یادوں میں بسے حضرت ڈاکٹر مفتی عبدالواحدصاحب مرحوم
اور کیا بتاوں میں
زندگی کی ظلمت میں
وہ چراغ بن کے روشن تھا آدمی کی صورت میں
نوٹ :مجھ بے علم و بے
عمل ، نااہلِ و ناکارہ کی ہفوات پڑھنے سے بہتر ہے اتنی دیر آپ کچھ قرآن و اذکار،
درود و استغفار پڑھ کر حضرت مفتی ڈاکٹر عبدالواحدؒ کو ایصالِ ثواب کر دیجیئے۔بقول
ساغرؔ
میرے دامن میں
شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ پُھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں
آپ پُھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں
مجھے انشاء پر عبور ہے نا میں نثر نگار ہوں ، ادبی
اسلوب کے آداب کے نا واقف ، وفیات یا مرثیہ ضبطِ تحریر میں لانا میرے بس کی بات
نہیں ۔ اسے نیرنگئ زمانہ کہیئے یا شومئی قسمت مجھ سا ناخواندہ و مردم ناشناس اک عظیم ہستی پرقلم اٹھانے کی جسارت کر
رہا ہے ۔ علوم اسلامیہ کی ابجد سے نابلد اور مقام ِ علماء و فقہاء سے نا آشنا ،
عین ممکن ہے کسی بھی ذی علم کو میری اس رو سیاہی پر جو سپرد ِ قرطاس کررہا ہوں اعتراض ہو ،،، کسی جزئیہ پر اہل فتوی کو نکیر
کرنے کا موقعہ ہاتھ آ جائے ، کچھ نجی مجالس کے تبصرے نقل ہونگے سو ایسے جبالِ علم
کے معتقدین کو ٹھیس پہنچے ۔ مگر دل اس سانحہ پراس قدر ملول ہے کہ محبی مکرمی مفتی صاحب جنھیں آج متوفی لکھنا پڑ
رہا ہے کے ہی نقشِ قدم کی پیروی کو لازم ٹہرایا ہے ؎
مجبوری و دعویٰ
گرفتاری الفت
دست تہ سنگ آمدہ پیمان وفا ہے
دست تہ سنگ آمدہ پیمان وفا ہے
آپ بیتی اور چشم
دید آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ سو پیشگی عرض ہے آپ صرف ِنظر کیجیئے وسعت ِ دل سے کام
لیتے ہوئے اغماض و اعراض برتیے ۔۔۔۔ بصورت دیگر اتنی التماس ہے؎
تجھ سے تو کچھ کلام
نہیں لیکن اے ندیم
میرا سلام کہیو اگر
نامہ بر ملے
یادوں کا دریچہ کھلا
ذرا جھانک کے دیکھا کم و بیش ربع صدی کے مناظر یوں لمحہ بھر میں چشم ِ تصور سے گزر
گئے جیسے آج ابھی کل کی کوئی بات ہے ،،،، کتابی تعارف کو پچیس برس ہونے کو آئے اور
ذاتی تعارف کو دو عشرے بیت گئے۔ ان بیس برسوں کی روئیداد ہے صرف تین ملاقاتیں ۔۔۔
باقی جو کچھ بھی ہے" فقط زیب ِ داستاں کے لیئے"۔۔۔۔۔۔
پہلی ملاقات کا پس
منظر :
اسے تبلیغ والوں کا
ابدی احسان مانتا ہوں کہ انھوں نے مجھ نابکار کو دین سے متعارف کروایا ، اگر یہ
تبلیغ والے نہ ہوتے تو شاید میں بھی آج یہاں نہ ہوتا ۔ یہ 1995 سن کے رمضان المبارک کی بات ہے جب
تبلیغ والے مسجد میں فضائلِ اعمال کی تعلیم کر رہے تھے اور میں قریب بیٹھا قرآن کی
تلاوت کر رہا جس کی توفیق گھر والوں کی ڈانٹ ڈپٹ کی بنا پررمضان میں ہی ہوا کرتی
تھی ۔ ہمارا گھرانہ کوئی خاص مذہبی نہیں تھا بس رواجی ، رسمی سا اسلام تھا جسکی
شدت رمضان میں ذرا بڑھ جاتی تھی ۔ خیر والدہ کا تعارف پہلے تبلیغ سے ہوا میرا بعد
میں ۔ یوں میں پہلی بار میں سہ روزہ میں گیا ۔ اس وقت مجھے مسلکی تقسیم کا کچھ پتا
نہیں تھا ہم کون کیا ہیں ۔ کبھی محرم میں شربت
بھی بانٹتے تھے تو کبھی ربیع الاول میں کھیر بھی تقسیم کیا کرتے تھے ۔ گھر میں خواتین
کبھی قرآن خوانی کے لیئے بھی جمع ہو جاتی تھیں ، گھر کی عورتیں کبھی کبھار بزرگوں
سے چھپ چھپا کے پکنک کے لیئے امام بریؒ یا گولڑہ کے دربار بھی چلی جایا کرتی تھیں ۔
چھپ کے اس لئے کہ نانا جان مرحوم موتی مسجد لیاقت روڈ راولپنڈی کی مجلسِ انتظامیہ کے صدر اور اپنی جوانی میں تبلیغ
سے وابستہ رہے اور حضرت شیخ الحدیث مولانامحمد
زکریا کاندھلوی سے بیعت بھی تھے مگر ناخواندہ تھے اور ہم نےانھیں مذہبی معاملات
میں شاذ و نادر ہی نہی عن المنکر کرتے دیکھا ، البتہ گھر والے اس بات سے بخوبی
واقف تھے کہ اگر دربار والی بات پتہ چل گئی تو خیر نہیں۔ دادا جان مرحوم پکے
توحیدی مشہور تھے گجرات کے نواح میں مدینہ سیداں کے گاوں سے شہر میں مولانا عنایت
اللہ گجراتی صاحب کے پیچھے جمعہ پڑھنے جایا کرتے تھے ۔ راولپنڈی شہر آ کر بھی
ہمارا گھر گوالمنڈی چوک میں تھا جہاں جامع مسجد حنفیہ میں قاری عبدالمالک امام و
خطیب تھے، جو دادا جی کے لیئے باعثِ راحت تھا ۔ ہم نے بچپن میں نانا جی اور دادا
جی کو ہم مسلک ہی پایا ۔ مگر یہ بحث کبھی نہیں سنی کہ ہم دیوبندی ہیں کہ بریلوی ،
وہابی ہیں یا اہلحدیث ؟ ۔بہرحال اس پس منظر کے ساتھ جب میں تبلیغ سے وابستہ ہوا تو
نانا و دادا مرحومین نے بہت حو صلہ افزائی کی اور خوب سراہا،،،،،، 1997 میں میرے
چار ماہ بھی لگ گئے۔لیکن ہمارے ننھیال میں مذہبی اعتبار سے دو مخصوص افکار ان دنوں خوب نفوذ کر رہے تھے ۔ لہذا بہانے بہانے سے موقعہ بے موقعہ طعن و
تشنیع کا سلسلہ بنام ِ تحقیق شروع ہو گیا ۔ اب تبلیغ والوں کی علمی پرواز ہی کتنی
ہوتی ہے ؟وہاں تو نماز پڑھنے اور فرائض واجبات کے واجبی سے علم پر بات ’’فضائل علم
‘‘ کی ختم ہو جاتی ہے ، اب تقلید عدم تقلید ، رفع الیدین ، فاتحہ خلف الامام ، موزوں
کا مسح ، آمین بالجہر ، جمع بین الصلاۃ ،
عدم وقوعِ تین طلاق، شرک فی
الرسالت،شرک فی التوحید،تبلیغی بدعتی و گمراہ،فقہ ضلالت و گمراہی،اور نا ختم ہونے
وا لے سوالات بر سبیل اعتراضات سے ذہن میں شکوک و شبہات کی اک خاردار رَو چلنے لگی
۔دوسرے موضوعات :جہاد ، اسلامی حکومت کے
لئے سیاسی جدوجہد ، مولوی تنگ نظر ، قدامت پرست
، جاہل ، تبلیغی جماعت پرائمری کلاس اور انگریزوں کی سازش مسلمانوں کو
مسجدوں میں محدود کرنے کی، مولانا مودودی مجدد اعظم ، تفہیم القرآن اور خلافت و
ملوکیت منزل من اللہ کے مصداق تھی گویا :
مستند ہے میرا فرمایا ہوا ، کی رَٹ اور مشاجرات صحابہ کے باب میں قاضی القضاۃ کے فرائضِ منصبی کے
لیئے محترم ہی منصوص من اللہ ہیں (اللہ
دونوں کی زندگی میں خوب برکت عطا فرمائے)اور میں نہیں چاہتا کہ اب مزید تلخی ہو گو
جاننے والے جان گئے ہوں گے،ویسے بھی اب جانبین کا یہ حال ہے کہ :
ہم
بھی شکستہ دل ہیں، پریشان تم بھی ہو
اندر سے ریزہ ریزہ میری جان تم بھی ہو
اندر سے ریزہ ریزہ میری جان تم بھی ہو
جیسے
کسی خیال کا سایہ ہیں دو وجود
ہم بھی اگر قیاس ہیں، امکان تم بھی ہو
ہم بھی اگر قیاس ہیں، امکان تم بھی ہو
اب جو
مولانا طارق جمیل صاحب کے بیانات پچھلے چند سالوں سے پی ٹی وی پر رمضان المبارک
میں نشر کیئے جاتے ہیں اور مرشدی شیخ مفتی محمد سعید خان صاحب کی نصائح و ہدایات ِ
تزکیہ و اصلاح برائے نفس نے میرا یہ ڈنگ ہی نکال دیا ۔ اور کسی کا نہ سہی میرا تو
اب اپنا حال یہ ہے کہ دریائے حیات کے پُلوں کے نیچے سے اس قدر طوفانی ریلے گزر چکے
کہ؎
جب کشتی
ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
خیر
تبلیغ والے جتنا مجھے ان بکھیڑوں سے منع
کرتے رہے میں اس جال میں مزید اُلجھتاگیا
۔ جوابات کی تلاش مجھے مفتی محمد رضوان
صاحب کے در پر لے آئی ، مفتی صاحب اُس وقت
جامعہ اسلامیہ کشمیر روڈ راولپنڈی کے دارالافتا ء کے رئیس تھے ۔ اب آئی
کام ، میں پڑھنے والا ۱۷سالہ لڑکا اور سوالات کا نا ختم ہونے والا طولِ طویل سلسلہ
، تھوڑی دیر کی گفتگو کے بعد مفتی صاحب نے اصل کمزوری کی نشاندہی فرمائی اور ہدایت
