لغات و فرہنگ

Friday 17 May 2024

تفسیر بیان السبحان (مکمل) مفسر : مولانا سید عبدالدائم الجلالی بخاری

TAFSEER BAYAN U SUBHAAN - MAULANA SYED ABD U DAIM ALJALALI BUKHARI

تفسیر بیان السبحان (مکمل)                                                                                                                       

جلد اول : پارہ 1 تا 10                                                                                                   

جلد دوم  : پارہ 11 تا 20

جلد سوم : پارہ 21 تا 30

مفسر : مولانا سید عبدالدائم الجلالی بخاری

پیشکش : طوبیٰ ریسرچ لائبریری

08 ذوالقعدہ 1445 ہجری

TAFSEER BAYAN U SUBHAAN

AUTHOR : MAULANA SYED ABD U DAIM ALJALALI BUKHARI

DOWNLOAD

VOL 1: PARA 1TO 10

VOL 2 : PARA 11TO 20

VOL 3 : PARA 21TO 30

#TOOBAA_POST_NO_625

مزید کتب کے لیئے دیکھیئے  صفحہ " قرآنیات "۔

٭مولانا جلالی البخاری کی ایک اور اہم کتاب لغات القرآن ہے، غین سے یا تک ( الف سے عین تک مولانا عبدالرشید نعمانی کی تالیف) ہے، یہ ایک علمی کتاب ہے جس میں قرآن عظیم میں مستعمل کلمات کے معانی و مطالب نہایت تحقیق و محنت سے بیان کیے گئے ہیں، جیسا کہ کتاب کے نام سے بھی ظاہر ہے، طابع و ناشر ندوۃ المصنفین دہلی ہے، اس تالیف سے اہل علم ، طلاب و مدرسین مدارس عربیہ استفادہ کرتے ہیں مجھ سے اسلامیات و عربی کے ایک فاضل استاذ فرماتے تھے کہ ترجمہ احادیث تو عوام کے لیے ہے لیکن لغات القرآن سے ہم لوگ یعنی اساتذہ و مدرسین اکتساب فیض کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ تفسیر مظہری کا ترجمہ بھی مولانا مرحوم کا مشہور ومعروف کارنامہ ہے۔ قرآن کریم کی ہندوستان میں لکھی جانے والی تفاسیر میں عربی زبان میں یہ عظیم ترین تفسیر ہے۔ یہ قول بروایت مفتی عتیق الرحمن عثمانی صاحب ، محدث اعظم علامہ سید انورشاہ کشمیری کا ہے ۔

اس تفسیر کے مولف ہیں علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی شاگرد رشید امام شاہ ولی اللہ دہلوی اور خلیفہ حضرت مرزا مظہر جان جاناں”۔ اس کا تشریحی ترجمہ ضروری اضافات کے ساتھ بزبانِ اردو مولانا سید عبدالدائم صاحب جلالی نے کیا ہے، جو گیارہ ضخیم جلدوں میں ہے۔ مولانا نے یہ ترجمہ ساٹھ سال کی عمر کے بعد شروع کیا تھا، گویا یہ آپ کے آخری دور کی یاد گار ہے۔ ترجمہ بہت عمدہ اور صاف و سادہ ہے کہ ہر ایک پڑھنے والا سمجھ لے اور مطمئن ہو جائے، آسان زبان میں ہے ، جو مولانا کی زبان اور تحریر نہیں معلوم ہوتی اور ضروری اضافات بشکل نوٹس کا انداز تحریر نہایت مشکل اور فلسفیانہ ہے جو مولانا کا طرز نگارش ہے ، تعجب ہے کہ ایک ہی کتاب میں تحریر کے دو اسلوب ہیں، جو مولانا کے ماہر ترجمہ ہونے پر دال ہیں غالبا ترجمے میں مولانا نے مولف کے اسلوب و طرز کی اتباع و پابندی کی ہے، اور اس کا لحاظ رکھا ہے کہ ہر شخص کتاب کا مفہوم سمجھ لے، اور ضروری اضافات میں اپنی جولانی طبع کا مظاہرہ کیا ہے۔

