لغات و فرہنگ

Wednesday, 17 April 2024

تفسیر ماجدی اردو مکمل 7 جلدیں جدید و نظر ثانی ایڈیشن از مولانا عبدالماجد دریابادی
TAFSEER E MAJIDI URDU COMPLETE 7 VOLUMES (JADEED O NAZR E SANI EDTION AZ MUSANIF)


 

تفسیر ماجدی   اردومکمل 7  جلدیں

(جدید و نظر ثانی ایڈیشن از مولانا  عبدالماجد دریابادی)

جلد اول

جلد دوم

جلد سوم

جلد چہارم+جلد پنجم

جلد ششم

جلد ہفتم

پیشکش : طوبی ریسرچ لائبریری

08 شوال المکرم 1445 ہجری

TAFSEER E MAJIDI URDU 7 VOLUMES  

(JADEED  O NAZR E SANI EDTION AZ MUSANIF)

BY: MAULANA ABDUL MAJID DARYABADI

#TOOBAA_POST_NO_609

مزید کتب کے لیئے دیکھیئے  صفحہ " قرآنیات

٭تفسیر ماجدی کی کہانی تصنیف سے نظرِ ثانی تک:

انگریزی کام(ترجمہ و تفسیر) کرنے سے ہمت کھل گئی ، اور ابھی اسی کی نظر ثانی پوری طرح نہیں ہوتی تھی کہ حوصلہ اسی طرز و انداز میں، گواور زیادہ تفصیل و وسعت کے ساتھ اردو ترجمہ و تفسیر کا بھی ہو گیا۔ اور اس میں مددسب سے بڑھ کر حضرت تھانوی کے ترجمہ و تفسیر بیان القرآن سے ملی، قرآن مجید کے اردو ترجمے اور بھی اچھے اچھے ہو چکے ہیں اور شاہ عبد القادر دہلوی کا ترجمہ تو کہنا چاہیے اپنی نظیر آپ تھا لیکن جتنی رعایتیں حضرت تھانوی کے ترجمہ میں جمع ہو گئی ہیں، وہ اور کہیں بھی نہ مل سکیں، میرا ترجمہ تو کہنا چاہیے کہ 20 فی صدی اسی ترجمہ اشرفیہ کی نقل ہے، اور تفسیری حصہ میں بھی فقہیات

میں نے بڑی حد تک اسی بیان القرآن سے لی ہیں حضرت مرحوم اس کام کے آغاز سے ۳، ۴ سال بعد تک حیات رہے اور برابر زبانی و تحریری ہر قسم کا مشورہ اس باب میں دیتے رہے، بلکہ میں خود بھی ہمت کر کر کے ہدا یتیں حاصل کرتا رہا۔ اردو تفسیر کی ضخامت کو انگریزی تفسیر سے کہیں بڑھ گئی، اور لغت اور قدیم تفسیروں کی عبارتوں کی عبارتیں اس میں کثرت سے نقل ہوتی رہیں، پھر کام بھی اپنی ہی زبان میں کرتا رہا، اس لئے اس میں وقت بھی انگریزی کے مقابلہ میں کہیں کم لگا، اور کوئی چار برس کی محنت میں اس کا مسودہ تیار ہوگیا۔ اور 44ء میں پارہ بہ پارہ اسی تاج کمپنی لاہور کے پاس پہنچنا شروع ہو گیا۔ لاہور، یا د کر لیجئے کہ شہر 44ء  میں ہندوستان کا حصہ اسی طرح تھا، جس طرح آج دلی اور لکھنئو ہیں، اور پاکستان کا خیال محض خواب ہی خواب تھا۔ شیخ صاحب نے وہی تعویق و تا خیر اس کی چھپائی میں بھی

شروع کی لیکن خیر اتنی طویل مدت کی نوبت نہیں آتی لشتم پشتم کام چند سال کے اندر ختم ہو گیا۔ میں نے تفسیر کی جو مستقل کتاب لکھی تھی، اور اس کی چھپائی بالکل اسی طرح چاہتا تھا جیسے کسی کتاب کی ہوتی ہے، اور اس کے نمونے بھی اُردو میں کئی کئی موجود تھے، لیکن ناشر صاحب نے اسے مترجم مصحف کی صورت میں طبع کیا یعنی اصل صفحہ پر متن و ترجمہ اور تفسیری حصہ صرف بغلی حاشیہ بنا کر ! تجارتی مصلحتیں ناشر صاحب کو اس سے جو کچھ بھی مد نظر رہی ہوں تصنیفی اعتبار سے اس میں متعدد قباحتیں

پیدا ہو گئیں۔ ان میں سے ایک تو یہی کہ میں نے جو الگ الگ پیراگراف قائم کئے تھے وہ باقی نہ رہے، اور پھر نوٹ کی پوری عبارت بلا وقف وفصل متن کے مسلسل ہو گئے اور ظاہر ہے کہ چھپ چکنے کے بعد اب اصلاح کی صورت ہی کیا باقی رہی۔ اپنی نا اہلی، نا قابلیت اور اپنی علمی بے بساطی پر غور کرتا ہوں تو دو دو تفسیروں کا کام بن پڑ جانے پر دنگ و حیران ہی رہ جاتا ہوں ۔ ہزا رستم اور خامیوں کے ہوتے ہوئے بھی یہ تفسیریں وجود میں آئیں کیوں کر! چاہیے تو یہ تھاکہ ورق دو ورق کے بعد قلم جواب دے جاتا! شان کریمی و کارسازی کے بس قربان جائیے کہ وہ چاہے تو کاہ سے کام کو ہ کا، اور چیونٹی سے ہاتھی کالے لے !

اُردو تفسیر نکلی ہی تھی ، کہ اس میں خامیاں، کوتاہیاں نمایاں طور پر نظر آنے اور کھٹکنے لگیں اور جی بے اختیار چاہنے لگا کہ جابجا ترمیم سے کام لیا جائے۔ ایک بڑی ضرورت بعض حالات خارجی نے پیدا کر دی ، ایک بنی اسرائیل دنیا کی ایک مغضوب ترین قوم تھی۔ ہر ملک میں مقہور و رسوا۔ اس وقت قدیم تفسیروں کی طرح اپنی بھی تفسیر کی آیات متعلقہ میں ان کی اسی حالت کا اظہار ضروری تھا، 45ء کے بعد سے صورت حال بدلنا شروع ہوئی ، یہاں تک کہ 48ء میں ان کی ایک مستقل حکومت قائم ہوگئی، اور حکومت روز بروز ترقی کرتی گئی ، اب لازم ہو گیا کہ ان آیات کی تفسیر و تاویل پر دوبارہ نظر کی جائے اور حواشی متعلقہ پر حذف و اضافہ، ترمیم و تصرف سے کام لیا جائے۔ پھر خلائی پرواز وغیرہ میں جو جو حیرت انگیز ترقیاں ان چند برسوں کے اندر ہوئیں، ان کا لحاظ بھی طبعیات تکوینیات والی آیتوں کی تفسیر میں کرنا ضروری تھا اور متعدد ترمیمات بھی ضروری نظر آئیں۔ نظر ثانی کا کام شروع کر دیا اور ختم بھی ہوگیا اب فکر طبع واشاعت کی ہوئی۔ ہندوستان کے کسی مسلمان ناشر میں اب یہ دم کہاں تھا۔ دہلی بمبئی وغیرہ میں ساری کوششیں بے کار گئیں ۔ پاکستان کے بعض مخلصوں سے بھی مراسلت رہی۔ اور مہینوں کی نہیں، برسوں کی مدت اسی حیص بیص میں گزرگئی ۔یہاں تک66ء  آگیا، اور اب اللہ نے ہندوستان سے باہر کویت میں اپنے ایک مخلص کے دل میں اس کام کی اعانت ڈال دی۔ دس ہزار کی رقم وصول ہو گئی ۔

کاغذ و سامان طبع کی ہوش ربا گرانی میں اس رقم کی بساط ہی کیا۔ پھر بھی ان شاء اللہ پہلی جلد کے لئے تو کافی ہی ہو جائے گی اور آگے کے لئے اللہ مالک ہے ۔ کتابت لکھنئو میں کئی مہینے ہوئے شروع کر دی تھی اور چھپائی کے لئے انتخاب دلی کے ایک پریس کا ہوا ہے ، چنان چہ عین اس وقت (جولائی 67ء) دہلی میں پہلی جلد کی چھپائی بس ان شاء اللہ عنقریب ہی شروع ہو جانے والی ہے۔

اضافہ 69ء

دنیا نے اردو تفسیر کی واہ واہ کر دی، مگر اپنا دل اس سے بالکل مطمئن نہ تھا ، اور اس میں خامیاں، کوتاہیاں نظر آتی تھیں اور دل برابر نظر ثانی و اضافہ کے لئے تڑپتا رہتا، خصوصا ایک نئے مقدمہ کے لئے۔ آخر اللہ نے سُن لی، اور بڑی اور چھوٹی اپنی والی ساری کوشش کر ڈالنے کے بعد، کویت کے ایک مخلص و مقبول بندہ کے دل میں اس نے ڈال ڈی ، دس ہزار کی رقم وصول ہوگئی، اور نیا ایڈیشن معنوی اعتبار سے ایک بڑی حد تک نیا ہو کر شہر میں نکل آیا۔ چھپائی دہلی میں ہوئی، گو اچھی نہیں ہوئی

اور کاغذ بھی معمولی سا رہا، پھر چھپائی کی غلطیاں بڑی کثرت سے اور مجھے شرم سے ڈبو دینے والی پہلی جلد سورۃ آل عمران تک کی ہے، اور دوسری جلد (پارہ دس کے) ختم تک کی کتابت اس وقت (جولائی 69ء میں لکھنو میں ہو رہی ہے ،یہ بھی انھیں کویت والے صاحب خیر کا فیض ہے، اس کی چھپائی ان شاء اللہ لکھنو میں ہوگی ۔بقیہ جلدوں کا اللہ مالک ہے، اندازہ سات جلدوں میں مکمل ہونے کا ہے،

دو جلدوں کی بھی امید کس کو تھی، اب سارا دل اسی نئے ایڈیشن کی تکمیل میں لگا ہوا ہے، اور وقت کا بڑا حصہ بحمد اللہ اسی کی نظر ثانی میں گزرہا ہے۔(اقتباس از " آپ بیتی : مولانا عبدالماجد دریا بادی)

٭الحمد اللہ مصنف کا مکمل نظر ثانی شدہ جدید ایڈیشن آپ کے سامنے ہے٭

 

٭عنوان : عبد الماجد دریا آبادی کی علمی خدمات اور تفسیر کی خصوصیات و امتیازات (قسط اول)۔۔۔عروج ندیم

تعارف

پیدائش: عبد الماجد کی پیدائش ایک معزز، خوشحال اور دین دار قدوائی خاندان میں۱۶مارچ ۱۸۹۲ء کو ہوئی تھی۔

وطن : انکے خاندان کا آبائی تعلق اترپدیش کے ضلع بارہ بنکی میں واقع قصبہ سے تھا۔ یہ قصبہ لکھنؤ اور فیض آباد ریلوے لائن پر فیض آباد اور لکھنؤ کے وسط میں واقع ہے۔ انیسویں صدی کے شروع سے لے کر اب تک اس چھوٹے سے معمولی قصبے کی پہچان عبدالماجددریابادی کی ذات کی وجہ سے ہی قائم رہی اور اس کی شہرت ان کے نام کے توسط سے برصغیر بلکہ دنیا بھر میں ہوئی۔ عبد الماجد دریابادی کی زندگی کے تقریباً ۵۵ برس دریا آباد میں گزرے۔ وہ ١٩٢١ء میں لکھنؤ سے مستقلاً دریا آباد منتقل ہوگئے تھے۔ تاکہ پڑھنے لکھنے کا کام پُر سکون ماحول میں یکسوئی سے کرسکیں۔ لیکن لکھنؤان کی آمدورفت کثرت سے رہتی۔ جہاں ان کے خاندان کا بڑا حصہ مستقل طور پر رہتا تھا۔ لکھنؤ میں ان کا قیام “خاتون منزل ” کی تاریخی عمارت میں رہتا تھا اور لکھنؤ ان کے لیے وطنِ ثانی کی حیثیت رکھتا تھا۔

والدین آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی عبدلقادر تھا، دینی تعلیم مشہور عالم دین مولانا محمد نعیم فرنگی محلی سے حاصل کی تھی اور انہیں سے سلسلہ قادریہ میں بیعت بھی تھے۔ بڑے عابد و زاہد تھے اور ضلع لکھیم پور کھیری میں ڈپٹی کلکٹر تھے2 ؂۔ اخباروں اور رسالوں کے علاوہ معلوماتی اور مذہبی کتابوں کے مطالعہ کا شوق آخر تک رہا اور کچھ نہ کچھ مشغلہ لکھنے لکھانے کا بھی رکھا۔ پنشن لینے کے بعد لکھنؤ کے روزنامہ اودھ اخبار اور گور کھپور کے سہ روزہ ریاض الاخبار میں، اور پھر اسی کے جانشین ہفتہ وار مشرق میں مذہبی و نیم مذہبی عنوانات پر برابر لکھتے رہے۔ امتحان وکالت پاس تھے لیکن کام اس سند سے کبھی نہ لیا3 ؂۔  ١٩١۲ء میں مع اہل و عیال حج بیت اللہ کے لئے روانہ ہوئے اور ١۴ نومبر ١٩١٢ء کی شب میں منٰی میں ہیضہ میں مبتلا ہوئے۔ اونٹ پر ڈال کر منٰی سے مکہ مکرمہ لائے گئے، جہاں آپ کا انتقال ہوا؂4۔    مولانا عبدالماجد دریابادی رحمۃ اللہ کی والدہ ماجدہ کا نام بی بی نصیرالنساء تھا، جو ایک پردہ نشین خاتون تھیں، پردے کا بے حد اہتمام تھا، مردوں ہی سے نہیں، اجنبی عورتوں سے بھی ملنا پسند نہیں کرتی تھی۔ عبادات کی بے حد پابند تھیں۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ سے خصوصی عقیدت رکھتی تھی۔ ١٣ اپریل ١٩۴١ء میں فیض آباد میں رحلت فرما گئیں اور دریا آباد میں آسودہ راحت ہوئیں5 ؂

