کیا حکیم الامت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانویؒ، مولانا الیاس کاندھلویؒ کی تبلیغی جماعت کے خلاف تھے؟؟؟
#دوسریـ قسط
٭حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوریؒ کے خلیفہ ارشد، مولانا الیاس کاندھلوی ؒکے نورِ نظر و ہم سفر و ہم نوا ، " مفکرِ اسلام " کی مستند وقائع نگاری ٭
یہ اقتباس طویل ضرور ہے مگر اس میں" تبلیغی جماعت کا آغاز و ابتداء ، نظریہ و نظم کا جامع خاکہ" موجود ہے !
"تبلیغی گشت کی ابتداء:
حج سے واپسی پر مولانا نے تبلیغی گشت شروع کر دیا، آپ
نے دوسروں کو بھی دعوت دی کہ عوام میں نکل کر دین کے اولین ارکان واصول (کلمہ
توحید و نماز ) کی تبلیغ کریں ، لوگوں کے کان اس دعوت سے نا آشنا تھے، دین کی
تبلیغ کے لئے عامیوں کا زبان کھولنا بڑا پہاڑ معلوم ہوتا تھا، چندآدمیوں نے بڑی
شرم و حیاء اور رکاوٹ کے ساتھ خدمت انجام دی۔ایک بار نوح میں اجتماع ہوا، آپ نے
مجمع میں اپنی یہ دعوت اور مطالبہ پیش کیا کہ جماعتیں بنا کرعلاقہ میں نکلا جائے
اور تبلیغ کی جائے ، حاضرین نے ایک مہینہ کی مہلت طلب کی، ایک مہینہ کےبعد جماعت
بن گئی ، آٹھ دن کے لئے وہ گاؤں طے ہو گئے جن کا اس جماعت کو دورہ کرنا تھا ،
اوریہ طے ہوا کہ یہ دورہ کرتی ہوئی آئندہ جمعہ سو ہنے (ضلع گوڑگانوہ) میں پڑھے گی
، اور وہیں آئندہہفتے کا پروگرام طے ہو گا۔چنانچہ پہلا جمعہ جماعت نے سوہنے میں
پڑھا، مولانا بھی تشریف لائے ، آئندہ ہفتے کا نظام طے ہوا، جماعت پھر دورے پر
روانہ ہوئی، اور دوسرا جمعہ تاؤڑو
میں پڑھا گیا، تیسرا جمعہ نگینہ تحصیل فیروز پور میں
پڑھا گیا، مولانا نے ہر جمعہ میں شرکت فرمائی اور آئندہ کا نظام طے ہوا۔
عرصے تک میوات میں اسی طرز پر کام ہوتا رہا،
اور دینی وعلمی مرکزوں کے لوگوں کو میوات کےجلسوں میں ان جماعتوں کے اجتماع کے
موقع پر دعوت دی جاتی رہی اور کئی سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔
تیسرا حج
51ھ میں آپ تیسری بار جج کو گئے ، رمضان کا چاند نظام
الدین میں نظر آ گیا تھا۔ تراویح دہلی کے اسٹیشن پر ہوئی ، تراویح سے فراغت پر
کراچی کی گاڑی میں سوار ہو گئے ، مولانااحتشام الحسن اس سفرمیں آپ کے ساتھ تھے۔ وہ
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کے نام ایک خط میں مولانا کےمشاغل واوقات کے
متعلق لکھتے ہیں:
"حضرت
والا کا اکثر وقت حرم میں گزرتا ہے تبلیغی جلسے اور چرچے برابر رہتے ہیں ، اور ہر
جگہ اس کے متعلق ضرور حضرت مولانا کچھ نہ کچھ فرماتے ہیں۔"
مکہ معظمہ سے روانہ ہو کر 2 محرم 52ھ (مطابق 27 اپریل
33ء) مدینہ طیبہ پہنچے اور زیارت سے مشرف ہوئے ۔ 2 جمادی الاولی 56ھ کو ہندوستان
واپسی ہوئی۔
اس حج سے آپ اپنے کام اور نظام کے متعلق مزید
وثوق و اطمینان اور یقین لے کر آئے اور کام کی رفتار کو بڑھا دیا۔
میوات کے دو2 دورے:
حج سے واپس تشریف لا کر مولانا نے بڑی جماعت
کے ساتھ میوات کے دورے کئے، کم سے کم سو آدمی اس سفر میں ہر وقت ساتھ رہتے تھے ،
باقی جابجا مجمع بہت ہو جایا کرتا تھا۔ ایک دورہ ایک مہینہ کا تھا دوسرا دورہ کچھ
کم ایک مہینہ کا سفر کے وقت جماعتوں کو گاؤں میں تقسیم کر دیا کرتے تھے،اور فرماتے
تھے کہ گشت لگا کر آؤ۔
*تبلیغی
جماعتیں دینی مرکزوں کی طرف*
مولا نا نے اپنے طویل تجربے اور بالغ نظری سے یہ سمجھ
لیا تھا کہ اپنے ماحول اور مشاغل میں گھرے رہ کر ان غریب میواتی کا شتکاروں کا دین
سیکھنے کے لئے وقت نکالنا اور اس تھوڑے سےوقت میں جس میں ان کو کامل یکسوئی حاصل
نہیں ہو سکتی ، دین کے ایسے اثرات کو قبول کر لینا جن سے ان کی زندگی میں انقلابی
اصلاح اور تغیر پیدا ہو جائے ممکن نہیں ، ان سے یہ مطالبہ کرنا بھی صحیح نہیں کہ
سب کے سب اس عمر میں مکاتب اور مدارس کے طالب علم بن جائیں اور یہ توقع بھی غلط ہے
کہ وعظ و پند ہی سے ان کی زندگی میں انقلاب ہو جائے گا اور وہ اس جاہلانہ زندگی سے
نکل کر
اسلامی زندگی میں قدم رکھیں گے ان کے عادات و اخلاق،
مزاج و طبائع ، شوق و رغبت اورجذبات بدل جائیں گے ۔ لیکن مولانا کے نزدیک ایسا
ہونا ضروری تھا، مگر کیا تدبیر ہوسکتی تھی۔ مولانا کے نزدیک اس کی تدبیر صرف یہ
تھی کہ ان کو کچھ مدت کے لئے جماعتوں کی شکل میں دین اور علم کے مرکزوں کی طرف
نکلنے پر آمادہ کیا جائے۔ وہ وہاں کے عوام اور جہلا میں کلمہ اور نمازکی تبلیغ
کریں اور اس طرح اپنا پڑھا ہوا سبق پختہ کریں اور وہاں کے اہل علم و دین کی مجلسوں
میں بیٹھ کر ان کی باتوں کو بغور سنیں اور ان کی زندگی ، نشست و برخاست اور عمل کو
بغور دیکھیں ، اور اس طرح بالکل فطری طریقے پر جس طرح بچہ زبان سیکھتا ہے، اور
آدمی تہذیب و شائستگی حاصل کرتا ہے،
وہ دین و علم دین حاصل کریں۔
نیز اس نکلنے کے زمانے میں جس سے زیادہ یکسوئی و توجہ
کامل کا زمانہ اس کو بظاہر نصیب نہیں ہوسکتا، قرآن پڑھنے ، مسائل و فضائل معلوم
کرنے اور صحابہ کرام کے حالات و حکایات سننے میں مشغول رہیں اور اس طرح اس گشتی
مدرسے سے بہت کچھ سیکھ کر اور لے کر اپنے گھر واپس ہوں ۔لیکن یہ کام بہت مشکل تھا۔ کسی شیخِ طریقت نے (الا ماشاء اللہ )
اپنے مریدین و معتقدین پرایسا بوجھ کم ڈالا ہوگا۔ اپنے مشاغل سے چھڑانا، بیوی بچوں
سے علیحدہ کرنا اور گھر سے نکالنا آسان کام نہیں ، پھر اس قوم کے افراد کو جس کو
بڑی کوششوں کے بعد کچھ مانوس کیا گیا تھا۔
ایک دوسری دقت یہ تھی کہ اس کا بھی اطمینان نہیں تھا کہ جہاں یہ لوگ جائیں گے وہاں ان کےساتھ ہمدردانہ سلوک ہوگا۔ ان کی جہالت، سادہ لوحی اور شہروں کے معیار سے بعض اوقات نا شائستگی پر رحم اور شفقت کا سلوک ہوگا، یا مہر وعتاب اور طنز و تعریض کا۔مولانا کا خیال تھا کہ یوپی کا مغربی حصہ (ضلع مظفر نگر اور سہارنپور جس کے لئے کبھی دوآبہ کی اصطلاح استعمال فرماتے تھے اور کبھی مطلق یوپی کے لفظ سے ادا کرتے تھے ) دین و علم کا معدن اور اہل حق کا خاص مرکز ہے، اہل دین کی صحبت و اختلاط اور آنکھوں اور کانوں کے ذریعہ سے دین کے تعلیم و اکتساب کے لئے اس خطے سے زیادہ کوئی موزوں مناسب زمین نہیں ۔مولانا کے نزدیک ملک کی جہالت و غفلت، دینی بےحمیتی اور جذبات کی خرابی ،تمام فتنوں کی جڑاور ساری خرابیوں کا سر چشمہ تھی اور اس کا علاج صرف یہ تھا کہ میوات کے لوگ اپنی اصلاح و تعلیم اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے اور اس کے لئے جدو جہد کرنے کی طاقت اور جذبات پیدا کرنے کےلئے باہر اور خصوصا یوپی کے ان شہروں میں جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا ایک میواتی کو لکھتے ہیں:
”میرے دوست! آدمی کا جاہل اور غافل ہونا اور حق کی کوشش
میں سست ہونا یہ ہر فتنہ کی کنجی ہے، اور طبائع اور جذبات کے ان نا مبارک اور گندہ
صفتوں پر رہنے سے اللہ جانے کتنے فتنے اٹھتے ہوئے تم دیکھو گے اور کچھ نہ کر سکو
گئے ۔ اُٹھتے ہوئے فتنوں کومیٹنے اور آئندہ کے فتنوں سے روکنے کے لئے تمہارے ملک
میں پیش آئی ہوئی اسکیم کو
مشق کرنے کے لئے یوپی کے لئے نکلنے پر زور دینے کے سوا
اور کوئی علاج نہیں ۔( بنام میاں محمد عیسی ،فیروز پور نمک)
مولا نا کو اس کی بھی اُمید نہ تھی کہ
آپ کی یہ دعوت و تحریک اس طرح اس علاقہ کے اہل حق اوراہل علم کے سایہ تلے آجائے گی
اور اس بہانے سے ان حضرات کو میوات کے ان غریب ودور افتادہ مسلمانوں کی پسماندگی و
زبوں حالی سے واقفیت کا موقعہ ملے گا۔ شاید ان کے دل میں اس کا درد پیدا ہو جائے
اور ان کی نگاہ شفقت اُٹھے۔ مولانا کے نزدیک ان حضرات کا تعلق اور ان کی سر پرستی
نہایت ضروری تھی جس کے بغیر وہ اس تحریک کو خطرہ اور آزمائش میں سمجھتے تھے۔ غالباً
انہی مصلحتوں کی بناء پر مولانا نے پہلی جماعت کے سفر کے لئے اپنے وطن کاندھلہ
کاانتخاب فرمایا کہ وہ بہر حال اپنا وطن ہے۔ عزیزوں سے سابقہ ہے، اور یوں بھی وہ
ایک علمی اور دینی مرکز ہے، اس لئے اس سفر کی غرض بھی حاصل ہے۔
پہلی جماعت کاندھلہ کے لئے:
ایک رمضان میں مولانا نے فرمایا کہ کاندھلہ کے لئے آدمی
تیار کرو۔ علماء و مشائخ کے مرکزپھر اپنے مرشد
و شیخ کے وطن میں تبلیغ کے لئے عامیوں اور جاہلوں اور میوات کے دہقانوں کا جانا سننے
والوں کو بہت ہی عجیب اور دشوار معلوم ہوا، اور چونکہ یہ غلط تخیل تھا کہ ہم کو
اصلاح اور دوسروں میں تبلیغ کے لئے بھیجا جا رہا ہے، اس لئے اور بھی انوکھی سی بات
معلوم ہوتی تھی۔ لوگوں کی سب پہلوؤں پر نظر نہیں تھی(
اور اب بھی بہ یک وقت اس کام کے سب پہلو اچھے اچھے اہل نظر کے سامنےنہیں آئے )
اس لئے لوگوں نے تعمیل میں جوش و سرگرمی کا اظہار نہیں کیا۔ حاجی عبدالرحمن
جیسےمخلص و محبّ نے کہہ دیا کہ" میں تو نہ جاسکوں گا وہ میرے استاد مولانا
محمد صاحب کا گاؤں ہے"۔
مگر مولا نا کوئی سنجیدہ بات سرسری
طریقے سے اور رواداری کے ساتھ نہیں فرماتے تھے کہ بات آئی گئی ہو جائے ، اس کے لئے
وہ اپنی شخصیت کا پورا بوجھ ڈال دیتے تھے اور اپنی ساری طاقتوں کوکام میں لے آیا
کرتے تھے اور جس چیز کو ضروری سمجھتے تھے اس کی طرف سے مطمئن ہوئے بغیران کے لئے
کھانا پینا اور سونا مشکل تھا، زندگی بھر کا یہ معمول تھا۔ اس لئے ان کی بات کا
ٹالنا ان سے تعلق رکھنے والوں کے لئے آسان نہ تھا۔
چنانچہ دس آدمیوں کی ایک جماعت کاندھلہ کے سفر کے لئے
تیار ہوگئی،اور عید کی نماز پڑھتے ہی حافظ مقبول حسن صاحب کی امارتمیں دہلی روانہ
ہوگئی، اس جماعت میں چیدہ چیدہ لوگ تھے اور تقریباً سب وہ تھے جو اعتکاف کر چکے
تھے۔ اس جماعت کو ذکر کے اہتمام کی خاص تاکید
تھی۔ کاندھلہ کے لوگوں نے بڑے اعزاز و اکرام سے امی بی کے گھر میں ان کو ٹھہرایا،
اوربڑی خاطر کی۔
دوسری جماعت رائے پور کے لئے :
اس کے بعد رائے پور (ضلع سہارنپور ) جماعت کے
جانے کی تحریک کی اور شوال ہی میں دس، گیارہ آدمیوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ رائے پور بھی اطمینان کی جگہ تھی، اور
دینی و روحانی مرکز تھا، نیز مولا نا عبدالقادر صاحب (جانشین شاہ عبد الرحیم صاحب رائے پوریؒ) سے یک جہتی اور
یگانگت کی بناء پر وہاں سے بھی کوئی تکلف اور اجنبیت نہیں تھی۔(یہ
سطور یاد رکھیئے گا اگلی اقساط میں بطور حوالہ مکرر کام آئیں گی۔ عرض مرتب)
نمبر دار محراب خان کو نمونیا تھا۔ فرمایا: آج نہیں کل
چلے آنا۔ آپ نے رات کو ان کے لئے دُعا کی نمونیا اچھا ہو گیا اور وہ رائے پور کے
لئے روانہ ہو گئے ۔ قاری داؤ د صاحب کا بچہ
قضا کر گیا تھا وہ بچے کو دفن کرتے ہی گھر واپس ہوئے بغیر روانہ ہو گئے ۔
میوات کے منتظم دورے:
آپ نے میوات کی تحصیلوں کے نقشے اور پورے ضلع گوڑ گانواں
کا نقشہ تیار کرایا۔ سمتیں اور لائنیں قائم کی گئیں اور آپ نے ہدایت کی کہ تمام
مبلغین کی کارگزاری قلم بند کریں۔ گاؤں کی آبادی اور ایک گاؤں کا دوسرے گاؤں سے
فاصلہ لکھا جائے ۔ آس پاس کے بڑے بڑے گاؤں اور ان کے نمبر داروں کے نام لکھئے
جائیں اور بتلایا جائے کہ کون لوگ زیادہ آباد ہیں۔
چتوڑا تحصیل فیروز پور میں ایک جلسہ ہوا جس میں
سولہ جماعتیں بنیں، ہر جماعت پر ایک امیر اور ہر چار جماعتوں پر ایک امیر الامراء
کا تقرر ہوا۔ سارے ملک میوات میں ان جماعتوں کے ایک مرتبہ دورہ کر جانے کا انتظام
کیا گیا اور اس کی شکل یہ اختیار کی گئی کہ چار جماعتیں پہاڑ کے اوپر دورہ کرنے کے
لئے نامزد ہوں اور چار جماعتیں ان گاؤں میں جو سڑک اور پہاڑ کے درمیان میں واقع
ہیں، اور چار جماعتیں اس سڑک کے جو ہوڈل سے دہلی کو جارہی ہے، اورچار جماعتیں اس
سڑک کے درمیان جوالور سے دہلی کو جارہی ہے، اور چار جماعتیں اس سڑک کے جو ہوڈل سے
دہلی کو جاتی ہے، اور جمنا کے درمیان کام کریں۔
ہر جگہ نظام الدین سے ایک آدمی خیر خبر لینے اور تقریر
کرنے کیلئے آتا۔ فرید آباد میں سب جماعتیں
اکٹھا ہوئیں۔ مولانا بھی تشریف لائے۔ جلسہ ہوا، فرید آباد سے سولہ جماعتیں مختلف راستوں
سے چار جماعتوں میں تقسیم ہو کر جامع مسجد میں دہلی میں جمع ہوئیں ، جلسہ ہوا اور
وہاں سے جماعتیں پانی پت ، سونی پت اور دوسرے مقامات کی طرف بڑھیں۔
اس عرصے میں میوات میں تبلیغی گشتوں اور دین سیکھنے کے
لئے سفر و ہجرت کی تحریص و ترغیب اور تذکیر کا سلسلہ جاری رہا۔ مولانا کا اب یہی مطالبہ اور یہی دعوت تھی جو اُٹھتے بیٹھتے
چلتے پھرتے پیش کرتے رہتے تھے، اس سلسلے میں میوات کے بکثرت دورے اور مختلف مقامات
پر جلسے ہوئے ، ہر جگہ نئے نئے عنوانات اور فضائل و ترغیبات کے ساتھ یہی ایک مضمون
پیش فرماتے رہے اور قوم سے اس کا مطالبہ کرتے رہے، اور اسی میں اس کے دینی ددنیاوی
فروغ کا یقین دلاتے رہے، یہاں تک کہ اس مشکل کام سے وحشت کم ہو گئی۔
میوات کے اندر باہر دورہ کرنے کے لئے جماعتیں بکثرت بنے