چونکہ مولانا جلالی خود ایک لائق مفسر تھے اس لیے اضافات میں کہیں کہیں مؤلف سے نہایت ادب کے ساتھ اختلاف بھی کیا ہے۔ یہ ترجمہ کتابت و طباعت اور کاغذ کے اعتبار سے بہت عمدہ اور لائق تحسین ہے ، جو حضرت مفتی عتیق الرحمن صاحب مرحوم کے علم و فضل ، حسن ذوق اور آپ کے ادارے ندوۃ المصنفین کے سلیقہ اشاعت کتب کا مظہر ہے، مفتی صاحب اس لیے بھی قابل مبارکباد ہیں کہ آپ نے ترجمے کے لیے سید عبدالدائم صاحب جیسے لائق مفسر اور ماہر مترجم کا انتخاب کیا۔

آخر میں مولانا جلالی کی اہم اور مایہ ناز تالیف کا جس پر موصوف کو بھی ناز تھا۔ تفسیر قرآن عظیم جو"بیان السبحان " کے نام سے موسوم ہے، کا ذکر کرنا بھی نہایت ضروری ہے ۔ یہ تفسیر وسیم بکڈپو، فائن آرٹ پریس دیو بند سے ۳۰ پاروں میں شائع ہوئی ہے۔

بیان السبحان موجودہ دور کی بہترین تفسیر ہے جو قدماء کے طرز پر لکھی گئی ہے اور جس میں دلائل نقلیہ و عقلیہ دونوں بیان کیے گئے ہیں۔ مولانا نے ترتیب اس طرح رکھی ہے، پہلے ترجمہ آیاتِ قرآنی  کا بین السطور میں، اس کے بعد تفسیر تفصیلی طور پر جس میں مفسرین کے اقوال بیان کرنے کے بعدقوی قول کو ترجیح دی گئی ہے، بعد ازاں مقصود بیان یعنی خلاصہ آیات ہے جو نہایت جامع ہوتا ہے اور آخر میں اکثر مقامات پر رموز و اشارات تصوف کہیں کہیں نکات اور ضروری ہدایات کا عنوان بھی قائم کیا گیا ہے اور کہیں کہیں اپنی رائے کا بھی اظہار کرتے ہیں، لیکن قرآن وسنت و اقوال صحابہ کی روشنی میں بقدر امکان غور کر کے کلام الہی کے سربستہ راز سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مولانا تحریر فرماتے ہیں کہ ہم کو انہی کی یعنی صحابہ کی پیروی کرتے ہوئے قرآن مجید کے معارف جاننا اور کلام پاک کی تفسیر سمجھنا فرض قطعی۔

"تفسیر بیان السبحان" باعتبار کثرتِ اقوال مفسرین و طریقہ متقدمین اور رموز تصوف مولانا جلالی کی تفسیر منفرد ہے ۔ یہ تفسیرعوام ہی کے لیے نہیں بلکہ اس سے خواص بھی جن میں طلباء و اساتذہ اور صوفیاء بھی شامل ہیں ،استفادہ کرتے ہیں۔ ایک اقتباس بطور نمونہ ملاحظہ ہو:

رَبَّنَا وَٱبْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ ءَايَٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ ٱلْكِتَٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ ۔

ترجمہ : اے ہمارے پروردگار ان میں سے ہی ایک پیغمبر پیدا کرنا جو ان کے سامنے تیری آیات پڑھے، اور ان کو کتاب و شریعت سکھائے اور ان کو پاک صاف کر دے ۔

اس آیت کی تفسیر اس طرح فرماتے ہیں :

" تفسیر ، گذشتہ آیات میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ضمنی طور پر دعائے ابراہیمی میں دخل تھا۔ حضرت ابراہیم نے صرف امت مسلمہ کے لیے دعا کی تھی۔ اس آیت میں حضرت ابرا ہیم صراحتاً اپنی دعا میں حضور گرامی کا تذکرہ کرتے ہیں اور اس امر کو ظا ہر کرنا چاہتے ہیں کہ اگرچہ کعبہ کی حفاظت اور نگہداشت امت مسلمہ کرے گی، لیکن امت مسلمہ کو ضرورت ایک سردار کی ہوگی، جو ہر طرح سے اس امت مرحومہ کی قیادت کرے گا اور تمام سعادات و برکات اسی کے چشمہ فیض سے وابستہ ہوں گی مطلب یہ ہے کہ الہی امت مسلمہ کے لیے ایک رسول ان ہی میں سے مبعوث فرمانا ، اور یہ رسول نہایت عظیم الشان عالی مرتبہ ہو ، اس کے اندر وہ اوصاف و اخلاق اور نور معارف موجود ہوں جس سے عام وخاص ، جاہل و عالم ، تاریک دماغ رکھنے والے اور نور فطری کے حامل سب یکساں فیضیاب ہوں اور شخص اس کے چشمہ فیض سے سیراب ہو ۔

يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ ءَايَٰتِكَ ، یعنی عام لوگوں کو تیری آیات اور مقدس کلام پڑھ کر سُنائے ، ان کو شریعت الہیہ کے ظاہری احکام بتائے ۔

وَيُعَلِّمُهُمُ ٱلْكِتَٰبَ ، یعنی جو لوگ عالم ہیں، لیکن علماء میں ان کا مرتبہ امتیازی نہیں بلکہ عمومی ہے، تو ایسے علما کو وہ کتاب مقدس کی تعلیم دے، احکام اور ادلہ بتائے ، فروع واصول سے واقف کرے اور دلائل توحید و نبوت سمجھائے ۔

وَٱلْحِكْمَةَ ، یعنی جو لوگ علماء میں امتیازی شرف رکھتے ہیں، قوت اجتہاد کے مالک ہیں علمی تبحر اور وسعت معارف کی وجہ سے صرف احکام و ادلہ کا علم ان کے لیے سیر کُن نہیں ہے، بلکہ ان کو اسرار حق کی ضرورت ہے تو ایسے لوگوں کو اسرار شریعت کی تعلیم دے ، حقائق و معارف الہیہ بتائے ، رموز کتاب سے واقف کرے ۔

وَيُزَكِّيهِمْ ، یہ مرتبہ خاصان خاص کا ہے ، اولیائے امت ہی اس مرتبہ سے سرفراز ہیں۔

ان کے نفوس قدسیہ ہو بہو کمالِ نبوت کا آئینہ ہیں، جن کے اندر نور نبوت چمکتا ہے مطلب یہ ہے کہ وہ نبی روشن روح رکھنے والوں کے تزکیہ کا بھی سبب ہے، ان کے آئینہ دل میں اپنی روحانی تعلیم کے پانی سے تمام سیاہی اور رنگ دور کر کے اپنے فیوض قدس اور نور رسالت سے اُن کو منور کر دے ۔

مقصود بیان : رسول اللہ ﷺکی ذات گرامی اور تمام امت مسلمہ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی دعا کا نتیجہ ہے ۔

امت اسلامیہ میں چار طبقات ہیں، عام، خاص ، خاص الخاص، اخص الخاص ، خاص کی ہدایت کے لیے صرف معجزات اور ظاہری آیات قرآنیہ اور فرامین نبویہ مخصوص ہیں ۔

خاص کی ہدایت کے لیے احکام ادلہ، فروع واصول، دلائل توحید و براہین رسالت کا علم ضروری ہے ، خاص الخاص کے افادے کے لیے اسرار شریعت ، حقائق و معارف اور رموز کی تعلیم ضروری ہے ۔

اخص الخاص میں تخلیہ رذائل اور تجلیہ بالفضائل کا مادہ تو موجود ہی ہوتا ہے، ان کی روحیں سعید اور دل مادہ ہدایت سے لبریز ہوتے ہیں، لیکن تخلیہ کے بعد ان کے قلوب کی صفائی اور تجلیہ و تزکیہ کی بھی احتیاج ہے اور یہ سب کام جس حسن و خوبی سے حضوراقدس نے انجام دیے وہ عدیم النظیر ہیں۔ حضور والا اشرف المخلوقات اشرف الانبياء اور خاتم النبیین ہوئے۔

سچ ہے :کلّموالناس علیٰ قدرِ عقولھم ،

آیت میں ایک لطیف تلمیح اس طرف بھی ہے کہ ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ ہر مرتبے کو طے کر کے اوپر والے درجے میں پہنچنے کی کوشش کرے تا کہ انتہا پر پہنچ کر کمالات محمدیہ کا مکمل آئینہ اور مجسمہ اخلاق بن جائے ۔(اقتباس)۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


دوسرا اقتباس از انوار اسلام

***

بیان السبحان

یہ علامہ سیدعبدالدائم جلالی کی تفسیر ہے جو آٹھ جلدوں میں ہے، جسے وسیم فائن آرٹ دیوبند پریس نے شائع کیا ہے، اس تفسیر کی دوخوبیاں ہیں جیسا کہ مؤلف نے اس کو خود واضح کیا ہے؛ چنانچہ فرماتے ہیں:

"بحمد للہ میں نے اپنی اس تفسیر کی تالیف میں اکابر ائمہ کی تفسیروں کو پیش نظر رکھا ہے اور انہی سے اقتباس کیا ہے؛ لیکن آیت کا مطلب بیان کرنے کے بعد دوباتوں کا اضافہ کیا ہے، نکات قرآن بیان کئے ہیں کیوں کہ قرآن مجید اس متکلم کا کلام ہے جو حکمت وفصاحت کا پیدا کرنے والا ہے، اس کا کلام تمام اُمور حکمت وفصاحت اور نکات ومعرفت کا سرچشمہ ہے؛ لہٰذا بے جا نہیں کہ ہم بقدر امکان غور کرکے اس سربستہ راز کو سمجھنے اور جان لینے کی کوشش کریں"۔

مقصود بیان بھی ہرآیت یاچند آیات کے مجموعہ کے بعد ظاہر کیا گیا ہے؛ تاکہ عام لوگ جو زبان عربی سے واقف نہیں ہیں، اس کو بھی معلوم ہوجائے کہ کلام پاک کی اس آیت یاآیات کے مجموعہ کا حاصل اور مقصود کیا ہے؟ اور ہم کو اس سے اصلاح عقیدہ، درستی اخلاق اور تکمیل انسانیت کا کیا سبق ملتا ہے، اس تفسیر کو مولانا عبدالدائم نے چالیس سال کی محنت شاقہ کے بعد مرتب ومکمل کیا ہے، آیتوں کا ترجمہ اتنا صاف وسلیس بامحاورہ اور عام فہم ہے کہ ہرشخص ہرآیت کا مطلب سمجھ سکتا ہے، ترجمہ کے بعد آیتوں کا باہمی ربط، شان نزول اور معنی ومفہوم پر بہت خوش اسلوبی سے روشنی ڈالی گئی ہے کہ عام آدمی بھی ادنیٰ غور فکر سے انھیں سمجھ سکتا ہے۔


 

Tags: ALLAMA SYED ABD U DAIM ALJALALI BUKHARI, AUTHENTIC TAFSEER, BEST TAFSEER, commentary, DARS E QURAAN, mazameen e quraan, mufassereen e quraan, PARA NO 1 to 30 , Quraaniyaat, TAFASEER, tafseer, TAFSIR, TOOBAA FOUNDATION, URDU, URDU TAFSEER, URDU TAFSIR, URDU TRANSLATION, Tafsir, Literature, Historical Background of UrduTranslation, Need and Importance of Translation, Translation Meaning and Sources, Quranic_Interpretation, Tafsir, Translation, Islamic_Theology, Islamic_Education, Islamic_Studies, Quranic_Commentary, Islamic_History, Religious_Scholarship, Islamic_Teaching, Quranic_Exegesis, Muslim_Scholars, Islamic_Thought, Quranic_Commentators, Quranic_Scholarship, quraanyaat, Quraaniyaat, tafseer, TAFASEER, URDU TRANSLATION, URDU TAFSEER, mazameen e quraan, urdu translation of quraan, bamuhawwarah tarjuma quraan, mufassereen e quraan, DARS E QURAAN, MUTARJIMEEN E QURAAN, TAFASEER, tafseer, URDU TARJUMA QURAAN, tafseeri afadaat, commentary, TASSAWWUF AUR QURAAN, golden chain of thanvi mufassereen e QURAAN, quraanyaat, ahkam ul quraan, fiqh ul quraan, MASAIL U SALOOK, AUTHENTIC TAFSEER, BEST TAFSEER,

اردو ترجمہ, اردو ترجمہ قرآن, اردو تفاسیر, اردو تفسیر قرآن, پارہ نمبر 1 تا 30   , تشریح, تفسیر, درس قرآن, علامہ سید عبدالدئم الجلالی بخاری, قرآنیات, مختصر حاشیہ, مضامین قرآن, مفسرین قرآن, اردو تراجم, تراجم, تفاسیر, تفسیر, تفسیری نکات, مترجم قرآن, مترجم قرآنیات, مترجمین قرآن, مفسر قرآن, مفسرین, مفسرین قرآن, بامحاورہ ترجمہ, لفظی ترجمہ, مختصر حاشیہ, تشریح, برصغیر کے فضلاء کی قرآنی خدمات,تصوف اور قرآن, تھانوی مفسرین ِ قرآن اک سنہری شاخ,  مسائل السلوک, مستند تفسیر, تفسیر, مترجم قرآن,

 

 

No comments:

Post a Comment