فرمائی کہ آپ خود مطالعہ کریں ،،،، (مفتی محمد رضوان صاحب مدظلہ العالی کا سب سے
بڑا احسان اس کمترین پر یہی ہے کہ انھوں نےخاص اپنے ہاتھ میں رکھنے اور مجھ پر
مسلط ہونے کی کوشش نہیں کی جیسا کہ اکثر جگہ ہوتا کہ سائل کو اپنے ہی حصار میں
مقید کر لیا جاتا ہے ۔ اس کے برعکس مفتی صاحب نے مجھے اکابر علمائے حق سے متعارف کروایا کہ آپ ان سے
استفادہ کریں اور خود کتب تجویز کیں کہ آپ
ان کا مطالعہ کریں ، زندگی میں پہلی مرتبہ، فقیہ ومفتی عبدالشکور ترمذیؒ ، امام اہلسنت علامہ سرفراز خان صفدر ؒ، حضرت
قاضی مظہر حسینؒ ، مولانا امین اوکاڑوی ؒ، مولانا یوسف لدھیانویؒ ، مفتی عبدالروف سکھروی،مفتی تقی عثمانی،مولانا
نعیم الدین ، صاحبان کا نام سنا۔ مفتی محمد رضوان صاحب کے توسط و تعارف
ہی کی وجہ سے ان حضرات کی زیارت کا
شوق پیدا ہوا ۔اسی زمانے میں ، طاہر بھائی اور میں نے علامہ سرفراز خان صفدرؒ کی
زیارت کے لیئے سفر کیا اور حضرت کی صحبت و دعاوں سے مستفید ہوئے۔ مولانا امین
اوکاڑوی صاحب ؒ کومفتی صاحب اکثر مدعوکرتے
تھے، کئی بار حضرت کے براہ راست بیانات اور نجی محافل میں شرکت کا شرف حاصل ہوا،
حتی کہ حضرت علامہ قاضی مظہر حسین ؒ کی
زیارت کے لیئے چکوال کا سفر کیا ، سال مجھے یاد نہیں البتہ اتنا یاد ہے کہ اسی سال
رائے ونڈ اجتماع میں مولانا اوکاڑوی ؒکے وصال کی خبر ملی تھی۔ چکوال کے اس سفر میں
رات اس حجرہ میں گزارنے کا شرف حاصل ہوا جہاں مولانا امین اوکاڑویؒ اور مفتی محمد
شیر علوی صاحب قیام پذیر تھے ، عشا کے بعد
حضرت قاضی صاحبؒ بھی تشریف لے آئے، مجھے آج تک یقین نہیں آتا کہ اس مہمان خانہ میں تین اساطین ِ علم
حضرات کے سواصرف چوتھا میں تھا جبکہ
میری عمر اس وقت بمشکل 18 سال ہوگی۔ فقیہ
ومفتی عبدالشکور ترمذیؒ اور مفتی عبدالروف سکھروی مدظلہ کی زیارت کروانے کا سہرا بھی مفتی صاحب کے سر
ہے کہ ان حضرات کواپنے ادارے، ادارہ غفران
میں مدعو کیا ، جہاں نا صرف بیان سنا بلکہ بعد میں نجی محفل میں بھی شریک ہونے کا
شرف حاصل ہوا، حضرت مفتی عبدالشکور ترمذیؒ کی بذلہ سنجی اور شگفتگی و
شیفتگی سے پوری محفل ہمہ وقت کشتِ زعفران بنی رہی۔
خیر میرے کالجیٹ پس منظر کو دیکھتے ہوئے مفتی
صاحب نے مجھے مفتی تقی عثمانی مدظلہ
العالی، مولانا زاہدالراشدی دامت برکاتھم ، حضرت ڈاکٹر مفتی عبدالواحد رحھم اللہ
کی کتب پڑھنے کی ترغیب دی ۔ اسی سلسلہ کی اک کڑی مولانا نعیم الدین استاد حدیث
جامعہ مدنیہ لاہور کی ایک کتاب نے بہت متاثر کیا کئی شبہات کا تریاق اس کتاب سے
حاصل ہوا ، سو مولانا نعیم الدین صاحب کی زیارت کے لئے عازم سفر ہوا ، اس سفر سے پہلے میں مفتی محمد امجد حسین صاحب سے ڈاکٹر
مفتی عبدالواحد صاحبؒ کی دو کتابیں پڑھنا شروع کی " اسلامی عقائد " اور
" اُصولِ دین " ۔ گو میری لا اُبالی طبیعت کی وجہ سے یہ سلسلہ زیادہ دیر
میں نبھا نہیں سکا ، لیکن ان اسباق کے دوران مفتی امجد صاحب بار بار فرماتے تھے کہ
" اسلامی عقائد : مفتی صاحب کے علم وقلم کا شاہکار ہے ، اس کی زبان و اسلوب عصری جامعات کے طلبا کے لیئے بہت کارگر
ہے "، اسی بار بار کی تصریح سے مصنف موصوف سے ملنے کا شوق گدگدانے لگا ۔ جب
مجھے پتا چلا کہ مفتی ڈاکٹر عبدالواحد صاحب اور مولانا نعیم الدین صاحب ایک ادارے میں ہوتے ہیں تو یہ شوق دو آتشہ ہو
گیا ، سو میں مفتی رضوان صاحب سے مشورہ کر کے مذکورہ دونوں حضرات سے ملاقات کے
لیئے نکل پڑا ، جاتے وقت مفتی صاحب نے مجھے ایک کتاب دی کہ یہ ڈاکٹر صاحب کو یہ
کہہ کر واپس کر دینا کہ " آپ نے ہدیۃ بھیجی ہے ہمیں پہلے ہی مل چکی ہے یہ مکرر آ گئی سوآپ واپس رکھ
لیں ،کتاب تھی "مسائل ِ بہشتی زیور حصہ دوم "۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جامعہ مدنیہ پہلی بار جانا ہوا
تھا ۔ مولانا نعیم الدین صاحب اوپر کی منزل میں حدیث کا سبق پڑھا رہے تھے، نہایت مسکراتی شخصیت
،بہت تپاک سے ملے، میں نے مفتی صاحب کا سلام عرض کیا، اور کہا "حضرت کچھ تبلیغ والوں کا بھی خیال
کیجیئے "، حضرت میری بات کا مطلب یہ سمجھے کہ میں انھیں تبلیغی جماعت میں
جانے کی دعوت دینے آیا ہوں !!! فرمانے لگے اچھا بھائی یہ تعلیم و تدریس کون کرے گا
؟؟؟،میں نے وضاحت میں تبلیغ والوں کی حمایت و دفاع کرنے کی" ہدایت" کی تو خوب محظوظ ہوئے، ایک کتاب
تبلیغی جماعت کےخلاف لکھی ہوئی حضرت کو دی کہ اسکا جواب بھی لکھیں،،، میری
اس بچگانہ حرکت پہ مسکرا کرفرمانے لگے پہلے تو یہ تبلیغ
والوں کو ہی دکھاوں گا جو ہماری قدر نہیں کرتے" ۔اصل
میں حضرت کی شخصیت میں تواضع اتنی تھی کہ مجھ نالائق سے گستاخی پہ گستاخی کی جرات
ہوتی رہی۔
دارالافتا ء گیا دیکھا تو تین اصحاب بیٹھے ہیں ،
اک عمر رسیدہ اور ایک جوان سے آدمی، اور انکے سامنے ایک نوجوان لڑکا بیٹھا ہے اور
اپنی آستین بالشت بھر اوپر چڑھا
کرسوال پوچھ رہا " حضرت کیا اتنا بازو بھی ننگا ہو تو نماز مکروہ ہوتی ہے؟ ۔
پختہ عمر کے بزرگ متانت و سنجیدگی سے بھرپور
فقط اتنا ارشاد فرماتے ہیں : جی ! ۔
وہ لڑکا شاید مدرسہ کا طالبعلم تھا پھر پوچھتا
ہے کہ " حضرت اتنے سے بھی مکروہ ہوتی ہے ؟؟؟، پھر یک لفظی جواب ارشاد ہوتا ہے
" جی "۔ کچھ دیر وہ خاموش بیٹھا
رہتا ہے ،، بزرگ کے ہم نشین صاحب اُسے اُٹھ کر جانے کا اشارہ کرتے ہیں اور وہ چلا
جاتا ہے ۔ وہی صاحب مجھ سے مخاطب ہوتے ہیں
"جی آپ فرمائیے "۔ ایسی رعب دار باوقار شخصیت کو دیکھ کر
نوعمری اور عدم تعارف کی وجہ سے گھبرا گیا
بڑی مشکل سے دہسکی ہوئی آواز نکلی وہ حضرت مفتی عبدالواحد صاحب سے ملنا تھا ۔
انھوں نے ساتھ بیٹھے بزرگ کی طرف اشارہ کیا۔ میں نےسلام کیا حضرت نے جواب دیا پھر
کچھ دیر کمرہ میں خاموشی رہی ،،،، مجھے کچھ بولنے کی ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی ، کہ
مفتی صاحب نے مہر سکوت توڑی " جی فرمائیے کیسے آنا ہوا ؟ حضرت آپ کی زیارت
کرنی تھی ۔
اچھا
کہاں سے تشریف لائے ہیں؟
میں نے کہا ادارہ غفران راولپنڈی سے
اچھا وہاں پڑھتے ہیں ؟
جی نہیں۔
ادارے میں کیا خدمت آپ کے
ذمہ ہے ؟
جی کوئی نہیں ۔ میں ادارے
میں نہیں ہوتا۔
پھر کیا کرتے ہیں ؟
جی پڑھتا ہوں۔
کہاں ؟
پنجاب کالج آف کامرس میں۔
اچھا اچھا۔ تو ادارہ
غفران سے کیسے تعلق ہو گیا ؟
جی وہ مفتی رضوان صاحب سے
تعلق ہے ، انھی نے بھیجا ہے ، یہ کتاب واپس کرنی ہے۔
کیوں ؟؟
جی وہ فرما رہے تھے ہمارے
پاس پہلے ہی آ گئی ہے ، آپ واپس رکھ لیں۔
(واضح رہے کہ مفتی رضوان صاحب کی تعلیم و تربیت حضرت
تھانویؒ کے سلسلہ میں ہوئی تھی جومعاملات میں بہت باریکیوں کا خیال رکھنے میں
مشہور ہیں)
مفتی ڈاکٹر صاحب
نے فرمایا : نہیں آپ انھیں واپس کر
دیجیئے گا کہ رکھ لیں کبھی دو سرےنسخے کی بھی
ضرورت پڑ جاتی ہے۔
اب میرا
کچھ حوصلہ ہوا کہ بات کروں عرض کیا حضرت آپ کی کتاب اسلامی عقائد سے مجھے بہت نفع
ہوا ، آپ کی باقی کتب مسائل بہشتی زیور اور اُصول دین بھی پڑھ رہا ہوں ، بہت
کارآمد اور آسان زبان میں لکھی گئی ہیں ۔
جی اچھا اللہ قبول فرمائے ۔ بس اتنا فرمایا !