تعلیم و تربیت :  

مولانا عبدالماجد دریابادی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک برگزیدہ علمی و مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اس گھرانے کی مذہبی فضا میں ابتدائی تعلیم و تربیت حاصل کی اور پھر دستورِ زمانہ کے مطابق مکتب سے مدرسے تک کی منزلیں بھی فرمائیں۔ گھر ہی پر قرآن مجید پڑھا۔  اور یہیں فارسی کی گلستاں و بوستاں والی وہ تعلیم حاصل کی جو ہر شریف مسلم گھرانے میں بچوں کو دی جاتی تھی اور جس کے توسط سے ابتدائی عمر میں اخلاق و کردار کو سنوارنے اور شریفانہ طور پر زندگی بسر کرنے کی ٹریننگ دی جاتی تھی۔ پھر اردو تعلیم بھی مولوی محمد اسماعیل میرٹھی کی ریڈروں کے ذریعے حاصل کی۔ کمسنی کے زمانے میں گلستان بوستان ختم کرنے کے بعد سکندر نامہ اور حضرت امام غزالی کی کتاب “کیمیائے سعادت” کی ختم کر لی؂6

ابتدائی خانگی تعلیم میں ابتدائی عربی زبان بھی سیکھ لی تھی، اس کے بعد اسکول میں داخل ہوئے، ابتدائی عربی کے استادوں میں حکیم محمد ذکی مرحوم کا نام سر فہرست ہے؂7۔

ذہانت کے ساتھ ساتھ شوقِ عالم و تربیت قدرتی طور پر ودیعت ہوئے تھے۔ اسی لیے مدرسے کے تمام درجوں میں بڑی آسانی کے ساتھ نمایاں کامیابیاں حاصل کیں اور ١٩٠٧ء میں دسویں جماعت میں داخل ہوگئے۔ حساب الجبر اور جمیٹری میں کمزور تھے۔ مگر اسکول کے ہیڈ ماسٹر بابو گھمنڈی لال کی دانشمندی اور استادانہ شفقت کی بنا پر ان مضامین میں بھی اطمینان بخش کامیابی حاصل کی اور دسویں جماعت کا امتحان سیکنڈ ڈویزن میں پاس کر کے اسکول کی تعلیم ختم کرلی؂8۔

پڑھنے بلکہ پڑھ لینے کا شوق خدا جانے کہاں سے پھٹ پڑا تھا۔ کتاب، رسالہ، اخبار، اشتہار، غرض جو چیز بھی چھپی ہوئی نظر کے سامنے پڑھ گئی، پھر ممکن نہ تھا کہ بے پڑھی رہ جائے۔  سمجھ میں پوری ادھوری جتنی بھی آئے اس سے کوئی بحث نہ تھی، پڑھ ڈالنا جیسے فرض تھا؂9۔  مولانا عبدالماجد دریابادی رحمۃ اللہ جولائی ١٩٠٨ء میں     کیننگ کالج لکھنؤ میں داخل ہوئے۔ جو آگے چل کر یہی کالج لکھنؤ یونیورسٹی میں تبدیل ہوا۔ اختیاری مضامین میں منطق، تاریخ اور عربی تھے۔ انگریزی لازمی مضمون تھا۔ انٹرمیڈیٹ کا انتخاب درجہ دوم میں پاس کیا۔ پھر مولانا عبدالماجد دریابادی رحمۃ اللہ نے جولائی ١٩١٠ء میں اسی کیننگ کالج میں بی اے کے سال اول میں داخلہ لیا۔ مضامین انگلش ٹیکسٹ، جنرل انگلش، فلسفہ اور عربی تھے۔ پہلے دو مضامین لازمی تھے۔ فلسفہ سے آپ کا قلبی تعلق تھا، جس کی تین شاخیں نصاب میں شامل تھیں۔ الہیات،  اخلاقیات اور نفسیات۔ ان تینوں میں نفسیات سے آپ کا خصوصی تعلق تھا۔ اسی زمانے کے نصاب عربی زبان وادب کے  نصاب میں انتخابات ابن خلدون، مقامات حریری، مقامات بدیع اور حصہ نظم میں متنبی اور ابو تمام کا کلام شامل تھا؂10۔

لکھنؤ کی لائبریریوں سے دل کھول کر استفادہ کیا۔ خود اپنے کالج کی لائبریری سے انہوں نے اس قدر استفادہ کیا کہ کالج کے انگریز پرنسپل نے تکمیل تعلیم کے بعد جو سرٹیفکیٹ انہیں دیا اس میں لکھا کہ “ان کے علم کے مطابق اس لائبریری سے کسی دوسرے نے اس قدر فائدہ نہیں اٹھایا جتنا عبدالماجد نے۔”؂11

بی اے کا امتحان بھی درجہ دوم میں پاس کیا۔ بعد ازاں ماجد نے ایم اے فلسفہ کے لئے ایم اے او کالج علی گڑھ میں داخلہ لیا۔ سال اول کے امتحان میں بدقسمتی سے ناکام رہے پھر سینٹ اسٹیفنز کالج میں اسی مضمون میں داخلہ لیا مگر نومبر ١٩١٢ء میں مکہ معظمہ میں اپنے والد کے اچانک انتقال کے بعد سلسلہ تعلیم منقطع کر دینا پڑا کیونکہ خاندان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ان کے والد ہی تھے؂12 ۔

شادی اور اولاد :

عبدالماجد دریآبادی  کی شادی اس وقت کے رسم و رواج کے خلاف انکی اپنی مرضی سے جون ١٩١٦ء میں خاندان میں ہی شیخ یوسف الزماں رئیس باندہ کی چھوٹی صاحب زادی عفت النساء کے ساتھ ہوئی۔ انکی شریک حیات نہایت ملنسار،  خوش مزاج، سلیقہ مند اور بردبار خاتون تھیں۔ انکی ازدواجی زندگی بحیثیت مجموعی خوشگوار گزری۔ اپنی ازدواجی زندگی کے بارے میں خود انہوں نے لکھا ہے کہ ” یہ اللّه کا احسان عظیم ہے کہ فی الجملہ اب تک جیسی گذری قبل صد شکر اور بہتوں کے لئے قابل رشک۔ ”

انکی بیگم کا انتقال ١٩٦٩ء میں ہوا۔  یوں تو عبدالماجد دریاآبادی کے بچے کئی ہوئے لیکن زندہ صرف چار بیٹیاں رہیں اور طبعی عمر کو پہنچی۔  سب سے بڑی کا نام رافت النساء، منجھلی کا نام حمیرا خاتون۔ سنجھلی کا نام زہیرا خاتون اور سب سے چھوٹی کا نام زاہدہ خاتون تھا۔  یہ چاروں بیٹیاں انکے بڑے بڑے بھائی ڈپٹی عبدالمجید کے چاروں صاحبزادوں حکیم عبدالقوی عرف آفتاب،  حکیم احمد قدوائی، ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی اور عبدالعلیم قدوائی کے عقد نکاح میں آئیں۔  سب سے بڑی اور سب سے چھوٹی صاحبزادی کا ١٩٩٣ء اور ١٩٩٦ء میں انتقال ہو چکا ہے؂13۔

شخصیت / اخلاق و کردار:

مولانا عبد الماجد طالب علمی کے زمانے ہی سے ایک دل پذیر شخصیت کے حامل تھے۔ وہ شروع سے بہت اچھے اور محنتی طالب علم تھے۔ انہیں قدرتی طور پر علم حاصل کرنے کا شوق تھا اور اپنی معلومات میں اضافہ کرنے کی سخت لگن تھی۔ انہیں کتب بینی کا بےحد شوق  تھا اور تفتیش، کھوج اور جستجو کا فطری ذوق رکھتے تھے۔ نہایت خوشنما باوقار اور سنجیدہ شخصیت کے حامل تھے۔ وہ زندگی کے ہر دور میں اپنے خیالات اور جذبات کا نہایت جرات مندانہ اظہار کرتے رہے ہیں۔ آپ دِینوی اور دُنیوی دونوں علوم کے ماہر تھے۔ آپ ہی وہ تنہا شخص تھے جنہیں اکابرین اسلام عزت و عظمت دیتے تھے۔ ان کا اللہ پر بھروسہ، توقل اور نڈر پن اپنی مثال آپ ہے۔ آپ صحابہ کرام کے جیتے جاگتے نمومہ تھے؂14۔            الماجد دریابادی کی شخصیت کی نمایاں ترین خصوصیت ترتیب و تنظیم اوقات کا انضباط اور اصولوں کا پاس و لحاظ تھے۔ انہوں نے اپنے لیے ایک نظام اوقات مرتب کر لیا تھا اور زندگی بھر وہ اس پر سختی سے عمل پیرا رہے۔ وقت کی  پابندی کا یہ عالم تھا کہ نماز، عبادت و ریاضت اور علمی و ادبی کاموں ہی نہیں بلکہ زنانہ مکان میں آنے، لوگوں سے ملنے، کھانے،  پینے غرض ہر بات کے لئے وقت مقرر تھا جس کے خلاف عمل کرتے کسی نے انہیں کم ہی دیکھا ہوگا۔ عبدالماجد دریابادی کے مزاج میں فطری طور پر غصہ تھا گو اس میں وقت کے ساتھ کمی آگئی تھی اور یہ ایک درجہ میں مولانا اشرف علی تھانوی کے فیضِ صحبت کا نتیجہ تھا۔ عبد الماجد دریابادی نہ تو غیبت کرتے تھے اور نہ کوئی ایسی بات سننا پسند کرتے تھے جس میں غیبت کا  شائبہ تک ہو۔ وہ ایسی بات آگے بڑھنے ہی سے روک دیتے تھے۔ وہ اچھے کھانے کے شوقین تھے۔  ان کو اچھے اشعار سننے کے ساتھ ساتھ اچھے گانے کا بھی شوق تھا۔ وہ تصویر کھچوانے اور آئینہ دیکھنے سے حتی الامکان احتراز کرتے تھے۔ صاف گوئی زندگی بھر عبدالماجد دریابادی کا شعار رہا۔ عبدالماجد دریا آبادی کی شخصیت کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ علمی معاملات میں استفسار کرنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتے تھے۔ بچپن ہی سے ان کو پڑھنے اور لکھنے کا بے انتہا شوق تھا۔ معلومات حاصل کرنے کے وہ بے حد حریص تھے۔  عبد الماجد دریا آبادی کی ایک اور اہم خصوصیات وضح داری تھی۔ وہ پرانے تعلقات کا بے حد لحاظ کرتے تھے؂15۔

حضرت مولانا عبدالماجد دریابادی رحمۃ اللہ ان عظیم شخصیتوں میں سے ایک تھے، جنہوں نے ہندوستان کی آزادی سے پہلے مسلمانوں کی ذہنی تشکیل میں نمایاں حصہ لیا، اس کام میں ان کے علم و مطالعے کا خصوصی دخل رہا، جو انہوں نے اپنی طالب علمی کے زمانہ میں اور اس کے بعد خصوصی توجہ و محنت سے کیا، مولانا کی شخصیت ان شخصیتوں میں سے تھی، جنہوں نے اولاً صرف علمی اور ادبی دائرہ کار میں خدمت انجام دینے کو اپنایا تھا، انہوں نے اپنی ادبی و علمی صلاحیتوں سے ذہنوں کی درستگی کا بڑا کام لیا؂16 ۔

ان کا اسلوب خوش سلیقہ ہے۔ ذہن صاف اور نفاست پسند ہے۔ ان کی تشریحات میں تاثر کے ساتھ نفسیاتی عناصر بھی آشکار ہو جاتے ہیں اور یوں وہ فن پارے کے ساتھ مصنف کی دروں بینی میں شامل ہو جاتے ہیں؂17۔

حیات و خدمات :

مولانا رح  اردو کے صاحب طرز ادیب تھے اور بہکے ہوئے اور غلط رجحانات و خیالات پر اردو کی تنقید بھرپور ہوتی تھی۔ اسی کے ساتھ ساتھ مولانا نے علمی مشغولیت  کے معاملہ میں بھی ایک نمونہ قائم کر دیا تھا اور اس طرح کا طرز اختیار کیا تھا جس میں گویا ان کا ایک منٹ بھی ضائع نہیں ہوتا تھا۔ اس طریقہ سے مولانا عالم بھی تھے، ادیب بھی تھے، ناقد بھی تھے، مصلح بھی تھے اور ممتاز اہل قلم بھی تھے۔

ایک بلند پایہ صحافی :

عبدالماجد دریا آبادی کی صحافتی زندگی کا باقائدہ آغازبچپن سے ہی ہو گیا تھا۔ انہوں نے بارہ برس کی عمر میں فرضی نام سے اودھ اخبار میں اپنا مضمون شائع کرایا۔ بقول ان کے پہلے مضمون کا نکلنا کہ “جھجک مٹ گئی اور بھاؤ کھل گیا”۔ پہلے اپنا نام چھپاتے رہے پھر اپنا نام چھپوانے لگے۔ 1919ء میں معارف سے باضابطہ تعلق قائم ہوگیا۔ مولانا محمد علی کے روزنامہ ہمدرد سے بھی شروع سے ہی تعلق قائم رہا؂18۔

