تفسیر روح القرآن مع تفسیر جلالین (مترجم)
جلد اول پارہ 1 تا 5
اردو ترجمہ تفسیر جلالین از : مفتی عزیز الرحمن عثمانی ( مفتی اعظم و اول دارالعلوم دیوبند)
حاشیہ و تفسیر روح القرآن از : مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی
پیشکش : طوبی ریسرچ لائبریری
12 رمضان المبارک 1445 ہجری
TAFSEER ROOH UL QURAAN MAA TAFSEER JALALAIN
TARJUMA TAFSEER JALALAIN BY : MUFTI AZIZ U RAHMAN USMANI
TAFSEER ROOH UL QURAAN BY : MUFTI FUZAIL U RAHMAN HILAL USMANI
VOL : 1 ( PARA 1 TO 5)
#TOOBAA_POST_NO_598
مزید کتب کے لیئے دیکھیئے صفحہ " قرآنیات "۔
٭مفتی اعظم مولانا مفتی عزیز الرحمن عثمانی ؒ ٭(حیات ِ طیب سے اقتباس)
حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ فرماتے ہیں :
’’مفتیِ اعظم حضرت مولانا عزیز الرحمن عثمانی نور اللہ مرقدہٗ دارالعلوم دیوبند کے سب سے پہلے باضابطہ مفتی بلکہ دارالعلوم میں دارالافتاء کا نقطۂ آغاز ہیں ۔ دارالعلوم میں دارالافتاء کی منضبط صورت آپؒ ہی کے وجود سے معرض وجود میں آئی۔ آپؒ عارف باللہ، صاحب درس و تدریس، صاحب بیعت و ارشاد اور مربی اخلاق بزرگ تھے۔ آپ حضرت مولانا شاہ رفیع الدین صاحب دیوبندی قدس سرہٗ کے خلیفۂ مجاز تھے۔ جو حضرت مولانا شاہ عبد الغنی محدث دہلویؒ کے ارشد خلفاء میں سے تھے۔ آپؒ سے دارالعلوم کے حلقوں نے ظاہری و باطنی فیوض و برکات کا فی حد تک حاصل کیے۔ افتاء کی خدمات کے ساتھ ساتھ حدیث فقہ اور تفسیر کے اونچے اسباق بھی آپؒ پڑھاتے تھے۔ جلالین شریف میں احقر ناکارہ کو بھی حضرت مفتیِ اعظم ہی سے تلمذ حاصل ہے۔ آپؒ کا بیعت و ارشاد کا سلسلہ کافی پھیلا۔ آپؒ ہی کے خلیفۂ اعظم حضرت مولانا قاری محمد اسحاق صاحب میرٹھیؒ تھے۔ جن کے خلیفۂ مجاز حضرت مولانا سید بدر عالم صاحب میرٹھیؒ مہاجر مدنی تھے۔ جن سے عرب اور افریقہ میں نقشبندیہ طریق کا کافی شیوع ہوا اور سینکڑوں کی اصلاح ہوئی۔ سائوتھ افریقہ اور ایسٹ افریقہ کے لوگ جب حج کے لیے حاضر ہوتے تو اکثر و بیشتر مولانا بدر عالم صاحبؒ کے حلقۂ بیعت میں داخل ہوکر جاتے تھے۔ ابتداء میں حضرت مفتی اعظم ہی حضرت مولانا محمد احمد صاحبؒ (احقر کے والد ماجد) کی غیبوبت میں نیابت اہتمام کے فرائض انجام دیتے تھے۔ بہرحال دارالعلوم دیوبند آپ کے علم وسلوک ،فتاویٰ اور انتظام وغیرہ سے سارے ہی شعبوں میں مستفید ہوتا رہا ہے۔
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ فرماتے ہیں :
’’حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن عثمانی قدس سرہٗ کے علم و فضل کا یہ عالم تھا کہ آج ان کی تصنیف ’’عزیز الفتاویٰ‘‘ عہد حاضر کے تمام مفتیوں کے لیے مآخذ بنی ہوئی ہے اور فتاویٰ کے ساتھ شغف کا یہ حال تھا کہ وفات کے وقت بھی ایک استفتاء ہاتھ میں تھا جسے موت ہی نے ہاتھ سے چھڑا کر سینے پر ڈال دیا لیکن سادگی و تواضع اور خدمت خلق کایہ مقام تھا کہ یہ کوئی کیسے سمجھے کہ یہ بھی کوئی بڑے عالم یا صاحب کرامت صوفی اور صاحب نسبت شیخ ہیں ۔ جب کہ غایت تواضع کا یہ عالم ہو کہ بازارسے سودا سلف نہ صرف اپنے گھر کا بلکہ محلے کی بیوائوں اورضرورت مندوں کا سودا بھی خود لاتے بوجھ زیادہ ہو جاتا تو بغل میں گٹھڑی دبا لیتے اور پھر ہر ایک کے گھر کا سودا مع حساب کے اس کے گھر پہنچاتے تھے۔ کبھی تو اس سودا سلف لانے میں ایسا بھی ہوتا کہ جب آپؒ کسی عورت کو سودا دینے کے لیے جاتے تو وہ دیکھ کر کہتی کہ مولوی صاحب یہ تو سودا آپ غلط لے آئے ہیں ۔ میں نے تو یہ چیز اتنی نہیں اتنی منگائی تھی۔ چناں چہ یہ فرشتہ صفت انسان دوبارہ بازار جاتا اور اس عورت کی شکایت دور کرتا۔ بہرحال آپ اپنے ظاہری اور باطنی علمی و روحانی کمالات میں اپنی نظیر آپ تھے ساری زندگی درس و تدریس تبلیغ و ارشاد اور خدمت ِ افتاء میں مصروف رہے۔۱۷؍جمادی الثانی ۱۳۴۷ھ کو آپ نے دیوبند میں رحلت فرمائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭مفتیِ اعظم حضرت مفتی عزیز الرحمن عثمانیؒ حیات وخدمات ٭(تفصیلی مضمون)
بہ قلم: مولانا اشتیاق احمد قاسمی
ریسرچ اسکالر شعبۂ اردو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد
دارالعلوم دیوبند کے اولین مفتیِ اعظم حضرت مفتی عزیز الرحمن عثمانی دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ، تاریخ کی اُن عبقری شخصیات میں سے ہیں، جن کے بغیراسلامیانِ ہند کی تاریخ ادھوری کہلائے گی، آپ بلاشبہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے بعد طبقۂ دیوبند میں سب سے بڑے فقیہ ہیں، علمی تبحر اور فکری وسعت میں آپ کا کوئی ثانی نہیں، ایک فقیہ میں جتنے اوصاف وشروائط مطلوب ہیں، سب آپ کے اندر بہ درجۂ اتم موجود تھے، ان کے علاوہ صبر وتوکل، تقویٰ وطہارت، ریاضت وعبادت، جہدو مجاہدہ، امانت ودیانت، عدالت وثقاہت اور فہم وفراست کی بیش بہا دولت سے قدرت نے آپ کو نوازا تھا، آپ کا قلم زرنگار ایک طرف فقہ وفتاویٰ کی ژرف نگاری کا عادی تھا تو دوسری طرف شعر وادب، مقالہ نگاری اور مضمون نویسی میں، ہم عصروں کے لیے قابلِ رشک تھا۔ اردو، عربی اور فارسی تینوں زبانوں میں نظم ونثر پر بڑی قدرت تھی، ان سب کے باوصف آپ پر فُقاہت غالب تھی، آپ کو حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے مسندِ افتاء پر بٹھایا، آپ نے دارالافتاء کو رونق بخشی؛ بلکہ معیار واعتبار عطا کیا، آج تک فقہائے کرام آپ کے خوشہ چیں ہیں۔
حلیہ اور باطنی اوصاف: حضرت مفتی اعظمؒ کے پوتے مفتی فضیل الرحمن عثمانی نے اپنے بزرگوں سے سن کر اپنے دادا حضرت کا حُلیہ اس طرح رقم فرمایا ہے:
’’میانہ قد، نورانی چہرہ، خوب صورت سفید ریش مبارک، سرپرگول ٹوپی، بدن پر کرتا، مغلئی پاجامہ، کرتے پر صدری، صدری میں جیبی گھڑی، آنکھوں پر عینک، ہاتھ میں بید یا چھڑی۔
معصومیت کے پیکر، مرنجا مرنج، خاموشی پسند، اوپر کی سطح سمندر کی طرح خاموش اور اس کی تہ میں ذہانت، علم، عمل، تقویٰ وورع، دیانت وامانت، اخلاص ودل سوزی، ہمدردی وشفقت کے آب دار موتی۔‘‘ (فقیہ اعظم، ص:۱۱)
ولادت اوراسم گرامی: مفتی اعظم حضرت مفتی عزیز الرحمن عثمانی دیوبندیؒ کا تاریخی نام ’’ظفرالدین‘‘ ہے، آپ کی ولادت باسعادت دیوبند میں ۱۲۷۵ھ کو ہوئی۔ آپ تاریخی نام سے مشہور نہ ہوئے۔
نسب: حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب عثمانی رحمۃ اللہ علیہ دیوبند کے عثمانی شیوخ میں سے تھے، ان کا سلسلۂ نسب تینتالیس پشت پر بعد ذوالنورین خلیفۂ ثالث حضرت عثمانی غنی رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے، آپ کی اٹھارہویں پشت کی اولاد میں ’’خواجہ ابوالوفا عثمانی‘‘ کا نام آتا ہے، ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ موصوف جلال الدین کبیر الاولیاء پانی پتیؒ (متوفی۷۶۵ھ/۱۳۶۳÷) کے چچازاد بھائی تھے، یہ آٹھویں صدی ہجری میں دیوبند تشریف لائے اور یہیں محلہ ’’محل‘‘ دیوبند میں ہمیشہ کے لیے سوگئے۔ دیوبند کے ’’عثمانی شیوخ‘‘ انھیں کی اولاد ہیں۔
پورا شجرہٴ نسب اس طرح ہے:
(۱) حضرت مفتی عزیز الرحمن عثمانی (۲) مولانا فضل الرحمن عثمانی (۳) مراد بخش (۴) غلام محمد (۵) غلام نبی (۶) لطف اللہ (۷) محمدعاشق (۸) شیخ فرید عثمانی (۹) ابومحمد (۱۰) محمد حافظ (۱۱) شیخ محمد (۱۲) خواجہ عبدالمالک (۱۳) عبدالعزیز (۱۴) عبدالحکیم (۱۵) سعید (۱۶) شیخ محمد (۱۷) خواجہ فضل اللہ (۱۸) خواجہ ابوالوفاء (۱۹) عبید اللہ (۲۰) حسین (۲۱) عبدالرزاق (۲۲) عبدالحکیم (۲۳) حسن (۲۴) عبداللہ عرف ضیاء الدین (۲۵) یعقوب عرف معزالدین (۲۶) عیسیٰ (۲۷) اسماعیل (۲۸)محمد (۲۹) ابوبکر (۳۰) علی (۳۱) عثمان (۳۲) عبداللہ حرمانی (۳۳) عبداللہ گارزونی (۳۴)عبدالعزیز ثالث (۳۵) خالد (۳۶) ولید (۳۷) عبدالعزیز ثانی (۳۸) شہاب الدین المعروف بہ عبدالرحمن اکبر (۳۹) عبداللہ ثانی (۴۰) عبدالعزیز (۴۱) عبداللہ الکبیر (۴۲) عمرو (۴۳)امیرالمؤمنین عثمان بن عفان بن ابوالعاص بن امیہ بن عبدشمس بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مُرہ بن کعب بن لوی بن غالب (فقیہ اعظم، ص:۷)
والد ماجد: حضرت مفتی اعظم کے والد ماجد حضرت مولانا فضل الرحمن عثمانیؒ (متوفی ۱۳۲۵ھ/ ۱۹۰۷÷) دارالعلوم دیوبند کے اولین چھ ارکان شوریٰ میں سے ہیں، قیام دارالعلوم دیوبند کی تحریک میں آپ کا نام بہت نمایاں ہے، ابتدائی تعلیم دیوبند میں حاصل کی، پھر مدرسہ غازی الدین کشمیری گیٹ میں بقیہ نصاب کی تکمیل فرمائی، یہی وہ مدرسہ ہے جس کا نام انگریزوں نے ’’قدیم دلّی کالج‘‘ سے بدل دیا، وہاں استاذ الکل مولانا مملوک العلی سے آپ نے کسبِ فیض کیا، فارسی ادب سے مناست زیادہ تھی، شعر وادب سے خصوصی دلچسپی تھی، حضرت مولانا اصغرحسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ موصوف کو ’’خاقانیِ ہند‘‘ کہتے تھے، تاریخ گوئی میں بھی مہارت تھی، بہت جلد مادئہ تاریخ نکال لیتے تھے۔
حکومتِ ہند کی طرف سے محکمۂ تعلیم میں مدارس کے ’’ڈپٹی انسپکٹر‘‘ کے عہدہ پر فائز تھے۔