اب میں نے ایک اشکال پیش کیا : حضرت آپ کی کتب
میں حوالے بہت کم ہیں یہ کالج یونیورسٹی کے لوگ اکثر حوالے مانگتے ہیں ؟
مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ میں اس ہستی کے سامنے
ہوں جو اس بحر کا شناور اور راہوں کا راہی
ہی نہیں بلکہ راہبر ہے، سو آپ حضرت کا حکیمانہ جواب ملاحظہ فرمائیے۔
" بھئی بات یہ ہےکہ کالج یونیورسٹی میں اتنے"ایکسٹرا
آڈنری"(عبقری ذہنیت کے) طالبعلم پوری
کلاس میں اک دو ہی ہوتے ہیں ، اب صرف ان کو مدنظر رکھ کر لکھا جائے اور ہر ہر سطر
کا حوالہ دیا جائے تو کتاب کی افادیت کم ہو جاتی ہے انسائیکلوپیڈیا بن جاتی ہے ،
جو باقی لوگ دیکھ کر ہی گھبرا جاتے ہیں ، اصل میں ہمارا مقصد ایسے لوگوں کو مخاطب کرنا ہے جو دین کی بنیادی
چیزیں سیکھنا چاہتے ہیں ۔ باقی معترضین کی تسلی کروانا ، اس کے لیئے پہلے انکی
ذہنی تربیت ضروری ہے ، پھر ان کی دینی تعلیم میں کتب مددگار ثابت ہو سکتی ہیں
"۔
لیجیئے ملاقات بھی ہوگئی
مقصد بھی حاصل ہوگیا ۔ لیکن اس " شح
النفس " کا کیا کیجیئے جو کتابوں سے متعلق مجھے لاحق ہو چکا تھا ۔ بس
کوئی نئی کتاب کسی طرح حاصل ہو جائے چاہے اس کے لیئے میرے رزائل ہی دوسرے پر آشکار
کیوں نہ ہو جائیں مگر کسے پرواہ بس کتاب مل جائے ۔
اب مفتی صاحب کی کتاب پر
میری نیت اَٹک گئی ، کچھ دیر خاموشی کے بعد میں حضرت ڈاکٹر صاحب سے سوالیہ انداز
میں عرض کیا " اچھا یہ کتاب مفتی
صاحب کو واپس کر دوں ؟"
جی واپس دے دیجیئے گا ۔
ظاہر ہے اس جواب سے میری
تسلی نہیں ہونی تھی میں تھوڑی دیر بیٹھا رہا پھر بولا " اچھا
تو یہ کتاب مفتی صاحب کو واپس کر
دوں ؟"
جی کر دیجیئے گا !!!
پھر وہی جواب اور مجلس پہ سکوت طاری۔
میں کچھ دیر خاموش رہا تو
"حضرت کے ہم نشین بولے : مفتی صاحب کے جانے کا وقت ہو گیا ہے "۔ اشارہ
واضح تھا کہ اب میں چلا جاوں مگر مجھ پہ کتاب کا بھوت سوار تھا اس کے لالچ نے مجھے
بالکل ساکت و جامد کیا ہوا تھا۔
مفتی صاحب خود ہی اٹھے اور
فرمایا " اچھا بھئی اجازت"
میں نےپھر
کہا "حضرت یہ کتاب مفتی صاحب کو واپس کر دوں ؟"۔
اس بار میں نے دیکھا کہ حضرت
کے چہرے پر ناگواری کے آثار ہیں، میں نا
امیدی کے جذبات لیئےجلدی سے کھڑا ہوا اور مصافحہ کے لیئے آگے بڑھا، حضرت نے مصافحہ
کرتے وقت میرا چہرہ بھی پڑھ لیا۔فرمانے لگے آپ کے پاس یہ کتاب ہے ؟؟؟
میں فورا کہا : نہیں جی
مسکرائے اور فرمایا "
اچھا یہ آپ رکھ لیں "۔
میرا چہرہ کتاب پا کر کھِل
گیا اور خوشی بلکہ فتح کے آثار نمایاں تھے۔
حضرت ڈاکٹر صاحب نے اللہ
حافظ کہا اور چل دیئے۔
یہ
تھی پہلی ملاقات ،،،، اب جب عمر اُس وقت سے دوگنی ہوگئی ہے تو جب بھی اس ملاقات کا
خیال آتا ہے تو دل ہی دل میں اپنے آپ کوستا ہوں کہ اک کتاب کی خاطر کتنی نادانیاں
سرزد ہوئیں،،شرمندگی اور احساسِ ندامت حضر
ت کی زیارت و صحبت کے احساس پر غالب
آ جاتا ہے؎
اس دل کے دریدہ دامن کو دیکھو تو
سہی سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس
جھولی کا پھیلانا کیا
دوسری ملاقات : تقریب
کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے!!!
