے اعتراضات کا محققانہ جائزہ " پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا ہے۔ [8]ڈاکٹر تاج آفسر نے "رسم عثمانی اور قرآن حکیم کا اعجاز: مصاحف عثمانیہ کے تناظر میں "کے عنوان سے ریسرچ پیپر لکھا ہے۔ [9]اس پیپر کی نوعیت سابقہ کام سے مختلف ہے۔ جہاں تک مستشرقین کے شبہات کا تعلق ہے تو وہی شبہات ہیں جن کا دیگر محققین نے بھی حوالہ دیا ہے ، تاہم جہاں تک علامہ شمس الحق افغانی کے افکار کی روشنی میں ان شبہات کے تنقیدی مطالعہ کا تعلق ہے تو اس پر کسی نے تحقیقی کام نہیں کیا ہے اس لئے مصحف عثمانی پر مستشرقین کے شبہات کا علامہ شمس الحق افغانی کے افکار کی روشنی میں تنقیدی جائزہ مذکورہ تحقیقات سے مختلف نوعیت کا کام ہے۔
اسلوبِ تحقیق
زیر نظر تحقیقی مقالہ میں علوم القرآن کے موضوع "تدوین قرآن" کے ذیلی عنوان "مصحف عثمانی کی تاریخی حیثیت" کو مشکوک بنانے کی استشراقی فکر کا تنقیدی جائزہ برصغیر کے مایہ ناز مفسر ومحقق علامہ شمس الحق افغانی کی تحقیق کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔ مستشرقین کے تین اہم شبہات میں سے ہر ایک شبہ اور اس کی دلیل کو بیان کرنے کے بعد اس کا علمی جائزہ پیش کیا گیا ہے تاکہ آسانی سے سمجھ میں آ سکے۔ اس ریسرچ پیپر میں مستشرقین کی کتابوں کے ساتھ ساتھ علامہ شمس الحق افغانی کی کتب بالخصوص "علوم القرآن" سے اخذ واستفادہ کیا گیا ہے۔ موضوعِ تحقیق کو آسان اور عام فہم بنانے کی خاطر "مصحف عثمانی کی تدوین کا پس منظر" بھی بیان کیا گیا ہے اس طرح "علامہ شمس الحق افغانی کی مختصر حیات وخدمات " کو آرٹیکل کی ابتداء میں بیان کیا گیا ہے۔ اس ریسرچ پیپر میں بیانیہ طرز تحقیق اختیار کیا گیا ہے، ذیل میں تنقیدی اسلوب تحقیق کو بھی استعمال کیا گیا ہے اور سب حوالہ جات فٹ نوٹ میں دینے کا اہتما م کیا گیا ہے۔
علامہ شمس الحق افغانیؒ کا مختصر تعارف
علامہ شمس الحق افغانیؒ 7 رمضان المبارک 1318ھ بمطابق 5ستمبر 1901ء کو ضلع چارسدہ میں بمقامِ ترنگ زئی پیدا ہوئے۔ ابتدائی کتابیں اپنے والد مولانا غلام حیدر سے پڑھیں، اس کے بعد خیبر پختونخوا کے مشاہیر علماء سے استفادہ کیا، 1921ء کو دارالعلوم دیوبند میں علامہ انورشاہ کشمیریؒ سے دورہ حدیث پڑھ کر سند حاصل کی۔[10] 1922ء میں ہندوستان میں شدھی تحریک شروع ہوئی دارالعلوم دیوبند کی طرف سے علامہ شمس الحق افغانیؒ نے اس تحریک کے سدباب میں بھرپور کردار ادا کیا۔ان خدمات کی وجہ سے دارلعلوم دیوبند میں علامہ شاہ انورشاہ کشمیریؒ نے علامہ شمس الحق افغانیؒ کے کارناموں پر انہیں دادِ تحسین سے نوازا۔[11] 1922ء کو حج کی ادائیگی کے بعدمدرسہ مظہرالعلوم کراچی،مدرسہ قاسم العلوم لاہور اور دارالفیوض ہاشمیہ سجاول، سندھ میں تدریس کے فرائض سرانجام دینے لگے اس کے بعد دارالعلوم دیوبند میں شیخ الحدیث کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ [12]
1939ء سے 1942ء تک اور 1947ء سے 1955ء تک دس سال سات ماہ ریاست ہائے متحدہ بلوچستان قلات کے وزیر معارفِ شرعیہ رہے۔[13] اور اسی دوران انہوں نے معین القضاء ولمفتیین نامی کتاب لکھی۔1955 میں جب نظامِ قضاء کو عام عدالتی نظام کے تابع بنایا گیا تو آپ اس منصب سے مستعفی ہوئے۔ اور جامعہ اسلامیہ ڈابھیل کے مدرس اعلیٰ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دینے لگے۔ 1962ء میں اکیڈمی علومِ اسلامیہ کوئٹہ میں شیخ التفسیر والحدیث رہے۔ 1379ھ کو وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر رہے۔1963 کو جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں شیخ التفسیر اور وائس چانسلر رہے اور اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر رہے۔ان خدمات کی وجہ سے 1966ء کو صدر ضیاءالحق نے آپ کو تمغہ امتیاز سے نوازا۔ آپ کی علمی خدمات کی وجہ سے 9 دسمبر 1978ء کو یونیورسٹی آف پشاور نے آپ کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔14 اگست 1980 کو صدر پاکستان جنرل ضیاءالحق نے آپ کو ستارۂ امتیاز سے نوازا۔ [14]
علامہ شمس الحق افغانیؒ نے تصنیف وتحقیق کے میدان میں جو کتابیں لکھی ہیں، وہ یہ ہیں:(1) معین القضاء والمفتیین (2) شرح ضابطہ دیوانی (3) علوم القران (4) سوشلزم اور اسلام (5) اسلام دین فطرت ہے (6) اسلام عالمگیر مذہب ہے(7) عالمی مشکلات اور اس کا قرآنی حل (8) مدارس کا معاشرہ پر اثر (9) معدن السرور فی فتویٰ بہاولپور (10) متنازعہ مسائل کا حقیقی حل (11) ترقی اور اسلام (12) آئینہ آریہ (13) تصوف اور تعمیرکردار (14) اسلامی جہاد (15) کمیونزم اور اسلام (16) احکام القرآن (17) مفردات القرآن (18) مشکلات القرآن (19) حقیقت زمان ومکان (20) دروس القرآن الحکیم۔[15]
مصحفِ عثمانی کی تدوین کا پسِ منظر اور بنیادی اقدامات
مصحفِ عثمانی پر مستشرقین کے اعتراضات اور اُن کے جوابات سے پہلے اسلامی مآخذ سے عہدِ عثمانی میں جمع و تدوینِ قرآن کی نوعیت، مقاصد، پسِ منظر اور طریقہ کار کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے تاکہ مستشرقین کے شبہات کی تردیدکے ساتھ ساتھ اصل صورتِ حال بھی سامنے آ سکے۔
حضرت عثمان غنیؓ جب خلیفہ بنے،تو آپؓ کے دورِ خلافت تک اسلامی سلطنت کافی پھیل چکی تھی اور عالمِ عرب کے علاوہ عجم کے بہت سے علاقے اسلامی سلطنت کے زیرِ تسلط آ نے کی وجہ سے مختلف علاقوں اور زبانوں والے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہو چکے تھے، اور بہت سے لوگ ایسے تھے جو نئے نئے مسلمان ہو چکے تھے اسلامی تعلیمات ابھی تک ان کے دل و دماغ میں راسخ نہیں ہوئی تھیں۔ نیز مختلف حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم مختلف علاقوں میں لوگوں کو دینی تعلیمات سے بہرور فرما رہے تھے جن میں بہت سے اجتہادی مسائل میں اختلافِ رائے پایا جاتا تھا چنانچہ جو صحابی جس علاقے میں ہوتا تھا وہاں کے لوگ اپنے سارے معاملات اس کی راہنمائی میں طے کرتے اور اس کے بتائے ہوئے طریقوں اور تشریحات پر عمل پیرا ہوتے۔ حضرات صحابہ کرام میں اجتہادی اختلاف کے علاوہ قراءتِ قرآن کے حوالے سے بھی مختلف طریقے رائج تھے، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ہشام بن حکیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سنا کہ انہوں نے میری قراءت کے علاوہ دوسرے طریقے سے سورۃ الفرقان کی تلاوت کی، حالانکہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے یہ سورت سکھائی تھی، قریب تھا کہ میں اس پر جھپٹ پڑتا پھر میں نے انتظار کیا یہاں تک کہ اس نے نماز کا سلام پھیرا، پھر میں اپنی چادر اس کے گلے میں لٹکا کر اس کو نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں لے آیا، اور سارا واقعہ سنایا، آپﷺ نے حضرت ہشامؓ کو فرمایا: قراءت کیجئے، اس نے اسی طرح قراءت کی جس طرح میں نے اس سے سُنی تھی۔ آپﷺ نے فرمایا: ایسی ہی یہ سورت نازل ہوئی تھی۔ پھر آپﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ پڑھ لیجئے، میں نے پڑھ لی، آپﷺ نے فرمایا: اسی طرح نازل ہوئی تھی، پھر فرمایا:
إن هذا القرآن أنزل على سبعة أحرف، فاقرؤوا ما تيسر منه[16]
ترجمہ:"یقیناً یہ قرآن کریم سات طریقوں سے نازل ہوا ہے پس جس طرح تمہیں آسان لگے اس کی قراءت کرو۔"