لگیں، اس پر ہمیشہ زور دیا جاتا رہا کہ ملک میں دوسری چیزوں کی طرح اس کا بھی عام
رواج ہو جائے ، اس کے لئے مناسب مقامات میں جلسے اور اجتماعات بھی کئے جاتے تھے۔
ہر جلسے میں سے کچھ نئی جماعتیں تیار ہو کراطراف و جوانب یا یو پی کا گشت کرنے کے لئے نکلتیں۔ لوگ اپنے اپنے
وقتوں کی پیش کش کرنے لگے۔ روپے پیسے کے چندے کا رواج
تو دنیا میں تھا ہی، دین کے واسطے اوقات (ہفتوں
اور مہینوں) کے چندے کا پہلی
مرتبہ میوات میں رواج شروع ہوا۔ مولانا کام کرنے
والوں میں دین کے لئے ایثار و قربانی کی روح پیدا کرنا چاہتے تھے اور ان کواللہ کے
لئے کھیتی باڑی کا نقصان اور اپنے کاروبار کا حرج برداشت کرنے کا عادی بنانا چاہتے
تھے۔ میوات میں ایک مدت کے بعد اس کا آغاز ہوا کہ دین کے لئے دنیاوی کاموں کا
نقصان
برداشت کیا جائے اور دنیا کا خطرہ مول لیا
جائے۔ یہ الگ بات یہ کہا اکثر اللہ تعالٰی نے اپنے فضل وکرم سے اس کی نوبت نہیں
آنے دی، اور نکلنے والوں کو واپس آکر معلوم ہوا کہ ان کی غیبی مدد ہوئی اور ان کی
کھیتی باڑی اور دکانداری کو اس عرصہ میں زیادہ فروغ ہوا۔
میوات میں دین کی عام شاعت
ان رضا کار مبلغین کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں اپنا
سامان اپنی پیٹھ پر اُٹھائے اپنا ضروری خرچ یا خوراک ساتھ باندھے ہوئے ایک گاؤں سے
دوسرے گاؤں اور ایک کونے سے دوسرے کونے
تک پھرتے رہتے تھے ۔ تھوڑی مدت میں اس وسیع علاقہ میں دین اور دینداری کی ایسی عام
اشاعت ہوئی اور اس تاریک خطے میں جو صدیوں سے تاریک چلا آرہا تھا، ایسی روشنی
پھیلی جس کی نظیر دور دور نہیں مل سکتی۔ اس میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ اگر کوئی
اسلامی سلطنت اپنے پورے وسائل استعمال کرتی اور لوگوں کو دین سے قریب کرنے کے لئے
اور دین سے واقف کرنے کے لئے بہت بڑا تنخواہ دار عملہ رکھتی یا سینکڑوں کی تعداد
میں مدارس و مکاتب قائم کرتی تو وہ اپنی سلنطت کے کسی علاقے میں اس خوبی کے ساتھ
دین نہیں پھیلا سکتی اور زندگی کا انقلاب تو مادی وسائل کے قابو سے بالکل ہی
باہر ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دین کے کام کا صحیح طرز وہی
ہے جو قرن اول میں تھا۔ اسلام کے سپاہی لڑنے کے لئے
ہتھیار اور کھانے کے لئے سامان خوراک اپنے گھر سے لاتے تھے اور شہادت کے شوق اور رضائے
الہی کی طلب میں جہاد کرتے تھے ، اسی طرح اس کے مبلغ اور داعی ، اس کے محتسب اور واعظ
اللہ کا حکم اور اپنا فرض سمجھتے ہوئے اپنے فرائض دلچسپی اور دیانت داری سے ادا
کرتے تھے۔ میوات کی اس دینی نقل و حرکت میں اس مبارک دور کی ہلکی سی جھلک تھی ۔
اگر کوئی ان مبلغین کےقافلوں کو اس حالت میں گزرتا ہوا دیکھتا کہ کاندھوں پر کمبل
پڑے ہوئے ، بغل میں سیپارےدبے ہوئے، چادر کے پلو میں چنے یا چند روٹیاں بندھی ہوئی
، زبانیں ، ذکر و تسبیح میں مشغول ہیں۔ آنکھوں میں شب بیداری کے آثار پیشانیوں پرسجدے
کے نشانات، ہاتھ پاؤں سے جفاشی اور مشقت کا اظہار ہو رہا ہے تو دیکھنے والے کے سامنے بیر معونہ کے ان شہید صحابیوں کی ایک
دھندلی سی تصویر پھر جاتی جو قرآن اور احکام دین کی تعلیم کے لئے رسول اللہ کے حکم
سےجارہے تھے اور شہید کر دیئے گئے تھے۔(یا د آیا آپ کو پہلی
قسط میں لکھا گیا حضرت تھانویؒ کا فرمان
" کسی کو حضرات صحابہ کو دیکھنا ہو تو ان
لوگوں کو دیکھ لو"۔۔۔۔۔ لیجیئے یہ دوسری شہادت بھی
ذہن نشین فرما لیجیئے۔عرض مرتب )
فضاء کی تبدیلی:
رفتہ رفتہ میوات کی فضا بدلنے لگی اور موسم کے تغیر کے
اثرات جابجا ظاہر ہونے لگے، زمین میں ایسی روئیدگی اور قابلیت پیدا ہونے لگی۔ اب
دین کی ہر چیز کے لئے مستقل جہاد کی ضرورت نہیں رہی۔ اگر چہ کام بہت باقی تھا (
اور بعض رسمیں قابل اصلاح اب بھی باقی ہیں) مگر ان مقامات میں جہاں کام زیادہ ہو
چکا تھا صرف اتنا کہنا اور بتلانا کافی تھا کہ یہ دین کی چیز ہے، اوراللہ ورسول کا
حکم ہے۔
مولانا کے نزدیک کام کی یہی صحیح ترتیب تھی کہ لوگوں
میں حقیقی ایمان، دین کی طلب اور قد راور آخرت کے لئے دنیا میں اپنے جان و مال کا
نقصان گوارا کرنے کی قابلیت پیدا ہو جائے پھر پورے دین کی صلایت از خود پیدا ہو
جائے گی۔
چنانچہ میوات میں دینداری کے وہ اثرات ظاہر ہونے لگے جن
میں سے ایک ایک کے لئے اس سے پہلے اگر برسوں جدو جہد کی جاتی تو شاید کامیابی نہ
ہوتی بلکہ اُلٹی ضد پیدا ہو جاتی۔ ملک میں دین کی رغبت پیدا ہو گئی اور اس کے آثار
نظر آنے لگے۔ جس علاقے میں کوسوں مسجد نظر نہیں آتی تھی ، وہاں گاؤں گاؤں مسجد میں
بن گئیں اور دیکھتے دیکھتے اس ملک میں ہزاروں مسجد یں بن کرکھڑی ہو گئیں۔ صدہا
مکتب اور متعدد عربی کے مدرسے قائم ہو گئے(میوات
میں عربی کا مرکزی مدرسہ نوح کا مدرسہ
معین الاسلام ہے جس کی بنیاد مولانا کے ہاتھوں 41ھ میں رکھی گئی۔خان بہادر شیخ
عزیز الدین صاحب دہلوی مرحوم کو اس کی تعمیر و ترقی سے بڑی دلچسپی تھی اور انہوں
نے اس میں بڑی فراخ حوصلگی سے حصہ لیا۔ آپ نے 24 دسمبر 40 ء کو انتقال فرمایا)۔
حفاظ کی تعدادسینکڑوں سے متجاوز ہے ۔ فارغ التحصیل علماء کی بھی ایک خاصی بڑی
تعداد پیدا ہو گئی ہے (اس سلسلہ میں سب سے بڑا
احسان مولانا عبدالسبحان صاحب کا ہے جو علمائے میوات کے استاد و مربی ہیں۔ آپ کے درس
اور آپ کے مدرسہ واقع قرول باغ دہلی سے بکثرت میواتی طلباء عالم اور فارغ التحصیل
ہو کر نکلے)۔
ہندوانہ وضع ولباس سے نفرت پیدا ہونے لگی اور اسلامی وشرعی لباس کی وقعت دلوں میں پیدا ہوگئی۔ ہاتھوں سے کڑے اور کانوں سے مرکیاں اترنے لگیں۔ بے کہے آدمیوں نے داڑھیاں رکھنی شروع کر دیں، شادیوں سے مشرکانہ اور خلاف شرع رسوم کا خاتمہ ہونے لگا۔ سود خواری کم ہوگئی، شرات نوشی تقریباً ختم ہو گئی ،قتل وغارت گری کی واردات میں بہت کمی ہو گئی ، جرائم ،فسادات اور بداخلاقیوں کا تناسب پہلے کے مقابلے میں بہت گھٹ گیا۔ بے دینی ، بدعات و رسوم اور فسق و فجور کی باتیں اور عادتیں موافق ہوا اور فضانہ پانے کی وجہ سے خود بخود مضحمل ہونے لگیں۔
اس حقیقت کو ایک سن رسیدہ تجربہ کار
میواتی نے بڑی بلاغت کے ساتھ بیان کیا، جس پر کسی اضافے کی گنجائش نہیں۔ قاری داؤ
د صاحب نے ایک بوڑھے میواتی سے اس کا عندیہ لینے کےلئے پوچھا کہ ” تمہارے ملک میں
