میری علمی زندگی کی داستان ِ عبرت
مصنف : مولانا محمد شہاب الدین ندوی
پیشکش : طوبیٰ ریسرچ لائبریری
نشرمکرر : بشکریہ الفرقانیہ اکیڈمی بنگلور
16جمادی الاول 1442 ہجری
MERI ILMI ZINDGI KI DASTAAN E EBRAT
Author: MOULANA MUHAMMAD SHAHAB U DIN NADWI
٭میری علمی زندگی کی داستان عبرت
زیر ِ نظر رسالہ (170 صفحات پر مشتمل) بیسوی صدی کے نصف آخر کے ایک عالمِ ربانی علامہ شہاب الدین ندوی مرحوم کی مختصر آپ بیتی اور جگ بیتی ہے۔ اس میں آپ کے علمی و ذہنی ارتقا اور علوم قرآنی کے ساتھ غیر معمولی لگاؤ ، ذوق اور مناسبت کا حال کُھلتا ہے۔ کائنات کے متعلق قرآن کی آیات کا سائنس ، علوم ِ جدیدہ ، حیاتیات (بیالوجی) طبیعات(فزکس) ، فلکیات(آسٹرونومی) اور ریاضیات (میتھ میٹکس ) کے تناظر میں بڑا عرصہ مطالعہ کرکے قرآن کے اس حصہ کی عصری تفہیم اور قرآن کی معجز بیانی میں گہری بصیرت اور دَرک حاصل کیا۔ اس کے بعد ان مضوعات کے تحت قرآن کے بیانات کو کھولا اور معرکے کی کتابیں لکھیں جن کو نہ صرف برصغیر میں بلکہ مصر و شام اور عرب میں بھی اپنے عربی ایڈیشنوں کے ذریعے پذیرائی حاصل ہوئی، بعض فقہی ، معاشرتی اصلاح پر بھی کتب تحریر فرمائیں۔
آپ کی تصنیفات میں دعوت ِ دینی اور رجوع الی القرآن کا نمایاں رنگ ہے ، اس مختصر کتابچے میں اپنی علمی ، تعلیمی تصنیفی زندگی کو مؤثر اور سادہ دلنشین پیرائے میں بیان کیا اور خوب بیان کیا ہے، آپ بیتی کے پہلو بہ پہلو یہ رسالہ جگ بیتی بھی ہے ، علمی تحقیق و تخلیق اور انکشافاتِ حقائق کے اس سفر میں آپ کو سخت مجاہدوں، مشکلات ، وسائل کی کمیابی وغیرہ سے گذرنا پڑا، اپنی مسلم قوم کی بے حسی اور علم و تحقیق کے باب میں کم سوادی اور خواص کے جمود اور رسمی و روایتی علم پر ہٹ دھرمی کی حد تک اصرار ، یہ سارے احوال اس رسالہ سے سامنے آتے ہیں۔ بیرون ِ ملک علمی و تحقیقی سیمیناروں میں بھی شرکت کے مواقع آپ کو ملے ، اپنا کام عربی تراجم میں دنیا بھر سے آئے اہلِ علم مندوبین تک پہچانے کا موقعہ ملا۔
میری طرح اور بھی جو حضرات آپ کی تالیفات سے متعارف ہیں ان کو یہ رسالہ "گائڈ بک" کا کام دے گا۔ زکوۃ اور انفاق فی سبیل اللہ کی بحث اس پہلو سے کہ یہ اسلامی ریاست و سماج کے لیئے آفاقی اسلامی شریعت نے ایک جامع اقتصادی نظام کے طور پر پیش کیا نہ کچھ خیراتی اداروں اور کام چور پیشہ ور فقیروں کی پیٹ پوجا کے وسیلے کے لیئے۔ اس لحاظ سے آپ کے مضامین و رسائل نظام زکوۃ اور اس کے مختلف مباحث پر مطبوع و موجود ہیں ، خصوصاً عرب عبقری عالم یوسف قرضاوی کی " فقہ الزکوۃ " میں فی سبیل اللہ کے کیا کیا مصداقات ہیں اس میں یوسف قرضاوی ایک جدید مؤقف رکھتے ہیں اور گذشتہ صدی کے برصغیر کے کئی مفکر سکالرزکے ہاں بھی یہ مؤقف کچھ فرق کے ساتھ ملتا ہے ، اس پر بھی آپ نے اچھی بحث کی ہے ۔ مدارسِ دینیہ کے جمود اور علم ِ دین کے وسیع عصری آفاق و امکانات سے منہ موڑ کر اپنی مخصوص دنیا ، مخصوص خول و حصار میں رہنا اس پر فکر انگیز تبصرہ و احتجاج رسالے میں آپ نے کیا ہے ۔
خطہ برصغیر کے دینی مدارس کے تناظر میں آپ کا یہ تجزیہ وقت کی آواز ہے جس کا حاصل علامہ اقبالؔ کے الفاظ میں یہ ہے
معمارِ حرم، باز بہ تعمیرِ جہاں خیز
از خوابِ گِراں، خوابِ گِراں، خوابِ گِراں خیز
اللہ کرے سوتے ہوئے جاگ جائیں سورج تو بام و در سے اتر کر صحن و دالان کو بھی پار کر چکا ہے ، نیند کے متوالوں کی صبح کیا صورِ اسرافیل کی منتظر ہے جب جاگتے ہوؤں کو بھی سُلا دیا جائے گا۔ اموات غیر احیاء وما یشعرون ایان یبعثون کی شکوہ سنجی لیڈر شپ کے میدان سے پسپا ہو کر تہہ محراب سو جانے والوں سے کرنے والے کب تک کریں گے ؟
مباحث اور بھی ہیں ، جن سے آگاہی کے لیئے آپ کو مزید کتاب پڑھنا پڑے گی۔
مبصر: (مفتی )محمد امجد حسین صاحب
مدیر: فقہ السنہ اکیڈمی،راولپنڈی
03379828937
مزید کتب کے لیئے دیکھیئے صفحہ " آپ بیتیاں " ۔
No comments:
Post a Comment