مختلف صحابہ کرامؓ نے نبی کریم ﷺ سے سبعۂ احروف کے ساتھ قرآن پڑھا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد حضرات صحابہ کرامؓ اسلامی دنیا کے مختلف خطوں میں پھیل گئے اور وہاں تعلیم و تربیت اور اشاعتِ اسلام کا فریضہ سرانجام دینے لگے، چنانچہ ان حضرات نے اپنے شاگردوں کو بھی مختلف قراءتوں پر قرآن کریم پڑھایا۔ اس طرح قرآن کریم مختلف علاقوں میں مختلف قراءات کے ساتھ پھیل گیا اور ہر علاقے کے لوگ اپنے استاد کی قراءت کے مطابق قرآن کریم پڑھنے لگے۔ رفتہ رفتہ مختلف علاقوں کے لوگوں کا آپس میں قراءتِ قرآن کے حوالے سے اختلاف سامنے آنے لگا حالانکہ بہت سے لوگوں کو سبعہ احرف کے بارے میں علم نہ تھا اور نہ انہیں یہ خبر تھی کہ قرآن کریم مختلف قراءتوں کے ساتھ نازل ہوا ہے۔ اس بناء پر بعض لوگوں میں اختلاف شدت کی صورت اختیار کر گیا کیونکہ وہ محض اپنی قراءت کو درست سمجھتے تھے جبکہ دیگر قراءات کو غلط اور باطل سمجھتے تھے۔[17]
صحیحِ بخاری میں حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہےکہ حضرت حذیفہ بن الیمان ؓ،حضرت عثمانؓ کے پاس آذر بائیجان کے معرکے کے بعد حاضر ہوئے ۔انہیں قراء ات ِقرآن میں مسلمانوں کے باہمی اختلاف نے بہت پریشان کیا تھا کیونکہ وہ اختلافِ قراءت کے باعث ایک دوسرے کی تکفیر کرنے لگے تھے، چنانچہ حضرت حذیفہؓ نے حضرت عثمان ؓسے درخواست کی:
يا أمير المؤمنين، أدرك هذه الأمة، قبل أن يختلفوا في الكتاب اختلاف اليهود والنصارى[18]
ترجمہ:"اے امیر المومنین ! امت کی خبر لیجئے قبل اس کے کہ وہ اپنی کتاب میں یہود ونصاری کی طرح اختلاف کرنے لگیں۔"
اس اہم مسئلے کے حل کے لئے حضرت عثمانؓ نے جلیل القدر صحابہ کرام ؓکو جمع کیا اور ان سے اس سلسلے میں مشورہ لیا اور فرمایا کہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ بعض لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں کہ میری قراء ت تمہاری قراءت سے بہتر ہے مجھے خطرہ ہے کہ یہ نوبت خطرناک حد تک نہ پہنچ جائے اور لوگ ایک دوسرے کی تکفیر کرنے نہ لگ جائیں۔ اس سلسلے میں آپ لوگوں کی کیا رائے ہے کہ کیا کیا جائے؟ صحابہ کرامؓ نے حضرت عثمان ؓسے پوچھا کہ آپ نے اس بارے میں کیا سوچا ہے؟ حضرت عثمانؓ نے فرمایا کہ میری رائے یہ ہے کہ ہم تمام لوگوں کو ایک یقینی مصحف پر جمع کر دیں تاکہ کوئی اختلاف اور افتراق باقی نہ رہے۔ صحابہؓ نے اس رائے کو پسند کیا اور حضرت عثمان ؓکی رائے کی تائید کی چنانچہ حضرت عثمانؓ نے اسی وقت لوگوں کو جمع کیا اور خطبہ ارشاد فرمایا: تم لوگ مدینہ میں میرے قریب رہتے ہوئے قرآن کریم کی قراءتوں کے بارے میں اختلاف کرتے ہو تو جو لوگ مجھ سے دور ہیں وہ تو زیادہ اختلاف کرتے ہوں گے۔ لہذا تم لوگ مل کر ایک ایسا نسخہ تیار کرو جو سب کے لئے واجب الاقتدا ہو۔[19]
اس مقصد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے حضرت عثمانؓ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے حضرت زید بن ثابتؓ کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ منگوایا ۔ انہوں نے وہ نسخہ دے دیا جس کو مدنظر رکھتے ہوئے لغتِ قریش کے مطابق ایک نسخہ تیار کیا گیا۔ جس پر سب صحابہ کرامؓ کا اتفاق تھا، جس کی تفصیل امام بخاریؒ نے ان الفاظ میں ذکر کی ہے:
فأرسل عثمان إلى حفصة: «أن أرسلي إلينا بالصحف ننسخها في المصاحف، ثم نردها إليك»، فأرسلت بها حفصة إلى عثمان، فأمر زيد بن ثابت، وعبد الله بن الزبير، وسعيد بن العاص، وعبد الرحمن بن الحارث بن هشام فنسخوها في المصاحف "، وقال عثمان للرهط القرشيين الثلاثة: «إذا اختلفتم أنتم وزيد بن ثابت في شيء من القرآن فاكتبوه بلسان قريش، فإنما نزل بلسانهم» ففعلوا حتى إذا نسخوا الصحف في المصاحف، رد عثمان الصحف إلى حفصة، وأرسل إلى كل أفق بمصحف مما نسخوا، وأمر بما سواه من القرآن في كل صحيفة أو مصحف، أن يحرق.[20]
"حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ ہمارے پاس قرآن مجید کے نوشتے اور صحیفے بھیج دیں، ہم انہیں نقل کر کے ایک مصحف کی شکل میں جمع کرنا چاہتے ہیں، پھر انہیں آپ کی طرف لوٹا دیں گے۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے وہ صحیفے حضرت عثمانؓ کے پاس بھجوا دیئے۔ حضرت عثمانؓ نے حضرت زید بن ثابتؓ، عبد اللہ بن زبیرؓ، سعید بن العاصؓ اور عبد الرحمٰن بن حارث بن ہشامؓ کو مقرر فرمایا کہ وہ ان صحائف کو ایک مصحف میں نقل کر یں۔ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ حضرت عثمانؓ نے جماعتِ قریش کے تینوں کاتبوں سے فرمایا کہ جب تمہارے اور زید بن ثابتؓ کے درمیان قرآن کریم کی کسی آیت کے بارے میں اختلاف ہو تو اسے لغتِ قریش کے مطابق لکھو، کیونکہ قرآن مجید لغتِ قریش میں نازل ہوا ہے چنانچہ ان حضرات نے اسی اصول پر عمل کیا۔ جب ان حضرات نے ان صحائف کو ایک مصحف میں جمع کیا تو حضرت عثمان نے یہ اصل صحائف حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس واپس لوٹا دئیے اور ہر علاقے میں ایک ایک نقل شدہ مصحف ارسال کیا، اور یہ حکم صادر فرمایا کہ ان کے علاوہ جو مجموعے اور صحیفے لوگوں کے پاس لکھے ہوئے موجود ہوں ان کو جلا دیا جائے۔"
مصحف عثمانی کی تدوین میں حضرت عثمانؓ نے جواہم اور ضروری کام کئے ان میں سے چند حسبِ ذیل ہیں:
1۔ قرآن کریم کے معیاری نسخے تیار کروائے اور اسلامی ریاست کے مختلف اطراف میں ایک ایک نسخہ روانہ کر دیا۔
2۔ ان مصاحف کا رسم الخط ایسا رکھا کہ اس میں ساتوں حروف سما سکیں، چنانچہ یہ مصاحف نقاط اور حرکات سے خالی تھے اور انہیں مختلف حروف کے مطابق پڑھا جا سکتا تھا۔
3۔ لوگوں نے جتنے نسخے انفرادی طور پر تیار کر رکھے تھے ان سب کو نذرِ آتش کرنے کا حکم صادر فرمایا۔
4۔ یہ پابندی عائد کر دی کہ آئندہ جو مصاحف لکھے جائیں وہ اسی متفقہ نسخہ کے مطابق ہوں۔
5۔ حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تیار کردہ نسخے الگ الگ سورتوں کی شکل میں تھے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں اکٹھاکر کے ایک مصحف کی شکل دے دی۔[21]
ان اقدامات کا مقصدیہ تھا کہ کہ پورے عالمِ اسلام میں رسم الخط اور ترتیبِ سور کے اعتبار سے تمام مصاحف میں یکسانیت ہو اور ان مصاحف کو دیکھ کر فیصلہ کیا جاسکے کہ کونسی قراءت درست اور کونسی غلط ہے۔ اس بات کی وضاحت حضرت علیؓ کے اس قول سے ہوتی ہے جسے ابن ابی داود نے نقل کیا ہے:
يا أيها الناس لا تغلوا في عثمان ولا تقولوا له إلا خيراً في المصاحف وإحراق المصاحف، فوالله ما فعل الذي فعل في المصاحف إلا عن ملأ منا جميعاً، فقال ما تقولون في هذه القراءة. قد بلغني أن بعضهم يقول إن قراءتي خير من قراءتك و هذا يكاد أن يكون كفرا، قلنا فما ترى؟ قال نرى أن نجمع الناس على مصحف واحد فلا تكون فرقة ولا يكون اختلاف، قلنا فنعم ما رأيت.[22]