جنوری 1925ء میں ماجد نے اپنی صحافت کا باقائدہ آغاز سچ کے اجرا سے کیا۔ سچ 1925ء سے 1933ء تک باقائدہ شائع ہوتا رہا۔ سچ کے دوسرے ہی شمارے سے ماجد نے اپنے مستقل کالم سچی باتیں کا آغاز کیا۔ جس نے برعظیم میں بے حد مقبولیت حاصل کی اور جو بعد ازاں انکے ہفت روزوں صدق اور صدق جدید میں بھی بڑی آن بان سے شائع ہوتا رہا اور برعظیم کے کئ پرچوں میں وہاں سے برابر نقل کیا جاتا رہا؂19۔

انہوں نے اردو صحافت میں بڑی ہی درخشاں اور تاب ناک روایتیں قائم کیں اور بہ حیثیت صاحب طرز صحافی انہوں نے ایک با اصول ممتاز ترین صحافی ہونے کا لوہا منوالیا۔ انکا ایڈیٹوریل سچی باتوں کے نام سے ہوتا تھا اور مختلف قسم کے عنوانوت پر ہوتا ہوتا تھا؂20۔   عبدالماجد جس دور میں صحافت کے میدان میں داخل ہوئے تو ان کے معاصر صحافیوں میں ایک سے بڑھ کر ایک حضرات موجود تھے۔ مثال کے طور پر مولانا محمد علی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ظفر علی خان، حسرت موہانی، مہاشے کرشن، عبدالمجید سالک، منشی دیا نرائن نگم جیسے نامور اور باکمال صحافی اپنا سکہ جمایا ہوئے تھے۔ عبدالماجد نے ان سب سے الگ اپنی طرز نکالی۔  عبدالماجد نے اپنا صحافی نصب العین اخبار کی پیشانی پر کندہ کردیا تھا۔ یہ نصب العین قرآن کی آیت (ترجمہ) : اور وہ جو سچی بات لے کر آیا اور جس نے اس کو سچ مانا وہی پرہیزگار ہیں سے اخذ کیا گیا تھا۔ وہ عمر بھر اسی پر عمل پیرا رہے۔ اپنے ہفتہ وار میں صرف وہ چھاپتے تھے جسے وہ سچ سمجھتے تھے؂21۔

صحافت میں سرخی جمانے کی اہمیت روشن ہے۔ عبدالماجد دریا بادی اس فن میں زبردست مہارت رکھتے تھے۔ ان کی سرخیاں اس قدر جاذب توجہ ہوتی تھی کہ قاری کی توجہ فور اپنی طرف کھینچ لیتی تھیں۔  مثال کے طور پر ڈاکٹر ذاکر حسین کی ایک مختصر کتاب پر انہوں نے سرخی دی ” ذکر حسین ذاکر حسین کی زبان سے”۔ چند اور سرخیوں کی مثالیں ملاحظہ ہوں “سارے گلے تمام ہوئے ایک جواب میں”، “دانا کی نادانی “، “مظلوم کا ظلم” ، “بلندیوں کی پستیاں” ؂22۔

اس کے علاوہ علمی کمالات اور دوسرے مذاہب کے مقابلے میں اسلام کی شان امتیازی کا تعارف کرانے اور عقیدہ شریعت کے امتزاج و توازن کا جائزہ لینے میں مولانا کا درجہ بہت بلند ہے، مولانا نے زبان و قلم کی طاقت کا استعمال کرنے اور اس کے ذریعے مکارم میں اخلاق کا پیغام اہل دنیا کو پہنچانے میں بڑی احتیاط اور دقت نظر سے کام لیا ہے؂23۔مولانا کی زندگی کی خصوصیات و کمالات میں، ان کی اسلام اور رسول صلی الله علیه وسلم سے شدید وابستگی، اسلامی شریعت پر گہری نظر اور اس کے لئے غیرت و حمیت اور زندگی سے اس کے تعلق کو اہم ترین خصوصیات کہنا زیادہ مناسب ہوگا؂24۔

 بحیثیت مضمون نگار :

عبدالماجد کی مضمون نگاری کا آغاز ١٩٠۴ء میں ہوا۔  اسکول کے نویں درجے میں تھے کہ سونو کلیز کے ایک مختصر ڈرامے Antigone کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کر ڈالا۔ کیننگ کالج کے زمانے طالبعلمی میں انہوں نے دو مفصل علمی مقالے “محمود غزنوی” اور “غذائے انسانی” لکھے۔ اول الذکر میں ماجد نے محمود غزنوی پر بخل کے الزامات کی نفی کی تھی اور ثانی الذکر میں دلائل سے ثابت کیا تھا کہ انسان کی قدرتی غذا سے نباتات ہی نہیں گوشت بھی ہے۔ یہ دونوں مقالہ کتابی شکل میں ١٩١٠ء میں شائع ہوئے جب ماجد کی عمر صرف ١٨ سال تھی؂25۔

یکم ستمبر ١٩١٧ء کو عبدالماجد دارالترجمہ حیدرآباد سے منسلک ہوگئے۔ یہاں ان کا تقرر فلسفہ و منطق کے مترجم کے طور پر ہوا۔ مگر 11 ماہ کی ملازمت کے بعد وہاں سے مستعفی ہوکر لکھنؤ چلے آئے۔ اس کے بعد انہوں نے “معارف ” کے لیے معاوضہ پر لکھنا شروع کیا۔ “الناظر” سے ماجد کا تعلق اگرچہ ان کے ابتدائی عہدِ تصنیف ہی میں قائم ہو گیا تھا مگر ١٩٢٢ء میں انہوں نے اس میں “فیہ ما فیہ” کے زیرعنوان شذرات لکھنے شروع کیے۔ یہ شذرات انہوں نے اپنے نام کے بجائے ایک قلمی نام “چلپی” کے زیر نقاب لکھے؂26۔

وہ اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ پوری طرح تو یاد نہیں کے انگریزی مراسلہ نگاری کی ابتدا کس سِن میں اور کس سنہ میں ہوئی۔ اغلب یہ ہے کہ عمر کے چودھویں پندرویں سال یعنی ٠٦ء یا ٠٧ء سے شروع ہوئی ہو۔ جب نویں درجے کا طالب علم تھا۔ پہلا مراسلہ یقینا کسی جلسے کی کارروائی سے متعلق لکھا ہوگا۔ کالج میں آکر پہلا مراسلہ ریلوے کی شکایت میں لکھا۔ اپنے ایک ہندو ساتھی کے فرضی نام سے اور بعد کو اپنی اس جعلسازی پر مدتوں نادم و پشیمان رہا۔ ١٩١١ء تھا اور میں بی اے کے پہلے سال کا طالب علم کہ آل انڈیا طبی اینڈ ویدک کانفرنس (دہلی) کا اجلاس لکھنو میں ہونے والا تھا۔ میں نے طِبّ یونانی کی اہمیت اور کانفرنس کی تائید میں خاصہ لمبا مضمون ان سائیکلو پیڈیا برٹانیکا وغیرہ کی مدد سے تیار کیا۔ خوب واہ واہ ہوئی۔ اب مضمون نگاری اپنے نام سے کرنے لگا تھا، چھوٹے بڑے اور بھی کچھ مراسلے اور مضمون لکھے۔ جون ١٩١٢ء میں بی اے کیا، اور بمبئی کے معیاری ماہنامہ ایسٹ اینڈ ویسٹ کے اکتوبر نمبر میں ایک مضمون گوشت خوری کی سائنسی حمایت میں لکھا۔ برابر کئی سال تک انگریزی مضمون نگاری کرتا رہا، مختلف اخباروں اور رسالوں میں، مثلاً سہ روزہ ایڈووکیٹ (لکھنؤ) اور مسلم پیرلڈ (الہ آباد)، روزنامہ لیڈر (الہ آباد ) بمبئی کرانیکل (بمبئی) اور ماہنامہ ویدک میگزین (دہرہ دون) انڈین ریویو (مدارس)، تھیا سوفسٹ (مدارس) اور ہفتہ وار کامن ویل (مدارس)میں۔  عنوان بھی فلسفہ نفسیات سے لیکر سیاسیات اور ڈرامے تک ہوا کرتے تھے۔ مثلاً:

1) The german conception of absolute.

2) Mill vs Spencer: Test of truth.

3) Psychological suicide of the KAISER.

4) Prof MCDAYGALL on pleasure and pain.

5) Examination system examined.

6) Foundations of peace.27

بحیثیت مکتوب نگار :

خطوط انسانی شخصیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ خطوط کے ادب کو اہم اور مفید حصہ تسلیم کیا گیا ہے۔ عبدالماجد کا شمار ان مکتوب نگاروں میں کیا جاسکتا ہے جنہوں نے خطوط کے ذریعے گفتگو کا نعم البدل مہیا کیا اور تحریر و بات چیت کے فاصلے کم کئے۔ ملنے ملانے کے سلسلے میں وہ جتنے محتاط تھے، خط و کتابت کے سلسلے میں وہ اتنے ہی فیاض تھے۔ ان کے نظام و اوقات  میں خط و کتابت کے لیے باقاعدہ وقت مقرر تھا اور انہوں نے اپنی زندگی میں ان گنت خطوط لکھے۔ ١٩۵٣ء سے انہوں نے اپنے نجی خطوط کی نقلیں باقاعدگی سے رکھوانا شروع کر دی تھیں۔ ان نقل شدہ خطوط کی تعداد مکتوبات ماجدی کے مرتب ڈاکٹر ہاشم قدوائی کے مطابق گیارہ ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ان خطوط کے مطالعے سے عبدالماجد کے مزاج کردار، میلانات و رجحانات اور سوانحی نقوش واضح ہو جاتے ہیں۔ چونکہ عبدالماجد کو اپنے دل کی بات قلم سے ادا کرنے پر قدرت حاصل تھی اور ان کی شخصیت ہمہ گیر واقع ہوئی تھی اس لئے ان کے لکھے ہوئے خطوط دلکشی اور رعنائی کا مرقع بن کر رہ گئے ہیں۔ ان خطوط میں ایک نیک دل، پاک صفات اور بے ریا انسان کے خلوص و صداقت کی ہر جگہ کارفرمائی نظر آتی ہے۔ ذاتی اور خانگی معاملات سے لے کر قومی یا ملکی،  علمی و ادبی موضوعات تک اس میں ملتے ہیں۔ جہاں تک ان کے خطوط کے اسلوب بیان کا تعلق ہے، اس میں سادگی اور بے تکلفی کی فضا کم و بیش ہر جگہ برابر ہے۔ لغت کے معاملات پر ان کو خاص دسترس حاصل تھی۔  اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے پروفیسر آل احمد سرور نے اپنے تعزیتی خط میں لکھا ہے کہ “مولانا کو لغت نویسی سے خاص دلچسپی تھی۔ اگر ان کو دوسرے کاموں سے وقت ملتا تو وہ اکیلے ایک اچھی لغت تیار کر سک؂تے تھے۔” اپنے خاص اور بے تکلف دوستوں کے نام خطوط میں عبدالماجد نے رعایت لفظی اور ضلع جگت سے خوب کام لیا ہے۔ جس سے ان کے لکھنوی مزاج کی واضح نشاندہی ہوتی ہے۔ عبدالماجد دریا بادی کے خطوط کی ایک بڑی تعداد تعزیتی خطوط پر مشتمل ہے جو بڑے ہی موثر اور درد انگیز ہیں۔ ان میں ہر قسم کے تعزیتی خطوط شامل ہیں مثلاً والدین کے سایہ سے محروم ہونے پر اولاد کے نام، اولاد کے دنیا سے اٹھنے پر غمزدہ والدین کے نام، بیوگی کے غم میں مبتلا عورت کے نام اور فقہ حیات کی وفات پر شوہر کے نام وغیرہ وغیرہ ۔ ان خطوط تعزیت میں اظہار غم و ہمدردی کے ساتھ ساتھ تسکین و تسلی کے وہ پہلو اور پر نمایاں کئے گئے ہیں جو مذہب اسلام کے ساتھ مخصوص ہیں؂28۔  عاجزی، انکسار، انسانیت، بے نفسی اور انسان دوستی کی فضا ہر خط میں موجود نظر آتی ہے۔ وہ سخت سے سخت مخالف اور معترض کو بھی تہذیب و شائستگی سے جواب دیتے۔ دریا کو کوزے میں بند کرنا تو ان کی خصوصیت تھی۔ ان خطوط میں عبدالماجد دریا بادی کا منفرد طرز نگارش اور انشاپردازی کا رنگ و آہنگ نے نیز رعایت لفظی کا اہتمام پوری طرح جلوہ گر ہے۔ ان خطوط کی ادبیت کی شان نرالی ہے اور ان کی ادبی افادیت مسلم ہے۔ عبدالماجد کے خطوط کا بڑا حصہ ایسا بھی ہے جن میں انہوں نے بعض تفسیری نکات بیان کیے ہیں۔ یہ خطوط ان کے قرآن اور دین سے گہری وابستگی کے مظہر ہیں۔ اس طرح کے خطوط کی ایک خصوصیت ان کا حقیقت پسندانہ اور مجہتدانہ انداز فکر ہے۔ انہی خطوط میں انہوں نے کہیں کہیں مشتشرقین کے بارے میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے؂29۔

بحیثیت شاعر اور ڈرامہ نگار :