کیا ہو رہا ہے؟" بوڑھے میواتی نے کہا " اور
تو میں کچھ جانتا نہیں، اتنا جانوں کہ جن باتوں کے لئے بڑی کوشش کی جاتی تھیں اور
ایک بات بھی نہیں ہوتی تھی ، وہ اب آپ ہی آپ ہو رہی ہیں، اور جن باتوں کو بند کرنے
کے لئے پہلے بڑی بڑی لڑائیاں جاتی تھیں اور بڑا زور لگایا جاتا تھا اور ایک بات
بھی نہیں بند ہوتی تھی ، وہ اب بے کہے سے خود بخودبند ہوئی جارہی ہیں"۔
مولانا کے نزدیک اس اصلاح و تغیر کا سب سے بڑا سبب اہل
میوات کا باہر نکلنا اور خصوصاً یوپی کے دینی مرکزوں میں جانا تھا۔ ایک میواتی کو
ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں:
"جماعتوں کے یو پی کے خطے میں نکلنے کی کچھ ایسی تاثیرات ہیں کہ باوجود ( افراد کی )صرف تھوڑی سی مقدار کے نکلنے کے جو دو سو کو بھی نہیں پہنچی اور ( وقت کی ) تھوڑی سی مقدار کے جو اپنے گھروں کے مقابلہ میں کچھ بھی شمار ہونے کی حیثیت نہیں رکھتی اتنےقلیل زمانہ کا اتنا اثر ہوا کہ انقلاب عظیم کا لفظ زبانوں پر آنے لگا اور تمہارے ملک کی ٹھوس اور کامل جہالت والے لوگوں کے ناپاک جذبات، دین پھیلانے کے مبارک جذبات سے بدلنے لگے ۔ مکتوب بنام محمد عیسی (فیر واپور نمک)"
لیکن مولانا کے نزدیک اگر باہر نکلنے کو قوم جزو زندگی نہ بنائے گی اور دین کے لئے جد و جہدکرنا چھوڑ دے گی تو قوم پہلے سے زیادہ گر جائے گی۔ اب مذہبی بیداری کی وجہ سے دنیا کی نگاہیں میوات کی طرف ہیں۔ ان ہزاروں نگاہوں کے ساتھ ہزاروں فتنے ہیں۔ جہالت و مجہولیت(گمنامی ) کا حصار ٹوٹ چکا ہے، اب زیادہ چوکنا اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، ایک گرامی نامہ میں ارشاد فرماتے ہیں:
"جب تک تبلیغ کے لئے چار چار
مہینے ملک در ملک پھرنے کو اپنی قوم میں جزو زندگی بنانے کی کوشش کے لئے پورے
اہتمام کے ساتھ آپ کھڑے نہیں ہوں گے اس وقت تک قومیت صحیح دینداری کا مزہ نہیں
چکھے گی اور حقیقی ایمان کا ذائقہ بھی نصیب نہیں ہو گا۔ اب تک جو مقدار ہے ایک
عارضی ہے، اگر کوشش چھوڑ دو گے تو قوم اس
سے زیادہ گرے گی۔ اب تک جہالت اس کی حفاظت کر رہی تھی
اور شدت جہالت کی وجہ سے دوسری قومیں ان کو ہستی میں شمار نہ کرنے کی وجہ سے توجہ
نہیں کرتی تھیں اب تا وقتیکہ دین کی قلعہ بندی سے اپنی حفاظت نہیں کریں گے دوسری
قوموں کا شکارہو جاویں گئے۔ مکتوب بنام محمد عیسی
(فیر واپور نمک)"
دہلی کے مبلغین:
دہلی اور دوسرے مقامات پر تبلیغ کرنے کے لئے کچھ عرصے
سے پانچ تنخواہ دار مبلغین رکھے ہوئےتھے جو قریب قریب تبلیغ کے مروجہ عام طریقوں
پر کام کرتے تھے ، انہوں نے تقریباً ڈھائی سال کام کیا، لیکن ان سے مولانا کا
مقصود حاصل نہیں ہوتا تھا اور مولانا اس سست اور بے روح کام سے بہت اکتا گئے تھے،
ان لوگوں کے کام سے وہ دینی واصلاحی نتائج حاصل نہیں ہو رہے تھے اور وہ حرکت
وزندگی نہیں پیدا ہو رہی تھی جو میوات کے رضا کار اور طالب اجر اور ایثار پیشہ
مبلغین سے پیدا ہوگئی تھی۔ مولانا اس طریقہ کار سے بالکل غیر مطمئن ہو گئے تھے اور
اس کو ختم کر دینا چاہتے تھے۔
آخری حج اور حرمین میں دعوت :
مولا نا کو اس کی بڑی آرزو تھی جو آخر وقت تک قائم رہی
کہ اگر ہندوستان کا کام کچھ جم جائے تو آپ اپنے چند مخصوص رفقاء کے ساتھ اسلام کے
مرکز میں جا کر اس کام کی دعوت دیں اور وہاں اس کو شروع کریں کہ یہ وہیں کی سوغات
ہیں اور وہاں کے رہنے والے اس کے سب سے زیادہ مستحق ہیں" بضاعتنا
ردت الینا "کہہ کر اس کا استقبال کریں اور پھر
ان کے ذریعہ سے یہ دولت عالم اسلام میں گھر گھر بٹے ۔
56 ھ میں آپ کے دل میں بڑی شدت سے اس کا داعیہ پیدا ہوا اور 18 ذ يعقدہ کو حج کے لئے روانہ ہو گئے ۔ آپ کے رفقاء سفر میں مولانا احتشام الحسن صاحب، صاحبزادہ مولوی محمد یوسف، مولوی انعام الحسن صاحب، مولوی نور محمد صاحب، حاجی عبد الرحمن صاحب مولوی محمد ادریس صاحب مولوی جمیل صاحب اور دوسرے ہمراہیوں میں متوفی طفیل احمد صاحب، مولوی ظہیر الحسن صاحب اور ماسٹر محمود الحسن صاحب تھے ۔ نظام الدین اور میوات کا تبلیغی کام اور مکاتب مولوی سید رضا حسن صاحب کے اور دہلی کا کام حافظ مولوی مقبول حسن صاحب کے سپر د تھا۔ کام کی نگرانی اور مختلف معاملات و مسائل کی سربراہی شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کے ذمے تھی۔ جملہ مدات کی تنخواہیں دینا جلسوں میں جانا ترقیاں نئے مدارس کا قیام اور مشورہ طلب امور شیخ حاجی رشید احمد کی رائے سے انجام پاتے تھے۔
جہاز میں تبلیغ اور مناسک حج کا بہت کافی چر چا رہا۔ جدہ سے مکہ مکرمہ جاتے ہوئے بحرہ کے قیام میں وہاں کے روساء کو جمع کر کے مولانا نے تقریر فرمائی اور ان سب نے تحسین کی۔ ایام حج چونکہ قریب تھے، اور رہائش وغیرہ کا سامان بھی کرنا تھا اس لئے مکہ معظمہ میں تبلیغ سے متعلق کسی سے کچھ تذکرہ کرنے کی نوبت نہیں آئی ، البتہ منی کے قیام میں مختلف اطراف کے حجاج سے گفتگو ہوئی۔مولانا نے ایک اجتماع میں تقریر فرمائی جس کا اچھا اثر ہوا ۔ حج سے فراغت کے بعد بعض ہندی اہل الرائے اصحاب سے مشورہ ہوا، انہوں نے حجاز کے حالات و مصالح کے پیش نظر تبلیغ کے ارادہ کی سخت مخالفت کی، پھر مولانا شفیع الدین صاحب سے تذکرہ آیا، حضرت موصوف نے بڑےزور سے تائید کی اور فرمایا کہ: مجھے غیبی امداد اور اعانت کی قوی امید ہے۔ ایک جمعہ کو محمد سعید با سلامیہ مکی کے یہاں دعوت تھی۔ کھانے کے بعد مولانا نے کچھ تقریر فرمائی جس کے بعض فقروں پر وہ برافروختہ ہو گئے۔ بمشکل ان کو سنبھالا گیا اور پھر انہوں نے بہت سے مفید مشورے دیئے ۔بحرین کی ایک جماعت حجاج سے گفتگو ہوئی اور کافی دیر تک تبادلہ خیالات ہوتا رہا۔ انہوں نے عہد کیا کہ ہم ضرور اس کام کو جا کر شروع کریں گے، ان میں دو شخص ذی علم تھے۔ سب کے بشرے سے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ بات کی قدر کر رہے ہیں اور بہت زیادہ اس کام کے لئے آمادہ ہیں۔ حجاز کے بعض سر بر آورد ہ ہندوستانی تجار سے گفتگو ہوئی، پہلے وہ مولانا کی تقریر سے کچھ چونکے مگر وہ دوبارہ بات چیت کرنے پر بہت حد تک آمادہ ہو گئے۔ ان کی اور سب کی رائے ہوئی کہ پہلے سلطان سے اجازت لی جائے، چنانچہ قرار پایا کہ پہلے اغراض و مقاصد کو عربی میں قلم کیا جائے، پھر سلطان کے سامنے پیش کیا جائے ۔ مولانا احتشام الحسن ،عبد اللہ بن حسن شیخ الاسلام اور شیخ بن بلہید سے اپنے طور پر ملے ۔ (مکتوب مولانا احتشام الحسن صاحب مورخه ۲۷ فروری ء۳۸)