اے لوگو! حضرت عثمانؓ کے بارے میں غلو مت کرو، اور مصاحف کی تدوین اور جلانے کے متعلق بھلائی کے علاوہ کوئی بات نہ کہو، کیونکہ اللہ کی قسم انہوں نے مصاحف کے بارے میں جو کام کیا وہ ہم سب کی موجودگی میں کیا۔ انہوں نے ہم سب سے مشورہ کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ ان قراءتوں کے بارے میں تمہارا کیاخیال ہے؟ کیونکہ مجھے اطلاعات مل رہی ہیں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ میر ی قراءت تمہاری قراءت سے بہتر ہے۔ حالانکہ یہ ایسی بات ہے جو کفر کے قریب تر پہنچا دیتی ہے۔ اس پر ہم نے کہا کہ آپ کی کیا رائے ہے؟ انہوں نے فرمایا میری رائے یہ ہے کہ ہم سب لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کر دیں تاکہ کوئی اختلاف وافتراق باقی نہ رہے ہم سب نے کہا کہ آپ نے اچھی رائے قائم کی ہے۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ کا مقصد امتِ مسلمہ کو افتراق و اختلاف سے بچانا اور ایک معیاری اور متفقہ نسخہ تیار کروانا تھا۔ جس پرتمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم متفق تھے، تاکہ تاقیامت قرآن کریم کے کسی لفظ میں بھی اختلاف کی گنجائش نہ رہے۔
مصحفِ عثمان ؓ پر مستشرقین کے شبہات کا تحقیقی مطالعہ
مستشرقین نے قرآن کریم کو مشکوک بنانے لوگوں کے اعتماد کو متاثر کرنے کے لئے اس کے مضامین، تاریخ اور جمع و تدوین پر مختلف قسم کے اعتراضات کئے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب نہیں ہے تو کبھی کہتے ہیں کہ اس کتاب میں کاتبینِ وحی سے غلطی ہوئی ہے، جبکہ بسا اوقات مصحف عثمانی کو ہدفِ تنقید بنا کر اس کے متعلق زہر افشائی کرتے ہیں۔ Theodor Noldeke لکھتے ہیں:"مصحفِ عثمان سے قبل قرآن مجید کا کوئی معیاری اور مرتب نسخہ موجود نہ تھا۔ اور یہ مصحف ، حضرت ابوبکرصدیق کے مصحف کا نقل تھا لہذا اگر مصحفِ صدیقی حقیقی مصحف نہ تھا تو مصحفِ عثمانی کی بھی کوئی حیثیت نہیں ۔"[23] مصحفِ عثمانی کے متعلق مستشرقین نے جو تین اہم اعتراضات کئے ہیں ذیل میں ان کا مختصراً ذکر کیا جاتا ہے اورعلامہ شمس الحق افغانیؒ کے علمی وتحقیقی افکار کی روشنی میں اس کا تنقیدی جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
مصحفِ عثمان ؓ پر مستشرقین کا پہلا شبہ
مصحفِ عثمان پر مستشرقین کا پہلا اعتراض یہ ہے کہ حضرت عثمان ؓ خود بھی اپنے تیار کردہ نسخے کو مستند اور صحیح نہیں سمجھتے تھے، لہذا جب حضرت عثمان ؓکو اپنی زیرِ نگرانی تیار کردہ نسخہ پر اعتماد نہیں تھا تو دیگر مسلمان اس کو کس بنیاد پر صحیح اور مستند مانتے ہیں؟ مستشرقین نے اسلامی مصادر سے رطب ویابس مواد اکٹھا کرکے مصاحف عثمانیہ کو ہدفِ تنقید بنایا ہے،چنانچہ مصحفِ عثمانؓ کو مشکوک بنانے کے لئے مستشرقین نےاعتراضات شروع کرکے عہد صدیقی اور عہد عثمانی کے نسخوں کو غیر معیاری قرار دینے کی کوشش کی۔ مستشرقین کے سرخیل آتھر جیفری نے عہد صدیقی میں کسی مکمل نسخے کی تیاری کا کلی طور پر انکار کیا ہے، بلکہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ عہد صدیقی کے بعد بھی مختلف نسخے رائج رہےجو ذاتی نوعیت کے تھے، اور ذاتی نوعیت کے یہ سارے نسخے نامکمل تھے، گویا اس بنیاد پر قرآن بھی مکمل نہیں ہے۔[24]آتھر جیفری نے متن قرآن کو غلط ثابت کرنے کے لئے قرآن کے مقابل کئی نسخوں کا ذکر کیا ہے حالانکہ ان میں سے کوئی نسخہ بھی اس وقت موجود نہیں ہے۔ [25]اور مزید اس نسخے کو سیاسی کارستانی گردانتے ہوئے لکھا ہے:
Hazrat Uthman changed the Holy Quran according to political situation.[26]
ترجمہ:" حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) نے سیاسی حالات کے مطابق قرآن کریم کو تبدیل کیا۔"
مذکورہ شبہ پرمستشرقین کے استدلالات
مستشرقین نے مصاحف عثمانیہ کو مشکوک بنانے کے لئے دو ضعیف روایات کو اپنا مستدل بنایا ہے،جس سے وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں، کہ مصحف عثمان قابل اعتماد نہیں ہے، سب سے پہلے ان روایات کو پیش کیا جاتا ہے جن سے مستشرقین نے استدلال کیا ہے اور پھر اس کے جواب میں علامہ شمس الحق افغانیؒ کے علوم افکار سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔اس حوالے سے مستشرقین کی مستدل روایات حسبِ ذیل ہیں:
پہلی روایت
عن يحيى بن يعمر قال: قال عثمان رضي الله عنه:أرى فيه لحنا وستقيمه العرب بألسنتها.[27]
ترجمہ: "یحیٰ بن یعمر سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:میں اس میں کچھ اغلاط دیکھتا ہوں، جن کو عرب اپنی زبان کی بنیاد پر درست کرلیں گے۔"
دوسری روایت
عن عكرمة، قال: لما كتبت المصاحف عرضت على عثمان، فوجد فيها حروفا من اللحن، فقال: " لا تغيروها فإن العرب ستغيرها، أو قال: ستعربها بألسنتها، لو كان الكاتب من ثقيف، والمملي من هذيل لم توجد فيه هذه الحروف.[28]
ترجمہ: "جب مصاحف لکھے گئے اور حضرت عثمانؓ کے سامنے پیش کئے گئے، توآپؓ نے اِن میں حروف کی غلطیاں پائیں، اور فرمایا:ان میں تبدیلی نہیں کرو کیونکہ عرب اس کو خود ٹھیک کر لیں گے، یا یہ کہا کہ ان کی زبانیں اس کو درست کر لیں گی۔ اگر کاتب ثقیف قبیلے سے ہوتا اور املاء کرانے والا ہذیل میں سے ہوتا تو یہ حروف نہ ہوتے۔"
علامہ عبدالعظیم زرقانیؒ مستشرقین کے ان دو استدلالات پر نقد کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
أورد أعداء الإسلام هاتين الروايتين وقالوا: إنهما طعنان صريحان في رسم المصحف فكيف يكون مصحف عثمان وجمعه للقرآن موضع ثقة وإجماع من الصحابة؟ وكيف يكون توقيفيا؟ وهذا عثمان نفسه يقول بملء فيه: إن فيه لحنا.[29]
ترجمہ: "اسلام دشمنوں نے ان دو روایتوں کی بنیاد پر کہا ہے کہ یہ مصحف عثمانی پر صریح طعن ہے تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مصحف اور جمعِ قرآنی پر کس طرح اعتماد کیا جا سکتا ہے اور اس پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا اجماع کس طرح ممکن ہے؟ اور یہ مصحف کس طرح توقیفی ہو سکتا ہے حالانکہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بذاتِ خود کہتے ہیں کہ اس میں غلطی ہے۔"
مذکورہ استشراقی استدلالات پر علامہ افغانیؒ کا تنقیدی نقطہ نظر
علامہ شمس الحق افغانیؒ نے مستشرقین کے مذکورہ استدلالات کا علمی نقد پیش کیا ہے،جن میں سے چند اہم مباحث حسبِ ذیل ہیں :
1۔ مستشرقین کے مذکورہ استدلال کا پہلا جواب
یہ دونوں روایات قابلِ اعتماد نہیں ہیں کیونکہ ان دونوں میں اضطراب اور انقطاع ہے، علامہ شمس الحق افغانیؒ پہلی روایت پر جرح[30] کرتے ہوئے علامہ آلوسیؒ کا قول نقل کرتے ہیں:
فالحق إن ذلك لا يصح عن عثمان والخبر ضعيف مضطرب منقطع.[31]
ترجمہ: "حق بات یہ ہے کہ یہ روایت حضرت عثمان ؓ سے بالکل ثابت نہیں ہے اور یہ خبر ضعیف، مضطرب اور منقطع ہے۔"
2۔ مستشرقین کے استدلال کا دوسرا جواب
مستشرقین کے استدلال کا ایک اور جواب دیتے ہوئے علامہ شمس الحق افغانیؒ تحریر فرماتے ہیں:
"دوم جواب یہ ہے کہ مصحفِ عثمانی پر اجماعِ صحابہ ہے اور رسمِ عثمانی بھی وحی سے ثابت ہے تو غلطی پر اجماع کیونکر ممکن ہے"۔[32] علامہ الوسی ؒ اس بات کی تائید میں مزید لکھتے ہیں:
وأما قول عثمان إن في القرآن لحنا إلخ فهو مشكل جدا إذ كيف يظن بالصحابة أولا اللحن في الكلام فضلا عن القرآن وهم هم ثم كيف يظن بهم ثانيا اجتماعهم على الخطأ وكتابته ثم كيف يظن بهم ثالثا عدم التنبه والرجوع ثم كيف يظن بعثمان عدم تغييره وكيف يتركه لتقيمه العرب وإذا كان الذين تولوا جمعه لم يقيموه وهم الخيار فكيف يقيمه غيرهم فلعمري إن هذا مما يستحيل عقلا وشرعا وعادة.