آپ نے بیالیس سال (۱۲۸۳-۱۳۲۵ھ) دارالعلوم دیوبند کی بے لوث خدمت کی ہے۔
آپ کے آٹھ صاحب زادوں میں حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب کے علاوہ کئی ایک نے بڑا نمایاں مقام حاصل کیا، جیسے حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی اور علامہ شبیر احمد عثمانیؒ وغیرہ۔
پوتوں میں قاری جلیل الرحمن صاحب عثمانی دارالعلوم دیوبند میں استاذ رہے اور پڑپوتوں میں حضرت مفتی کفیل الرحمن نشاطؔ عثمانیؒ، دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء میں نائب مفتی رہے، شاعری میں بھی آپ کا مقام بلند تھا، درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں۔ آج بھی آپ کے ایک پڑپوتے جناب مولانا سہیل عزیز دارالعلوم دیوبند کے شعبۂ دینیات میں استاذ ہیں۔
تعلیم وتربیت: حضرت مفتی اعظمؒ کی ابتدائی تعلیم وتربیت اپنے گھر کے دینی ماحول اور دیوبند کے مکتب میں ہوئی، علم حدیث وفقہ کی تکمیل آپ نے ۱۲۹۸ھ میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ سے کی، علومِ ظاہری کی تکمیل کے بعد علومِ باطنی کی تکمیل کے لیے آپ نے حضرت مولانا رفیع الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بیعتِ سلوک کیا؛ بالآخر انھیں کے جانشین اور خلیفہ ہوئے۔ (فقیہ اعظم، ص:۱۲)
خدمتِ تدریس: فراغت کے بعد درس وتدریس کے لیے آپ میرٹھ تشریف لے گئے اور تقریباً دس سال (۱۳۰۸ھ) تک وہیں رہے، خلقِ خدا آپ کے فیوض سے بہرہ ور ہوتی رہی۔
دارالعلوم دیوبند میں آپ کی آمد: ۲۷؍ربیع الاول ۱۳۰۹ھ میں آپ کو دارالعلوم دیوبند بلایاگیا، یہاں آکر آپ نے تدریس کے ساتھ، نیابتِ اہتمام کا عہدہ بھی سنبھالا۔ دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء میں فتویٰ نویسی کا کارنامہ ان میں سب سے نمایاں ہے۔
دارالعلوم دیوبند میں افتاء کے منصب پر: ایشیا کی عظیم دینی درس گاہ دارالعلوم دیوبند میں دارالافتاء کا آغاز حضرت مفتی اعظمؒ کے آنے کے ایک سال بعد ۱۳۱۰ھ میں ہوا، اتفاق سے اس کارِعظیم کے لیے ایسی شخصیت کا انتخاب عمل میں آیا جو گویا اسی کے لیے پیداہوئی تھی، حضرت حکیم الاسلامؒ فرماتے ہیں:
’’دارالعلوم دیوبند جیسے علمی مرکز کے دارالافتاء کے لیے ایک ایسی شخصیت کی ضرورت تھی جس میں خود بھی مرکز بن جانے کی صلاحیتیں موجود ہوں اور علم وتفقہ کی امتیازی استعداد کے ساتھ صلاح وتقویٰ اور برگزیدگی کی شانیں اس میں موجود ہوں؛ چنانچہ قیام کے منصوبے کے ساتھ یہاں کے اکابر کوپہلی فکر منصبِ افتاء اور خصوصیت کے ساتھ دارالعلوم جیسے مقدس ادارہ کے دارالافتاء کے شایانِ شان مفتی کے انتخاب کی ہوئی جس کے مضبوط کاندھوں پر اس عظیم ترین منصب اور وزن دار ادارے کا بار رکھا جائے۔‘‘
مزید لکھتے ہیں:
’’حضرت اقدس (مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہٗ سرپرستِ ثانی دارالعلوم دیوبند) نے اپنی فراستِ باطنی سے وہ تمام جوہر جو ایک ذمہ دار مفتی میں درکار ہیں حضرت مفتی اعظمؒ میں دیکھ کر آپ کو عہدئہ افتاء کے لیے نام زد فرمایا؛ اس لیے حضرت مفتی اعظم دارالعلوم کے مفتی ہی نہیں؛ بلکہ یہاں کے عہدئہ افتاء کا نقطئہ اول بھی ہیں، جس کاآغاز ہی حضرت ممدوح کی ذات گرامی سے کیاگیا، آپ یہاں کے قصرِ افتاء کے لیے خشتِ اول ثابت ہوئے جس پر آگے کی تعمیر کھڑی ہوئی۔‘‘ (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ۱/۳۴، ۳۶ مکتبہ دارالعلوم دیوبند پہلی اشاعت)
طرز فتویٰ نویسی: فتاوی نویسی میں آپ عبارت آرائی اور لفاظی سے گریز کرتے اور بھاری بھرکم فقہی الفاظ و اصطلاحات استعمال نہ فرماتے تھے؛ بلکہ آپ کا اندازِ بیان بالکل سادہ، رواں دواں اور برجستہ ہوتا تھا، ہر عام اردو خواں آپ کے فتوے کو سمجھ لیتا تھا؛ اسی کے ساتھ ہر لفظ حقیقت شناسی کا آئینہ دار ہوتا تھا، آپ کے فتاویٰ کے مرتب استاذ محترم حضرت مفتی محمد ظفیرالدین مفتاحی رحمۃ اللہ علیہ (مفتی دارالعلوم دیوبند) اپنا تأثر اس طرح بیان فرماتے ہیں:
’’آپ کا اندازِ فکر بالکل سلجھا ہوا صاف ستھرا اور پختہ تھا، کہیں کسی مسئلہ میں آپ تذبذب کی راہ اختیار نہیں کرتے؛ بلکہ مسائل کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں اور جو جوابات تحریر فرماتے ہیں وہ ہر پہلو سے ٹھوس اور مکمل ہیں، کمال یہ ہے کہ دماغ اور حافظہ کبھی خیانت نہیں کرتا، ذہن جب جاتا تو صحت ہی کی طرف، یہی وجہ ہے کہ جوابات بے جا طول اور تکلیف دہ اختصار سے پاک ہیں، اندازِ بیان سلیس اور جامع، معمولی لکھا پڑھا آدمی بھی آسانی کے ساتھ آپ کا جواب سمجھ لیتا ہے، کسی کو کوئی الجھن پیش نہیں آتی ہے۔‘‘