دو ہفتہ کے بعد (14 مارچ 38ء) کو مولانا، حاجی عبداللہ دہلوی ، عبدالرحمن ، مظہر شیخ المطوفین اورمولوی احتشام الحسن صاحب کی معیت میں سلطان کی ملاقات کے لئے تشریف لے گئے ۔ جلالتہ الملک نے بہت اعزاز کے ساتھ مسند سے اتر کر استقبال کیا اور اپنے قریب ہی معزز ہندی مسلمانوں کو بٹھایا۔ ان حضرات نے تبلیغ کا معروضہ پیش کیا جس پر سلطان نے تقریبا 40 منٹ تک توحید و کتاب و سنت اور اتباع شریعت پر مبسوط تقریر کی، اس کے بعد بہت اعزاز کے ساتھ مسند سےاتر کر رخصت کیا۔ اگلے روز سلطان نے نجد کا قصد کیا اور ریاض کے لئے روانہ ہو گئے۔(مکتوب مولانا احتشام الحسن صاحب مورخه 30مارچ ء۳۸)
مولوی احتشام الحسن صاحب نے مقاصد تبلیغ کو اختصار کے ساتھ نوٹ کر کے شیخ الاسلام رئیس القضاۃ عبد اللہ بن حسن کے یہاں پیش کیا۔ مولانا اور مولوی احتشام صاحب ان کے یہاں خودبھی گئے۔ انہوں نے بہت اعزاز و اکرام کیا اور ہر بات کی خوب تائید کی ، اور زبانی ہمدردی واعانت کا وعدہ کیا لیکن اجازت کو نائب عام امیر فصیل کے مشورے پر محول کیا ۔(ایضاً)
مکہ معظمہ کے دوران قیام میں صبح و
شام دونوں وقت جماعت تبلیغ کے لئے جاتی تھی اور حسب استطاعت انفرادی طور پر لوگوں کو
تبلیغی باتوں پر آمادہ کرتی تھی۔ چند جلسے بھی ہوئے جن میں مولوی ادریس اور مولوی
نور محمد صاحبان نے اُردو میں تقریر کی۔ سننے والے مانوس اور قدردان ہونے لگے۔(ایضاً)
رفقاء حج کو مولانا کی تاکید تھی کہ عمرہ اور دوسری عبادات سے زیادہ تبلیغ کا
اہتمام کریں۔ کہ اس زمانہ اور اس مقام مقدس میں بالخصوص ، اس سے افضل کوئی عبادت
اور عمل نہیں۔( مکتوب مولوی انعام الحسن صاحب بنام شیخ
الحدیث)
خواص و علماء کے ایک اجتماع میں آپ نے یہ سوال پیش کیا
کہ مسلمانوں کے تنزل کا سبب کیاہے؟ حاضرین نے اپنے اپنے طرز کے مطابق اس کا جواب
دیا۔ آخر میں آپ نے خود اظہار خیال فرمایا اور دعوت پیش کی جس سے لوگوں نے اتفاق
کیا اور متاثر ہوئے۔ (اس کے بعد کی چند سطور
چھوڑ رہا ہوں آئیندہ کسی قسط میں وہ اہم
حوالہ ہونگی ۔ عرض مرتب )۔
25 صفر 57ھ کو مکہ معظمہ سے موٹر پر روانہ ہو کر 27 کی صبح کو مدینہ منورہ پہنچے اور وہاں بھی تبلیغی سعی شروع ہوئی۔ معلوم ہوا کہ امیر مدینہ کو اجازت دینے کا کوئی اختیار نہیں ، وہ کاغذات مکہ مکرمہ بھیج دیں گے وہاں سے جیسا حکم آئے گا تعمیل کی جائے گی۔ مولانا مولوی سید محمود صاحب اورمولوی احتشام الحسن صاحب کی معیت میں امیر مدینہ سے ملے اور ان سے اپنے مقصد کا بھی اظہار کیا جس کو انہوں نے پسند فرمایا اور زبانی کافی تحسین کی۔انفرادی طور پر مختلف قسم کے لوگوں سے گفتگو اور مذاکرے رہے، اس مقصد کو لے کر دو مرتبہ قبابھی جانا ہوا۔ وہاں ایک اجتماع میں مولانا نے تقریر بھی فرمائی ، چند آدمی آمادہ بھی ہوئے۔(مکتوب مولانا احتشام الحسن بنام شیخ الحدیث مورخہ 12 ربیع الاول57ھ مطابق11 مئی 38ء)
دو مرتبہ اسی مقصد کے لئے احد بھی جانا ہوا۔ ایک اجتماع میں مولوی نور محمد اور مولوی یوسف صاحب نے عربی میں اظہار خیال بھی کیا اور لوگوں نے ترحیب و تحسین کی ۔ بدوؤں سے بات چیت ہوتی تھی، بچوں کے کلمات بھی سنے جاتے تھے اور رباط میں بھی جانا ہوتاتھا ۔(مکتوب مولوی محمد یوسف بنام شیخ الحدیث 12 ربیع الاول 57 ہجری)
کام کی طرف سے
کبھی امید پیدا ہوتی کبھی نا امیدی لیکن اس سفر سے اس قدر را ندازہ ہو گیاکہ
ہندوستان کے مقابلہ میں عرب میں تبلیغ کی زیادہ ضرورت ہے ۔(مکتوب
مولانا احتشام الحسن بنام شیخ الحدیث مورخہ 12 ربیع الاول57ھ مطابق11 مئی 38ء)
ہندوستان کو واپسی :
آپ قیام حجاز کے دوران میوات اور دہلی کے کام اور کام
کی رفتار سے بے خبر اور بے تعلق نہیں رہے۔ ہندوستان سے برابر خطوط جاتے تھے جن سے
کام کی رفتار اور تفصیلات معلوم ہوتی رہتی تھیں۔ آپ ان خطوط کے برابر جواب دیتے
تھے جن میں کام کے متعلق ہدایت و ترغیب ہوتی تھی۔مدینہ منورہ کے پندرہ روزہ قیام
کے بعد اہل الرائے کے مشورہ سے آپ نے ہندوستان کی واپسی کا قصد فرمالیا۔ یہاں پہنچ
کر آپ نے مکہ مکرمہ کے ایک صاحب کو ان کے استفار پر ایک خط لکھا تھا جس سے اس کی
کچھ تفصیل معلوم ہوگی ۔
محترم بنده دام مجد کم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاته
آنے کا باعث یہ ہوا کہ مدینہ منورہ میں پندرہ روز قیام
کے بعد میں نے صبح کو چائے پیتے ہوئے کام کو بڑے زوراستقلال اور محکم بنیاد کے
ساتھ شروع کرنے کے بعض طریقوں کی طرف توجہ دلائی تو ہمارے جملہ اہل الرائے نے
استحکام کے ساتھ کام جاری ہونے کے لئے کم از کم دو سال کے قیام کو ضروری بتایا جوصحیح
تھا۔ میری رائے نے اتفاق کیا، لیکن اتنے قیام سے ہندوستان میں جو کام تھا اس کے
ضائع ہونے کاقوی خطرہ تھا، اس لئے یہاں کام کوایسے انداز پر ڈالنے کی نیت ہے کہ جس میں وہاں استقلال
سے کام کر سکوں۔ عارضی قیام کی نیت سے واپس ہوا ہوں۔ آپ صاحبوں کو دین محمدی کی
اگر حفاظت و بقا کا صحیح درد ہے، اور آپ کے مشاغل سے دین محمدی زیادہ کام کرنے کی
چیز اور کار آمد ہے، اور میرا یہ طریقہ آپ کے نزدیک ٹھیک بھی ہے تو میرے اصول کو
براہ راست خود سمجھتے ہوئے اور وہاں کی جماعت کے لوگوں کو براہ راست خود اصول کے
سمجھنے کی ترغیب دیتے ہوئے اس کام میں اپنی جانبازی و جانثاری کے ذریعہ اپنے ایمان
کو مضبوط فرما ئیں ۔ فقط والسلام
از بنده محمد الیاس
نظام الدین ۔ دہلی
میوات میں کام کا استحکام اور میوات کےباہر شہروں میں
دعوت و تبلیغ
ہندوستان واپس آکر آپ نے میوات میں اپنی تبلیغی سرگرمی
بڑھا دی ، بکثرت دورے اور جلسے اور گشت ہوئے، دوبارہ جماعتوں کی آمد شروع ہوئی اور
میواتی جماعتیں یوپی کے شہروں اور قصبات میں پھرنے لگیں ، شہری مسلمانوں کی طرف
بھی دعوت کا رُخ ہوا، اور میوات کی طرح دہلی میں بھی خالص تحریص و ترغیب کا سلسلہ
شروع ہوا، محلوں میں جماعتیں بنیں، اور ہفتہ وار گشت کی ابتداء ہوئی۔
مولانا کے قلبی تاثرات اور دعوت کا محرک:
شہروں کی حالت دیکھ کر مولانا کی حساس اور ذکی طبیعت پر
چند تاثرات غالب تھے جن کی وجہ سے دل میں ایک درد اور بے کلی سی رہتی تھی۔
-1شہر میں دینداری ضرور موجود تھی، مگر وہ برابرسمٹتی اور