فیض قدرت مولانا موصوف کو غیر معمولی شاعری و ادبی صلاحیتیں عطا ہوئی تھیں۔  وہ ناصرف منفرد نثرنگار، صحافی اور ناقد ہی تھے بلکہ اوائل عمر میں ایک اچھے شاعر کی حیثیت سے بھی رونما ہوئے تھے۔ اکبر مرحوم نے مولانا کے بارے میں یہ اندازہ کر لیا تھا کہ اگر یہ نوجوان شعر و شاعری کی طرف متوجہ ہوجائے تو بہت جلد اعلی پائے کا حاکم بن سکتا ہے۔ خطوط اکبر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ “زود و پشیماں” (ڈرامہ) کے مصنف مولانا عبد الماجد دریا آبادی شاعر بھی ہیں اور اس ڈرامے میں جتنی بھی غزلیں ہیں وہ ان ہی کی ہیں؂30

کالج میں آنے کے بعد شاعری سے ان کی دلچسپی میں اضافہ ہوا۔ شبلی کی صحبت میں ان کو شعر سمجھنے کا سلیقہ آیا اور وہ سخن فہم بنے۔ عبدالماجد کی شاعری کے پہلے دور کو ١٩١۴ء سے ١٩١٨ء تک کا دور قرار دیا جاسکتا ہے۔ جب انہوں نے غزلیں لکھیں۔ یہ غزلیں انہوں نے ناظر کے تخلص سے لکھی تھیں۔  عبدالماجد دریا بادی کی شاعری کا چشمہ تقریبا چار برس تک خشک رہا۔ ١٩٢٢ء میں مولانا محمد علی جوہر کا نعتیہ کلام پڑھ کر انکی طبیعت ایک بار پھر بے چین ہو اٹھی اور شعر و شاعری کا جزبہ از سر نو جاگ اٹھا لیکن اب شاعری لب و رخسار،  گل و بلبل، زلف و کاکل کی نہیں رہ گئی تھی۔ اب رنگ تمام تر نعت نبی کا غالب تھا۔ اس دوسرے دور کا سلسلہ ١٩٢۴ء تک چلا۔ عبدالمالک دریا آبادی کی غزلوں اور نعتیہ غزلوں پر مشتمل مختصر مجموعہ “تغزل ماجدی” کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ ١٩٢۴ء کے بعد ان کے بے پناہ علمی و ادبی مصروفیات نے انہیں فکر سخن کی فرصت نہ دی اور وہ شاعری سے کنارہ کش ہو گئے؂31۔

نمونہ نعتیہ کلام

پڑھتا ہوا محشر میں جب صل علیٰ آیا،

رحمت کی گھٹا اٹھی اور ابر کرم چھایا،

جب وقت پڑا نازک اپنے ہوئے بیگانے،

ہاں کام اگر آیا تو نام تیرا آیا،

یہ نام مبارک تھا یا حق کی تجلی تھی،

دم بھر میں ہوا فاسق ابدال کا ہم پایا،

چرچے ہیں فرشتوں میں اور رشک ہے زاہد کو،

اس شان سے جنت میں شیدائے نبی آیا،

ایک عمر کی گمراہی ایک عمر کی سرتابی،

جز تیری غلامی کے آخر نہ مغر پایا،

حکمت کا سبق چھوڑا، عزت کی طلب چھوڑی،

دنیا سے نظر پھیری سب کھو کے تجھے پایا،

فاسق کی ہے یہ میت، پر ہے تو تیری امت،

ہاں ڈال تو دے دامن کا اپنے ذرا سا یا   ؂32

بحیثیت فلسفی و نفسیات دان :

عبدالماجددریابادی جہاں اسلامی علوم و فنون کے شناور تھے وہاں فلسفہ و نفسیات کے بھی رمز شناس تھے۔ آپ کے متعلق یہ فیصلہ بے حد مشکل ہے کہ آپ کو فلسفہ سے زیادہ مناسب تھی یا نفسیات سے، بعض اہل علم کا خیال ہے کہ آپ کو فلسفہ کے مقابلے میں نفسیات سے زیادہ گہری مناسبت تھی۔ مگر یہ سچ ہے کہ آپ کو نو عمری ہی سے دونوں موضوعات سے شغف خاص تھا۔ اور دونوں موضوعات کے تعلق سے آپ اپنے مخصوص خیالات و نظریات رکھتے تھے۔ ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب نے مولانا دریابادی رحمت اللہ کی فلسفہ شناسی پر ایک شاندار مقالہ تحریر کیا ہے، جو فلسفیانہ مصطلحات و نظریات کے ساتھ مولانا دریابادی کے فلسفیانہ خیالات و تصورات کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ البتہ جہاں تک نفسیات کا تعلق ہے، اس موضوع پر بھی مولانا عبدالماجد کے مستقل خیالات و نظریات موجود ہیں۔ نفسیات سے تو آپ کو خاص مناسبت بھی تھی اور یہ مناسبت زمانہ طالب علمی ہی سے تھی۔ چنانچہ مولانا دریابادی رحمۃ اللہ نے ابتدائی دور ہی میں نفسیات کے موضوع پر دو کتابیں اردو میں فلسفہ جذبات اور فلسفہ اجتماع کے نام سے لکھیں اور ایک کتاب انگریزی میں “سائیکالوجی آف لیڈرشپ” کے نام سے تحریر فرمائی۔  یہ تینوں کتابیں نفسیات کے مسائل و قضاء پر مشتمل ہیں۔ یہ تینوں کتابیں مولانا عبدالماجد کے مخصوص دور سے تعلق رکھتی ہیں۔ مراجعت اسلام کے بعد مولانا عبد الماجد دریابادی ان کتابوں سے خوش نہیں تھے۔ بعض کتابوں کو اپنی فہرست تصانیف سے بھی خارج کر چکے تھے۔ حالانکہ وہ ماضی میں ان کتابوں پر فخر کیا کرتے تھے؂33۔

 

فلسفہ کے میدان میں عبدالماجد دریا آبادی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے فلسفہ کے بعض دقیق مسائل کو نہایت سلاست سے بیان کردیا ہے، جو خود اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں فلسفے پر کس درجہ عبور حاصل تھا۔ فلسفہ نگاری میں ان کا طریقہ کار استدلالی ہے۔ وہ نقطہ سے نقطہ اور مسئلہ سے مسئلہ پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ بعض فلسفیانہ مضامین میں انہوں نے آغاز ہی ڈرامائی انداز سے کیا ہے چنانچہ قاری کی توجہ شروع سے ہی فلسفیانہ مباحث پر پوری طرح مرکوز ہو جاتی ہے۔ وہ جس خوبی سے مغرب کے فلسفیوں کے اقوال اپنا لیتے ہیں اور کہیں کہیں حکمائے مشرق کی چاشنی اس میں شامل کر دیتے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے؂34۔

بحیثیت سوانح نگار :

اردو زبان میں سوانح نگاری کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اردو میں باقاعدہ سوانح نگاری کا آغاز مولانا الطاف حسین حالی نے کیا۔ “حیات جاوید”، “یادگارغالب” ان کے دو سوانحی شاہکار ہیں۔ اس اعتبار سے سوانح نگاری کے باقاعدہ آغاز کے لئے 70 سال سے زیادہ زمانہ نہیں گزرا۔ مگر اس قلیل عرصے میں اردو زبان کو چند باکمال سوانح نگار بھی ملے۔ مشرق و مغرب روایات سوانح نگاری کو پیش نظر رکھ کر مولاناعبدالماجد نے جو ادبی خدمات انجام دیں ان سے انہوں نے اردو ادب میں قابل قدر اضافہ کیا۔ مولانا نے بعض ادبیوں اور شاعروں پر جو سوانحی مضامین لکھے ہیں ان میں بعض بہت مقبول ہوئے ہیں۔ مولانا مرحوم نے فن و سوانح نگاری میں جو مہارت حاصل کی اس کا پورا اندازہ عام طور پر اس وقت ہوا جب ان کی لکھی ہوئی چند سوانحی کتابیں منظر عام پر آئیں۔ اس میں مولانا کے طرز تحریر کیانفرادیت بھی پورے طور پر نمایاں ہے۔  اور حالات کو پیش کرنے کا خاص ڈھنگ نظر آتا ہے؂35۔  سوانح نگار کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی کے اچھے برے افعال کا محاسبہ کرے یا اس کی پردہ داری کرے بلکہ اس کا فرض یہ ہےکہ دیانت داری کے ساتھ اور سلیقہ مندی سے اپنی معلومات و مشاہدات کو اچھے پیرایہ میں پیش کرے۔ اس اصول کی روشنی میں مولانا عبدالماجد کی لکھی ہوئی سوانح کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ انھوں نے اس اصول کی کتنی پابندی کی ہے؂36۔

عبدالماجد دریآبادی کا تعلق شبلی اسکول سے ہے لیکن جہاں تک سوانح نگاری کا تعلق ہے اس میں عبدالماجد دریآبادی نے بلاشبہ شبلی سے الگ راہ نکالی ہے۔ دبستان شبلی کے سوانح نگار بنیادی طور پر مورخ نظر آتے ہیں۔ جبکہ مولانا عبدالماجد دریاآبادی نے مولانا تھانوی اور محمد علی کے سوانح ان کے خطوط اور اپنی ذاتی یادداشتوں کی مدد سے لکھے ہیں۔ اور انہیں ایک ایسے اسلوب کی چاشنی دی ہے،  جس سےصاحبان سوانح کی شخصیت سے ایک خاص طرح کی دلی وابستگی پیدا ہوتی ہے اور ذہن انکی عظمت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ انہوں نے خطوط کے ذریعے سوانح حیات شخصی مشاہدے اور ذاتی تجربے کی بنیاد پر لکھے ہیں اور جس موثر و دلنشین انداز میں پیش کیا ہے وہ سیرت نگاری کے شاہکار کہے جانے کے مستحق ہیں؂37۔

بحیثیت طنز نگار :

جب سے دنیا میں ادب کا وجود ہوا ہے۔  اس دقت سے یا اس کے لگ بھگ طنز نگاری بھی معرض ظہور میں آئی ہے۔  انگریزی کے لفظ سٹائپر (طنز) کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ وہ کسی مہفک یا نازیبا واقعے سے متاثر ہو کر ظرافت یا کراہت کا اظہار ہے جو موزوں الفاظ میں کیا جائے۔ بشرطیکہ کے اس میں خوشی طبعی اور ادبیت نمایاں ہو۔ طنز ایک طرح کا عمل جراحی ہوتا ہے بشرطیکہ کے لطافت کے ساتھ ہوں اس میں مواد کی اہمیت ہے۔ اس کا روپ خواہ کچھ بھی ہو۔ اردو میں طنز و ظرافت کی داستان بڑی طویل ہے۔ مختلف اہل قلم نے اس میدان میں قدم رکھا اور کامیاب ثابت ہوئے۔ مولانا عبدالماجد بھی انہی میں سے ایک منفرد طنز نگار تھے۔ ان کے طنز کی نوعیت سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ موصوف کی زندگی کا اجمالی جائزہ لیا جائے۔ سچ اور صدق کی بدولت اردو اہل قلم میں ان کا مرتبہ طنز نگار کی حیثیت سے مسلم ہو گیا ہے۔ مولانا کو قدرت نے نگاہ غائر اور زبردست قوت استدلال، اصلاح پسندانہ ضمیر اور دلیرانہ طرز تحریر عطا کیا تھا۔ ان کا محرک صرف جذبہ اصلاح اور داعبہ خلاص ہوتا تھا اور ان کے طنز کا نشانہ فرد نہیں، جماعت، ملت اور شخصیت نہیں ایک طرز تفکّر ہوتا تھا۔ وہ اظہار حق میں اپنے بڑے سے بڑے دوست یا محترم کی رعایت کرنا یا کسی عظیم لیڈر یا وزیر سے مرعوب ہونا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ اس فرض کے ادا کرنے میں اپنوں کی برائیاں اور غیروں کی خوبیاں حائل نہیں ہوتی تھیں۔  ان کا قلم دراصل شمشیر برہنہ تھا۔ جو مسلمان، ہندو، سنی، شیعہ، عالم، عامی، امیر، غریب میں امتیاز نہیں برتتا تھا۔ وہ کسی کی اچھی بات دیکھتے یا سنتے تو بے اختیار تعریف کے پھول برساتے اور اگر کوئی بے راہروی دیکھ لیتے تو سخت طنز کا نشانہ بنانے لگتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کے روئے سخن شخص نہیں، بلکہ شخصیت کی طرف ہوتا ہے۔ وہ اپنا فرض جانتے اور طنز کی درد پہچانتے تھے۔ ان کے طنز کی مثالیں بے شمار ہے۔ جن کا احاطہ کرنا دشوار ہے۔ مولانا کی طنزیہ تحریروں پر بعض حلقوں سے اعتراض بھی ہوئے مثلاً یہ کہ ان کے مزاج میں حدّت، لہجے میں تلخی اور تلخی میں شدت زیادہ ہے نیز یہ کہ وہ مولویت سے بے طرح مانوس اور اصلاح سے بالکل مایوس نظر آتے ہیں۔ان اعتراضوں میں کسی قدر صحت پائی جاتی ہے۔ چند لوگ کبھی کبھی ان کی طرز کی یکسانیت کا گلہ کرتے ہوئے کہہ دیتے ہیں کہ ان کے یہاں ملک و قوم کی خرابیوں کا اشارہ تو ہے مگر حل نہیں۔   مگر اس تعلق سے چند حقائق پر غور کرنا مناسب ہوگا۔ ان کو پیش نظر رکھنے کے بعد بہت سے اعتراضات خودبخود دور ہو جائیں گے اور بہت سے شکوک اپنے آپ رفع ہو جائیں گے۔ وہ بیمار کو کبھی نرمی سے اور کبھی گرمی سے صرف اتنا بتا دیتے ہیں کہ اس کا مرض کتنا خطرناک ہو چلا ہے۔ وہ چاہتے تو اپنے طنز میں ظرافت کی چاشنی ملا سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا اس لیے نہیں کیا کہ مزاج سے طنز کی تاثیر گھٹ جاتی ہے اور اس کا اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مولانا نے ادبیت کا لحاظ رکھتے ہوئے مواد اور ہئت دونوں میں طنز کو جس کامیابی کے ساتھ برتا ہے اس کی مثال اردو ادب میں مشکل ہی سے ملے گی؂38۔