آگے لکھتے ہیں:
’’حضرت مفتی صاحب قدس سرہٗ کا کمال یہ ہے کہ ’’عرفِ زمانہ‘‘ سے کبھی صرفِ نظر نہیں کرتے؛ بلکہ اس پر گہری نظر رکھتے ہیں، اگر کسی مسئلہ کے دو محتلف مفتی بہ پہلو ہیں، تو ایسے موقع پر آپ سہل پہلو کو اختیار کرتے ہیں اور اسی پر فتویٰ دیتے ہیں، ایسی صورت ہرگز اختیار نہیں کرتے جو عوام کے لیے مشکلات پیدا کرنے والی ہو۔‘‘
حضرت مفتی صاحبؒ مزید لکھتے ہیں:
’’اسی طرح فتویٰ ہمیشہ مفتی بہ قول پر دیا کرتے تھے، بڑے سے بڑا عالم بھی اس کے خلاف اپنا رجحان ظاہر کرتا ہے تو اس کی پرواہ نہیں کرتے، جیسے تشہد میں ’’اشارہ بالسبّابہ‘‘ کا مسئلہ ہے، اس میں حضرت مجدد الف ثانیؒ نے مکتوبات میں عدمِ جواز لکھا ہے؛ مگر اسے آپ تسلیم نہیں کرتے۔‘‘ الخ
فتویٰ نویسی کی مزید خصوصیت بیان کرتے ہوئے حضرت مفتی صاحب لکھتے ہیں:
’’اگر کوئی کسی حکم کی علت دریافت کرتا ہے اور عوام میں سے ہے تو اُسے صرف اتنا لکھ کر خاموش کردیتے ہیں کہ خدا ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا ہی حکم ہے؛ لیکن اگر کوئی عالم پوچھتا ہے تو اسے علمی انداز میں حکم کی روح سمجھانے کی سعی کرتے ہیں۔‘‘ (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، ۱/۱۲۳ مکتبہ دارالعلوم دیوبند پہلی اشاعت)
حضرت گنگوہیؒ سے مکاتبت: حضرت مفتی اعظمؒ کو حضرت گنگوہیؒ نے دارالافتاء کے لیے منتخب فرمایا تھا،اگر کوئی مشکل پیش آتی تو ملاقات کے وقت زبانی ورنہ خط کے ذریعہ اسے حل فرماتے تھے، انھیں میں سے ایک مکتوب ہے، جس میں حضرت کے ایک اشکال کا جواب ہے، حضرت مفتی اعظم اپنے ایک مضمون میں ارقام فرماتے ہیں (جس کو حضرت مولانا عاشق الٰہی میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ نے تذکرۃ الرشید میں شامل فرمایا ہے):
’’بندہ نے ایک عریضہ میں مِن جملہ چند سوالات کے ایک یہ بھی سوال کیا کہ آیت: ’’وَأنْ لَیْسَ للإنسان إلّا ما سعٰی‘‘ (ترجمہ: اور انسان کے لیے بس وہی ہے جس کی اس نے کوشش کی) سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو سوائے اپنے اعمال کے دوسروں کے اعمال سے نفع نہیں پہنچتا؛ حالاںکہ احادیث سے نفع پہنچنا محقق ہے اور جمہور صحابہ وائمہ کا یہ مذہب ہے۔
اس کے جواب میں من جملہ دیگر جوابات معروضہ کے یہ معنی بھی ارقام فرمائے کہ ’’ماسعیٰ‘‘ سے مراد سعیِ ایمانی لی جاوے تو پھر کچھ خدشہ اور تعارض نہیں؛ کیوںکہ حاصل اس صورت میں یہ ہے کہ انسان کو بدونِ سعی ایمان وبلا حصول وتحققِ ایمان کسی عمل سے نفع معتدبہ نہیں پہنچ سکتا، پس غیر کے اعمال کا نفع بھی اس کو اُسی وقت پہنچ سکتا ہے کہ اس کے اندر ایمان ہو اور سعی ایمانی اسی کی ہو؛ پس درحقیقت انسان کے لیے اپنی ہی سعی سے نفع پہنچتا ہے۔‘‘
آگے مزید لکھتے ہیں:
’’حضرت (گنگوہی) رحمۃ اللہ علیہ کے چند مکتوبات مطبوع ہوے تھے، اُن میں یہ مکتوب موجود ہے، مفصل اس میں دیکھ لیا جاوے۔‘‘ (تذکرۃ الرشید، ج۱، ص:۲۶-۲۷)
مفتیِ اعظم حضرت مفتی عزیز الرحمن عثمانیؒ حیات وخدمات (۲)
ایک غلط تاریخی روایت: راقم الحروف یہاں یہ بات عرض کرنا مناسب سمجھتا ہے کہ علمائے دیوبند کی بہت سی تحریروں اور تقریروں میں یہ بات دیکھنے اور سننے کو ملی کہ ”حضرت مفتی عزیزالرحمن عثمانی دیوبندی رحمة اللہ علیہ کو رات کے وقت مذکورہ بالا آیت میں اشکال پیش آیا اور آپ نے راتوں رات گنگوہ کا سفر کیا اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نے تہجد کے وقت برجستہ جواب دیا۔ حضرت مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی مدظلہ العالی نے بھی اپنے دادا کی مختصر سوانح (فقیہ اعظم) میں اس واقعہ کو لکھاہے، یہ ساری تفصیلات بے اصل ہیں، صحیح بات وہ ہے جو حضرت مفتی اعظم نے خود اپنے قلم سے تحریر فرمائی ہے کہ ایک عریضہ (خط) کے جواب میں اس اشکال کا جواب عنایت فرمایا تھا۔
فقہ وفتاویٰ پر آپ کی دست رس: علم حدیث کے ساتھ فقہ وفتاویٰ میں بھی قدرت نے آپ کو غیرمعمولی دست رس عطا فرمائی تھی، حالاتِ حاضرہ کے مشکل ترین مسائل کو آپ نہایت ہی آسان انداز میں حل فرمادیا کرتے تھے، چند ہی دنوں میں آپ کے لکھے ہوئے فتاویٰ ہندوبیرون ہند میں متعارف ہوکر مقبول عام ہونے لگے۔
حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ رقم طراز ہیں:
”بڑے بڑے اہم فتاویٰ جن کو مرتب کرنے میں اگر آج کے مفتی اور ماہر علماء مشغول ہوں تو مراجعتِ کتب کے بعد بھی شاید دنوں اور ہفتوں کی سوچ بچار کے بعد بھی فتویٰ کا وہ سہل عنوان اختیار نہ کرسکیں گے جو حضرت ممدوح قلم برداشتہ اس طرح بے تکلف لکھ جاتے تھے جیسے روز مرہ کی معمولی باتیں ڈائری میں لکھ دی جاتی ہیں۔“
آگے لکھتے ہیں:
”کوئی مسئلہ جب عُقدئہ لا ینحل ہوجاتا تھا اور علماءِ وقت آپ کی طرف رجوع فرماتے تھے تو آپ کا جواب آپ کی خدادا د علمی بصیرت اور فقہ فی الدین کے سبب قاطعِ شک وشبہات ہوتا تھا؛ بلکہ عموماً ایسے مسائل میں آپ کا اسمِ گرامی سامنے آجانا ہی علمائے عصر کے لیے تسلی وطمانینت کا باعث ہوتا تھا۔“ (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۱/۲۷)
فتویٰ نویسی کی مدت اور تعدادِ فتاویٰ: حضرت مفتی اعظم کا تقرر ۱۳۰۹ھ میں ہوا، اس کے اگلے سال دارالافتاء کا قیام عمل میں آ یا اور آپ کے ذمہ فتویٰ نویسی کا کام سپرد ہوا، تب سے مسلسل چھتیس سال (۱۳۴۷ھ) تک آپ فتویٰ نویسی کرتے رہے۔
آپ کے فتاویٰ کی صحیح تعداد معلوم نہیں، بہت سے فتاویٰ کو حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمة اللہ علیہ نے ”عزیز الفتاویٰ“ کے نام سے شائع فرمایاہے اور دارالعلوم دیوبند سے ”فتاویٰ دارالعلوم دیوبند“ کی اٹھارہ جلدیں شائع ہوچکی ہیں، سب آپ ہی کے قلم سے لکھے ہوئے ہیں، وہ فتاویٰ جو دارالافتاء کے ریکارڈ میں منقول ہیں، اُن کی تعداد سینتیس ہزار، پانچ سو اکسٹھ (۳۷۵۶۱) ہے، یہ گنتی سوالات کے لفافوں کے لحاظ سے ہے، مسائل کی تعداد کے لحاظ سے نہیں؛ ہر مستفتی ایک لفافے میں چند سوالات پوچھتا ہے، کسی میں دو، کسی میں چار اور کسی میں ان سے زیادہ سوالات ہوتے ہیں، اتفاق سے ہی کسی لفافہ میں ایک سوال ہوتا ہے،اس طرح اگر دیکھا جائے تو حضرت مفتی اعظم کے لکھے ہوئے فتاویٰ کی تعداد لاکھ سے متجاوز ہوجائے گی۔
اس کے علاوہ یہاں ایک اور بات ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ جب دارالعلوم میں دارالافتاء کا آغاز ہوا تو ابتدائی انیس سالوں تک (۱۳۱۰ھ تا ۱۳۲۹ھ) نقول محفوظ رکھنے کا اہتمام نہیں کیاگیا۔ گویا فتویٰ نویسی کی آدھی مدت ایسی ہے جس کا ریکارڈ محفوظ نہیں ہے، اس طرح حضرت کے فتویٰ کی تعداد نفس الامر میں دوڈھائی لاکھ سے کم نہیں ہوگی، واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
(تفصیل کے لیے دیکھیے، فقیہ اعظم، ص:۱۴-۱۵)
تدریسی خدمات: کسی بھی فقیہ کے اندر فتویٰ نویسی کی صلاحیت اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتی؛ جب تک کہ وہ قرآن وسنت کا گہرا علم نہ رکھتا ہو، فقہ، اصول فقہ، حدیث، اصول حدیث، تفسیر، اصولِ تفسیر اور دیگر علوم میں جب تک گہرائی وگیرائی نہیں ہوتی اس وقت تک فتویٰ نویسی جیسی حساس ذمہ داری آدمی ادا نہیں کرسکتا۔
حضرت مفتی اعظم افتاء کے ساتھ درس وتدریس کا شغل بھی رکھتے تھے، وہ ابتدائی دور تھا،اس وقت مفتی مدرس بھی ہوتا تھا، حضرت مفتی اعظم نے فقہ، حدیث اور تفسیر سب کے اسباق پڑھائے ہیں، بڑی بڑی باریک تحقیقات جو آپ کے ذہن رسا کی پیداوار ہوتی تھیں اُن کو کبھی اپنی طرف منسوب نہیں فرماتے تھے؛ بلکہ بہ طور احتمال ارشاد فرماتے: ”اس مسئلہ میں ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے۔“ حالاں کہ وہ ان کی تحقیق ہوتی تھی؛ مگر کبھی بھی یوں نہیں فرماتے تھے کہ اس مسئلہ میں میری رائے اور تحقیق یہ ہے۔
حضرت مفتی اعظم کے سینتیس سالہ دور میں جتنے طلبہ دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوئے سب نے آپ سے کسبِ فیض کیا ہے۔
حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ نے بھی آپ سے متعدد کتابیں پڑھی ہیں، فرماتے ہیں:
”مجھے سعادت حاصل ہے کہ میں نے جلالین شریف، موطا امام مالک، موطا امام محمد اور طحاوی شریف حضرت اقدس سے پڑھی ہے۔“ (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ۱/۴۳، مکتبہ دارالعلوم دیوبند)
قلمی خدمات: حضرت مفتی اعظم کا حقیقت ریز قلم ہر وقت متحرک رہا، آپ نے روزانہ آنے والے سوالات کے جواب بھی قلم بند فرمائے، جب ماہ نامہ”القاسم“ اور ماہ نامہ” الرشید“ کو علمی مضامین کی ضرورت پیش آئی، بلاتاخیر مضمون لکھ کر حاضر کردیا، کسی عربی کتاب کے اردو ترجمہ کی ضرورت محسوس کی تو اس سے بھی صرفِ نظر نہیں فرمایا، آپ کے بہت سے اہم فتاویٰ مذکورہ بالا دونوں ماہ ناموں میں طبع ہوتے رہے؛ غرض یہ کہ حضرت کا اشہبِ قلم علمِ دین کی اشاعت اور اسلام کی صحیح اور معتدل ترجمانی کے لیے ہر لمحہ متحرک اور رواں دواں رہا، درج ذیل نگارشات سے اس کا اندازہ کیاجاسکتا ہے:
۱- ”منحة الجلیل في بیان ما في معالم التنزیل“ حضرت مفتی اعظم کا مقام فقہ کی طرح علم تفسیر وحدیث میں بھی کافی بلند تھا، اسی وجہ سے آپ نے کئی تفسیروں کے ترجمے کیے، ان میں علامہ حسین بن مسعود بغوی (۱۰۴۴-۱۱۲۲ھ) کی مشہور ومعروف تفسیر بھی ہے، اس کا نام ”معالم التنزیل“ ہے،اس کو اہلِ علم ”تفسیر بغوی“ سے یاد کرتے ہیں، اس کی افادیت کا ہر ایک اعتراف کرتا ہے، خصوصاً حلِ لغات میں یہ تفسیر بے مثال مانی جاتی ہے۔ حضرت مفتی اعظم نے اردو داں حلقوں کو اس سے واقف کرانے کے لیے اس کا ترجمہ کیا، اردو ترجمہ کا نام ”منحة الجلیل في بیان ما في معالم التنزیل“ رکھا، جو ”مطبع باغ کلام نور، آگرہ“ سے شائع ہوکر مقبول عام ہوا۔ اس کا نسخہ ”جامعہ ہمدرد دہلی“ کی لائبریری میں موجود ہے، یہ بات ناچیز کو حضرت مولانا مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی مدظلہ العالی نے آج (۲۰۱۷/) سے تین سال پہلے خط کے ذریعہ بتائی۔
۲- ”تفسیر روح القرآن“: یہ بھی حضرت مفتی اعظم کی تفسیر ہے جو سات جلدوں میں مکمل ہوئی ہے، دارالعلوم دیوبند کے کتب خانہ میں اس کی چند جلدیں موجود ہیں اس کو ”فیصل پبلشرز دیوبند“ نے دوبارہ شائع کیا ہے۔
۳- ”ترجمہٴ تفسیر جلالین“ : علامہ جلال الدین عبدالرحمن بن کمال الدین سیوطیؒ(۸۴۹-۹۱۱ھ) اور علامہ جلال الدین محمد بن احمد محلیؒ(۷۹۱-۸۶۴ھ) کی مشہور ومفید ترین تفسیر جلالین کا بھی آپ نے ترجمہ کیا؛ تاکہ اس کی افادیت کا دائرہ وسیع ہوجائے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس پر حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی کے تصدیقی کلمات بھی موجود ہیں، یہ سب سے پہلے ۱۳۱۴ھ میں مطبع ریاض ہند اکبرآباد (آگرہ) سے شائع ہوا، اس کو دو بارہ فیصل پبلشرز دیوبند شائع کیا ہے۔
۴- ”عزیز الفتاویٰ“: یہ حضرت مفتی اعظم کے فتاویٰ کا مجموعہ ہے، جو حضرت مفتی محمدشفیع دیوبندی رحمة اللہ علیہ نے مرتب فرمایا ہے۔
صاحبِ فتویٰ اور مرتب دونوں عظیم ترین صاحبِ قلم اور فقہ وفتاویٰ میں عبقریت کے حامل ہیں، مجموعہٴ فتاویٰ نہایت مفید اور متداول ہے۔ قارئین ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔
۵- ”فتاویٰ دارالعلوم دیوبند“ (۱۸جلدیں): حضرت مفتی اعظم کے فتاویٰ کی ترتیب کا کام دارالعلوم دیوبند سے نہایت ہی اہتمام سے ہوا، ۱۳۷۴ھ سے باقاعدہ ایک ملازم کے ذریعے کام شروع ہوا، حضرت الاستاذ مفتی ظفیرالدین مفتاحی رحمة اللہ علیہ مفتی دارالعلوم دیوبند نے اس کی بارہ جلدیں مرتب فرمائیں، پھر یہ کام باضابطہ طور پر حضرت الاستاذ مفتی محمد امین پالن پوری مدظلہ کی نگرانی میں آگے بڑھا اور اٹھارہ جلدوں میں فتاویٰ کی تجمیع وتحقیق مکمل ہوئی، مکتبہ دارالعلوم دیوبند نے ان فتاویٰ کو نہایت ہی اہتمام سے شائع کیا اور اہلِ علم اور اصحابِ ذوق تک پہنچایا۔
اب باضابطہ طورپر ازسرِنو نئی تحقیق کے ساتھ شروع سے جلدیں شائع ہورہی ہیں؛ اس کے لیے باضابطہ شعبہ ہے، اس میں کوڈ لگانے والے، کمپوزنگ کرنے والے، تصحیح و تحقیق کا کام کرنے والے سب کے لیے الگ الگ افراد ہیں، امید ہے کہ مستقبل میں اس شعبہ کا کام اور آگے بڑھے گا اور پھیلے گا۔
یہاں یہ ذکر کرنا بھی مناسب ہے کہ اس کام کے اولین محرک حضرت مولانا محمد منظورنعمانی رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند ہیں، موصوف نے حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ کو لکھنوٴ کے ایک سفر میں متوجہ فرمایا، جب حضرت مہتمم صاحب نے اس کام کے لیے حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی سے مشورہ کیاتو آپ نے ’الہامی تجویز“ قرار دیا،اس کے بعدباضابطہ طور پر شوریٰ کی اجازت سے یہ کام شروع کیاگیا، اس کی تفصیل حضرت حکیم الاسلام کی زبانی سنیے:
”لکھنوٴ کے ایک سفر کے دوران مولانا محمد منظور صاحب نعمانی مدیر ”الفرقان“ لکھنوٴ وممبر مجلس شوریٰ دارالعلوم کی اتفاقی معیت ریل میں ہوگئی اور ممدوح نے حسنِ اتفاق سے اس تڑپ کا اظہار فرمایا جو احقر کے دل میں پہلے سے موج زن تھی، دورائیں مجتمع ہونے سے قدرتی طور پر اصل رائے اور جذبہ میں قوت پیدا ہوگئی، احقر نے اسی تفصیل سے یہ رائے بہ طور استشارہ اس دور کے شیخ الافتاء حضرت مولانا اعزاز علی صاحب مرحوم کے سامنے رکھی آپ نے نہ صرف اس رائے سے اتفاق ہی فرمایا؛ بلکہ اسے ایک الہامی تجویز بتلاکر میری کافی حوصلہ افزائی فرمائی، جس سے قوت رائے کے ساتھ اس بارے میں عزمِ عمل بھی پیداہوگیا اوراحقر نے ایک باضابطہ تجویز دارالافتاء میں بھیج کر ترتیبِ فتاویٰ کا کام شروع کرادیا۔