جنرل پرویزمشرف 1999 میں آیا
اسکے ساتھ ہی پاکستانی معاشرے پر یکے بعد دیگرے فتن و شرور کے نئے دروازے کھلتے
چلے گئے ، جنھیں کبھی بھرپور سرکاری سر پرستی حاصل ہوتی تھی تو کبھی وہ اس آزادی
کا نتیجہ تھی جو مشرف نے فراہم کی تھی ۔ اصل بات یہ ہے(میری نظر میں)کہ مشرف سے
پہلے پاکستان میں پرنٹ میڈیا تھا یا ڈش انٹینا ، پرنٹ میڈیا اخبارات و رسائل میں
فکری ابحاث و اداریے وغیرہ سے عوام کو بالعموم کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، بس خبریں
پڑھیں اور فارغ، بہت غیر معمولی دلچسپی لینے والے نہایت قلیل تعداد میں اس طرف
توجہ کرتے ہیں ، رسائل جرائد و کتب تو اس سے بھی اوپر کی سطح کے لوگ پڑھتے ہیں ، دینی معاملات
عوام الناس کے ابھی تک منبر ِمسجد سے ہی وابستہ تھے لوگوں کے پاس دینی معلومات کا
واحد سہل الحصول ذریعہ مسجد کا منبر ہی تھا ۔ مشرف کے دور میں 1999 کے شاید اخیر
میں یا 2000 کے اوائل کیبل ٹی وی نیٹ ورک
کا سلسلہ شروع ہوا اور اک جھپک سےپاکستانی معاشرے کی سماجی ، فکری بنیادیں اُڑ کے
فضا میں گرد بن کر بکھر گئی ۔ ہمارے کسی ادارے بشمول مذہبی اداروں و اشخاص کی اس
شتر بے مہار، مادر پدر آزاد تبدیلی کے لیئے قطعا کوئی تیاری نہیں تھی ۔ لہذا
چینلز پر جب غامدی صاحب اور ان کے ہم فکر لوگوں نے اک طرف دھاوا بولا ، تو دوسری
طرف نام نہاد مسلم لبرلز نے محاذ سنبھال لیا ،۔ ایسے یہ مباحثے ، مناقشے، اعتراضات
و افکار جنگل کی آگ کی طرح ہمارے معاشرے میں پھیل گئے ، دوسری طرف طالبان کی پسپائی
سے اک اور جذباتی فضا بن گئی ، اب نائی کی دکان ہو یا چائے کا ڈھابا، آپ ٹرین میں
اکانومی کلاس میں سفر کر رہے ہوں یا جہاز کی بزنس کلاس میں بیٹھے ہوں ، ہر کس ناکس
دین پر بحث کر رہا ہوتاتھا ۔ جہاں چار بندے جمع ہوئے اور اک داڑھی والا ہو تو اسکی
خیر نہیں ، مولوی مطعون،عورت پردہ کیوں
کرے ؟ شوہر مر جائے یا طلاق دے تو عدت
کرانا ظلم ہے ؟ عورت بھاگ کر نکاح کرے یا
کورٹ میرج یہ اسکا اختیار کیوں نہیں ؟ عورت لباس اپنی مرضی کا کیوں نہیں پہن سکتی
؟ عورت کو معاشی طور پر خود مختار ہونا چاہیئے شوہر کے تابع نہیں ؟ گرل فرینڈ
بوائے فرینڈ کلچر ، عورت کی مظلومیت کے ڈرامے، اسلامی احکام و سزاوں کے سیاسی نفاذ کو فرسودہ اور آوٹ ڈیٹڈ
باور کروانے کے مباحثے، یکایک اک طوفان بےتمیزی آیا اور ہماری اقدار و روایات کو
اک تھپیڑے میں خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گیا ۔یہ حالات اصلاً اس تعلیم کا نتیجہ
ہیں جن کے بارے میں کم و بیش ۱۰۰ سال پہلےشاعرِ مشرق مصورِ پاکستان علامہ ڈاکٹر
محمد اقبال مرحوم نے یہ اشعار کہے تھے؎
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی
ترقّی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ |
|
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ |
|
گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نُما
لے کے آئی ہے مگر تیشۂ فرہاد بھی ساتھ |
اس حقیقت سے ذرا پہلے ۱۹۹۰ کی دہائی کے وسط میں
اک مقررہ ، مبلغہ منظر نامہ پر جلوہ افروز ہوتی ہیں ، اپنی جوہری خطابت اور علمی
قابلیت کے علاوہ عصری جامعات سے مکمل وابستگی کے باعث اک مذہبی سلیبرٹی بن جاتی
ہیں ۔ ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ ، خواتین کی کثیر تعداد بالخصوص کالجز یونیورسٹیز کی
طالبات جوق در جوق انکی دعوت و افکار کو قبول کرتی ہیں ۔ پھر ایف ایم ۱۰۰ ریڈیو اسلام آباد سے اپنی آواز و افکار پہنچانے کا اک نہایت موثر پلیٹ
فارم بھی موصوفہ کو میسر آگیا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے فقہی مسائل میں پاکستانی معاشرے میں رائج جمہورفقہ
حنفی کی تردید و تغلیط کو ہدف بنا لیا ۔ اپنی طالبات کو قرآن و حدیث کی طرف براہ
راست دعوت دی ، آناً فاناً کم و بیش بڑے شہروں کے پوش علاقوں کے علاوہ گلی محلہ
میں بھی الہدیٰ سے وابستہ خواتین اور لڑکیاں اردو تراجم دیکھ کر درسِ قرآن و حدیث
دینے لگیں،(میں چشم دید گواہ ہوں :
گوالمنڈی، راولپنڈی میں میرے اک دوست کی والدہ صاحبہ تفہیم القرآن سے درسِ قرآن
دیا کرتی تھی اور انھیں صحیح طرح ناظرہ قرآن پڑھنا نہیں آتا تھا، موصوفہ ڈاکٹر
صاحبہ کی براہ راست شاگرد تھی) ظاہر ہے یہ منہج و مسلک برصغیر میں کوئی دو سو سال
سے حنفی فقہ سے برسرپیکار ہے ۔ اس لیئے اسی منہج کی دعوت پر جمہور علماکا ردعمل
آنا فطری بات تھا ۔ مگر یقین مانیئے ڈاکٹر صاحبہ کی کامیابی کا اصل راز یہ منہج
نہیں تھا بلکہ خواتین خصوصا کالج و یونیورسٹیز کے لیول پر دین کی تعلیم و تبلیغ کا نہایت منظم و موثر نظام تھا ۔ اب اپنی طرف
بھی آ جائیے ، ہمارے ہاں خواتین کی تعلیم و تربیت کا کوئی ایسا سہل، منظم و
موثرنظام سرے سے موجود ہی نہیں تھا جہاں خواتین بآسانی دین کی تعلیم حاصل کر
سکیں انھیں کوئی ترجمہ قرآن پڑھائے، احادیث
مبارکہ کا درس دے ، مسائل پر وہ خواتین سے کھل کر بات کر سکیں ۔ مدارس کا نظام اک
کل وقتی نظام ہے جس کے لیئے ہر کوئی اپنے آپ کو مستقل فارغ نہیں کر سکتا ۔ پھر سب
سے بڑی حائل وہ ذہنیت و اسلوب جس سے میڈیائی بادِ سموم کا مقابلہ کیا جا سکے ،
تفہیم کا وہ لیول جس سے جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو مطمئن کیا جا سکے وہ تو سرے سے
ہی مفقود تھا۔خیر اس کا حل نہ فتویٰ تھا نہ یہ فتووں سے حل ہونا تھا ۔ ہمارے
راولپنڈی شہر سے مفتی محمد رضوان صاحب اور مفتی محمد اسمعیل طورو صاحب نے ان کی
اغلاط کی نشاندہی و اصلاح کے لیئے کتب بھی لکھیں ۔ مگر مسئلہ کا کل وقتی
تدارک تھاخواتین کو اس کا نعم البدل فراہم کرناجہاں پر
وہ آسانی کے ساتھ دین کی تعلیم حاصل کر سکیں ۔ جہاں تک بات ہے تبلیغی جماعت میں خواتین کی شرکت و
تعلیم کی ، اسکا بنیادی ہدف فرائض ، واجبات اور تزکیہ(کسی حد تک) پر مشتمل ہے ، سو
ان سے اس نئے درپیش چیلنج سے نبٹنے کی امید رکھنا ایسے ہی ہےجیسے بلی کو دیکھ کر
کبوتر آنکھیں بند کرلے، کیوں ان کا مقصد مناظرہ یا اختلافی مسائل کی تعلیم کرنا
سرے سے ہوتا ہی نہیں تبلیغ سراپا عملی تحریک ہے۔
ہمارے پڑوسی تاجر عزیزعمران
عابد رشید صاحب مجھ سے پرانے تبلیغ سے
وابستہ ہیں ۔ اب اسے شومئی قسمت کہیئے یا حسن ِ اتفاق ان کی اہلیہ اور سالی صاحبہ
نے الہدیٰ سے تعلیم پائی اور اُس کلاس میں پڑھا جسے خودمیڈم فرحت ہاشمی صاحبہ نے پڑھایا تھا ۔۲۰۰۱
میں ، میں نےدکان شروع کی تھی پڑوسی بھی
ہم مشرب و ہم مسلک بھی سو قربتیں بڑھتی
گئی۔
مجھ پر پہلے ہی سے شارٹ کورسز
یا عصری تعلیم یافتہ حضرات کے لیئے اک مختصر و جامع نصاب ترتیب دے کر یہ سلسلہ
شروع کرنے کا جنون سوار تھا۔ انھی دنوں عمران بھائی نے کہا یار گھر میں یہ
مسئلہ ہے ۔انکی اہلیہ کا بھی تبلیغ میں وقت لگ چکا تھا لہذا کسی حد تک وہ بھی
الہدیٰ کے نظریات سے مطمئن نہیں تھی مگر انھیں پڑھنے پڑھانے کی لگن تھی ، سو انھوں
نے اپنے شوہر سے کہا کہ گھر پر کوئی ایسا سلسلہ شروع کریں جسے ہمیں صحیح دینی
تعلیم بھی ملے اور اتنی استعداد بھی بن جائے کہ ہم آگے پڑھا بھی سکیں۔اب میرے کتب
خانے ،کتابی ذوق اور علماء سے روابط کو دیکھتے ہوئے ، یہ ذمہ داری مجھے سونپ دی کہ
کیا پڑھانا چاہیئے۔ اس وقت تک وفاق المدارس نے بھی شارٹ کورس شروع نہیں کیا تھا
ہمارے سامنے فقط " فہم اسلام " کورس از مفتی ڈاکٹر عبدالواحدؒ تھا۔ لیکن