سکڑتی چلی جارہی تھی، پہلے دینداری جمہور سے نکل کر مسلمانوں کی ایک معتدبہ تعداد
میں محدود ہو گئی، اس کے بعد دین کا دائرہ اور تنگ ہوا اور دین عوام سے نکل کر صرف
خواص کے دائرے میں رہ گیا۔ دیکھتے دیکھتے خواص سے اخص الخواص میں سمٹ کر آگیا، اب
دینداری افراد میں رہ گئی تھی اور ان افراد میں بھی برابر کمی آتی چلی جارہی تھی۔
اس میں شبہ نہیں کہ کہیں کہیں دینداری کی بہت بڑی مقدار بھی ایک جگہ جمع ہو گئی
تھی اور بعض اوقات اس کو دیکھ کر آدمی کا دل باغ باغ ہوتا کہ الحمد للہ اس زمانے
میں بھی دینداری کے ایسے بلند نمونے موجود ہیں مگر دین کا پھیلاؤ جاتا رہا تھا اور
سرعت کے ساتھ انحطاط کی طرف جارہا تھا، اس سے یہ خطرہ تھا کہ ان افراد کے اُٹھ
جانے سے دینداری ہی دنیا سے نہ اُٹھ جائے اور سمٹتے سمٹتے
مسلمانوں کے صفحہ زندگی میں دینداری صرف ایک نقطہ بن کر
نہ رہ جائے ۔
مولانا کی آنکھوں کے سامنے دینداری میں سخت انحطاط اور تنزل ہو گیا تھا، جو خاندان اورقصبات رشد و ہدایت کے مرکز تھے اور جہاں صدیوں سے علم وار شاد کی شمع روشن چلی آرہی تھی اوردیے سے دیا جلتا چلا آ رہا تھا ، وہ بے نور ہوتے چلے جارہے تھے، جو اُٹھتا تھا اپنی جگہ خالی چھوڑجاتا تھا، اور پھر وہ جگہ تاریک ہو جاتی تھی۔ ضلع مظفر نگر و سہارنپور دہلی کے مردم خیز قصبات کے دینی انحطاط سے مولانا ذاتی واقعیت رکھتے تھے اور اس کا ان کو بڑا قلق رہتا تھا۔ مولانا نے ایک تعزیت نامہ میں یہ الفاظ لکھے تھے۔
"افسوس کہ حق جل وعلا کے نام کے
ساتھ ذائقہ لینے والے دنیا میں تو پیدا ہوتے نہیں، اور جو محبتوں کی برکتوں سے کچھ
ہو چکے ہیں وہ اٹھتے چلے جاتے ہیں اور کچھ بدل نہیں چھوڑتے"۔
مولا نا اس نقصان کی تلافی اس طرح کرنا چاہتے تھے کہ
دین عام طور پر مسلمانوں میں پھیلے اور دینداری عام ہو، پھر ان میں خواص اہل دین
پیدا ہوں، یہی پہلے بھی ہوا ہے اور اسی طرح اب بھی ہو تو کام چلے۔
علم دین کا حال دینداری سے بھی بدتر تھا۔ وہ
تو بہت پہلے خاص الخاص لوگوں اور گھرانوں سے مخصوص ہو کر رہ گیا۔ عام مسلمان دین
سے بالکل بے بہرہ ہوتے چلے جارہے ہیں۔ مولانا کا رحجان اس بارے میں یہی تھا کہ علم
دین مسلمانوں میں پھیل جائے اور کوئی مسلمان ایسے ضروری علم دین سے جس کے بغیر
بحیثیت مسلمان کے زندگی گزارنا مشکل ہے، بے بہرہ نہ ر ہے پھر ان میں خواص اہل علم
، ماہرفن اور صاحب فضیلت پیدا ہوں۔
-2 دین کو شہری مشغول مسلمانوں نے نہایت مشکل سمجھ لیا ہے،
اور اس کو ہو ا بنا رکھا ہے، ان کےنزدیک دین نام ہے ترک دنیا کا ، اور چونکہ ترک دنیا
مشکل ہے، اس لئے دین بھی ناممکن العمل ہوا اور وہ اس بنا پر دین کی طرف سے مایوس
ہو کر دنیا میں ہمہ تن منہمک ہو گئے اور غضب یہ ہوا کہ اپنی زندگی کو خالص دنیاوی
اورغیر اسلامی زندگی سمجھتے ہوئے اس پر
راضی اور مطمئن ہو گئے ۔ ان کی زندگی کی نسبت اور رشتہ خدا سے کٹ کر نفس سے جڑ
گیا، اور ان کی دنیاوی زندگی کی حقیقت وہ ہو گئی جس کو حدیث میں خدا سے بے تعلق
ہونے کی وجہ سے خدا کی رحمت سے دور کہا گیا ہے۔
"الدنيا
معلونة و ملعون مافيها الا ذكر الله و ما الاه او عالم او متعلم "
"خالص
دنیا اور خالص دنیا کی چیزیں ( جو اللہ سے علاقہ نہ رکھتی ہوں ) اللہ کی رحمت سے
دور ہیں، صرف اللہ کا ذکر (وسیع معنی میں
) اس کے متعلقات اور علم و تعلم کا سلسلہ اس سے مستثنیٰ ہے ( کیونکہ اس کی نسبت اللہ سے ہے)"
نوبت یہاں تک پہنچی کہ اگر دین کی طرف توجہ بھی دلائی
جاتی ہے تو بعض مسلمان بے تکلف کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو دنیا دار لوگ ہیں اور بعض تو
یہاں تک تو اضع اور صاف گوئی سے کام لیتے ہیں کہ کہہ دیتے ہیں:
" صاحب ہم تو پیٹ کے بندے اور دنیا کے کتے
ہیں"۔
مولانا کے نزدیک حقیقت اس کے بالکل خلاف تھی۔ اپنے
دنیاوی مشاغل اور تعلقات کو شریعت کے احکام کے ماتحت اور دین کے سائے میں گزار نا
دین ہے اور یہ ایسی چیز ہے جو ہرمسلمان اپنی دنیاوی مشغولیت اور تعلقات کے ساتھ کر
سکتا ہے، لیکن اس کیلئے تھوڑی سی توجہ اورمعمولی سے علم دین کی ضرورت ہے، مولانا
کے نزدیک اس حقیقت کی تبلیغ کی بڑی ضرورت تھی،اس کے نہ معلوم ہونے اور اس کی طرف
توجہ نہ ہونے ہی سے مسلمانوں کا سواد اعظم دین کی
دولت سے محروم ہوا جا رہا ہے اور دنیا
پرستی اور نفس پروری پر قانع ہوتا چلا جارہا ہے۔
مولانا ایک مکتوب میں فرماتے ہیں:
دنیا کا مفہوم نگاہ میں بہت غلط ہے، معیشت دنیا کے
اسباب میں مشغول ہونے کا نام دنیا ہر گز
نہیں ہے دنیا پر لعنت ہے اور لعنت کی چیز کا خدائے پاک کی طرف سے حکم نہیں ہو سکتا
، لہذا جس چیز کا حکم ہے اس کا حکم سمجھ کر اس کے اند ر سرگرمی کرنا یعنی حکم کو تحقیق
کرنا اور حکم کی عظمت کے ماتحت اس کے حلال و حرام کا دھیان کرنا اسی کا نام دین ہے
اور حکم سے قطع نظر کر کے خود اپنی ضرورتوں کو محسوس کرنا اور حکم کے علاوہ کوئی
اور وجہ اس کےضروری ہونے کی قرار دینا اس کا نام دنیا ہے ۔) بنام
میاں محمد عیسی فیروز پور نمک)
مولا نا دین کی مثال اس لعاب دہن سے
دیا کرتے تھے جس کی تھوڑی سی مقدار کی شمولیت کےبغیر نہ کسی چیز میں ذائقہ پیدا
ہوتا ہے اور نہ وہ چیز ہضم ہوتی ہے۔ یہ مقدار ہر انسان کے پاس موجود ہے۔ اسی طرح دین کی
یہ ضروری مقدار ہر مسلمان کے پاس موجود ہے صرف اس کو اپنے دنیاوی مشاغل اور تعلقات
میں شامل کرنے کی ضرورت ہے جس سے اس کی ساری دنیا دین بن جائے۔
-3 عرصہ دراز سے علم دین کے متعلق یہ خیال قائم کیا گیا ہے
کہ وہ صرف کتابوں اور نصاب اور خاص اساتذہ کے ذریعہ عربی مدارس میں کئی برس کی سخت
محنت سے حاصل ہو سکتا ہے اور چونکہ ہرشخص مدرسہ کا طالب علم نہیں بن سکتا، اس لئے
عام مسلمانوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ علم دین ان کی قسمت میں نہیں اور طے کر لیا کہ
ان کی زندگی جہالت ہی میں گزرے گی۔
یہ صحیح ہے کہ علم دین عربی مدرسوں میں حاصل ہوتا ہے
مگر یہ دین کا تکمیلی علم اور درجہ فضیلت ہے،لیکن ہر مسلمان کے لئے یہ علم اور یہ
درجہ نہ ضروری ہے نہ ممکن ہے۔ دین کا ضروری علم ہر مسلمان اپنے کاروبار دنیاوی
علائق و مشاغل کے ساتھ حاصل کر سکتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین(اصحاب صفہ کی محدود اور
ایک مختصر جماعت کے سوا) سب اپنے اپنے مشاغل اور تعلقات زن و فرزند رکھتے تھے۔ وہ تاجر