ترجمہ: "یہ بات بڑی عجیب اور سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ اولاً تو حضرات صحابہ کرام کے بارے میں یہ گمان کس طرح کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کسی عام بات میں غلطی کی ہو چہ جائیکہ قرآن کریم میں غلطی کریں، حالانکہ صحابہ بڑے مرتبے والے لوگ تھے۔ پھر ان کے متعلق یہ گمان کیسے کیا جا سکتا ہےکہ وہ سب غلطی اور اس (غلطی )کے لکھنے پر متفق ہوئے۔ تیسری بات یہ کہ ان کے متعلق یہ گمان بھی نہیں کیا جاسکتا کہ انہیں اس غلطی کا نہ احساس ہوا نہ انہوں نے اس سے رجوع کیا۔ مزید یہ کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں یہ گمان کیسے کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے خود اس میں تبدیلی نہیں کی بلکہ اس کو عرب کے لئے چھوڑا، تاکہ و ہ اس کو ٹھیک کریں، حالانکہ سب سے افضل لوگ جو اس کی جمع و تدوین کے ذمہ دار تھے اگر وہ اس کو ٹھیک نہیں کریں گے تو دوسرے لوگ کیسے کر سکیں گے؟ بخدا یہ بات عقلاً، شرعاً اور عادۃ کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے۔"
3۔ مستشرقین کے استدلال کا تیسرا جواب
علامہ شمس الحق افغانیؒ فرماتے ہیں کہ روایت میں ہے کہ حضرت عثمانؓ نے ارکانِ جمع ِقرآن کو مخاطلب کرکے فرمایا: "أحسنتم وأجملتم"تم نے اچھا اور عمدہ کام کیا، جیساکہ علامہ آلوسیؒ نے لکھا ہے:
لما فرغ من المصحف أتى به عثمان فنظر فيه فقال أحسنتم وأجملتم[33]
ترجمہ: "جب مصحف تیار ہوئی تو وہ اسے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس لے آئے آپؓ نے دیکھ کر فرمایا آپ لوگوں نے بڑا اچھا اور عمدہ کام کیا ہے۔"
اس روایت سے استدلال کرتے ہوئے علامہ شمس الحق افغانیؒ لکھتے ہیں:
"اگر مجموعہ میں غلطی ہوتی تو حضرت عثمانؓ غلطی کی تحسین کس طرح کرسکتے تھے؟"[34]
4۔ مستشرقین کے استدلال کا چوتھا جواب
اسی روایت کا ایک اور جواب دیتے ہوئے علامہ شمس الحق افغانیؒ نے لغتِ عرب سے استدلال کیا ہے اور یہ بات ثابت کی ہے کہ لغوی اعتبار سے لفظ لحن صرف غلطی کے معنیٰ میں نہیں آتا بلکہ طرزِ گفتگو کے معنیٰ میں بھی آتاہے اور یہاں پر لحن سے یہی معنیٰ مراد ہے۔ جیساکہ حضرت عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
وقال عمر بن الخطاب رضي الله عنه: إنا لنرغب عن كثير من لحن أبي (يعني لغةأبي)[35]
ترجمہ: ہم حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بہت سے لغات سے اعراض (اختلاف) کرتے ہیں۔
چنانچہ علامہ شمس الحق افغانیؒ نے لحن کو طرز گفتگو کے معنی میں لیا ہے جس سے مستشرقین کا یہ اشکال ہی ختم ہو جاتا ہے، آپ نے اس معنی پر لغت عرب سے استدلال کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے:
"یہاں لحن کے معنی غلطی کے نہیں بلکہ قرآن کے وہ صحیح الفاظ مراد ہیں جو عربوں کے زبانوں پر چڑھے ہوئے نہ تھے، اور ان کے طرزِ گفتگو کے موافق نہ تھے، ایسے الفاط کے متعلق فرمایاکہ قرآن میں ایسے انداز کے الفاظ ہیں جن کو عرب باربار پڑھ لینے سے قابو کرلیں گےاور ان کی زبان رفتہ رفتہ اس طرز کی عادی بن جائے گی۔اس میں شک نہیں کہ لفظ لحن دو معنوں میں مشترک ہے، ایک معنی غلطی ہے، اور دوسرا معنی طرز کلام ۔ حضرت عثمانؓ کی روایت میں دوسرا معنی مراد ہے۔"[36]
علامہ شمس الحق افغانیؒ نے مستشرقین کے اعتراض کے مذکورہ جواب پر قرآن کریم، حدیث، لغتِ عرب اور اشعارِ عرب سے استشہادات پیش کئے ہیں اور یہ ثابت کیا ہے کہ لحن صرف غلطی کے معنی میں مستعمل نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ طرزِ کلام اور لغت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، علامہ افغانیؒ کے ذکر کردہ چند استشہادات حسبِ ذیل ہیں:
(الف)۔ قرآن کریم سے استدلال
منافقین کی علامات اور افعال کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں نبی کریم ﷺ سے ارشاد فرماتے ہیں:
وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِي لَحْنِ الْقَوْل[37]
ترجمہ: اور تم انھیں بات کرنے کے ڈھب سے ضرور پہچان ہی جاؤگے۔
یہاں پر لحن بات کرنے کے لب و لہجہ اور طرزِ گفتگو کے معنی میں استعمال ہوا ہے، مفسرین نے اپنی تفاسیر میں اس آیت کے تحت لحن سے یہی معنیٰ مراد لیا ہے، مولانا ادریس کاندھلویؒ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:"اللہ رب العزت نے مومن کو نورِ فراست عطا کیا ہے، وہ لب ولہجہ اور طرزِ گفتگو سے منافقین کو پہچان لے گا، کیونکہ مخلص اور منافق کی بات اور عمل کا رنگ ڈھنگ مختلف ہوتا ہے۔"[38]علامہ شمس الحق افغانیؒ لحن سے مذکورہ معنیٰ مراد لینے پر قرآن کریم سے استشہاد کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:"یہی معنیٰ (طرزِ کلام) قرآن کی آیت وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِي لَحْنِ الْقَوْل[39]میں استعمال کیا گیا ہے۔"[40]
(ب)۔ احادیث سے استدلال
علامہ شمس الحق افغانیؒ نے حدیث سے استشہاد پیش کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ لحن صرف غلطی کے معنی میں نہیں آتا بلکہ یہ طرزِ کلام اور لغت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، آپ نے لحن کے معانی میں احادیث سے استدلال کرتے ہوئے حضرت ابوہریرہؓ کی روایت نقل کی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
"إنما أنا بشر ولعل بعضكم يكون ألحن بحجته من بعض، فمن قضيت له من حق أخيه شيئا، فإنما أقطع له قطعة من النار"[41]
علامہ افغانیؒ اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "ولعل بعضكم يكون ألحن بحجته" کا مطلب یہ ہے کہ مقدمے کے فریقین میں سےکبھی ایک فریق فصیح طرز کلام کا ماہر ہوتا ہے، میں ا س کی بات سن کر فیصلہ کرتا ہوں، تو یہ ڈگری اس کے حق میں آگ کا ٹکڑا ہوگا۔[42]
(ج)۔ لغت سے استشہاد
محدثین کی طرح ائمہ لغت اور مفسرین نے بھی لحن کو طرزِکلام کے معنیٰ میں لیا ہے،چنانچہ علامہ آلوسیؒ نے اس آیت کی تفسیر میں لحن پر بحث کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے:
وقيل: اللحن: أن تلحن بكلامك، أى: تميله إلى نحو من الأنحاء ليفطن له صاحبك كالتعريض والتورية.[43]
ترجمہ:ـ"کہا جاتا ہے کہ لحن اسلوبِ کلام کو کہا جاتا ہے، یعنی آپ کسی ایک طرف مائل ہوجائیں تاکہ آپ کا ساتھی سمجھ جائے جیسے کنایہ یا توریہ۔"
علامہ شمس الحق افغانیؒ نے راغب اصفہانیؒ کی کتاب مفردات القرآن سے استشہاد پیش کیا ہے کہ لحن کا یہی معنی(طرزکلام ) ہے اور اس کو امام لغت راغب نے مفردات القرآن میں لکھا ہے۔ [44]اس کو لحن محمود کہا جاتا ہے۔[45]
(د)۔ اشعارِ عرب سے استشہاد