میری ذہنی تربیت میں حنفیت کے ساتھ ساتھ ندویت کا خاص حصہ ہے ۔ مجھےشروع ہی سے
مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی کتب پڑھنے کی توفیق ملی،کیونکہ میرا
پس منظر بھی عصری اداروں اور تبلیغی جماعت
سے وابستہ تھا تومجھے حضرت ندویؒ کی کتب ہمیشہ سے متاثر کرتی تھی، جن کابنیادی عنصر دعوت دین کا جدید اسلوب مگر سلف
صالحین پر مکمل اعتماد و اعتبار حضرتؒ کے طرزِ فکر کا جوہری اثاثہ ہے۔ ہمارے پیش ِ
نظر تعلیم ہی نہیں تھی بلکہ وہ فہم اسلام جو سلف صالحین سے متوارث ہمیں ملا ہے
اسکی تربیت بھی تھی ۔ سو اس نصاب کی تدوین کے لیئے میں نے بھرپور کوشش کی اس سلسلے
میں ، مَیں نے مفتی محمد اسماعیل صاحب ، مفتی محمد سعید
خان صاحب،مولانا زاہدالرشدی صاحب ، مولانا نعیم الدین صاحب اور حضرت مفتی ڈاکٹر
عبدالواحد صاحب سے ملاقاتیں کی۔اب تقریبا
طے یہ پایا کہ حضرت ڈاکٹر مفتی صاحب ہی کا
نصاب پڑھایا جائے ، مگر میرا اصرار تھا کہ اس میں کچھ اضافہ تبدیلی کرنی چاہیئے۔باقی
حضرات نے کیا کیا مشورے اور ہدایات سے
سرفراز فرمایا ۔ وہ پھر کبھی سہی ،ابھی
صرف دو حضرات مولانا نعیم الدین صاحنب اور حضرت مفتی ڈاکٹرصاحبؒ کی ملاقات کےاحوال پیش خدمت ہیں ۔ نصاب کے سلسلہ میں، میں
نے پہلے گوجرانوالہ میں مولانا زاہد الرشدی صاحب سے ملاقات کی اور پھر وہیں سے
لاہور سیدھا مکتبہ قاسمیہ اردو بازار
پہنچا، یہیں حضرت مولانا نعیم الدین صاحب سے شرف ملاقات حاصل ہوگیا۔
جب میں نے دیگر حضرات کے مشورہ
سے منتخب شدہ کتب
اور اک دو اپنی پسند کی کتب کی فہرست مولانا کے سامنے پیش کی اور تو حضرت
نے کہا : " خواتین کی مختصرتعلیم
کےلئے " آثار السنن " مناسب نہیں ہے (میں آثار السنن کی شرح توضیح السنن
از مولانا عبدالقیوم حقانی دامت برکاتھم سے بے حد متاثر تھا، اس لئے یہ کتاب کئی
حضرات سے بحث مباحثہ کے بعد میں نے ہی رکھوائی، یوں کہہ لیجیئے کہ رکھی تھی)آپ اس
نصاب میں " احیاء السنن ترجمہ متن ِ اعلاء السنن " رکھیئے ، یہ زیادہ
کارآمد اور مفید ہوگی۔ یہ بات تو دل پر نقش ہوگئی کہ اب یہی کتاب شامل ِ نصاب کرنی
ہے ۔ دوسری بات حضرت نے فرمائی کہ دوسالہ کورس میں کسی ایک تفسیر سےنہ پڑھائیں بلکہ
کسی مستند صاحب ِ استعداد عالم سے کہیں کہ بیان القرآن للتھانویؒ کو سامنے رکھ کر ترجمہ و تفسیر پڑھائیں ، اس کے لیئے وہ دیگر
تفاسیر سے استفادہ کرکے اپنے درس کی تیاری کریں۔عشاء شاید مکتبہ پر ہی ہوگئی تھی ۔
خیر خلاف ِ معمول میں نے 9 بجے رات کے قریب حضرت مفتی ڈاکٹرصاحب سے آنے کی
اجازت چاہی، حضرت نے فرمایا "اس وقت تو میں گھر پر ہوں اور آپ مزنگ میں ،واپڈا
ٹاون آتے تک بہت وقت بھی لگ جائے گا اور آپ کو دقت بھی ہوگی، آپ صبح ادارے آ
جائیے"۔ میں نصاب پر بات کرنے کےلئے آنے کی اطلاع تو حضرت کو دے چکا تھا مگر
وقت طے نہیں کیا تھا، میں نے عرض کی: حضرت میں ریل سے اسی رات کی واپسی کا ٹکٹ بھی لے چکا ہوں ،
چونکہ سارا دن سفر میں ہی گزرا ہے اس لیئے بروقت آپ کے پاس نہیں پہنچ سکا اگر آپ
مہربانی فرمائیں تو میں آپ کے گھر ہی آ جاوں اس وقت ؟۔مفتی صاحب نے فرمایا :بھئی
جیسے آپ کی مرضی!( میری کمال نالائقی تھی اور دوسری طرف حضرتؒ کی کمال شفقت اس بے
وقت بھی ملاقات کو صراحتاً منع نہیں فرمایا)۔
اک گھنٹہ بعد دس بجے میں حضرت
کے گھر پہنچ گیا، پہلی ملاقات کے بعد میں یہ تاثر لے کر اٹھا تھا کہ مفتی صاحب نہایت سنجیدہ، کم گو، اور ٹو دی پوائنٹ
گفتگوکرتے ہیں ، ادھر اُدھر کی باتیں کرنے میں وقت قطعاً صرف نہیں کرتے، یعنی جہاں
بات ختم وہیں ملاقات ختم ۔
سو اس بار میں نےجاتے ہی اپنا مدعا رکھا نصاب کے سلسلے میں
دیگر حضرات سے ملاقاتوں کا احوال و تجاویز گوش گزار کی ،اور اپنی منشاء کی چند کتب
پر حضرت کی رائے چاہی ،اصل مدعا یہ تھا کہ ہم کورس کا نام " فہم اسلام :
ڈاکٹر مفتی عبدالواحدصاحب " ہی رکھنا چاہتے تھے لیکن اس میں چند کتب کی
تبدیلی و اضافہ بھی چاہتے تھے، سو مفتی صاحب کے سامنے تمام تبدیلیاں رکھ کر یہ اجازت
چاہی کہ حضرت ہم آپ کا ہی نام اشتہار میں دینا چاہتے ہیں لیکن کچھ کتابوں کی ترمیم
کے ساتھ۔ میں اک فہرست مجوزہ نصاب کی آتے ہی حضرت کو پیش کر چکا تھا ، مفتی صاحبؒ
مسلسل اس پر نظر جمائے ، پہلے تو میری طولانی لایعنی تقریر سنتے رہے۔اب اس گزارش
کے پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت کے ارشادات ملاحظہ کیجیئے۔
حضرت نے فرمایا "بھئی
اتنی سی بات کے لئے آپ کو یہاں تک آنے کی زحمت کرنے کی کیا ضرورت تھی ، آپ کی مرضی
ہے جو چاہیں پڑھائیں ، بس ہمارا حصہ اتنا ہی ہو جتنی ہماری کتب آپ منتخب کریں
گے۔"
پھر فرمایا : اچھا یہ نصاب
پڑھائے گا کون ؟
عرض کیا : مفتی عبداللہ صاحب۔
کہاں ہوتے ہیں؟
جی، جامعہ فریدیہ اسلام آباد
میں۔
اچھا ، جی۔
کتنا وقت دیں گے؟
دو گھنٹے روزانہ۔
بہت اچھا ۔
کچھ دیر کمرے میں خاموشی رہی ،
اور حضرت کی نظریں یکسوئی سےنصاب کی فہرست
پر جمی تھی،میں نے چائے کا کپ نیچے رکھتے ہوئے عرض کیا: حضرت کچھ ارشاد
فرمائیں؟؟؟تھوڑی دیرمعانی خیز خاموشی کے بعد فرمایا :
"یہ آپ نے فہم الحدیث کی
جگہ جو احیاء السنن رکھی ہے یہ بہت دقیق کتاب ہے ، مختصر کورس خصوصاً خواتین کے لئے آسان کتاب منتخب کرنی چاہیئے تھی"۔
جی وہ ہم نے فقہ حنفی کے تناظر
یہ کتاب منتخب کی ہے چونکہ ہمیں غیرمقلدین کی جانب سے بھی دفاع کر نا ہے تو فقہی احکام کے لیئے یہ کتاب رکھی ایمانیات و
اخلاقیات کے لئے فہم الحدیث۔(میں نےعرض
کی)
فرمایا : " بھئی فقہائے
احناف کے استنباط و استدلال،احادیث سے اتنے لطیف و باریک ہوتے کہ علوم و فنون میں کامل مہارت رکھنے والے ہی یہ
ربط سمجھ سکتے ہیں عام تعلیم یافتہ( غیرعالم)کے بس کی بات نہیں "۔
پھر میں نے عرض کی :حضرت فہم القرآن کب تک مکمل ہو جائے گی؟
فرمایا : دیکھیئے کوشش تو ہے !
جیسا پہلے کہا :مفتی صاحب
نہایت کم گو تھے، اور شرف آدمیت کے اس مقام کی مجسم تصویر تھے جسے غالب نے یوں
تعبیر کیا ہے؎
آدمی بجائے خود اک محشر ِخیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی
کیوں نہ ہو
اس لئے جرأت کر کے عرض
کیا حضرت دو کتب ہم تفسیر سے پہلے پڑھانا چاہتے ہیں ۔اک "قرآن کا مطالعہ کیسے کریں ۔ از مولانا اویس ندوی
نگرامی"، دوسری" مطالعہ قرآن کے اُصول و مبادی: از مولانا سید ابوالحسن
علی ندوی"۔ تاکہ طالبات میں تشویق و رغبت پیدا ہو۔
فرمایا : " ہم نےفہم القرآن کے ابتداء میں تفسیر پڑھنے کے آداب
لکھ دیئے ہیں ، پڑھانے والا پہلے دن اسی کو بنیاد بنا کربیان کر سکتا ہے ۔ "
اسی ضمن میں یہ بات عرض کرتا چلوں کہ حضرت مفتی محمد سعید خان صاحب
کی راہنمائی میں اک منصوبہ شروع کیا تھا ، اس میں تفسیر فہم القرآن کا تذکرہ
آگیا۔ میں نے عرض کی :حضرت مفتی ڈاکٹر صاحب نے ابتدائیہ میں جو یہ لکھا ہے کہ
"ترجمہ اگرچہ بنیادی طور پر شیخ
الہندؒ کا ہے لیکن مولانا تھانویؒ کی
تفسیر سے موافقت حاصل کرنے کے لیئے اور علیحدہ علیحدہ الفاظ کے ترجمہ کی رعایت کی خاطر اس میں بہت کچھ تصرف کیا
گیا ہے،اتنے تصرف کے بعد ہم اس ترجمہ کی نسبت
شیخ الہندؒ کی طرف نہیں کر سکتے اگرچہ رنگ انہی کا ہے"۔
تو اب اس ترجمہ کو کس کی طرف
منسوب کیا جائے ؟
مفتی صاحب نے فرمایا "
مفتی ڈاکٹر صاحب ، میرے استاد ہیں ، میں
نے شامی جلد اول اور چوتھی جلد حضرت
سے پڑھی ہیں، لیکن اس سوال کا جواب آپ مفتی صاحب سے خود ہی پوچھیئے"!!!