بھی تھے اور کاشتکار بھی تھے اور اہل حرفہ بھی۔ ان کے ساتھ بھی گھر کا بار اور
زندگی کا جنجال تھا۔ مدینہ منورہ میں علوم دینیہ کا کوئی مدرسہ بھی نہ تھا، اگر
ہوتا بھی تو وہ اس کے باقاعدہ طالب علم نہیں بن سکتے تھے اور اپنے آٹھ دس برس صرف
اس کی طالب علمی میں صرف نہیں کر سکتے تھے، مگر سب جانتے ہیں کہ وہ ضروری علم دین
رکھتے تھے اور دین کی ضرورت و مسائل و احکام اور فضائل کے علم سے بے بہرہ نہیں تھے
، یہ علم ان کے پاس کہاں سے آیا ؟ محض رسول کی مجلس میں شرکت و حضوری، زیادہ جاننے
والوں کے پاس بیٹھے اور اہل دین کی صحبت و اختلاط اور ان کے حرکات و سکنات کو بغور
دیکھنے سفروں اور جہاد میں رفاقت اور بر وقت اور بر موقع احکام معلوم کرنے اور
دینی ماحول میں رہنے سے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس درجہ
اور معیار کی بات آج حاصل نہیں ہو سکتی، لیکن اس سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ
اس کی کچھ نہ کچھ صورت انہیں راستوں سے آج بھی پیدا کی جاسکتی ہے۔
مولانا کے نزدیک اس کی تدبیر یہ تھی
کہ مشغول اور کاروباری مسلمان کو اور عام اہل شہر کو دین کا ضروری علم حاصل کرنے
کے لئے اپنے اوقات کا کچھ حصہ فارغ کرنے کی دعوت دی جائے اور دین کے لئے مال کی طرح وقت کی زکوۃ نکالنے پر آمادہ کیا جائے ۔
ان کو اس ماحول سے نکلنے دعوت دی جائے جس کے متعلق ان کا عمر بھر کا تجربہ ہے کہ
وہ اس میں رہتے ہوئے اپنی زندگی میں کوئی محسوس تبدیلی پیدا نہ کر سکے اور دین کے
ابتدائی اور ضروری مسائل ( ان کی ضرورت کا
اقرار اور بعض اوقات عزم رکھنے کے باوجود ) حاصل نہیں کر سکے۔ جہالت و نا واقفیت
کے اس مقام پرجو شخص 20، 25 برس پہلے تھا آج بھی ٹھیک اسی مقام پر ہے۔ جس کی نماز
غلط تھی اس کی نماز 15برس سے غلط ہی چلی آرہی تھی۔ جس کو دُعائے قنوت یا نماز جنازہ کی دعا
یاد نہیں تھی اس کو سینکڑوں وعظ سننے اور برسوں علماء کے پڑوس میں رہنے کے باوجود
اور ہزاروں کتابوں کے بازار میں بکنے کے باوجود ابھی تک وہ یاد نہیں ہے،
اس سے ثابت ہو گیا کہ اس ماحول میں اس کے لئے تبدیلی
اور ترقی کا صرف عقلی امکان اگر چہ ہے، لیکن تجربہ اس کے بالکل بر خلاف ہے۔
پس اس کا ذریعہ صرف یہ ہے کہ ان کو عارضی طور پر اس غیر
دینی اور جامد ماحول سے نکال کر کسی زندہ اور بیدار دینی ماحول میں رکھا جائے تا
کہ وہ کچھ دنوں کے لئے اپنے قدیم ماحول کے اثرات سے آزاد ہوں، اپنے مشاغل سے فرصت
پائیں، ان کی دینی عزیمت اور قوت ارادی جو ماحول کی نا موافقت اور مشاغل کی مزاحمت
سے شکست کھا کر افسردہ اور کمزور ہو چکی ہے، پھر زندہ اور بیدارہو ، سویا ہوا دینی
احساس اور طلب ان کے دلوں میں انگڑائی لے اور ان میں دین حاصل کرنے کاپھر حوصلہ
پیدا ہو۔
-4 مولانا کے نزدیک مسلمان کی زندگی اصلی ساخت یہ تھی کہ
وہ اسلام کی نصرت و خدمت اور اس کے عملی کاموں میں شخصاً شریک ہو یا جو لوگ ان کاموں میں مشغول ہیں ان کے
لئے پشت پناہ بنے لیکن اس کے ساتھ ہی ان کاموں میں خود عملاً شریک ہونے کا عزم اور
جذبہ رکھتا ہو اور صرف کسی معذوری یا دینی مصلحت کی وجہ سے ہی وقتی طور پر اس سے
علیحدہ ہو۔ شہروں کی پُر سکون اورکاروباری زندگی جس کو مولا نا مہاجرانہ اور
مجاہدانہ زندگی کے مقابلہ میں سکونی زندگی فرماتے تھے، اسلام کی راہ ِر است سے ہٹی
ہوئی اور بگڑی ہوئی زندگی ہے۔ شہروں کی زندگی مدت ہائے دراز سے خالص کاروباری،
کمانے اور کھانے کی زندگی رہ گئی ہے، مولانا اس طرز زندگی کو دیکھ کر کڑھتے رہتے
تھے اور چاہتے تھے کہ اہل شہر بھی" ہجرت ونصرت "کی زندگی اختیار کریں
اور شہروں میں بھی اس کا رواج ہو ۔
مولانا اس تقسیم کے قائل نہ تھے کہ کچھ لوگ دین کی خدمت
کریں اور کچھ لوگ اطمینان سے اپنا کاروبار کریں اور دنیاوی ترقی میں مشغول ہیں اور
کبھی کبھی اہل دین کی مالی اعانت وخدمت کر دیا کریں، اور سمجھ لیں کہ تقسیم عمل کے
اصول سے علماء اور اہل دین کے ذمہ دین کی خدمت ہے، اوران کے ذمہ دنیاوی ترقی اور
اہل دین کی حسب توفیق بس مالی امداد ہے۔
مولا نا فرماتے تھے کہ: جس طرح زندگی کے ضروری کاموں
میں تقسیم عمل نہیں ، اس پر کوئی راضی نہیں کہ ایک کھالیا کرے دوسرا پی لیا کرے،
اور تیسرا پہن لے، بلکہ ہر شخص ان میں سے ہرکام فردا فردا اپنے لئے ضروری سمجھتا ہے،
اسی طرح مذہب کے فرائض کی پابندی، دین کا ضروری علم حاصل کرنا، اور فی الجملہ دین
کی نصرت، اعلاء کلمۃ اللہ کی کوشش ہر شخص کے لئے کسب معاش کے ساتھ ضروری ہے۔
دہلی میں میواتیوں کا قیام:
ان تمام وجوہ کی بناء پر مولانا شہروں کے
مسلمانوں کیلئے اپنی یہ دعوت بہت ضروری سمجھتے تھے اوربہت زور کے ساتھ ان کے سامنے
یہ دعوت پیش کرنا چاہتے تھے، مگر مولانا اس کے لئے محض مواعظ اور تقریر وتحریر کافی نہیں سمجھتے تھے، بلکہ عملی نمونہ اور
عملی آغاز کےبغیر اس کو مضرسمجھتے تھے۔
ایک گرامی نامہ میں ارشاد فرمایا:
" جب تک عوام کے سامنے عملی نمونہ نہ ہو محض
منبروں پر کی تقریر عمل پر پڑنے کے لئےکافی نہیں ہو سکتی۔ اگر تقریر کے بعد عمل پر
پڑنے کی تجویز وتشکیل نہ ہو تو عوام کے اندر ڈھٹائی اور بے ادبی کے لفظ بولنے کی
عادت پڑ جائے گی۔
چنانچہ آپ نے دہلی شہر اور دوسرے بڑے
بڑے مرکزوں میں میواتیوں کی جماعتیں بھیجنی شروع کیں، اور انہوں نے
دہلی میں طویل قیام کرنا شروع کیا۔ ابتداء میں ان کو دہلی میں بڑی وقتیں
پیش آتی تھی، ان کو مسجدوں میں رات کو جگہ دینے سے
انکار کر دیا جاتا، کسی مسجد میں اگر ٹھہربھی گئے تو ضروریات پوری کرنے
میں بڑی تکلیف ہوتی ، لوگ ان کی شکاتیں کرتے اور برا بھلا کہتے
۔ وہ شہر کی تکلیفوں سے دق ہو کر اہل شہر کی بے مہری سے تنگ آکر اپنے امراء اور
ذمہ داروں سے شکوہ کرتے ، وہ غریب
کبھی اہل محلہ کی خوشامد کرتے کبھی میواتی بھائیوں کو سمجھا بجھا کر خاموش کرتے،
مگر یہ ایک مستقل جہاد اور آزمائش تھی جو روزانہ پیش آتی تھی۔ رفتہ رفتہ یہ دقتیں
دور ہوئیں ۔ لوگوں کی نگاہیں اور سلوک بدل گئے اور اپنے جوش و اخلاص اور قربانی کی
وجہ سے میواتی محبت کی نظر سے دیکھے جانے لگے۔ ( مولانا
نے کئی بار ذکر فرمایا کہ ایک روز میاں جی داؤد (جواکثر میواتیوں اور اہل شہر کے
درمیان واسطہ ہوتے، دو طرفہ شکایت اور غم و غصہ سن کر اور عاجز آکر بہت روئے۔ مولا