بحیثیت نثری مرثیہ نگار :

اردو نظم میں مرثیہ گوئی کا رواج زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہے۔ دکن اور شمالی ہند کے کئی مرثیہ گو حضرات نے اس فن کو بلند کرنے میں کارہائے نمایاں انجام دیئے۔  اردو نظم میں مختلف انداز کے مرثیے تو موجود ہیں مگر اردو نثر اس صنف سے تقریباً عاری رہی ہے۔ مولانا عبد الماجد نے اس خلا کو ہر طرح سے پر کر دیا ہے۔ “انشائے ماجد حصہ دوم میں” چند مرثیے کے عنوانات سے ان کے ١٥ مرثیہ شامل ہیں جن کے عنوانات درج ذیل ہیں:

١۔  عبد الرحمن کی موت۔

٢۔ محمد علی۔

٣۔ راجہ علی محمد خان۔

۴۔ ہم نام نامور۔

۵۔ خوش نصیب گول کبیر۔

٦۔ شوکت علی۔

٧۔ طبیب کی موت۔

٨۔ ماں کے قدموں پر۔

٩۔ سر سکندر حیات۔

١٠۔ نئی نویلی۔

١١۔ قائد ملت۔

١٢۔  ہمشیرہ کی رخصتی۔

١٣۔  ایک قوال۔

١۴۔ جشن نوشابہ۔

١۵۔ یاد غم۔

مولانا عبدالماجد کے مرثیے مختلف نوعیت کے حامل ہیں چنانچہ چار مرثیے  انہوں نے اپنے قریبی عزیز داروں پر کہے۔ “ماں کے قدموں پر ” مرثیہ اپنی والدہ کی وفات پر ١٩۴١ء میں لکھا تھا اور “یاد غم” مرثیہ میں اپنی والدہ کی یاد میں آنسو بہائے ہیں۔ یہ مضمون ١٩۴٦ء میں لکھا تھا۔ “ہمشیرہ کی رخصتی ” مرثیہ میں انہوں نے اپنی بڑی بہن کا واقعہ بیان کیا ہے جن کا انتقال ١٩۴۵ء میں ہوا تھا۔ “نئی نویلی”  مرثیہ اپنی قریبی رشتے کی بھتیجی پر لکھا تھا جس کی شادی کے دس گیارہ مہینے کے بعد وفات ہوگئی تھی۔

مولانا نے آٹھ مرثیے قومی لیڈروں پر لکھے ہیں اس زمرہ میں مولانا محمد علی، عبدالرحمن بلگرامی، راجہ علی محمد علی خان، مولانا عبدالماجد بدایونی، تصدق احمد خان شیروانی، مولانا شوکت علی، سر سکندر حیات اور بہادر خان حیدرآبادی شامل ہیں۔ دو مرثیے اپنے دوستوں پر تحریر فرمائے ہیں۔ ان میں سے ایک مرثیہ شفاء الملک حکیم عبدالحمید لکھنوی پر ہے اور دوسرا مرثیہ افضل حسین قوال پر ہے؂39۔

بحیثیت عالم دین اور مفسر قرآن :

بیسوی صدی میں ہندوستانی مسلمانوں کی علمی و دینی شخصیات کی اگر مختصر سی فہرست بھی تیار کی جائے تو اس میں مولانا عبدالماجد دریاآبادی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مولانا نے اپنے قلم سے ہندوستانی قوم، ملت اسلامیہ اور دین اسلام کی جو عظیم الشان خدمات انجام دی ہیں۔ مولانا نے جو تصنیفات و تالیفات چھوڑی ہیں،  ان میں قرآن کریم کے ان کے اردو اور انگریزی تراجم موسوم بہ “تفسیر القرآن”  کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔  یہ تراجم قرآن حکیم سے ان کے گہرے شغف،  عربی زبان کی نزاکتوں کےبھرپور ادراک،  تاریخ اسلام پر صحیح پس منظر میں عمیق نظر کے ساتھ تاریخ عالم،  علمی و مذہبی اور علمی تحریقات اور فلسفہ،  نفسیات و عمرانیات جیسے موضوعات پر یورپی مفکرین کی تصنیفات پر نظر،  باالفاظ دیگر اسلامی علوم اور عصری علوم میں انکی غیر معمولی دستگاہ اور دقت نظر کا شاہکار ہے؂40۔

مولانا نے اپنی عمر کی چالیس پینتالیس سال کا بہترین حصّہ قرآن کے مطالعہ اور اس کے مطالب پر غور و فکر کرنے میں صرف کیا۔  یہی انکا محبوب مشغلہ تھا۔ انہیں انگریزی اور اردو دونوں زبانوں پر غیر معمولی عبور حاصل تھا۔  وہ جانتے تھے کہ انگریزی اس وقت دنیا کی سب سے بڑی زبان ہے اور اسکو بین الاقوامی حیثیت مکمل طور پر حاصل ہے۔  اس لیے انہوں نے ازرہ مصلحت و سودمندی انگریزی میں قرآن مجید کا ترجمہ بھی کیا اور تفسیر بھی لکھی۔ انکی یہ خدمت تجدید اور اصلاح کے سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ اسکے ساتھ انہوں نے اردو زبان میں بھی قرآن مجید کی تفسیر لکھی جو “تفسیر  ماجدی”  کے نام سے شائع ہوکر مقبول عام ہوئی۔  اسلامیات و قرآنیات سے متعلق مولانا موصوف نے جتنی بھی کتابیں لکھی ہیں ان میں ترجمہ و تفسیر کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ انکے قرآن و کریم کے ترجمے اور تفسیر کو ہندو پاک کے علمی طبقہ میں بڑی قدر و منزلت نصیب ہوئی ہے؂41۔

حوالاجات :

1) سلیم قدوائی، “عبدالماجد دریا آبادی”، نئی دہلی، ساہتیہ اکادمی، ١٩٩٨ء، ص ١١

2)   مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی، ” مولانا عبدالماجد دریا آبادی خدمات و آثار”، نئی دہلی، شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ، جون۲۰۰۶، ص ۲۳

3)  دریا آبادی، عبدالماجد، “آپ بیتی”، لکھنؤ، مکتبہ فردوس مکارم نگر برولیا، ١٤٠٩-١٩٨٩،ص ۳۲

4) مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی، ” مولانا عبدالماجد دریا آبادی خدمات و آثار” محولہ بالا ص ۲۳

5)   ایضاً، ص ۲۴

6)   ڈاکٹر عتیق الرحمن خاں، “مولانا عبدالماجد دریا آبادی حیات و خدمات”، حیدرآباد، پبلک پرنٹرس، مئی ۱٩٩۳ء، ص ٠٥

7) مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی، ” مولانا عبدالماجد دریا آبادی خدمات و أثار ،محولہ بالا ص ۲۴

8)  ڈاکٹر عتیق الرحمن خاں، “مولانا عبدالماجد دریا آبادی حیات و خدمات”، محولہ بالا، ص ٠٥

9)  دریا آبادی، عبدالماجد، “آپ بیتی”، لکھنؤ، مکتبہ فردوس مکارم نگر برولیا، ١٤٠٩-١٩٨٩، ص ٨٨

10)  مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی، ” مولانا عبدالماجد دریا آبادی خدمات و اثار ،محولہ بالا،   ص ۲٥

11)  سلیم قدوائی، “عبدالماجد دریا آبادی”، محولہ بالا، ص  ١۴

12)  ڈاکٹر تحسین فراقی، “مولانا عبدالماجد دریا آبادی کتابیات”، اسلامآباد، مقتدرہ قومی زبان، ١٩٩١ء، ص  ٠٥

13) سلیم قدوائی، “عبدالماجد دریا آبادی”، محولہ بالا ، ص ١٨

14)  ڈاکٹر عتیق الرحمن خاں، “مولانا عبدالماجد دریا آبادی حیات و خدمات”، محولہ بالا، ص ١٠~١١

15) سلیم قدوائی، “عبدالماجد دریا آبادی”، محولہ بالا ، ص  ١٩~۲١

16)  مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی، ” مولانا عبدالماجد دریا آبادی خدمات و آثار”، محولہ بالا، ص ١٧

17)  ڈاکٹر انور سدید، “اردو ادب کی مختصر تاریخ”، دہلی، عالمی میڈیا پرائیویٹ لیمٹیڈ، ۲٠١۴ء، ص ۳٨۴

18)  سلیم قدوائی، “عبدالماجد دریا آبادی”، محولہ بالا، ص ۳٩

19)  ڈاکٹر تحسین فراقی، “مولانا عبدالماجد دریا آبادی کتابیات”، محولہ بالا، ص ٨~٩

20) مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی، ” مولانا عبدالماجد دریا آبادی خدمات و آثار”، محولہ بالا ، ص ١٧٩

21)  سلیم قدوائی، “عبدالماجد دریا آبادی”، محولہ بالا ، ص ۴٠

22)  ایضاً، ص۴۲

23)  مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی، ” مولانا عبدالماجد دریا آبادی خدمات و آثار”، محولہ بالا، ص ٨٥

24)  ایضاً، ص

https://www.mukaalma.com/106191/

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

٭عنوان : عبد الماجد دریا آبادی کی علمی خدمات اور تفسیر کی خصوصیات و امتیازات (قسط دوم)۔۔عروج ندیم

تحریری خصوصیات :

عبد الماجد دریا آبادی کے اسلوب بیان خاص خوبی ایجاد و اضتصار ہے۔ مختصر مختصر جملوں کی سادگی ان کی تحریر کا سب سے نمایاں وصف ہے۔ وہ سیدھے سادے لفظوں میں اور بے تکلفانہ لہجے میں لکھتے تھے۔ ان کی عبارت چست اور متحرک ہوتی۔ وقت کی قدر کے خیال نے عبدالماجد دریابادی کی تحریروں میں بھی امتیاز حاصل کرلیا تھا۔ وہ تمہید میں وقت ضائع کئے بغیر جو بات بھی کہنا چاہتے تھے اسے شروع کر دیتے تھے۔ عبدالماجد دریا آبادی جس موضوع پر بھی لکھتے اپنی انفرادیت کو برقرار رکھتے ہوئے طرزتحریر بھی ویسا ہی اختیار کرتے جو موضوع سے مناسبت رکھتا ہو۔ مثال کے طور پر مذہبی تحریروں میں انداز عالمانہ ہوتا ہے، فلسفیانہ اور تحقیقی مضامین میں وہ ایک فلسفی اور محقق کی شان برقرار رکھتے ہیں۔ غرض یہ کہ ہر ماحول کو اسی کی حالت پر قائم رکھتے ہوئے مفہوم کو نہایت آسانی سے ذہن نشین کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں1؎_

عبدالماجد دریابادی نے علم و دانش کے سرمائے سے دل اور دماغ آباد کیا، غوروفکر کی عادت ڈالی، حکمت و ہدایت کی پرتوں اور سلوٹوں کا بھری نظر اور گہری نگاہ سے جائزہ لیا اور جس نتیجے تک پہنچے انہیں کاغذ پر محفوظ کر دیا۔ وہ پوری زندگی علم و تحقیق، فکر و نظر کے سمندر سے موتی چنتے رہے اور سادہ الفاظ میں اچھی ترتیب و ترکیب کے ساتھ صفحات پر جڑے اور دلوں پر نقش کرتے رہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ لفظوں کو چن چن کر چن رہے ہیں، نگینہ کی طرح جڑ رہے ہیں اور کاغذ پر ہی نہیں، دل میں لفظوں کا تاج محل کھڑا ہو رہا ہے2؂۔

ع         دریا کے کنارے تو ہے توہین محبت،

ہم تاج محل دل میں ہی تعمیر کریں گے۔

 

ان کی تحریر گورکھ دھندہ نہیں معلوم ہوتی۔ ہمیشہ سلجھے ہوئے خیالات اور نظریات کو آسان ترین طرز میں پیش فرمایا ہے۔ اس لیے ہر تحریر جادو اثر اور دل نشیں ہے۔  آپ بڑی سی بڑی بات کو تعجب انگیز نکتہ رسی اور اختصار کے ساتھ بیان فرمادیتے تھے۔ ہر بات کو نہایت روشن اور ظریفانہ نزاکت کے ساتھ اس طرح بیان فرمادیتے تھے کہ اکبر الہ آبادی کی یادتازہ ہوجاتی تھی۔ جو بات بھی کہتے ہیں سوچی سمجھی اور  غور کی ہوئی ہوتی تھی3؂۔ مولانا ماجد کی تحریر کا کمال تو یہی ہے کہ ان کے اسلوب میں اردو کا کوئی بھی صاحب اسلوب انشاءپرداز ان کا شریک، ہمسر، نذیر اور ممائل نہیں۔ فلسفہ اخلاق کی پیچیدہ تہوں سے لے کر قرآن مجید کے جان بخش اسرار و رموز کی گہرائیوں تک انہوں نے اپنے ذہن اور اسپ قلم کو دوڑایا ہے4؂۔

مرثیہ نگاری کی خصوصیات :

مولانا عبدالماجد دریاآبادی کے مرثیے مختلف خصوصیات کے حامل ہیں۔ ان کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ان سے خود مولانا کی شخصیت پر روشنی پڑتی ہے۔ انہوں نے “ماں کے قدموں پر”  جو مرثیہ لکھا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی والدہ مرحوم  کس قدر پاکیزہ اور مقدس ہستی تھیں۔  ان کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:

“نماز کی پابندی کا نہیں نماز کے ساتھ عشق کا یہ عالم تھا کہ اس دور میں اکابرین میں بھی بس چند ہی مثالیں ایسی ملیں گے۔ اشراق، چاشت، تہجد کا تو وہ اہتمام کے ہم جیسوں کو تو فرض کے لیے بھی شاید ہی نصیب ہو۔ یہ سن وسال اور تہجد کا یہ التزام کے کسی موقع میں بھی ناغہ نہ ہونے پائے۔ گرمیوں کی مختصر راتیں کہ فجر تک بھی نیند پوری ہونا مشکل۔ یہ ابھی لیٹی نہیں کہ ابھی تہجد کے لئے اٹھ بیٹھیں۔  چلے کے جاڑے پڑ رہے ہیں۔ صبح ہونے پر لحاف سے نکلنا سوار ہے اور یہ رات کے ایک بجے دو بجے اور تین بجے تہجد کے لئے وضو کر رہی ہیں”۔

اس بیان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مولانا موصوف کی والدہ ماجدہ کی قدر مذہب کی پابندی تھیں۔ اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ مولانا صاحب نے نہایت مقدس، پاکیزہ اور مذہبی ماحول میں پرورش پائی تھی، جس کا اثر ان پر تاحیات قائم رہا۔

ان مرثیوں سے مولانا عبدالماجد کی ایک اور خوبی پر روشنی پڑتی ہے۔ وہ ایک عالم و فاضل، مشہور و معروف اور مذہبی انسان ہوتے ہوئے بھی منکسر مزاج تھے۔ ان کی انکساری کا ثبوت یہ ہے کہ وہ افضل حسین قوال سے بھی ربط ضبط رکھتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں:

“قوال کا ذکر اور وہ بھی صدق کے صفحات میں” جی ہاں۔  صدق عالموں اور زاہدوں عابدوں کا پرچہ کب ہے۔ نامہ سیاہ صدق نویس خود ہی ایک عامی اور عاصی ہے۔  اپنے ہم جنسوں کا ذکر چن چن کر کرتا ہے۔”

مولانا ایک سنی مسلمان تھے مگر وہ نہایت منصف مزاج تھے۔ اگر ان کو شیعہ حضرات میں بھی خوبیاں نظر آتی تھی تو ان کا ذکر وہ نہایت فراخ دلی سے کرتے تھے5؂۔

نثری اسلوب اور طنز نگاری کی خصوصیات:

یہ امر مسلم ہے کہ مولانا عبدالماجد دریا بادی اپنے دور کے منفرد صاحب طرز انشا پرداز تھے۔ گزشتہ ٧۵ برس سے زائد مولانا عبدالماجد کی اِدھر اُدھر کتب و رسائل میں منتشر سچ اور صدق میں محفوظ نثر عالیہ کو ابھی تک یکجہ اور محفوظ نہیں کیا گیا ہے۔ مقالات ماجد، انشائے ماجد، نشریات ماجد اور متعدد دیگر تصانیف میں محض ان کا خطر پیش کیا گیا ہے۔ ورنہ ان کی بیشتر عالمانہ، ادیبانہ اور فلسفیانہ ادبی اور ہلکی ہلکی شوخ وشنگ تحریریں نہ ابھی تک انتخاب کی گئی ہیں اور نہ ہی یکجا۔ صدقِ جدید کے یہ نامور مدیر بےباک ترجمان مشرک تھے۔ اکبر الہ آبادی، مولانا شبلی نعمانی اور علامہ اقبال کی عظیم روایات کا تسلسل انہوں نے نہ صرف برابر قائم رکھا ہے بلکہ اس سے آگے بھی بڑھایا ہے۔ ان کے یہاں قوم و ملت کا بڑا گہرا درد تھا۔ جس نے ان کے قلم کو بی لاگ، نڈر اور باغی بنا دیا تھا۔ حریت فکر ان کے یہاں سرفروشی کی حد تک تھی۔ وہ ایک انتہائی جری اور بے باک ادیب و صحافی تھے۔ ان کے ایک ناقد نے لکھا ہے کہ ان کے طنز میں خشونت ہے۔  شاید کسی بھی طنز نگار کو اس سے زیادہ خراج تحسین پیش نہیں کیا جا سکتا۔ خشونت ہی دراکی و بےباکی کی وہ منزل ہے جو طنز نگار کو بہت مقبول بناتی ہے۔ خشونت کی نمو حریت فکر سے ہوتی ہے۔ جو ہمارے اردو ادب میں تقریباً نہ ہونے  کے برابر ہے6؂۔

صاحب صدق کا نثری اسلوب موضوع کے عین مطابق ہوتا تھا۔ اپنی مذہبی، دینی تحریروں اور تفسیر قرآن میں ان کا انداز عالمانہ وقیع اور پر شکوہ ہوتا تھا۔ لیکن سلاست کے ساتھ عالمانہ، فلسفیانہ اور تحقیقی مضامین ایک عالم، ایک فلسفی یا ایک محقق کی شان تصنیف وہ برقرار رکھتے تھے۔ اپنی ادبی و صحافتی تحریروں میں وہ سادگی و سلاست سے کام لیتے تھے۔ ان کے نپے تلے جچے چھوٹے چھوٹے حملے برحستبہ فقرے،  محاورے، اشعار اور مصرعے۔ تراکیب اور بولتے ہوئے رواں دواں الفاظ۔ پھر الفاظ بھی کیسے کہ جو الفاظ جہاں رکھ دیے ہٹائے نہیں ہٹ سکتے۔ انگستری میں نگینے کی طرح چمکتے ہیں۔ ان کی نثر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ عبارت نہایت چست اور متحرک ہوتی ہے۔ یہاں شوخی و تازگی ہے۔ تراوٹ وہ جدت ہے۔  ندرت و ایجاز ہے۔ طباعی ہے حکیمانہ اُپچ ہے۔ سرخی ایسی جمائی جاتی ہے کہ طبیعت پھڑک اٹھے۔ چٹکی ایسی ہوتی ہے کہ بے اختیار تڑپنے والے والے کی زبان سے واہ واہ سبحان اللہ نکل جائے۔ اظہار مدّعا میں ایسے بے باک اور منہ پھٹ کے دوسرا جو دل میں سوچتے ڈرے وہ ان کی خنجر قلم کی نوک پر دھری رہتی ہے۔ اس نثر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ نثر نگار کے پیچھے ہاتھ باندھ کر چلتی ہے۔ یہ جدھر اور جیسے چاہیں اسے موڑ دیتے ہیں۔ اس نثر میں شگفتگی و شادابی ہے۔ سادگی اور روانی ہیں۔ یہ نثر دل میں جاکر بیٹھ جاتی ہے یا اس کے دھماکے دل اور دماغ میں محسوس ہوتے ہیں۔ اس میں کسک، اثر اور دمھک ہے۔ یہ بالکل ان کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اپنے پڑھنے والے کو جہاں چاہیں خوش یا اداس کر دیں یا سوچنے اور  سردھننے پر مجبور کردیں۔  اگر تحریر ادبی ہے تو لہجہ انتہائی شیریں۔ لیکن تحریر اگر صحافتی ہے تو اس میں لہجہ احتجاجی۔ بلند اور شوخ  ہوتا ہے7؎_

تفسیری خصوصیات :

عبدالماجد کو روایتی دینی اداروں کے بجائے جدید عصری اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے کیننگ کالج لکھنؤ سے فلسفہ میں بی اے آنرز کی ڈگری حاصل کی جو اس وقت بہت بڑی علمی معراج تھی۔  انہوں نے ابتدا سے انگریزی کی تعلیم پائی اور مطالعے کے ذوق نے ان کو جویائے علم سے دریائے علم بنادیا۔ افلاطون، ارسطو،  مل، ہیوم،  اسپنسر رسل اور بریڈلے جیسے فلسفیوں کے مطالعے نے ان کو عقلیت پسند بنا دیا۔ مگر ان انسانی فلسفوں میں ایک بیدار ذہن کو تشفی کہاں ملنے والی تھی ؟ سوالات اتنے تھے اور ان کی نوعیت ایسی تھی کہ ان کے جوابات معاشرتی روایات اور مروجہ مذہبی تعلیمی روایات میں نہیں ملتے۔ چناچہ انہوں نے مذاہب کا مطالعہ شروع کیا اور دنیا کا کوئی قابل ذکر مذہب ایسا نہ تھا جس پر انہوں نے گہرائی سے غور و فکر نہ کیا ہو، اور پھر ایک دن حق ان پر آشکارا ہو گیا۔  ہر چند کے وہ انیسویں صدی کے ایک روایتی مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے تھے، مسلم معاشرے میں پلے بڑھے، لیکن مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ وہ موروثی مسلمان نہیں تھے بلکہ اسلام کی حقانیت ان پر وسیع مطالعے اور استدلال کی بدولت منکشف ہوئی تھی۔ بے شک وہ مسلمان گھرانے کے فرد تھے اور ان کو اسلام سے فطری لگاؤ ضرور رہا ہوگا۔ مگر ان کے اندر حق گوئی، بے باکی اور جرات کی وہ عالی صفات بھی بدرجہ اتم موجود تھیں جن سے اللہ تعالی نے ہم جیسے موروثی مسلمانوں کے مقابلے میں نو مسلمانوں کو زیادہ فراخی سے نوازا ہے۔ ان کا جذبہ ایمانی ان کو کچھ کر گزرنے پر آمادہ کرتا تھا اور انہوں نے شہادت حق کا فریضہ اپنے قلم سے ادا کیا، یا یوں کہیے کہ جہاد بالقلم کی سچی تعبیر پیش کی۔ انہوں نے اپنے قلم کا سفر مضمون نویسی سے شروع کی اور تاریخ، فلسفہ اور عمرانیات پر معتدد گرانقدر کتابیں تصنیف کیں، لیکن ان کا شاہکار کتاب ربانی کا ترجمہ اور تفسیر ہی ہے؂8۔

عبد الماجد دریابادی کے علم و فضل کا انتہائی کمال یہ ہے کہ وہ باقاعدہ مسٹر سے مولانا بن گئے جبکہ انہوں نے نہ کسی دینی مدرسے میں تعلیم حاصل کی نہ کسی بڑے عالم سے احادیث و فقہ اور تفسیر کا درس لیا۔ ایسی مثالیں تو کثرت سے ملتی ہیں کہ دینی علوم کی باقاعدہ تحصیل کے بعد ایک عالم دنیوی علوم میں بھی مہارت حاصل کر لیتا ہے لیکن ایسی مثالیں بہت کم ملیں گی کہ ایک شخص  جس نے ابتدا سے عالم شباب تک باضابطہ دینی تعلیم حاصل نہ کی ہو بلکہ مذہب کی مخالفت پر کمر بستہ رہا ہوں پھر اچانک وہ دینی علوم میں بھی اتنی مہارت حاصل کر لے کے علماء نہ صرف اس کو اس صف میں جگہ دی بلکہ وہ اس صف میں نمایاں اور ممتاز حیثیت حاصل کرلے۔ عبد الماجد دریابادی کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہوا۔ انہوں نے جب مذہب کی طرف رخ کیا تو اپنے ذوق و شوق اور محنت و لگن سے برسوں کا سفر دنوں میں طے کرلیا۔ مولوی صاحبان عام طور سے کسی ایسے شخص کو اپنی جماعت میں شامل نہیں کیا کرتے جس نے کسی دینی مدرسے میں تعلیم حاصل نہ کی ہو لیکن عبدالماجد دریابادی ایک ایسے شخص ہیں جن کو مولوی صاحبان نے باقاعدہ عالم تسلیم کیا۔ ڈاکٹر اقبال کی طرح عبد الماجد دریابادی نے بھی مغربی علوم سے بےحد استفادہ کیا اور اسے مذہب کی حمایت میں بڑی حکمت کے ساتھ استعمال کیا۔ ایک صحافی اور ایک دانشور کی حیثیت سے وہ اپنے گرد و پیش کے حالات و کوائف و ماحول سے پوری طرح واقف تھے۔ انہوں نے خاص طور پر جدید تعلیم یافتہ طبقے کی رہنمائی کی۔ اسلامی تعلیمات کو اس کی اصلی شکل و صورت میں نہایت موثر اور دلنشیں انداز میں پیش کرنے کی مسلسل کوشش کی۔ مذہبی فرقوں کے تنازعات کی اعلانیہ مذمت کی۔  چونکہ وہ جدید علوم سے بخوبی واقف تھے اس لئے جدید علوم کے ارتقاء کے ساتھ جو نئے نئے مسائل پیدا ہوئے ان کے پیش نظر قرآن کی تعلیمات کی تشریح کی۔ اس کے ساتھ ساتھ احادیث نبوی اور اسوہ صحابہ کو اس ڈھنگ سے پیش کیا جس کو جدید تعلیم کے پروردہ طبقہ نے قبول کیا۔ وہ چونکہ فلسفہ اور منطق کے عالم تھے اس لئے انہوں نے عقلی دلائل سے بھی مذہبی صداقتوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی اور اپنی بے شمار تحریروں کے ذریعے بڑی اہم گتھیوں کو سلجھایا9؂۔