یہ سوال میرے ذہن میں تھا ایک بار
میں نے حضرت ڈاکٹر صاحب سے یہ سوال کرنے
کےلئے تمہید باندھی کہ " آپ کے شاگرد ،مفتی سعید صاحب سے،،،،،،،، حضرت
مفتی ڈاکٹر صاحب نے ٹوک دیا" جی وہ
میرے شاگرد نہیں ، ہم میں سینئر ، جونیئر
کا فرق ہے "۔اس تردید پر بات کسی اور طرف نکل گئی ، ہائے افسوس یہ سوال بھی حضرت مفتی صاحب ؒ کے ساتھ ہی
سپرد ِ خاک ہوگیا ۔
مقدور ہو
تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنجہاۓ گراں مایہ کیا کیے
تو نے وہ گنجہاۓ گراں مایہ کیا کیے
ابھی فیس بک پرحضرت ڈاکٹر
صاحب کی وفات سے چند روز پہلے ہی ایک صاحب نے عوامی درس ِ قرآن کے لئے تفاسیر کی
رائے مانگی تھی ۔ احقر نے دیگر تفاسیر کے ساتھ " فہم القرآن " کا نام
بھی لیا تھا ۔ ساتھ ساتھ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا تھا کہ اب شاید اسکی تکمیل نہ ہوسکے ، مجھے کیا پتا
تھا میرے الفاظ اتنی جلدی ہی منحوس ثابت ہونگے۔
حاِل دل ہم بھی ُسناتے لیکن
جب وہ ُرخصت ہوا تب یاد آیا
بیٹھ کر سایہ ُگل میں ناصر
ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا
جب وہ ُرخصت ہوا تب یاد آیا
بیٹھ کر سایہ ُگل میں ناصر
ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا
خیر دوسری ملاقات ابھی ختم
نہیں ہوئی ، جاری ہے کوئی گھنٹہ بھر حضرت
کے ساتھ مجلس رہی یہ 2003 کی بات ہے ، میں نے الوداعی سلام عرض کرنے سے پہلے،(قابل
ِ غور بات) بڑی چاپلوسی اور خوشامدانہ لہجے میں حضرت کو کہا " حضرت آپ کا یہ
فہم اسلام کورس ،الہدیٰ انٹرنیشنل والوں کے
توڑ میں بہت کارگر ثابت ہوگا"۔
میری توقع کے بالکل برعکس
حضرت ڈاکٹر صاحب نے فرمایاشاید خلاف ِ
معمول بھی ، کیونکہ اب تک کا میرا تاثر یہ
تھا کہ حضرت سوال سننے کے بعد کچھ دیر خاموش رہتے تھے ،کچھ توقف کے بعد جواب عنایت
فرماتے تھے لیکن اب کی بار ایسا نہیں ہوا، حضرت
فوراً گویا ہوئے:
" بھئی اس مقصد کے لئے
نہ ہم نے لکھا ہے نہ ہی ہمیں پتا ہے کہ یہ کیسا ثابت ہوگا، ہمارے کورس کی ڈیمانڈ
تو یہ جہادیوں کے افغانستان سے پلٹنے کے بعد بڑھی ہے ، ورنہ کورس تو ہم نے بہت
پہلے سے مرتب کردیا تھا۔"
میں اس جواب پر پہلے تو ہکا بکا رہ گیا،کیونکہ مجھے تو "ماشاء اللہ ، سبحان اللہ"
،،،،، جیسے جواب کی اُمید تھی مگریہاں
کلیتہً حضرت نے اپنی نفی ہی کر دی ، حیرت کے اس شدید جھٹکے میں مجھ پرجو خجالت کا پہاڑ ٹوٹا سو ٹوٹا، بے لاگ زمینی حقائق کی سماعت نےتو میرےپاوں تلے
سے زمین ہی کھینچ لی،میں نے اپنی شرمندگی مٹانے کے لیئے بات بدلی "حضرت وہ
ہمیں خواتین کے کورس کے لئے کوئی خاص نصیحت و ہدایت ارشاد فرمائیں "۔ لیجیئے یہاں بھی روایت سے ہٹ کر اک نیا جہان
سامنے کھول کر رکھ دیا ، جس سے آپ حضرت
مفتی ڈاکٹر صاحب ؒکی بصیرت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
فرمایا " آپ پوچھ ہی رہے ہیں تو عرض کیئے
دیتا ہوں،یہ جو نصاب آپ پڑھائیں گے،ایک تو طویل بہت ہے دوسرا خواتین کے لحاظ سے
مشکل بھی ہے"
میں نے قطع کلامی کی گستاخی کرتے ہوئے کہا "
جی وہ الہدیٰ"،،،،،،،
حضرت نے میری بات کویہیں سے ٹوکتے ہوئے
فرمایا " بھئی بچیوں کو ضروری علم
سکھا دیا جائے، اور تربیت و اخلاق پر توجہ دی جائے انھوں نے اگلے گھر جانا ہوتا
ہے ، سسرال علم سے نہیں اخلاق سے بستے ہیں "۔
"آپ کی ٹرین کا وقت
ہونے والا ہے ابھی، سواری بھی آپ کی اپنی نہیں"۔
میں اس باراشارہ بخوبی سمجھ
گیا سلام و دعا کی درخواست کے ساتھ مجلس برخاست ہوگئی، یہ ملاقات زندگی بھر کی
طویل ملاقات ثابت ہوئی ۔
تیسری ملاقات :نُور علی نُور
سن مجھے ٹھیک سے یا نہیں دس
یا بارہ برس پہلے کی بات ہے، میرا کراچی کا سفر تھا ، میں نے حضرت مفتی محمد سعید
خان صاحب سے عرض کی : آپ کا کوئی کام کراچی سے متعلق ہو تو فرمائیں ؟
حضرت نے ارشاد فرمایا : بھئی
بنوری ٹاون جا سکتے ہیں ؟
جی جا سکتا ہوں ،
"اچھا وہاں جائیے گا ، وہاں پر مولانا ڈاکٹر
عبدالحلیم چشتی صاحب ہوتے ہیں، ان کی خدمت میں میرا سلام عرض کیجیئے گا۔
جی ضرور۔
میں بنوری ٹاون کے مدرسہ کے اندر کبھی نہیں گیا
تھا البتہ اس کے باہر مکتبوں پر لازمی چکر لگتا تھا، اس بار میں مدرسے میں گیا،
وہاں جا کر مولانا کا پوچھا، شاید کوئی طالب علم ہی تھا کہنے لگا " وہ تخصص
فی الحدیث " کے شعبہ میں ہوتے ہیں ، میری لاعلمی پر وہ مجھے خود دوسری بلڈنگ
میں جہاں یہ شعبہ قائم ہے وہاں تک لے گیا
پہلی منزل کی سیڑھیاں چڑھ کر اشارہ کیا وہ "حضرت چشتی صاحب " ہیں۔
کم و بیش 80 برس کے لگ بھگ اک نہایت نورانی چہرہ نفیس لباس میں ملبوس بزرگ کرسی پر تشریف
فرماتھے، نیچے طالبعلم حلقہ بنائےبیٹھے
سبق پڑھ رہے تھے،میں بھی قریب ہوکر بیٹھ گیا ۔سبق سے فراغت ہوئی تو میں نے آگے بڑھ
کر سلام کیا تعارف کروایا کہ مفتی صاحب نے سلام بھیجا ہے ، حضرت نے حال احوال
پوچھا " آپ کیا کرتے ہیں ،کتنا پڑھے ہیں ،کہاں رہتے ہیں ، کراچی میں قیام
کہاں ہے؟؟؟ " خیر ان سب باتوں کے بعد پوچھا کہ " آج کل مفتی صاحب کیا کر
رہے ہیں "؟
بس حضرت کا سوال کرنا تھا کہ میں تمام ادب آداب کو
بالائے طاق رکھتے ہوئے " مفتی صاحب کی
علمی مصروفیات
کی فہرست گنوانے لگا اور بے تکان بولے چلا جا رہا
تھا "۔
حضرت نے کچھ دیر بعد پاس بیٹھے طلبہ کو مخاطب کرتے
ہوئے فرمایا " دیکھا میاں ! اسے کہتے ہیں کام کرنا ، ہم سے تو آج تک کچھ ہو
ہی نہیں سکا، اس طرح کام کیا جاتا ہے واہ میاں واہ!!!۔"
خیر حضرت کی نستعلیق زباں و بیان اور دل موہ لینے
والی جاذب شخصیت سے متاثر ہو کر میں وہاں سے اُٹھا۔
مجھے ابھی تک حضرت والا کا تعارف نہیں تھا۔ واپس آ
کر میں نے مفتی صاحب کو روئیدادِ مجلس سنائی۔ تو مفتی صاحب نے کہا " آپ کو
وہاں قصیدے پڑھنے کو کس نے کہا تھا ، چپ چاپ سلام کرکے لوٹ آتے، بزرگوں کی مجالس
کے آداب ہوتے ہیں ، ان کے سامنے خاموشی سے سنا جاتا ہے ناکہ تقریریں کی جاتی ہیں ۔۔۔۔
" آپ کو معلوم بھی ہےحضرت چشتی صاحب
کون ہیں ؟؟؟
میں نے عرض کی : نہیں حضرت کون ہیں۔
"فاضل ِ دیوبند ، حضرت مدنی ؒ کے شاگرد ،
حضرت علامہ عبدالرشید نعمانی ؒکے برادرِ اصغر"
میں نے حیرت سے پوچھا"امام ابن ماجہ اور علم
ِ حدیث والے علامہ نعمانی صاحبؒ کے
بھائی!!!"