شعرائے عرب نے بھی کئی مواقع پر لحن کو اسی مذکورہ معنیٰ میں استعمال کیا ہے، علامہ شمس الحق افغانیؒ نے عرب کے شاعر مالك بن اسماء فزاری کے شعر سے استشہاد پیش کیا ہے،جس میں مالک کا کہنا ہے:
منطق صائب وتلحن أحيانا * وخير الحديث ما كان لحنا[46]
ترجمہ: " اچھی بات وہ ہے جوکہ خاص طرزسے کہی جائے اور بہترین بات وہ ہے جو (خاص) اسلوب اور طرز سے کہی جائے۔ "
خلاصہ کلام یہ کہ لحن سے مراد طرز کلام ہے۔ ان تمام استدلالات اور استشہادات کو پیش کرنے کے بعد علامہ شمس الحق افغانیؒ اس کا لب لباب اور خلاصہ تحریر فرماتے ہوئے رقمطراز ہیں:"ان حوالہ جات کے تحت لفظ لحن سے غلطی مراد نہیں ہےبلکہ ایک خاص طرز تلفظ مراد ہے۔"[47]
5۔ مستشرقین کے استدلال کا پانچواں جواب
علامہ شمس الحق افغانیؒ علمی ذوق رکھنے والے محقق عالمِ دین تھے اس لئے آپ نے صرف ایک دو جوابات پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مستشرقین کے اس استدلال کا پانچواں جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا :یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لحن سے رسم الخط کا لحن مراد ہو، کہ رسم مصحف عثمانی میں بعض جگہ میں ملفوظ اور مکتوب موافق نہیں، لیکن عرب اہل لسان اپنی زبان سے اس کو درست پڑھ لیں گے جیسے خود انگریزی زبان میں مکتوب اور ملفوظ برابر نہیں لیکن زبان دان درست پڑھ لیتے ہیں۔[48]
مصحف عثمانؓ پر مستشرقین کا دوسرا شبہ
مصاحفِ عثمانیہ پر مستشرقین کا دسرا شبہ یہ ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے جن کاتبینِ وحی کو مقرر کیا ان سے وحی کی کتابت میں غلطیاں ہوئی ہیں ، تو جس نسخے میں کاتبین کی غلطیاں ہوں اس کو کیسے مستند مانا جائے؟ آتھر جیفری نے کتاب المصاحف کے مقدمے میں Theodor Noldeke ، اور دیگر مستشرقین کی اتباع کرتے ہوئے قرآنی متن کو موضوعِ تحقیق بنایا ہے، اکثر مستشرقین نے اس باب میں Theodor Noldeke کی تحقیقات کو بنیاد بنا کر نتائج بیان کئے ہیں، مصحفِ عثمانی کے بارے میں نولڈیکے کا لکھنا ہے:"اس سلسلے میں نو آموز اور ناتجربہ کار کاتبوں کی طرف سے کچھ لا پروائیاں اور غلطیاں سرزد ہوئیں۔"[49]
مستشرقین کے دلائل
اس سلسلے میں مستشرقین نےکئی روایات کو دلیل بنا کر شبہات اور اعتراضات کا دروازہ کھول دیا ہےاور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ نعوذباللہ کاتبینِ وحی سے غلطیاں ہوئی ہیں، یا انہوں تو صحیح لکھا ہے لیکن نقاط نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں نے کچھ اور سمجھ لیاہے۔ چنانچہ مستشرقین کے سرخیل گولڈ زیہر لکھتے ہیں:
والقسم الاکبر من هذه القراءات یرجع السبب فی ظهوره الی خاصية الخط العربی، فان من خصائصه ان الرسم الواحدة قد یقراء باشکال مختلفة، تبعا للنقط فوق الحروف او تحتها۔[50]
ترجمہ: "ان قراءات میں سب سے بڑی قسم کے ظہور کا سبب عربی خط کی خاصیت ہے۔ اس خط کے خصائص میں سے ایک یہ ہے کہ ایک رسم اوپر نیچے نقطے لگنے کی وجہ سے مختلف طریقوں سے پڑھا جاتا ہے۔"
اس اشکال کا علامہ شمس الحق افغانیؒ نے علمی محاکمہ کیا ہے اور اس سلسلے میں انھوں نے مستشرقین کے چند دلائل کو پیش کیا ہے وہ دلائل حسب ذیل ہیں :
1۔ مستشرقین کہتے ہیں کہ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ اصل میں مثل نور المؤمن كمشكاة ہے اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول سے استدلال کرتے ہیں، روایت یہ ہے:
عن ابن عباس في قوله تعالى: مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ أنه قال: هي خطأ من الكاتب. هو أعظم من أن يكون نوره مثل نور المشكاة. إنما هي: مثل نور المؤمن كمشكاة[51].
ترجمہ:" ابن عباس ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے بارے میں روایت ہے : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فرماتے ہیں: یہ کاتب سے غلطی ہوئی ہے وہ اس سے بڑھ کر ہیں کہ ان کی روشنی چراغ کی روشنی کی طرح ہوجائے۔یہ اصل میں یوں ہے : مومن کی روشنی چراغ کی طرح ہے۔"
2۔ وَالْمُقِيمِينَ الصَّلاةَ کی قراءت پر ہے، جیساکہ ہشام بن عروہؓ نے اپنے باپ سے روایت کی ہے، فرماتے ہیں:
سألت عائشة عن لحن القرآن: عن قوله إن هذان لساحران،[52] وعن قوله { وَالْمُقِيمِينَ الصَّلَاةَ وَالْمُؤْتُونَ الزَّكَاة}[53] وعن قوله إن الذين آمنوا والذين هادوا والصابئون فقالت: «يا ابن أختي، هذا عمل الكتاب أخطئوا في الكتاب[54]
ترجمہ:" میں نے حضرت عائشہ ؓ سے اس لحن القرآن کے بارے میں پوچھا جو قرآن کریم کی ان آیات میں ہے: إن هذان لساحراناس طرح اللہ تعالیٰ کے اس قول کے بارے میںوالمقيمين الصلاة والمؤتون الزكاة اس طرح اس قول کے بارے میں : إن الذين آمنوا والذين هادوا والصابئونتو اس (حضرت عائشہؓ ) نے فرمایا: اے بھانجے! یہ لکھنے والوں کا کام ہے جن سے لکھنے میں غلطی ہوئی ہے۔ "
3۔ تستأنسوا کے کلمے پر ہے، ابن عباس ؓسے جب {حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا}[55]کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
إنما هي: حتى تستأذنوا، ولكن سقط من الكاتب.[56]
ترجمہ:" یہ اصل میں حتى تستأذنوا ہے لیکن کاتب سے ساقط ہوگیا ہے۔ "
4۔ کلمہ أفلم يتبين کے بارے میں ابن عباسؓ کا قول ہے:
عن ابن عباس أنه قرأ " أفلم يتبين الذين آمنوا أن لو يشاء الله لهدى الناس جميعا " فقيل له: إنها في المصحف: أفلم ييأس فقال: أظن الكاتب كتبها وهو ناعس.[57]
ترجمہ:" ابن عباس ؓ نے پڑھا : " أفلم يتبين الذين آمنوا أن لو يشاء الله لهدى الناس جميعا " تو انہیں کہا گیا: مصحف میں ہے أفلم ييأستو انہوں نے کہا: میرا خیال یہ ہے کہ اس کو لکھتے وقت کاتب پر نیند کا غلبہ تھا۔
5۔ ووصى ربك کووَقَضى رَبُّكَکی جگہ پڑھتے ہیں،اس حوالے سے بھی مستشرقین حضرت ابن عباسؓ سے مروی ایک روایت کو دلیل بناتے ہیں۔
مذکورہ استشراقی استدلالات پر علامہ شمس الحق افغانی کامحاکمہ
علامہ شمس الحق افغانی ؒ نے جس طرح مستشرقین کے دیگر اعتراضات کا جواب دیا ہے اسی طرح اس شبہے کا بھی جواب دیا ہے۔ آپؒ کے علاوہ دیگر اہل علم نے بھی اس شبہہ کے علمی جوابات دئیے ہیں۔چنانچہ محمد عبدالعظیم زرقانی نے اس کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے:
ونجيب: أولا: بأن هذه الروايات ضعيفة؟ لم يصح شيء منها عن ابن عباس. ثانيا: أنها معارضة للقراءة المتواترة المجمع عليها فهي ساقطة.[58]
ترجمہ:" ہم اس سے جواب دیتے ہیں، کہ پہلے یہ روایات ضعیف ہیں، ابن عباس ؓ سے اس سلسلے میں کوئی چیز صحیح نہیں ہے۔دوسری بات یہ کہ یہ مجمع علیہ قراءاتِ متواترہ سے معارض ہے جس کی وجہ سے ساقط ہے۔"