نا فرماتے تھے کہ ان کے اس رونے سے راستہ کھل گیا اور کام میں بڑی برکت ہوئی)
اہل علم کی طرف توجہ:
آپ نے اپنے نزدیک اس کا فیصلہ کر لیا تھا کہ جب تک اہل
حق اور اہل علم اس کام کی طرف متوجہ نہ ہوں گے اور اس کی سر پرستی نہ کریں گے اس
وقت تک اس اجنبی دعوت اور اس نازک اور لطیف کام کی طرف سے (جس میں بڑی دقیق رعا
تیں اور نزاکتیں ملحوظ ہیں ) اطمینان نہیں کیا جا سکتا آپ کو اس کی بڑی آرزو تھی
کہ اہل اشخاص اس کام کی طرف توجہ کریں اور اپنی قابلیتوں اور خداد صلاحیتوں کو اس
کام کے فروغ میں لگائیں جس سے اسلام کے درخت کی جڑ شاداب ہوگی ، پھر اس سے اس کی
تمام شاخیں اور پتیاں سرسبز ہو جائیں گی۔
اس سلسلہ میں آپ علماء سے صرف وعظ و تقریری
کے ذریعہ اعانت نہیں چاہتے تھے، بلکہ آپ کی خواہش اور آپ کا مطالبہ علماء عصر سے
سلف اول کے طرز پر اشاعت دین کے لئے علمی جد و جہد اور در بدر پھرنے کا تھا۔
شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب کو ایک خط میں لکھتے ہیں:
"عرصہ
سے میرا خیال ہے کہ جب تک علمی طبقہ کے حضرات اشاعت دین کے لئے خود جا کر عوام کے
دروازوں کو نہ کھٹکھٹائیں اور عوام کی طرح یہ بھی گاؤں گاؤں اور شہر شہر اس کام کے
لئے گشت نہ کریں، اس وقت تک یہ کام درجہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا کیونکہ عوام پر
جو اثر اہل علم کے عمل و حرکت سے ہوگا وہ ان کی دھواں دھار تقریروں سے نہیں ہو
سکتا۔ اپنے اسلاف کی زندگی سے بھی یہی نمایاں ہے جو کہ آپ حضرات اہل علم پر بخوبی
روشن ہے"۔
درس و تدریس سے تعلق رکھنے والے بعض بزرگوں کو شبہ تھا
کہ تبلیغ و اصلاح کی اس کوشش میں مدرسین اور طلبہ مدارس کا اشتغال ان کے علمی
مشاغل اور علمی ترقی میں حارج ہوگا، لیکن آپ جسطرح اور جس منہاج پر علماء مدارس اور طلبہ سے یہ کام
لیناچاہتے تھے، وہ درحقیقت علماء اور طلباء کے علوم کی ترقی و پختگی کا ایک مستقل
انتظام تھا، ایک گرامی نامہ میں لکھتے ہیں:
"علم
کے فروغ اور ترقی کے بقدر اور علم ہی کے فروغ اور ترقی کے ماتحت دین پاک فروغ اور
ترقی پا سکتا ہے، میری تحریک سے علم کو ذرا بھی ٹھیس پہنچے ، یہ میرے لئے خسران
عظیم ہے۔ میرا مطلب تبلیغ سے علم کی طرف ترقی کرنے والوں کو ذرا بھی روکنا یا
نقصان پہنچانا نہیں ہے، بلکہ اس سے بہت زیادہ ترقیات کی ضرورت ہے اور موجود
جہاں تک ترقی کر رہے ہیں، یہ بہت نا کافی ہے"۔
مولانا چاہتے تھے کہ اس تبلیغی کام ہی کے ضمن میں طلبہ
اپنے اساتذہ ہی کی نگرانی میں اپنے علوم کے حق ادا کرنے اور مخلوق کو ان سے فائدہ
پہنچانے کی مشق کر لیں تا کہ ان کے علوم خلق اللہ کے لئے نافع ہوں۔ ایک گرامی نامہ
میں لکھتے ہیں:
" کاش تعلیم ہی کے زمانہ میں امر بالمعروف و
نہی عن المنکر کی استادوں کی نگرانی میں مشق ہو جایا کرے تو علوم ہمارے نفع مند
ہوں، ورنہ افسوس کہ بیکار ہو رہے ہیں، ظلمت و جہل کا کام دے رہے ہیں۔ انا للہ وانا
الیہ راجعون"۔
بہر حال اپنی اس دعوت کو اعلی
علمی و دینی حلقوں میں پہنچانے کے لئے آپ نے جماعتوں کا رُخ دینی مرکزوں کی طرف
کیا۔
دینی مرکزوں میں کام کے
اصول:
آپ نے میواتوں کو دیو بند ، سہارن پور، رائے پور اور
تھانہ بھون کی طرف بھیجنا شروع کیا اور ہدایت فرمائی کہ بزرگوں کی مجلسوں میں
تبلیغ کا ذکر نہ کریں، 60, 50 آدمی ماحول کے دیہاتوں میں گشت کریں اور آٹھویں روز
قصبہ میں جمع ہو جائیں، پھر وہاں سے دیہات کے لئے تقسیم ہو جائیں۔ حضرات اکابر کی
طرف سے اگر پوچھا جائے تو بتلا دیا جائے از خود کچھ ذکر نہ کیا جائے۔
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کو ایک خط میں تحریر
فرماتے ہیں:
" میری
ایک پرانی تمنا ہے کہ خاص اصولوں کے ساتھ مشائخ طریقت کے یہاں یہ جماعتیں آداب خانقاہ
کی بجا آوری کرتے ہوئے خانقاہوں میں فیض اندوز ہوں اورجس میں باضابطہ خاص وقتوں
میں حوالی کے گاؤں میں تبلیغ بھی جاری رہے، اس بارے میں ان آنے والوں سے مشاورت کر
کے کوئی طرز مقرر فرما رکھیں، یہ بندہ ناچیز بھی اس ہفتہ بہت زیادہ اغلب ہے کہ چند
طلباء کے ساتھ حاضر ہو۔ دیو بند اور تھانہ بھون کا بھی خیال ہے"۔
اہل بصیرت کا اطمینان:
اس طریقے سے بعض اہل بصیرت کو کام کرنے کی طرف سے
اطمینان ہونے لگا اور ان کے شکوک و شبہات جو اس کام سے متعلق تھے زائل ہوئے۔
٭٭٭ تھانہ بھون میں اسی طرح ہوا۔ جماعتیں تھانہ بھون کے ماحول اور آس پاس کام کرتی رہیں،اطراف واکناف سے آنے والے مولانا اشرف علی صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے جماعتوں کی کارگزاری، ان کے طرز و اصول اوران برکات کا ذکر کرتے جو ان کے گشت و قیام سے ان مقامات میں نظر آنے لگے تھے۔ مولانا کو پہلے بڑا شبہ اس میں تھا کہ جب ان علماء کو جنہوں نے آٹھ آٹھ دس دس برس مدرسوں میں تعلیم پائی تھی تبلیغ دین میں پوری کامیابی نہیں ہوتی بلکہ صد ہا اور نئے فتنے کھڑے ہو جاتے ہیں تو یہ جاہل میواتی بغیر علم و تربیت کے اتنا نازک کام کیسے کریں گے۔مولانا کی محتاط اور دور رس طبیعت اس کی طرف سے غیر مطمئن تھی کہ کہیں اس طریقہ سے کوئی بڑا فتنہ نہ پیدا ہو، لیکن ان میواتیوں کے عملی کام اور قرب و جوار کی متواتر خبروں اور تصدیقوں سے اور پھر ان کی آمد کی برکات کو خود ملاحظہ کرنے سے آپ کو اس کا اطمینان ہوا۔ چنانچہ ایک موقع پر جب مولا نا محمد الیاس صاحب نے اس طرز کے متعلق کچھ گفتگو کرنی چاہی تو مولانا نے فرمایا کہ دلائل کی ضرورت نہیں، دلائل تو کسی چیز کے ثبوت اور صداقت کے لئے پیش کئے جاتے ہیں، میرا تو اطمینان عمل سے ہو چکا ہے۔ اب کسی دلیل کی ضرورت نہیں ، آپ نے تو ماشاء اللہ یاس کو آس سے بدل دیا ہے۔ مولانا کو ایک بے اطمینانی یہ تھی کہ علم کے بغیر یہ لوگ فریضہ تبلیغ کیسے انجام دے سکیں گے؟ لیکن جب مولانا ظفر احمد صاحب نے بتایا کہ یہ مبلغین ان چیزوں کے سوا جن کا ان کو حکم ہے کسی اور چیز کا ذکر نہیں کرتے اور کچھ اور نہیں چھیڑتے تو مولانا کو مزید اطمینان ہوا۔٭٭٭
حوالہ:ص91 تا 124
"حضرت مولانا محمد الیاس رحمۃ اللہ علیہ اور اُن کی دینی دعوت"
از: مفکراسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی(رحمۃ اللہ علیہ )
مکتبہ دینیات ،بلال پارک ، باغبان پورہ ، لاہور
#TOOBAA_POST_NO_519
The best
ReplyDelete