فرمایا " جی"
مشارق الانوار مترجم مولانا خرم بلہوری پر جو
مقدمہ ہے وہ انھی " چشتی صاحب" کا ہے ؟؟؟؟
مفتی نے فرمایا : " جی بالکل "۔
اُوہو !!! میرا تو منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ۔کہاں
حضرت علامہ ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی صاحب جیسی ذی علم ہستی اور کہاں میں جاہل انسان
!!!!!۔
جلد ہی کراچی کا دوسرا سفر کا پروگرام بن گیا،اب
کی بار میں نے حضرت مفتی صاحب سے عرض کی، حضرت کراچی جا رہوں حضرت چشتی صاحب کے ہاں بھی
جانا ہوگا "آپ کا سلام پیش کروں "؟۔ مفتی صاحب بڑی تاکید سے فرمایا
"بھائی کوئی فضول بات مت کرنا، خاص کر ہمارے متعلق تو خاموش ہی رہنا "۔
سو اس تاکید کو پَلے باندھے جو اب کی بار حضرتِ والا کی بارگاہ ِ درس میں پہنچا تو
" سلام "کر کے خاموش ہوگیا ۔ حضرتِ
مکرم و محترم وقفہ وقفہ سے خود ہی حال احوال دریافت فرماتے رہے ،،، باتوں باتوں
میں کتابوں کا تذکرہ چھِٹر گیا۔ بس پھر کیا تھا حضرت کے الطاف و عنایات کی برسات
ہونے لگی ۔پہلی ملاقات سے لے کر ابتک کراچی کا سفر اور حضرت چشتی صاحب کی زیارت
لازم و ملزوم ہیں۔ حضرت دامت برکاتھم کی نرم خوئی ، علم پروری ، نستعلیق شخصیت ،
زبان و بیان کا اُسلوب ، اصاغر نوازی ، سوز و سلوک ،رقت ِ قلبی ،طلبہ سے محبت و
شفقت ، تحقیق و تدقیق میں یکسوئی ،سب بڑھ کر اک با مقصد و منظم زندگی کا نظم
الاوقات ، غرض کہ اک ہی ذات میں اسقدر کمالات و اشراف نے مجھے
ہمہ تن گرویدہ بنا لیا ۔
بھرے ہیں تجھ میں وہ لاکھوں
ہنر اے مجمع خوبی
ملاقاتی تیراگویا تیرا بَھری محفل سے ملتا ہے
ہر ملاقات و مجلس کے بعد
احقر کا یہی خماربڑھتا چلا گیا؎
چڑھتے ہی نہیں میری نظر میں ماہ و خورشید
دیکھا انہیں میں نے کیا کہ آنکھیں
اِترا گئیں
جب اس خاکسار کو 2013 میں یہ
معلوم ہوا کہ حضرت چشتی صاحب رمضان المبارک میں "خانقاہ سید احمد شہیدؒ ،
(بانی خانقاہ: حضرت سید نفیس الحسینی شاہ صاحب ؒ) لاہور، میں اعتکاف فرماتے ہیں ،
تب سے وہاں حضرت کی صحبت سے استفادہ کے لئے چند دن کی حاضری کا معمول 2016 تک
باقاعدہ رہا۔ان مجالس سے پہلے زندگی یک
رُخی بس"پیچ و تاب ِ رازیؒ " کی راہ پر گامزن تھی(وہ پیچ وتاب بھی حقیقی
نہیں مغالطہ ہی تھے) کہ خانقاہ میں (خادمین ِ معتکفین بھائی ضیاء الحق اور بھائی
مجاہد کے سامنے) میری اک غلطی پر متنبہ کرتے ہوئے حضرت چشتی صاحب
نےفرمایا "میاں!ہم یہاں اپنی اصلاح کے لیئے آتے ہیں ، رعب جمانے نہیں،
ہمیں ،جیسے یہ رکھیں جہاں رکھیں ان کی مرضی "۔
اک 80 برس سے متجاوز ،کارزارِ
علم کی شہسوار ہستی، اپنے آپ کو بغرضِ اصلاح ِ نفس یوں عامیوں کے رحم و کرم کے
سپرد کردے،حالانکہ خانقاہ میں حضرت ِ والا کی حیثیت "مرشدِ خاص" کی ہوتی ہے۔ نفس ِ مطمئنہ کے اس جملہ نے دل کے روگ مٹانے کےلیئے"دردِ دل
" کی تمنا و تڑپ پیدا کر دی اور " سوز و ساز ِ رومی" ؒکے لئے ، اک
نئے سفر ابتداء ہو گئی۔
غالباًیہ 2016 ہی کا اعتکاف
کی بات ہے(کنفرم اس لئے نہیں کیونکہ ان سالوں مجھے ڈپریشن لاحق ہوگیا تھا تو ان تین ، چار سالوں کی یاداشت بہت ہی زیادہ
متاثر ہوئی ہے)۔ خانقاہ میں عصر کے بعد حضرت ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب (نور اللہ
مرقدہ)، حضرت چشتی صاحب سے ملاقات کے لئے تشریف لائے۔باہر دلان میں دونوں حضرات کے
لیئے کرسیاں لگائی گئی ۔ چند طلبہ و معتکفین بھی ارد گرد جمع ہوگئے ،مجمع البحرین
کا منظر تھا گویا عید سے پہلے عید کی نوید
و دید کا موقعہ تھا ۔ اسی دوران خانقاہ
میں معتکف مفتی امداد اللہ انورصاحب(خلیفہ مجاز حضرت سید نفیس الحسینی شاہؒ
صاحب )بھی شریک ِ محفل ہوگئے ، انھوں نے حضرت ڈاکٹر مفتی صاحب کو اپنی نئی آنے
والی کتاب کا تعارف کروایا جو"معترضین ِ اسلام کے جوابات پر مبنی تھی"۔
حضرت ڈاکٹر صاحب نے استفسار
فرمایا:
" مفتی صاحب کیا اس میں جدید اعتراضات کے
جوابات بھی دیئے گئے ہیں "؟
اس پر مفتی امداداللہ انور صاحب نے قدیم و جدید
اعتراضات کے جوابات کے حوالہ سے کوئی ترتیب بتائی تھی ۔
افسوس ،مجھے اب وہ جواب یاد نہیں ہے۔(مفتی صاحب
ملتان میں ہوتے ہیں ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے)۔
خیر اس مجلس کے اختتام کے قریب حضرت چشتی صاحب نےحاضرین کو جو زریں نصیحت
ارشاد فرمائی وہی سنانے کا وقت ہوا چاہتا
ہے جس کےلیئے یہ طولِ طویل صبر آزما داستاں آپ کو سہنی پڑی۔
حضرت چشتی صاحب مدظلہ العالی نے حاضرین ِمجلس خاص
کر طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے(حضرت مفتی ڈاکٹرصاحبؒ) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
"میاں ! اپنے استاد جی کی قدر کر لو ،ان
کے بعد ایسا عالم تو کیا آدمی بھی نہیں ملنا!"