جس طرح مستشرقین نے مختلف روایات سے استدلال کرکے مصحف عثمانی پر اعتراضات کئے ہیں اسی طرح علماء اسلام اور محققین نے بھی مختلف روایات کا سہار الے کر ان اعتراضات کے جوابات دئیے ہیں، مذکورہ شبہے کے جواب میں علامہ شمس الحق افغانیؒ نے حسب ذیل روایت سے استدلال کیا ہے:
عن هانئ البربري مولى عثمان قال: كنت عند عثمان، وهم يعرضون المصاحف، فأرسلني بكتف شاة إلى أبي بن كعب، فيها «لم يتسن» ، وفيها «لا تبديل للخلق» ، وفيها «فأمهل الكافرين» . قال: فدعا بالدواة فمحا إحدى اللامين، وكتب {لخلق الله}،[59] ومحا «فأمهل»، وكتب {فمهل}،[60] وكتب {لم يتسنه}[61] ألحق فيها الهاء [62]"
اس روایت کو بطور استدلال پیش کرنے کے بعد علامہ شمس الحق افغانیؒ لکھتے ہیں: اس روایت سے لحن والی روایت کی غلطی ثابت ہوگئی، کہ جب آپ(حضرت عثمانؓ) کی احتیاط کا یہ عالم تھاکہ کتابت کی معمولی غلطی تک کو آپ نے نہیں چھوڑا بلکہ درست کردیاتودیگر غلطیوں کو قرآن میں کس طرح رہنے دیتے ہوں گے۔ [63]
3۔ مصحفِ عثمان پرمستشرقین کا تیسرا شبہ
مصاحفِ عثمانیہ پر مستشرقین کا تیسرا شبہ یہ ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے اپنے تیار کروائے ہوئے نسخے کے علاوہ تمام نسخوں کو ضائع کروا دیا۔ اس طرح قرآن کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو گیا،اور قرآن کا حقیقی متن اگر ہم جاننا چاہیں تومعلوم نہیں ہو سکتا۔[64] اس طرح مستشرقین نے اس نسخے میں بعض مواد کو حذف کرنے کے الزامات بھی لگائے ہیں۔چنانچہ Welch انسائیکلو پیڈیا میں لکھتے ہیں:
The historical material was wasted during Uthmanῑc script. [65]
ترجمہ:" مصحف عثمانی کے (لکھنے کے ) دوران تاریخی مواد ضائع کئے گئے۔"
مستشرقین کے پاس اس حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے اور نہ تاریخ سے اس کا اندازہ وہوتا کہ کسی شخص نے اس کا دعوی کیا ہو کہ میرے پاس ایک نسخہ ہے جس کا متن قرآن کے متن کے مخالف ہے۔آرتھرجیفری حضرت عثمان ؓ کے مصاحف جلانے کے واقعہ کو دلیل قرار دے کر کہتے ہیں کہ ان نسخہ جات میں سے کوئی قابلِ ذکر مواد باقی نہیں بچا جس کو پاکر ہم ان میں سے کسی نسخے کے متن کی صحیح شکل دیکھنے کے قابل ہوسکیں۔[66]اس سلسلے میں مستشرقین نے بعض شیعہ مصادر سے استدلال کیا ہے ، علامہ شمس الحق افغانیؒ نے دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ جمہوراہل تشیع کا یہ نظریہ نہیں ہے ۔اس مبحث کے آخر میں علامہ شمس الحق افغانیؒ نے شیخ صدوق کی کتاب "رسالہ عقائد" سے عبارت نقل کی ہے جو مستشرقین کے اس دعوے کی تردید میں ایک قولِ فیصل کی حیثیت رکھتی ہے، شیخ صدوق لکھتے ہیں: "القرآن المنزل وما بایدی الناس واحد لا زیادة فيه ولا نقصان" یعنی "نازل شدہ قرآن اور موجودہ قرآن جولوگوں کے ہاتھوں میں ہے ایک ہے جس میں کمی بیشی نہیں ۔"[67] شیعہ کے مستند مصادر سے مستشرقین کے جواب میں سات دلائل [68]ذکر کرنے کے بعدعلامہ شمس الحق افغانیؒ لکھتے ہیں: ان مستند شیعی حوالہ جات کے بعد یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ شیعہ میں چند ناقابل اعتبار افراد کے علاوہ کوئی بھی تحریف یا قرآن میں کمی بیشی کا قائل نہیں ۔[69]
نتائجِ تحقیق
1. مولانا شمس الحق افغانی ایک جید عالم اور قرآنی علوم کے ماہر تھے۔ اس طرح دین اسلام پر ملحدین اور مستشرقین کے نقد میں خصوصی مہارت رکھتے تھے۔
2. علمائے اسلام میں سے جن حضرات نے مغربی استشراق اور الحاد کے نقد کو موضوعِ تحقیق بنایا ہے ان میں ایک معروف نام مولانا شمس الحق افغانیؒ کا ہے۔
3. قرآنیات میں مستشرقین نے جن موضوعات کو موضوع تحقیق بنایا ہے ان میں ایک مصحفِ عثمانی ہے۔ مصحف عثمانی کی حیثیت کو مشکوک بنانے کے لئےمستشرقین نے اس پر جو اعتراضات کئے ہیں مولانا شمس الحق افغانی نے ان کے علمی وتحقیقی جوابات دئیے ہیں۔
4. مصحف عثمانی پر مستشرقین کا پہلا شبہ یہ ہے کہ اس نسخے کو خود حضرت عثمان ؓ صحیح نہیں سمجھتے تھے۔جس کے لئے انہوں نے اسلامی تراث سے مواد کو اکٹھا کرکے استدلا ل دینے کی کوشش کی ہے۔ مولانا شمس الحق افغانی نے علمی انداز میں ان دلائل کا نقد پیش کیا ہے اور مستشرقین کی بات کو غلط ثابت کیا ہے۔
5. دوسرا شبہ یہ ہے کہ کاتبین سے غلطیاں ہوئی ہیں۔ تو جس نسخے میں غلطیاں ہوئی ہیں وہ قابل قبول نہیں ہے۔ مولانا شمس الحق افغانی نے مستشرقین کے استدلالات پر نقد کرکے ان کے مدعا کو غلط ثابت کیا ہے۔
6. مستشرقین کا تیسرا شبہ یہ ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے جو نسخے ضائع کئے ان سے قرآن کا بڑا حصہ ضائع ہوگیا جس کے بعد اگر صحیح متن تک کوئی پہنچنا چاہتا ہے تو نہیں پہنچ سکتا ہے۔ مولانا شمس الحق افغانی نے اس شبہ کے ازالہ کے لئے تاریخی روایات کا سہارا لےکر جواب دیا ہے۔ اور مستشرقین کی دلائل کا تنقیدی مطالعہ پیش کیا ہے۔ جس کی تفصیل اس پیپر میں موجود ہے۔
تجاویز وسفارشات
1. مولانا شمس الحق افغانیؒ نے نقد استشراق پر اہم اور بنیادی کام کیا ہے تاہم وہ کام آپ کی کتابوں میں بکھرا پڑا ہے۔اس لئے ان مواد کو جمع کر کے اس پر بعنوانِ " استشراقی رجحانا ت کا تنقیدی مطالعہ: علامہ شمس الحق افغانی کے افکار کی روشنی میں" تحقیقی کام کرنے کی سفارش کی جاتی ہے ۔
2. علامہ شمس الحق افغانی کی کتابوں میں الحادی افکار پر خوب تحقیق کی گئی ہے۔ اس لئے بعنوانِ " مولانا شمس الحق افغانی کی تحقیقات کی روشنی میں الحادی افکار کا تنقیدی جائزہ" مقالہ لکھنے کی تجویز پیش کی جاتی ہے۔
Bibliography
Jeffery, Arthur, Materials for history of the text of the Quran. leiden: E,J, Brill, 1937
Afghānī., Allāma Sham al-Haq,Uloom al-Qurān. Akora Khatak: Maktabah Sayed Ahmad Shahīd, 2005.
AL-Jāhiz .Alkannānī,Umr bin Bahr. Al-Bayan w al Tabyīn. Berut: Maktaba al-Hilāl, 1423.
Afghānī.,Allāma Shams al-Haq ,Islām aur socialism. Bahawalpur: Maktaba Shams al-haq Afghānī, 2005.
Abu Ubaid, Al- Qāsim bin sallām. Fadāil al-Qurān. Berut: Dār ib e Kasīr, 1995.
Āloosī, Mahmood bin Abdullah. Rooh al-mānī, Berut: Dār al-Kutub al-Ilmiyyah, 1415.
American Journal of Aslamic Social Scaince, 1995.
,Asfahānī ,Raghib, al-Husaim bin Muhammad. Al-Mufradāt fī Gharāib al-Qurān. Berut: Dār al-Qalam, 1412.
Baihiqī, Abu Bakar Ahmad bin al-Husain. Shuab al-īmān. Berut: Dār al-Kutub al-Ilamiyah, 1401.
Bukhārī, Muhammad bin Ismāīl. Al-Jāmi al-Sahīh. Karāchi: Assahu al-matābi.