الحمدللہ تھوڑی ہی مدت کے بعد ترتیب فتاویٰ کا ایک معتدبہ ذخیرہ بہ طور نمونہ احقر کے سامنے لایا گیا، عمل کا ایک نمونہ سامنے آجانے پر احقر نے اس خیال کو مجلسِ شوریٰ دارالعلوم کے سامنے رکھا، مجلس نے کافی حوصلہ افزائی کے ساتھ طے کیا کہ اس ذخیرئہ فتاویٰ کی مزید ترتیب اور تفصیل کے لیے ایک مستقل شعبہٴ ترتیب فتاویٰ قائم کیا جائے اور ایک مستقل مرتبِ فتاویٰ کی منظوری دی۔“ (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ۱/۵۹، مکتبہ دارالعلوم دیوبند اشاعت اول)
۶- ”چند مضامین“: (۱) حضرت مفتی اعظم نے دارالعلوم کے ماہ نامہ”القاسم“ اور ماہ نامہ ”الرشید“ سے اپنا تعلق ہمیشہ باقی رکھا، ان کے فائلوں میں آپ کے رشحاتِ قلم کی اچھی خاصی مقدار موجود ہے، حضرت مولانا مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی رقم طراز ہیں:
”اس میں دو طویل مضمون خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں، جن کے مجموعی صفحات پانچ سو کے قریب ہیں، ایک مضمون: ”شریعت متکفل جمیعِ سعادات“ کے عنوان سے ہے اور دوسرا مضمون: ”مبدأ اور معاد“ کے عنوان سے ہے۔ یہ دونوں مضمون حضرت مجدد الف ثانی کے مکتوبات کی روشنی میں ان کی تلخیص اور تشریحی نوٹ کے ساتھ ہیں۔“ (فقیہ اعظم، ص:۱۹)
(۲) ”تذکرة الرشید“ کی دوسری جلد میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة اللہ علیہ کی ذات پر لکھا گیا ایک خاکہ شامل ہے، یہ (صفحہ نمبر ۲۰ تا ۲۹) کل دس صفحات پر مشتمل ہے، اس کا عنوان ہے: ”عند الذکر الصالحین تتنزل الرحمة“ اس میں حضرت گنگوہی کے معمولات،امتیازات، علمی تفوق وبرتری، جرأت ودلیری، اپنے خواب اور حضرت گنگوہی کی تعبیر، ملاقات، مکاتبت ومراسلت کے ذریعے علمی استفادہ وغیرہ کو تفصیل سے ذکر فرمایا ہے، اخیر میں ”حیات النبی“ کے سلسلے میں حضرت گنگوہی کے بتائے ہوئے مضمون کو اس طرح بیان فرمایاہے:
”موت سب کو شامل ہے؛ مگر انبیاء کی ارواح مشاہدئہ جمال وجلالِ حق تعالیٰ وتقابلِ آفتابِ وجود باری سے اس درجہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ اجزائے بدن پراُن کا اثر ہوتا ہے کہ تمام بدن حکم روح پیداکرلیتا ہے اور تمام جسم اُن کا عینِ ادراک اور عینِ حیات ہوجاتا ہے اور یہ حیات دوسری قسم کی ہے، اس تحقیق سے نکتہ انَّ اللّٰہَ حَرَّمَ علی الأرضِ أن تَأْکُلَ أَجْسَادَ الأنبیاء (نسائی: ۱۳۷۴، ابوداؤد: ۱۰۴۷) ظاہر ہوتا ہے۔“ (تذکرة الرشید:۲/۲۹)
ادبی ذوق: حضرت مفتی اعظم کو فقہ وفتویٰ کے ساتھ زبان وادب کا بھی نہایت اعلیٰ ذوق تھا، عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں پر عبور تھا اور ان سب میں برجستہ شاعری بھی کیا کرتے تھے، اکثر کسی کی رحلت اور وفات سے متأثر ہوکر آپ نے مرثیائی نظمیں کہی ہیں۔ غالباً ان کا تخلص ”عزیز اور محمود“ تھا۔
۱۳۳۷ھ میں حضرت مولانا عبدالرحیم رائے پوری رحمة اللہ علیہ رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند کی وفات ہوئی، موصوف کی وفات حسرت آیات سے متأثر ہوکر آپ نے عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں مرثیے کہے ہیں۔ بطور نمونہ اردو مرثیہ پیش خدمت ہے(عربی و فارسی مرثیہ دارالعلوم دیوبند کی ویب مذکورہ مضمون کے لنک پر دستیاب ہیں)
اردو مرثیہ
مرشد و رہنما حلیم و کریم حضرت شیخ عصر عبدالرحیم
گوہرِ شاہوار عرفان تھے اور حقیقت کے تھے وہ در یتیم
تھے سراپا تواضع واخلاق حق نے اس کو دیا تھا قلبِ سلیم
ماحیِ بدعت ضلالت تھے حامی سنتِ نبیِ کریم
جانشین رشید عالم تھے قاسم خیر کے حبیب وندیم
یادِ حق میں فنا و مستغرق تھی اسی سے جو تھی امید وبیم
فرد عالم ضیائے ملت و دین ناصح عالم وشفائے سقیم
فانی و باقی و صفی و نقی ہادی و مہدی و رضی و حلیم
تھے سخاوت میں حاتم طائی زہد وتقویٰ میں ان کا مثلِ عدیم
ذکر حق تھاغدائے روحانی فکرِ عقبیٰ تھا پس انیس وندیم
مظہرِ کامل صفاتِ کمال مجمع صبر و شکر و خلقِ عظیم
خدمتِ دیں میں تھے کمر بستہ خادمِ ملت و صراطِ قویم
سالکِ راہِ حق بہ صدق ویقیں طالبِ رحمت و رضائے کریم
مجلسِ علم کے سراجِ منیر محفلِ فقر کے امامِ عظیم
کوہِ حلم و وقار و تقویٰ تھے بحر جود و سخا و لطیفِ عمیم