قرآن پاک کے ترجمے بہت سے حضرات نے کئے لیکن ہر شخص جانتا ہے کہ ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ اسی وقت قابل قدر ہو سکتا ہے جب مترجم دونوں زبانوں کا ماہر اور ان کے صرفی و نحوی نکات پر اسے عبور حاصل ہو۔ مولانا موصوف اردو زبان (خصوصاً مستند لکھنوی دبستان کی) کے ماہر تھے۔ اس کی نوک پلک سے بخوبی واقف تھے۔ اس لیے بلا وصف اس کے کہ قرآن پاک کے کئ اچھے اچھے ترجمے ماضی قریب اور بعید میں ہو چکے ہیں۔ لیکن تفسیر ماجدی زبان و بیان کے اعتبار سے فی زمانہ آخری ترقی یافتہ شکل کہی جا سکتی ہے۔ آپ نے اس کائنات کی بہترین کتاب و جامع کتاب اور اس کی تعلیمات کو عام تک پہنچانے اور ان کے دلوں میں اس کی افادیت و اہمیت کا خیال رکھنے کے لیے ہدایات کوشش کی10؂۔

مولانا عبدالماجد کے تفسیری کارناموں کی روشنی میں ان کی عارفانہ و واعظانہ نگاری، تبصرے کی بصیرت افروزی اور حق آموزی کا صدق دل  سے اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے۔ اس مفسر قرآن نے اپنے مخصوص انداز بیان، اسلوب تحریر اور طرز ادا کے ذریعے نکات قرآنی کو بڑی خوبی کے ساتھ واضح فرمایا ہے۔ مولانا عبدالماجد کی آیات قرآنی کی تفسیر پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے اور حدیث نبوی کی تشریح یا  حکایات و واقعات عالم کی تفصیل پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ مولانا کا محبوب مقصود نگارش پندو نصیحت ہے یا تفہیم رموز شریعت11؂۔  مولانا عبدالماجد کو بحیثیت مفسر قرآن ہمیشہ قدرومنزلت کی نظروں سے دیکھا جائے گا۔ انہوں نے قرآن کریم کے نکات بڑے دلپذیر انداز میں بیان کئے ہیں۔ اس تفسیر والے مشاغل اور اس کی تکمیل کے بارے میں وہ یوں رقمطراز ہیں کہ،

 

“دھن رفتہ رفتہ خدمت قرآن کی سمائی اور بخت و نصیب کی خوبی در تک جبیس سائی کے لیے لے آئی۔ پچھلی تعلیم پر نظر جاتی ہے تو کبھی تو ہنسی آ جاتی ہے اور کبھی کبھی اپنے پر شدید نفریں ملامت ابھر آتی ہے۔ اس دور میں کبھی اس کا تصور بھی نہیں آ سکتا تھا کہ کبھی رازی،  زمخشر،  قربی اور آلوسی کی جوتیوں میں جگہ نصیب ہو گی۔ اب دعا اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے اگر ہے تو یہی کہ جتنی گھڑیاں بھی حیات ناپائیدار کی باقی ہیں سب اسی خدمت میں گزارے اور وقت موعوز جب آئے تو بندہ کو اس کی بندگی میں مصروف پائے”12 ؂۔

ترجمہ کے بعد اب ایک نظر مولانا دریابادی عبداللہ کے تفصیلی نوٹس پر ڈالتے ہیں۔ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے، اس ترجمہ و تفسیر کا مقصد دراصل مستشرقین کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا تدراک ہے۔ اس ضمن میں جتنی بھی کوششیں ہوئی ہیں ان میں اس کاوش کو نہایت اہم مقام حاصل ہے۔ اس کا سبب اس کا اسلوب استدلال ہے۔ مغرب کو جواب دینے کا جو طریقہ افضل ترین ہوسکتا ہے مولانا دریابادی نے اسی کو تیار اختیار ہے۔ انہوں نے اپنی بات کو منوانے کے لئے زور بیاں کا سہارا نہیں لیا ہے بلکہ علمی استدلال کو بروئے کار لائے ہیں، اوئے یہ استدلال اکثروبیشتر یورپی مفکرین کے حوالے سے پیش کیا ہے جن کی علمی حیثیت مخاطبین کی نظر میں واقیع ہے۔  انہوں نے نہایت خوبی سے قرآن پر اہل مغرب کے اعتراضات کا تار پود بکھیر دیا ہے اور ہر اس موضوع پر، جس کو بہانا بنا کر نظام اسلام کو بد نام کیا جاتا ہے، سائنس، فلسفہ، تاریخ اور عمرانیات وغیرہ علوم کے ممتاز مغربی مفکرین کے حوالے سے مسکت جواب دیا ہے۔ ان موضوعات میں طلاق، کثرت ازدواج ترکہ جیسے معاملات شامل ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ان موضوعات کو منتخب کرکے ان کے عقلی جوابات کے لیے مولانا دریابادی کی تفسیر القرآن کی طرف رجوع کیا جانا چاہئے13 ؂۔

اس میں شک نہیں کہ مترجم علیہ الرحمتہ نے خوب عرق ریزی کی ہے۔ قرآن کو پہلے بخوبی سمجھنے اور پھر اسے انگریزی کے قالب میں ڈھالنے میں بھرپور کوشش کے باوجود بہرحال یہ دعوی نہیں کیا جا سکتا کہ کلام الٰہی کو کسی دیگر زبان میں ان تمام خصوصیات کے ساتھ بیان کیا جاسکتا ہے جو اللہ کے کلام میں موجود ہیں۔ زیادہ سے زیادہ جو بات ہم کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ قرآن کے مطالب کو سمجھنے کے لئے یہ ترجمہ ان لوگوں کے لئے بڑا قیمتی سرمایہ ہے جو براہ راست عربی نہیں جانتے14؂۔

 

تصنیفات:

عبدالماجد دریاآبادی کو طالب علمی کےزمانہ سے ہی تصنیف و تالیف کا شوق تھا۔ انہوں نے بہت چھوٹی عمر میں مضمون نگاری شروع کر دی تھی۔ وہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک بے تکان لکھتے رہے۔  انکی تصنیف و تالیف کی مکمل موضوعاتی فہرست حسب ذیل ہے۔

ادبی موضوعات:

١) مقالات ماجد۔  تاج آفس بمبئی۔ دوسرا ایڈیشن عشرت بک ڈپو لاہور نے چھاپا۔

٢) انشائے ماجد (جلد اول) نسیم بک ڈیو لکھنو۔

٣) انشائے ماجد (جلد دوم) نسیم بک ڈیو لکھنو۔

۴) انشائے ماجد یا لطائف ادب۔  ادارہ انشائے ماجدی کلکتہ۔

۵) مضامین عبدالماجد۔ ادارہ اشاعت اردو حیدرآباد۔

٦) اقبالیات ماجد۔  اقبال اکیڈمی۔ حیدرآباد۔

٧) اکبر نامہ یا اکبر میری نظر میں۔ انوار بک ڈیو لکھنو۔

٨) زود و پشیماں (ڈرامہ) الناظر بک ایجنسی لکھنو۔

٩) تغزل ماجدی( شاعری) مولانا عبدالماجد دریاآبادی اکیڈمی لکھنو۔

١٠) نشریات ماجد۔  خاتون منزل لکھنو۔

آپ بیتی و سوانح :

١١) آپ بیتی۔ مکتبہ فردوس لکھنو۔

١٢) چند سوانحی تحریریں۔ مولانا عبدالماجد دریاآبادیا کیڈمی لکھنو۔

١٣) حکیم الامت۔ نقوش و تاثرات(مولانا اشرف علی تھانوی)۔  دارالمصنفین اعظم گڈھ۔

١۴)  محمد علی ذاتی ڈائری کے چند ورق (جلد اول) دارالمصنفین اعظم گڈھ۔

١۵) محمد علی ذاتی ڈائری کے چند ورق (جلد دوم) دارالمصنفین اعظم گڈھ۔

١٦) محمود غزنوی۔ وکیل بک ٹریڈنگ ایجنسی امرتسر۔

١٧) اردو کا ادیب اعظم۔ ادارہ انشائے ماجدی کلکتہ۔

١٨) معاصرین۔  ادارہ انشائے ماجدی کلکتہ۔

١٩) وفیات ماجدی یا نشری مرثئے۔  مولانا عبدالماجد دریابادی اکیڈمی لکھنو۔

فلسفہ و نفسیات :

٢٠) فلسفہ جذبات۔ انجمن ترقی اردو ہند۔

٢١) فلسفہ اجتماع۔ انجمن ترقی اردو ہند۔

٢٢) فلسفہ کی تعلیم گزشتہ اور موجودہ۔ الناظر بک ایجنسی لکھنؤ۔

٢٣) فلسفیانہ مضامین۔ الناظر بک ایجنسی لکھنؤ۔

٢۴) مبادی فلسفہ۔(جلد اول)  دارالمصنفین اعظم گڈھ۔

٢۵) مبادی فلسفہ۔(جلد دوم)  دارالمصنفین اعظم گڈھ۔

٢٦) ہم آپ (پاپولر سائیکلوجی) ہندوستانی اکیڈمی الہ آباد۔

٢٧) غذائے انسانی۔ وکیل بک ٹریڈنگ ایجنسی۔ امرتسر۔

٢٨) فرائض والدین۔ نولکشور بکڈپو لکھنو۔

سفر نامے :

٢٩) تاثرات دکن۔ بہادریار جنگ اکیڈمی کراچی۔

٣٠) سفر حجاز۔ نسیم بک ڈپو لکھنو۔

٣١) ڈھائی ہفتہ پاکستان میں یا مبارک سفر۔ صدق جدید بک ایجنسی لکھنو۔

٣٢) گیارہ سفر یا سیاحت ماجدی۔  ادارہ انشائے ماجدی کلکتہ۔

مذہبیات اور متعلقات :

٭سیرتِ نبویﷺ قرآنی

٭ سیرت نبویﷺ قرآن کی روشنی میں

٭ اربعین ِ ولی اللٰہی

امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ر۔ح

بروایت : حضرت علی ر۔ض

ترجمہ : علامہ ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی مدظلہ العالی

تہذیبِ جدید تشریح : مولانا عبدالماجد دریاآبادی ر۔ح

٣٣) تفسیر ماجدی۔ تاج کمپنی لاہور۔

٣۴) تفسیر ماجدی(جلد اول) مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنو۔

٣۵) اعلام القرآن یا قرآنی شخصیتیں صدق جدید بک ایجنسی لکھنو۔

٣٦) الحیوانات فی القرآن۔ ندوة المعارف بنارس۔

٭ارض قرآن یا جغرافیہ قرآنی از مولانا عبد الماجد دریابادی

٭ارض قرآن یا جغرافیہ قرآنی از مولانا عبد الماجد دریابادی

٣٧) بشریت انبیاء۔ صدق جدید بک ایجنسی لکھنو۔

٣٨) تصوف اسلام مطبع معارف اعظم گڈھ۔

٣٩) تمدن اسلام کی کہانی۔ انجمن اسلامی تاریخ و تمدن علی گڈھ۔

۴٠) جدید قصص الانبیاء کے چند ابواب۔ مجلس اسلامیات، اسلامیہ کالج پشاور۔

۴١) مسائل و قصص۔ ادارہ اشاعت اردو حیدرآباد۔

۴٢) مردوں کی مسیحائی، ادارہ ٧ اشاعت اسلام حیدرآباد۔

۴٣) مشکلات القرآنی یا قرآنی مطالعہ بیسویں صدی میں اسلامک ریسرچ فاونڈیشن مدارس۔

۴۴) قتل مسیح سے یہود کی بریت۔ اسلامی مشن لاہور۔

۴۵) نورانی جہیز۔ مجلس نشریات اسلام کراچی۔

۴٦) یتیم کا راج۔  کتب خانہ انجمن ترقی اردو ہند۔

۴٧) سچی باتیں۔ دکن پبلشرز۔ حیدرآباد

خطبات :

۴٨) خطبہ صدارت مجلس استقبالیہ آل انڈیا خلافت کانفرنس لکھنو۔

۴٩) ندوہ کا پیام ندولوں کے نام۔ ادارہ فروغ اردو لکھنو۔

۵٠) خطبات ماجدی۔  ادارہ انشائے ماجدی کلکتہ۔

۵١) تمدن اسلام کا پیام۔  بیسویں صدی کے نام ادارہ ادبیت دہلی۔

۵٢) پیام امن۔ دارالمصنفین اعظم گڈھ۔

۵٣) تاریخ اخلاق یورپ(جلد اول) انجمن ترقی اردو ہند۔

 تراجم و تالیفات :

۵۴) تاریخ اخلاق یورپ(جلد دوم) انجمن ترقی اردو ہند۔

۵۵) تاریخ تمدن(جلد دوم ) علی گڈھ انسٹی ٹیوٹ علی گڈھ۔

۵٦) تاریخ یورپ برائے انٹرمیڈیٹ۔  دارالطبع جامعہ عثمانیہ حیدرآباد۔

۵٧) مقالات برکلے۔ دارالمصنفین اعظم گڈھ

۵٨) مناجات مقبول، صدق جدید بک ایجنسی لکھنو۔

۵٩) ناموران سائنسدان۔ میکملن۔ اینڈ کمپنی کلکتہ

٦٠) منطق استخراجی و استقرائی، دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ حیدرآباد۔

٦١) چہل حدیث ولی اللہی۔ صدق جدید بک ایجنسی لکھنو۔

٦٢) بحرالمحبت، دارالمصنفین اعظم گڈھ۔

٦٣) تحفہ خسروی۔ اودھ بک ایجنسی دریاآباد۔

مرتبات و مکتوبات :

64) خطوط مشاہیر۔ تاج کمپنی لاہور۔

65) فیہ ما فیہ۔ دار المصنفین اعظم گڈھ۔

66) مکاتب اکبر۔ دار المصنفین اعظم گڈھ۔

67) مکتوبات سلیمانی(جلد اول) صدق جدید بک ایجنسی لکھنؤ۔

68)  مکتوبات سلیمانی(جلد دوم) صدق جدید بک ایجنسی لکھنؤ۔

69) مکتوبات ماجدی (جلد اول) ادارہ انشائے ماجدی کلکتہ۔

70) مکتوبات ماجدی (جلد دوم) ادارہ انشائے ماجدی کلکتہ۔

71) رقعات ماجدی، بی، سی، ایچ سوسائٹی کراچی۔

72) دی سائیکلوجی آف لیڈر شپ۔ ٹی فشران ون۔ لندن۔

73) قرآن حکیم تفسیر و ترجمہ۔ تاج کمپنی لاہور۔

انگریزی میں :