Denurī, Abdullah bin Muslim bin Qutaiyba . Tāvīl mushkil al-Qurān, Berut: Dār al-Kutub al-Ilamiyah.
Ibn e Hibbān, Muhammad. Sahīh ibn e Hibbān. Berut: Muassasa al-Risalah, 1988.
Lewis,Pellat and Donzel .E.J van , Encyclopedia of Islam (Brillonline.com)
Zihar, Gold ,Madāhib al-tafsīr al-Islāmī. Qāhira: Matba al-sunnah al-Muhammadia, 1955.
Mahmood Akhtar. Hafiz, Tadvīn e Qurān pr Mustashriqīn k itirādāt. University of Punjab, 1990.
Kāndihlavī، Muhammad Mālik. Mārif al-Qurān. Sindh: Maktaba al-mārif.
A. Chaudharī, Muhammad, Orientalism on Variant Reading of Quran: The case of Arthur Jeffery,
Zimakhsharī, Abul Qāsim Mahmood bin amr. Alkashāf, Berut: Dār al-Kutub al-Arabi,1407.
Sijistānī, Abu Bakr, Kitāb al-Masāhif, Qāhira: Alfārooq al-Hadīthia, 2002.
Suyootī, Jal al_dīn. Al-Itqān fī Uloom al-Qurān. Egypt: Al-Hayat al-Misriyah al-āmmah, 1974.
Zarkashī, Muhammad bin Abdullah. Al-Burhān. Berut: Dār Ihyā al-Kutub al-Arabiyah, 1957.
Zurqānī, Muhammad Abdul Azīm. Manahil al-Irfān. Egypt, Matba Eisā albābī.
Siddīq, Muhammad,. Masāhif e Usmāniyah. India: Lajnat al-Qurrā.
حوالہ جات
1. ↑ محمد بن اسماعیل بخاری، الجامع الصحیح، کتاب فضائل القران، باب جمع القرآن (مصر: دار طوق النجاة، 1422ھ) حدیث: 4787، 6 / 183۔ Baihiqī, Abu Bakar Ahmad bin al-Husain. Shuab al-īmān ( Berut Dār Tuqunija, 1442)6/183
2. ↑ بدر الدين محمد بن عبد الله زركشی ، البرهان فی علوم القرآن (بیروت" دار احياء الكتب العربيۃ، 1957 م) 1: 235۔ Zarkashī, Muhammad bin Abdullah. Al-Burhān. (Berut Dār Ihyā al-Kutub al-Arabiyah, 1957)1/ 235
3. ↑ جلال لدین سیوطی ، الاتقان فی علوم القرآن (مصر: الهيئۃ المصريۃ العامۃ للكتاب ، 1974 م)، 1: 211۔ Suyootī, Jal al_dīn. Al-Itqān fī Uloom al-Qurān. (Egypt: Al-Hayat al-Misriyah al-āmmah, 1974)1/211
4. ↑ کتاب المصاحف الابن ابی داود ، اعجاز القرآن للباقلانی، الانتصار للقرآن للباقلانی، المقنع فی رسم مصاحف الامصار، لعثمان بن سعید الدانی، مناہل العرفان للزرقانی، تاریخ القرآن لمحمد طاہر الکردی، مباحث فی علوم القرآن لصبحی صالح، مباحث فی علوم القرآن لمناع القطان، رسم المصحف وضبطہ لشعبان محمد اسماعیل، رسم المصحف العثمانی واھام المستشرقین للدکتورعبدالفتاح اسماعیل شلبی، المدخل الی علوم القرآن لمحمد فاروق النھبان، اضواء البیان فی تاریخ القرآن لصابر حسین، تفسیر روح المعانی للالوسی، تفسیر طبری للامام ابن جریر طبری اور تفسیر ابن کثیر جیسے مستند تفسیری ادب میں مصحف عثمانی کا تذکرہ موجود ہے۔
5. ↑ محمد صدیق سانسرودی ، مصاحف عثمانیہ میں باہم اختلاف (انڈیا: لجنۃ القراء دالعلوم فلاح دارین، س۔ ن) 6 ۔ Siddīq, Muhammad,. Masāhif e Usmāniyah.( India: Lajnat al-Qurrā)6
6. ↑ نولڈیکی نے تاریخ قرآن: 78 پر اس بحث کو تفصیلی ذکر کیا ہے۔ نولڈیکی کا پورا نام Theodor Noldeke ہے آپ (1251 - 1349 ه یعنی 1836 - 1930 م) کو جرمنی میں پیدا ہوئے آپ کا شمار جرمنی کے اکابر مستشرقین میں ہوتا ہے۔ آپ نے مختلف جامعات میں تاریخ اسلامی اور سامی لغات کی تعلیم حاصل کی اور 1861 سے 1872 تک مختلف جامعات میں یہی دو مضامین پڑھاتے رہے۔ انھوں نے جرمنی میں کئی کتابیں لکھی ہیں جن میں تاريخ القرآن، حياة النبي محمد، دراسات لشعر العرب القدماء، النحو العربيّ، خمس معلقات کا المانی ترجمہ اور شرح ، أمراء غسان کا المانی ترجمہ اور منتخبات الأشعار العربية ( الزركلی،خير الدين بن محمود بن محمد ، دار العلم للملايين، الطبعة: الخامسة عشر - أيار / مايو 2002 م(2/ 96) Zirakli, Khair udin, Alalam, (Darul ilim, 2002) 2/96,
7. ↑ Arthur, Jeffery, Materials for history of the text of the Quran (Leiden: Brill, 1937) , 3.
8. ↑ محمود اختر، حافظ، تدوین قرآن پر مستشرقین کے اعتراضات کا محققانہ جائزہ (مقالہ ڈاکٹریٹ ، جامعہ پنجاب، 1990ء) 338۔ Mahmood Akhtar. Hafiz, Tadvīn e Qurān pr Mustashriqīn k itirādāt.( University of Punjab, 1990)338
9. ↑ تاج آفسر، ڈاکٹر، رسم عثمانی اور قرآن حکیم کا اعجاز: مصاحف عثمانیہ کے تناظر میں، "الاضواء"31: 23(جون ، 2009ء) 1- 24 Taj Afsar, Dr, Rasmi Usmani awr Quran Hakeem ka Ijaz: Musahif Usmani ka tanazuz ma, Al Adwa,23: 31(Jun, 2019) 1- 24
10.↑ علامہ شمس الحق افغانی ، اسلام اور سوشلزم( بہاولپور: مکتبہ سیدشمس الحق افغانیؒ، س۔ن) 3۔ Afghānī.,Allāma Shams al-Haq ,Islām aur socialism (Bahawalpur: Maktaba Shams al-haq Afghānī, 2005)3
11. ↑ علامہ شمس الحق افغانی ، علوم القران ( اکوڑہ خٹک، مکتبہ سید احمد شہید ،2005) ، 3-4 ۔ Afghānī., Allāma Sham al-Haq,Uloom al-Qurān. (Akora Khatak: Maktabah Sayed Ahmad Shahīd, 2005)3-4
12.↑ علامہ شمس الحق افغانی ،مجالسِ افغانیؒ( بہاولپور:مکتبہ سیدشمس الحق افغانیؒ،س۔ن) , ب۔ Afghānī., Allāma Sham al-Haq, Majalis Afghānī. (Bahawalpur: Maktaba Shams al-haq Afghānī,)b
13.↑ افغانیؒ، اسلام اور شوسلزم، 3۔ Afghānī.,Islām aur socialism: 3
14.↑ افغانیؒ ،علوم القران، 4-5۔ Afghānī., Uloom al-Qurān: 4- 5
15.↑ ایضاً ، 6۔ Ibid, 6
16.↑ محمد بن حبان، صحيح ابن حبان، کتاب الرقاق ،باب التخفيف عن أمته في قراءة القرآن( بیروت: مؤسسة الرسالة، ط:1، 1408 ھ)، حدیث:، 741، 3/ 17۔ Ibn e Hibbān, Muhammad. Sahīh ibn e Hibbān. (Berut: Muassasa al-Risalah, 1988) 3/17
17.↑ صبحی صالح ، علوم القرآن( م۔ ن: دار العلم للملايين، 2000ء) ، 88۔ Suhbhi Salih, Uloom al-Qurān:(Darul ilim lilmalayeen,2000) 88
18.↑ بخاری،الجامع الصحیح، کتاب فضائل القران، باب جمع القرآن ، حدیث: 4787، 6/ 184۔ Baihiqī, Abu Bakar Ahmad bin al-Husain. Shuab al-īmān( Berut Dār Tuqunija, 1442) 6/184
19.↑ ابن حجر العسقلانی، احمد بن علی، فتح الباری ( بیروت: دار المعرفة، 1379ھ)، 9:18۔ Ibni Hajar Asqalani, Ahmad bn Ali, Fathubari (Birut, Darul marifa, 1379H)18: 9
20. ↑ بخاری،الجامع الصحیح، کتاب فضائل القرآن، باب نزل القرآن بلسان قريش (مصر: دار طوق النجاة، 1422ھ)، حدیث: ،3506، 6/ 184۔ Baihiqī, Abu Bakar Ahmad bin al-Husain. Shuab al-īmān ( Berut Dār Tuqunija, 1442) 6/184
21.↑ سیوطی، الاتقان فی علوم القرآن، 1: 210۔ Suyootī, Al-Itqān fī Uloom al-Qurān. 1/ 210
22. ↑ ابو بكر بن ابی داودا لسجستانی،كتاب المصاحف (قاہرہ: الفاروق الحديثۃ، 1423ھ)، 97۔ Sijistānī, Abu Bakr, Kitāb al-Masāhif,( Qāhira: Alfārooq al-Hadīthia, 2002.) 97
23. ↑ نولڈیکے،تاریخ قرآن ( بیروت: موسسہ العلمیہ، 1969ء)، 78۔ Nodikey, Tarekh e quran (Burat, Muassasa al ilimya, 1969) 78
24. ↑ Jeffery, Materials for History of the Text of the Quran, 3.