قطبِ عالم سے فیض تھا ان کا تھی وہی تمکنت وہی تعلیم
مدح و ذم میں جہانیاں یکسر تھے برابر پئے رضائے کریم
قطبِ دور ولایت و ارشاد غوثِ اقطاب و مرشدِ اقلیم
مسجدیں ان کی ذات سے آباد تھے مدارس کے معتمد وندیم
تھے مطاع ومعظم و ذی شان ان کی کرتے ملائکہ ، تکریم
جامعِ علم و حلم و زہد و رضا بحرِ جود و کرم کے درِّ یتیم
خادمِ سنت و کلام مجید قاری و حافظ تقی و حلیم
رافعِ رایت ، شریعت و دیں بائن و کائن و رشید و کریم
ساتھ تھے حق کے باہمہ احوال ان کے سایہ سے بھاگتا تھا رجیم
سایہٴ حق پئے سعید ازل قہر حق از پئے شقی و لئیم
ظلِّ یزداں امام اہلِ ہُدیٰ رحمتِ حق نعیم اہلِ نعیم
اہلِ باطل سے ضد لوجہ اللہ اہلِ حق کے مدام حُبِّ صمیم
حُبِّ حق میں فنا رہے دائم شائقِ وصل وفضلِ رب کریم
عاقبت ان کی ہوگی محمود
سنِ رحلت ہے ”درکِ فوز عظیم“
تاریخ گوئی: تاریخ گوئی ایک فن ہے جس میں کسی کی ولادت، وفات اور کارنامے کو ایسے الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کے حروف کی گنتیوں سے اس کی تعیین ہوجاتی ہے، نظم و نثر دونوں میں تاریخی مواد نکالے جاتے ہیں، حضرت مفتی اعظم کو اس فن میں بھی دست گاہ حاصل تھی، آپ نے بہت سے بزرگوں کی رحلت پر تاریخ گوئی کی ہے۔
سلوک و احسان: حضرت مفتی اعظم کو اللہ تعالیٰ نے ظاہری اور شرعی علوم کے ساتھ ساتھ باطنی علوم بھی عطا فرمائے تھے، طریقت میں آپ نقشبندی مجددی تھے، حضرت مولانا رفیع الدین صاحب رحمة اللہ علیہ مہتمم ثانی دارالعلوم دیوبند کی تربیت میں رہے، ریاضت ومجاہدہ سے مزاج میں یکسوئی حاصل ہوگئی، گوشہ نشینی کا لطف آنے لگا۔ اس سلسلے میں آپ کے بہت سے واقعات ہیں، طوالت کے خیال سے ان کو چھوڑا جاتا ہے۔
غرض یہ کہ حضرت مفتی اعظم کو اپنے شیخ سے خرقہٴ خلافت بھی عطا ہوا تھا، آپ نے سلوک و احسان کی راہ سے بھی خلقِ خدا کی خدمت کی، آج بھی آپ کے خاندان میں آپ کے بتائے ہوئے معمولات کی باقیات نظر آتی ہیں، مسجد عزیز دیوبند میں عام مصلیان بھی اُن سے مستفید ہوتے ہیں۔
دیوبند سے استعفاء اور ڈابھیل میں تقرر:
دارالعلوم دیوبند کی وہ اسٹرائک جو علامہ انور شاہ کشمیری کے زمانہ میں (۱۳۴۴ھ تا ۱۳۴۷ھ) ہوئی وہ بہت مشہور ہوئی، وہ پہلی اسٹرائک تھی جس میں دس دن تک تعلیم کا سلسلہ منقطع رہا، ابتداءً یہ اسٹرائک طلبہ تک محدود تھی، چند دنوں بعد علامہ کشمیری نے ان کی تائید میں دودن مسجد قدیم میں تقریر فرمائی، احتجاج بڑھتا رہا؛ یہاں تک کہ طلبہ کا اخراج عمل میں آیا، پھر اور شدت آگئی، علامہ کشمیری اور ان کے ہم خیال اساتذہ نے استعفاء دے دیا۔ اسی موقع سے علامہ کشمیری، علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی اور حضرت مفتی اعظم، دارالعلوم دیوبند سے مستعفی ہوکر ڈابھیل تشریف لے گئے تھے، حضرت مفتی اعظم کی عمر کا ستارہ ڈوبنے کو تیارتھا، کچھ ہی عرصہ وہاں رہے، پھر دیوبند تشریف لے آئے اور یہیں رہ کر داعیِ اجل کو لبیک کہا۔
وفات وتدفین: ۱۷/جمادی الثانیہ ۱۳۴۷ھ مطابق یکم نومبر ۱۹۲۸/ شنبہ کی شب دو بجے آپ نے داعیِ اجل کو لبیک کہا اور اپنے مولائے حقیقی سے جاملے، دس بجے دن میں احاطہٴ مولسری دارالعلوم دیوبند میں آپ کی نمازِ جنازہ حضرت مولانا سید اصغرحسین صاحب نے پڑھائی اور گیارہ بجے ”قبرستان قاسمی“ میں سپردخاک کیے گئے۔ (فقیہ اعظم مفتی عزیز الرحمن عثمانی، ص:۵۵، ناشر: جامعہ دارالسلام، مالیہ کوٹلہ، پنجاب ۱۹۹۱/)
مراجع ومصادر
۱- فتاویٰ دارالعلوم دیوبند (جلد اوّل) مکتبہ دارالعلوم دیوبند پہلی اشاعت
۲- فقیہ اعظم مفتی عزیز الرحمن عثمانی ، ناشر: جامعہ دارالسلام مالیر کوٹلہ، پنجاب ۱۹۹۱/
۳- ماہ نامہ”القاسم“ دارالعلوم دیوبند، صفر ۱۳۳۹ھ
۴- ماہ نامہ” القاسم“ دارالعلوم دیوبند، ذی الحجہ ۱۳۳۸ھ
۵- تاریخ دیوبند مصنفہ سید محبوب رضوی۔
۶- حیاتِ شیخ الہند مصنفہ مولانا سیداصغرحسین میاں صاحب
۷- ماہ نامہ درالسلام مالیرکوٹلہ، مئی، جون ۱۹۹۰/
۸- تاریخ دارالعلوم دیوبند مرتبہ سید محبوب رضوی مکتبہ دارالعلوم دیوبند
۹- تذکرة الرشید، مصنفہ مولانا عاشق الٰہی میرٹھی، مکتبہ عاشقی میرٹھ۔ پہلی اشاعت
ماخوذ :دارالعلوم ، شمارہ: 1، جلد:102، ربیع الثانی –جمادی الاول 1439ہجری مطابق جنوری 2018ء(قسط اول+دوم)
————————————————
ملاحظہ کیجیئے کتاب " مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی،سوانح ، افکار و خدمات " ۔ از :محمد عارف
قاسمی
No comments:
Post a Comment