74) ہولی قرآن ودھ ٹرانسلیشن۔ تاج کمپنی لاہور۔

75) تفسیر القرآن (نظر ثانی شدہ) جلد اول۔ اکیڈمی آف اسلامک ریسرچ اینڈ پبلیشرز۔ لکھنؤ۔

76) تفسیر القرآن (نظر ثانی شدہ) جلد دوم۔ اکیڈمی آف اسلامک ریسرچ اینڈ پبلیشرز۔ لکھنؤ۔15؂

77) خطوط ماجدی: مرتبہ ابوسلمان

78) جوہر اور ان کی شاعری

79) مشورے اور گزارشیں

وفات :

وسط مارچ ١٩٧۴ء میں عبدالماجد دریاآبادی پر فالج کا حملہ ہوا جس سے وہ پوری طرح صحبت یاب نہ ہوسکے۔ علاج معالجہ سے مرض میں معمولی کمی واقع ہوئی۔ تکان محسوس ہونے لگی اور یادداشت پر بھی اثر پڑا۔ اسکے باوجود وہ اخبار کے لئے برابر کچھ نہ کچھ لکھتے رہے۔ اس دوران انہوں نے جو مختصر تحریریں یا خطوط لکھے وہ بڑی مشکل سے پڑھے جاسکے۔  ان کی دونوں آنکھیں فالج کے حملہ سے پہلے ہی بہت خراب ہو چکی تھیں۔ خصوصاً دائیں آنکھ جنوری ١٩٧٦ء میں لکھنو میں اسکا آپریشن ہوا جو کامیاب رہا۔ وسط اکتوبر ١٩٧٦ء میں وہ لکھنو میں اپنی قیام گاہ “خاتون منزل” میں رات کو کوٹھے پر گِر پڑے، جس سے انکے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ اس حادثے نے انکی صحت پر اور برا اثر ڈالا۔ انتقال سے تقریباً ایک ہفتہ قبل دینوی امور سے تعلق بلکل قطع ہوگیا تھا۔ لکھنا پڑھنا بلکل چھوٹ گیا تھا۔ زیادہ تر غافل رہتے تھے لیکن  نمازوں کے وقت اکثر ہوشیار ہو جاتے تھے اور ہاتھ کان تک اٹھا کر پھر نیچے لاکر نماز کی طرح نیت باندھ لیتے۔ یہ کیفیت وفات سے کچھ قبل تک رہی۔ مالآخر ٦ جنوری ١٩٧٧ء کو علی الصبح ١/٢ ۴ بجے بقام خاتون منزل لکھنو میں انکا انتقال ہوگیا۔ نمازِ جنازہ انکی وصیت کے مطابق ندوةالعلماء میں مولانا ابوالحسن ندوی نے پڑھائی۔ بعد ازاں جنازہ دریاباد لے جایا گیا جہاں انکے مکان سے متصل حضرت مخدوم آبکش کے مزار کے قریب تدفین ہوئی16۔

مولانا رحمت اللہ  ایک عظیم شخصیت تھے اور انہوں نے بھرپور طریقے سے علم و ادب اور اصلاح فکر کے سلسلے میں خدمت انجام دی، ان جیسی شخصیت بالکل اس بات کا حق رکھتی ہے کہ اس کو نئی نسلوں کے سامنے بطور نمونہ پیش کیا جائے تاکہ نئی نسلوں کو اپنے اسلاف کے مقام بلند سے واقفیت ہو اور وہ ان کے نمونہ سے فائدہ اٹھا سکیں17؂۔

 

حوالاجات :

سلیم قدوائی، “عبدالماجد دریا آبادی”، نئی دہلی، ساہتیہ اکادمی، ١٩٩٨ء، ص ۲٦

مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی، ” مولانا عبدالماجد دریا آبادی خدمات و آثار”، نئی دہلی، شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ، جون۲۰۰۶، ص ۱۲۳

ڈاکٹر عتیق الرحمن خاں، “مولانا عبدالماجد دریا آبادی حیات و خدمات”، حیدرآباد، پبلک پرنٹرس، مئی ۱٩٩۳ء، ص ۲٦

ایضاً، ص ۳٨

ایضاً، ص ١٧٩~١٨١

ایضاً، ص٧۲~

ایضاً، ص ٧۴

سلیم قدوائی، “عبدالماجد دریا آبادی”، محولہ بالا، ص ٨٦~٨٧

ایضاً، ص ٨٦~٨٧

ڈاکٹر عتیق الرحمن خاں، “مولانا عبدالماجد دریا آبادی حیات و خدمات”، محولہ بالا، ص ۱٥۲

ایضاً، ص ١٦٠~١٦١

ایضاً، ص ١٦٦

مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی، ” مولانا عبدالماجد دریا آبادی خدمات و آثار”، محولہ بالا، ص ۳۲٩

ایضاً، ص ۳۲٧

سلیم قدوائی، “عبدالماجد دریا آبادی”، محولہ بالا، ص٩٥~٩٨

ایضاً، ص ۲۳

مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی، ” مولانا عبدالماجد دریا آبادی خدمات و آثار”، محولہ بالا،ص ١٨~١٩

https://www.mukaalma.com/106547/

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عوام کو کونسی تفسیر پڑھنی چاہیئے جو مسلکی اثرات سے پاک ہے ؟

ہدایات مفتی محمد سعید خان صاحب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تفسیر ماجدی (ایک جلد پرانا ،متروک ایڈیشن)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گوگل ایپ: تفسیر ماجدی (ایک جلد پرانا ،متروک ایڈیشن)

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.atq.quranemajeedapp.org.majidi&hl=en&gl=US&pli=1

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

TAFSEER E MAJIDI - ENGLISH -4  VOLUMES - BY SHAYKH ABDUL MAJID DARYABADI (R.A)

Vol 1 + 2 + 3 + 4

……………………………………….

٭ توضیحی ترجمہ قرآن

بین سطور ترجمہ : مولانا عبدالماجد دریا بادی

توضیحی ترجمہ : مولانا محمد حسان نعمانی ندوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تفسیر ماجدی کا مطالعہ : حکیم فخرالاسلام مظاہری علیگ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تفسیر ماجدی میں کتب سماویہ سے اخذ و استدلال کامنہج و اسلوب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

٭احوال و آثار عبدالماجد دریا بادی : ڈاکٹر تحسین فراقی ( پی ایچ ڈی مقالہ)

٭مولانا عبدالماجد دریا بادی، خدمات و آثار: مفتی عطاء الرحمن قاسمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

٭اکادمی مولاناعبدالماجددریابادی نمبر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سچ کا توضیحی اشاریہ : عبدالعلیم قدوائ

۔۔۔۔۔۔

٭درج ذیل مقالات کی فراہمی میں علمی تعاون  درکار ہے٭

تفسیر ماجدی میں تنقیح و تنقید روایات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تفسیر ماجدی از عبدالماجد دریابادی میں سیرتی مباحث کا تحقیقی جائزہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تفسیر نعیمی اور تفسیر ماجدی میں موجود تقابل ادیان کی مباحث کا تحقیقی جائزہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تفسیر ماجدی از مولانا عبدالماجد دریا بادی میں سیرتی مباحث کا تحقیقی مطالعہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تفسیر نعیمی اور تفسیر ماجدی میں کلامی مباحث کا تجزیاتی مطالعہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تفسیر ماجدی میں مذاہب کا تقابلی جائزہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مطالعہ استشراق، تفسیر ماجدی کی روشنی میں تحقیقی جائزہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برصغیر کا تفسیری ادب اور کتاب مقدس: تفسیر القرآن، تفسیر حقانی اور تفسیر ماجدی کا خصوصی مطالعہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تفسیر حقانی اور تفسیر ماجدی کا تقابلی مطالعہ: مسیحی عقائد کے حوالے سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تفسیر ماجدی اور مطالعہ عیسائیت: تجزیاتی مطالعہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تفسیر ثنائی اور تفسیر ماجدی کی روشنی میں سورة آلِ عمران کے مضامین کا تحقیقی جائزہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مطالعہ تفسیر ماجدی سورة آلِ عمران 1 تا 20

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مطالعہ تفسیر ماجدی سورة آلِ عمران 21 تا 40

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سورة المائدہ کے مضامین کا تحقیقی و تقابلی جائزہ بحوالہ تفسیر حقانی و تفسیر ماجدی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سورۃ النور کے مضامین کا تقابلی کا جائزہ احسن البیان اور تفسیر ماجدی میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیرۃ نبوی قرآن کی روشنی میں از مولانا عبدالماجد دریابادی اور حیاتِ محمد قرآن حکیم کے آئینے میں از ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کا تقابلی جائزہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تفسیر ماجدی اور ثنائی کی روشنی میں مخاصمہ مع النصاریٰ کا تقابلی جائزہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تفسیر ماجدی میں مختلف مذاہب سے اسلام کا تقابل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مباحثِ ارضِ قرآن، ایک تحقیقی جائزہ، مولانا عبدالماجد دریابادی، سلیمان ندوی اور سیّدمودودی کی تحقیقات کا اختصاصی مطالعہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تفسیر ماجدی کا منہج و اسلوب سورة البقرۃ کی روشنی میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تفسیر ماجدی اور تفسیر معارف القرآن کا موازنہ سورة البقرۃ کے حوالے سے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تفسیر ماجدی کی روشنی میں یہودیت و نصرانیت کا خصوصی مطالعہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تفسیر ماجدی فہرستِ موضوعات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تفسیر ماجدی -ایک تحقیقی مطالعہ :فلسفہ جدیدہ اور تقابل ادیان کی روشنی میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تفسیر ماجدی کے مآخذ کا تعارف: سورة البقرۃ آیت 1 تا 14 کا خصوصی مطالعہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مطالعہ تفسیر ماجدی سورة البقرۃ آیت 44 تا 60 کا خصوصی جائزہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مطالعہ تفسیر ماجدی سورة البقرۃ آیت 75 تا 94 کا خصوصی جائزہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مطالعہ تفسیر ماجدی سورة البقرۃ آیت 95 تا 110 کا خصوصی جائزہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مولانا عبدالماجد دریا بادی کے تفسیری تفردات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تفسیر ماجدی سورة الفاتحہ اور سورة التوبۃ میں وارد احادیث کی تخریج

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تفسیر ماجدی میں مذکور کتب لغت و علوم قرآن کا تعارف: سورة البقرۃ کی آیت 31 تا 42 کا خصوصی مطالعہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تقابل ادیان کے اسالیب کا تفسیر ماجدی اور تفسیر القرآن الکریم سے مطالعہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تفسیر ماجدی اورمطالعہ تقابل ادیان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تفسیر ماجدی میں مولانا عبد الماجد دریا بادیؒ کی سورۃ آل عمران و سورۃ النساء میں تفسیری ترجیحات (تجزیاتی مطالعہ )

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

TOPICS

Quraanyaat , Quraaniyaat , URDU TRASLATION ,TAFSEER E QURAN, TAQABALI MUTALAA, mufassereen e quraan, tafseer, mufassereen e quraan, TARJUMA QURAAN, commentary, TEACHING OF QURAAN, URDU TAFSEER, AUTHENTIC TAFSEER, hakim ul ummat moulana ashraf ali thanvi, golden chain of thanvi mufassereen e QURAAN, URDU TRANSLATION OF QURAAN, URDU COMMENTARY, Comparative STUDY, MUALANA ABDUL MAJID DARYABADI, moulana abdul majid daryabadi,TAFSEER E MAJIDI URDU 7 VOLUMES ,MAULANA MUHAMMAD HASSAAN NOMANI NADWI, tafseeri afadaat, Tafsir, ISLAMIC_Literature, Historical Background of UrduTranslation, Need and Importance of Translation, Translation Meaning and Sources, Quranic_Interpretation, Tafsir, Translation, Islamic_Theology, Islamic_Education, Islamic_Studies, Quranic_Commentary, Religious_Scholarship, Islamic_Teaching, Quranic_Exegesis, Muslim_Scholars, Islamic_Thought, Quranic_Commentators, Quranic_Scholarship, quraanyaat,

اردو ترجمہ, تقابلی مطالعہ, پیام, پیغام, تعلیمات قرآن, قرآنیات, قرآنی فلسفہ, تعلیم و تربیت, مفسرین قرآن, درس قرآن, اردو تفسیر, مفسرین, علمائے اہل سنت و الجماعت, علمائے اہل سنت و الجماعت دیوبند, مترجمین قرآن, اردو ترجمہ قرآن, اردو ترجمہ, مولانا حسّان نعمانی ندوی, تھانوی مفسرین ِ قرآن اک سنہری شاخ, حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی, مولاناعبدالماجد دریا بادی, مستند تفسیر, توضیحی ترجمہ قرآن,تفسیر ماجدی 7  جلدیں, برصغیر کے فضلاء کی قرآنی خدمات, علمائے دیوبند کی قرآنی خدمات, مستند تفسیر,, اردو تراجم, تراجم, تفاسیر, تفسیر, تفسیری نکات, مترجم قرآن, مترجم قرآنیات, مترجمین قرآن, مفسر قرآن, مفسرین, مفسرین قرآن, بامحاورہ ترجمہ,  مختصر حاشیہ, تشریح,

 

No comments:

Post a Comment