25. ↑ Muhammad A. Chaudhary, "Orientalism on Variant Reading of Quran: The Case of Arthur Jeffery," American Journal of Islamic Social Scaince 12 no. 2 )1995( : 172.
26. ↑ Jeffery, Materials for History of the Text of the Quran, 572.
27. ↑ أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبہ دینوری ، تأويل مشكل القرآن (بیروت: دار الكتب العلميہ، س۔ ن)، 25۔ Denurī, Abdullah bin Muslim bin Qutaiyba . Tāvīl mushkil al-Qurān (Berut: Dār al-Kutub al-Ilamiyah) 25
28. ↑ قاسم بن سلاّم أبو عُبيد ،فضائل القرآن ( بیروت: دار ابن كثير، 1415ھ)، 287۔ Abu Ubaid, Al- Qāsim bin sallām. Fadāil al-Qurān.( Berut: Dār ib e Kasīr, 1995) 287
29. ↑ محمد عبد العظيم الزُّرْقانی ، مناهل العرفان فی علوم القرآن(م۔ ن، مطبعة عيسى البابی الحلبی وشركاه، س۔ ن)، 1: 386۔ Zurqānī, Muhammad Abdul Azīm. Manahil al-Irfān. (Egypt, Matba Eisā albābī) 1/ 386
30. ↑ افغانیؒ،علوم القران، 147۔ Afghānī., Uloom al-Qurān:147
31.↑ شهاب الدين محمود ابن عبد الله آلوسی ، روح المعانى (بیروت: دار الكتب العلميہ، 1415 ھ)، 1: 31۔ Āloosī, Mahmood bin Abdullah. Rooh al-mānī, (Berut: Dār al-Kutub al-Ilmiyyah, 1415)1/ 31
32. ↑ آلوسی ،روح المعانى، 1: 147۔ Āloosī, Rooh al-mānī, 1/ 147
33. ↑ ایضاً۔، 1: 32۔ Ibid
34. ↑ افغانیؒ،علوم القران،147۔ Afghānī., Uloom al-Qurān 147:
35. ↑ سجستانی ،كتاب المصاحف، 120۔ Sijistānī, Kitāb al-Masāhif, 120
36. ↑ افغانیؒ،علوم القران،147۔ Afghānī., Uloom al-Qurān:147
37. ↑ القرآن، 47؛ 30۔ AlQuran :47: 30
38. ↑ کاندھلوی، محمد مالک ،تکملہ معارف القرآن، ( سندھ، مکتبۃ المعارف ، س،ن) 7/ 420۔ Kāndihlavī، Muhammad Mālik. Mārif al-Qurān. (Sindh: Maktaba al-mārif) 7/ 420
39. ↑ القرآن ، 47: 30 AlQuran , 47: 30
40. ↑ افغانیؒ،علوم القران ، 147۔ Afghānī., Uloom al-Qurān:147
41.↑ ا بن حبان، صحيح ابن حبان ، کتاب القضاء، باب ذكر الزجر عن أخذ المرء ما حكم له الحاكم إذا علم بينه وبين خالقه ضده،حدیث: 5071، 11/ 461۔ Ibn e Hibbān, Muhammad. Sahīh ibn e Hibbān. (Berut: Muassasa al-Risalah, 1988) 11/ 461
42. ↑ افغانیؒ،علوم القران ، 147۔ Afghānī., Uloom al-Qurān:147
43. ↑ ابو القاسم محمود بن عمرو بن احمد زمخشری ، الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل (بیروت: دار الكتاب العربي ، 1407 ھ)، 4: 327 ۔ Zimakhsharī, Abul Qāsim Mahmood bin amr. Alkashāf, (Berut: Dār al-Kutub al-Arabi,1407.)4/ 327
44. ↑ (اللَّحْنُ:صرف الكلام عن سننه الجاري عليه)، ابو القاسم الحسين بن محمد راغب اصفہانى ، المفردات فی غريب القرآن (بیروت: دار القلم، 1412 ھ)، 738۔ ,Asfahānī ,Raghib, al-Husaim bin Muhammad. Al-Mufradāt fī Gharāib al-Qurān. (Berut: Dār al-Qalam, 1412)738
45. ↑ افغانیؒ ،علوم القران ، 148 ۔ Afghānī., Uloom al-Qurān:148
46. ↑ عمرو بن بحر الكنانی الجاحظ ، البيان والتبیین(بیروت: مكتبۃ الهلال ، 1423 ھ)، 1: 194 ۔ AL-Jāhiz .Alkannānī,Umr bin Bahr. Al-Bayan w al Tabyīn. (Berut: Maktaba al-Hilāl, 1423 )4/ 194
47. ↑ افغانیؒ،علوم القران ، 148 ۔ Afghānī., Uloom al-Qurān148:
48. ↑ ایضاً۔ Ibid
49. ↑ Pellat Lewis and E.J van Donzel, Encyclopedia of Islam (Brillonline.com) 4:1073, https://brill.com, accessed on 18/06/2020 ۔
50. ↑ گولڈ زیہر، مذاھب التفسیر الاسلامی،مترجم۔ ڈاکٹر عبدالحلیم النجار( قاہرہ: مطبعہ السنتہ المحمدیہ،1995ء )، 4۔ Gold Zaihr, Mazahib Al tahseer Alislami, translation: Dr Abdul Haleem Najar( Qahira, matbaaAl Sunna Al Muhammadia, 1995) 4
51.↑ زرقانی ، مناهل العرفان فی علوم القرآن ، 1: 392 ۔ Zurqānī, Manahil al-Irfān: 1/ 392
52. ↑ القرآن ، 20: 63 Al Quran , 20: 63
53. ↑ القرآن ، 4: 162 Al Quran , 4: 162
54. ↑ ابو عبید ، فضائل القرآن (دمشق: دار ابن كثير، 1995 م)، 287۔ Abu Ubaid, Fadāil al-Qurān.286
55. ↑ القرآن، 24: 27 Al Quran ,24: 27
56. ↑ ابو بكر احمد بن الحسين بیہقی ، شعب الايمان (بیروت: دار الكتب العلمیۃ، 1، 1410ھ)، 11: 210۔ Baihiqī, Abu Bakar Ahmad bin al-Husain. Shuab al-īmān. Berut (Dār al-Kutub al-Ilamiyah) 11/ 21
57. ↑ سیوطی ، الاتقان فی علوم القرآن ، 2: 327۔ Suyootī, Al-Itqān fī Uloom al-Qurān. 2: 327
58. ↑ زرقانی، مناهل العرفان فی علوم القرآن، 1: 391 ۔ Zurqānī, Manahil al-Irfān, 1/ 391
59. ↑ القرآن، 30: 30 Al Quran , 30: 30
60. ↑ القرآن ، 86: 17 AlQuran , 86: 17
61.↑ القرآن، 2: 259 Al Quran, 2: 259
62. ↑ أبو عُبيد ، فضائل القرآن ، 286۔ Abu Ubaid, Fadāil al-Qurān.286
63. ↑ افغانیؒ،علوم القران ، 147۔ Afghānī., Uloom al-Qurān: 147
64. ↑ Lewis, Encyclopedia of Islam, 4: 1070.
65. ↑ Ibid, 5: 405.
66. ↑ Jeffery, Materials for History of the Text of the Quran (Leiden: Brill, 1937) , 10.
67. ↑ افغانیؒ ،علوم القران 151۔ Afghānī., Uloom al-Qurān: 151
68. ↑ اس سلسلے میں علامہ شمس الحق افغانی نے اہل تشیع کی متعدد کتابوں سے حوالہ جات پیش کرتا ہوں۔جو اس نظریے کی تردید کرتے ہیں شیخ صدوق ابوجعفر محمد بن علی بابویہ نے رسالہ اعتقادیہ میں ، ابو القاسم علی بن الحسین الموسوی نے تفسیر مجمع البیان میں، سید مرتضیٰ شیعی، قاضی نوراللہ الشوستری نے مناصب النواصب ، محمد بن الحسن الحرالعاملی نے رسالہ میں اس مذکورہ تحریف قرآن کے نظریے کی تردید کی ہے اور علامہ شمس الحق افغانی نے اس کا حوالہ دیا ہے۔ دیکھیے: ایضاً ۔، 150- 151۔ Ibid
69. ↑ ایضاً ۔،151۔ Ibid, 151
70. https://journals.asianindexing.com/article.php?id=1682060035210_1147 بشکریہ
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