بظاہر تو یہ اک مختصر سا جملہ ہے مگر اک جہان اس
میں پوشیدہ ہے ، اسے میری نظر سے دیکھیئے تو یہ ارشاد دو 2حصوں پر مشتمل ہے ، جو
اردو کے دو اساتذہ شعراء کی مجسم ترجمانی کر رہے ہیں۔
پہلی بات کہ" قدر کر لو"، یہ بات جہاں
تک میں حضرت چشتی صاحب کے ساتھ رہا ہوں کہ
منہ پر کسی کی تعریف و توصیف کرنا حضرت ِ
والا کے معمول و عادت کے خلاف ہے"۔ گویا یہ اعتراف !حضرت ڈاکٹر صاحب کی تصویر
میر ؔ کےاس شعر میں مجسم نظر آتی ہے ۔
مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
دوسری بات جس کی طرف حضرت چشتی صاحب کا اشارہ تھا کہ اس قحط الرجال
میں حضرت ڈاکٹر صاحب شرفِ آدمیت کے اس مقام پر فائز ہیں جس کی کمیابی کا نوحہ غالب ؔنے یوں کیا ہے ؎
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
سو
یہ آخری زیارت و دیدار ثابت ہوا ، دو مجاورینِ آستانہ علم کا آپس میں اسطرح کا سلوک
و محبت ،پھر اک کمال ِ فن کی معراج پہ فائزکا بام ِ عروج پر برجمان دوسرے صاحبِ کمال کے لیئے ایسےبرملا
اعتراف!!!! یوں کہیئے ”اک فقیہ کی تعریف
بزبان ِ محدث و محقق"۔ ؎
خواب بن کر رہ گئی ہیں کیسی کیسی محفلیں
خیال بن کر رہ گئے ہیں
کیسے کیسے آشنا
مفتیانِ کرام کے مفتئ
اعظم:
مولانا محمد امین اوکاڑویؒ کی وفات پر کسی صاحب ِ
علم (غالباً مولانا عبدالغنی طارق صاحب ) نے تبصرہ کرتے ہوئے حسرت بھرے لہجے میں
کہا تھا " عوام کے اشکالات دور کرنے کو تو علماء موجود ہیں لیکن علماء کے
اشکالات کو حل کرنے والی ہستی چل بسی
"۔ میں اپنے شہر کے احوال بتا سکتا ہوں جس کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ابن
انشاءؔ نے کیا خوب کہا ہے۔
اس شہر میں کِس سے مِلیں، ہم سے تو چُھوٹیں
محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے، ہر شخص دیوانہ تیرا
٭حضرت ڈاکٹر
علامہ عبدالحلیم چشتی مدظلہ کے ساتھ (پچھلے بارہ تیرہ برسوں میں) کئی
بار رہنے اور استفادہ کا شرف حاصل ہوا ،
حضرت چشتی صاحب سے اگر "زندوں "میں سے کسی کے علم و فضل کی تعریف سنی تو
وہ صرف اور صرف 2 ہستیاں ہیں، پہلی جنھیں دُنیا "شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی" کے نام سے
جانتی ہے اور دوسری ہستی صاحب ِ تذکرہ مرحوم " مفتی ڈاکٹر عبدالواحد
صاحب"۔
٭جیسے ابتداء میں عرض کیا کہ تبلیغ کے بعد میرے
دینی شعور کا سب سے بڑا ذریعہ ہمارے مفتی محمد رضوان صاحب تھے، مفتی صاحب کے
دارالافتاء میں جن خاص الخاص حضرات کی
فقاہت کا ڈنکا بجتا تھا ان میں "حضرت ڈاکٹر مفتی عبدالواحدصاحبؒ" کا اسم
گرامی پہلی فہرست میں لیا جاتا تھا ، گذشتہ 20، 22 سالوں میں بارہا مفتی صاحب سے
ڈاکٹر کے فتوی کا حوالہ بطور سند کے سُنا(بعض مرتبہ اختلافی رائے بھی)۔
٭حضرت
ڈاکٹر مفتی صاحب ؒ نے "فکریوں" کی کج روی پرعرصہ ہوا نقد لکھا تھا، اب
کی بار جو مفتی محمد رضوان صاحب نے اس موضوع پر مفصل و مدلل قلم اُٹھایا تو حضرت ڈاکٹر صاحب کی
تقریظ و کلماتِ تحسین دیکھ کر دل خوشی سے نہال ہوگیا ،حضرت کے
الفاظ اس کتاب سے متعلق نہایت حوصلہ افزا ہیں۔
جامعہ اسلامیہ راولپنڈی کا دارالافتاء جب مفتی
محمد اسمعٰیل طورو صاحب کے سپرد ہوا تو اُن سے بھی تعارف بڑھنے لگا، نصاب کی ترتیب
و تشکیل کے سلسلہ میں محترم طورو صاحب سے بھی رابطہ کیا تھا ، اِن دنوں چائینہ کی
"بزناس،گولڈکوئسٹ ،شینل کمپنی" اور اسی طرز کی دوسری کمپنیوں
کے کاروبار میں شرکت کے "جواز و عدم جواز" کی بحث دارالافتاؤں کے ماحول میں خوب گرم تھی،یہ سال
تھا 1423ہجری ۔ جامعہ اسلامیہ کے
دارالافتاء میں بیٹھے ، مفتی محمد اسمعٰیل طورو صاحب کے ہاں بھی یہ بحث جاری تھی ،
میں نصاب پر بات کرنے کی غرض سے موجود تھا ، محترم طورو صاحب نے "اسلامی
عقائد: از مفتی ڈاکٹر عبدالواحد صاحب"، کے بارے میں اپنا اک عجیب قصہ سُنایا
وہ بھی اپنے مخصوص لہجے میں ،جس میں ہمارے پٹھان بھائی اردو بولتے ہیں ، خیر مفتی
صاحب پٹھان ہونے کے باوجود قدرے اچھی اردو بول لیتے ہیں مگر لہجہ وہی ہے۔مفتی صاحب
کو " اسلامی عقائد" کی اک عبارت
(غالباً عذاب ِ قبر)پر اشکال یا اعتراض تھا سو اس سلسلے میں ان کی صاحبِ تصنیف
حضرت مفتی ڈاکٹر سے مکاتبت جاری تھی، طورو صاحب نے کہا "جیسے جیسے ہماری اور
ڈاکٹر صاحب کی خط و کتابت بڑھتی گئی ، جواب الجواب کا سلسلہ شروع ہوا،حضرت ڈاکٹرصاحب کا خط سُکڑتا گیا ، میرا خط پھیلتا
گیا "۔ ۔۔۔۔ بعد میں اس مکاتبت کا کیا نتیجہ برآمد ہوا ، اس سے میں لا علم
ہوں، متجسس نفسوس مفتی طورو صاحب سے دریافت کر سکتے ہیں ۔ خیر ایسے علمی معرکے تو
اہل ِ علم میں ہمیشہ سے روا رہے ہیں۔ذوقؔ نے اس ذوق کو کس خوبی سے شعر میں باندھا
ہے؎
گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینتِ چمن
اے ذوقؔ اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
نصاب کے بارے میں جو تگ و دو ، تلاش و تفشیش کی
تھی ۔ انھی ملاقاتوں سے "تفسیر فہم قرآن "کے
بارے اک صاحبِ علم کا تاثر پیش ہے، جسکی وجہ سے ہم نے فہم القرآن ہی پڑھانے کے
لیئے منتخب کی تھی، مگر ذرا پسِ منظر طویل
ہے۔میری کل بساط تفسیر کے باب میں معارف القرآن عثمانی اور تفسیر
عثمانی تھی ،،، بی۔اے کا پہلا سال کالج کی لائبریری سے کتاب ایشو کروا رہا تھا کہ
اک بوسیدہ سی جلد ہاتھ آئی کھولی تو " تفسیر ماجدی پہلے 5 پارے" کی جلد
تھی ، میں نے یہی ایشو کروالی ۔ تفسیر ماجدی مولانا عبدالماجددریابادی کا ایسا
شاہکار ہے جس نے مجھ پر تفسیر اور فہم ِ قرآن کا اک نیا جہان کھول دیا ۔ اک لب و
لہجہ ،اسلوب وبیان ، کالجیٹ کی زبان سے لگا کھاتا تھا ،دوسرا جدید نظریات ، سائنسی
تحقیقات ، بتانِ وہم و گماں فلاسفہ مغرب و مشرق کا محاکمہ(گذشتہ صدی سے لے کر آج
ایسا قابل نقاد پھر دنیا نے نہیں دیکھا)،اہل کتاب کا رد انھی کے مصادر سے ، بلاغتِ
قرآن کا پہلو( جو میرے لیئے بالکل نیا
زاویہ تھا) سابقہ مذکوردونوں تفاسیر اپنی اپنی جگہ ، مگر جو لطف ، انداز بیان،
نکات آفرینی، انشاپردازی حضرت دریابادی کے یہاں ہے، وہ آج تک کسی اور میں نہیں
ملی(بطورِقندِ مکرر ملاحظہ کرنا چاہیئے
:سورہ البقرہ فرضیتِ روزہ کی آیت کی تفسیر پر "ضمیمہ: روزہ") ،
یوں میں قرآنیات و تفاسیر کی طرف متوجہ ہوا ، اسی شوق میں بقول شاعر؎
کبھی عرش
پر کبھی فرش پر کبھی ان کے در کبھی دربدر
غم عاشقی تیرا شکریہ ہم کہاں کہاں سے گزر گئے
غم عاشقی تیرا شکریہ ہم کہاں کہاں سے گزر گئے
اردو تفاسیر و تراجم جمع
کرنامیری زندگی کا مشن بن گیا ہے، اور کئی
حضرات سے تعارف و استفادہ صرف مقصد کی تکمیل کے لیئے ہوا۔ سیٹلائیٹ ٹاون میں
مولانا عبدالرحمٰن افغانی صاحب ؒ(مرید:
حضرت ڈاکٹر عبدالحئی صاحبؒ)کی مشہور جامع مسجد عرشی ہے، مولانا مرحوم کے فرزند مفتی
امداد اللہ یوسف زئی آجکل اسکے خطیب و مہتم ہیں۔کسی توسط سے معلوم پڑا کہ اک بڑا
کتب خانہ بھی مفتی صاحب کوترکہ میں ملا ہے، جس میں اردو تراجم اور کتب بھی ہیں ،
میں مفتی صاحب کے یہاں چلا گیا، اس سے پہلے مجھے ان کا تعارف نہیں تھا ، قرآنیات کا یکساں ذوق پھر ہماری مسلسل رفاقت
کی مستقل وجہ بن گیا (مفتی صاحب نے کراچی یونیورسٹی سے تفسیر معارف القرآن مولانا
کاندھلوی ، پر ڈاکٹر شکیل اوج صاحب کے زمانہ میں پی ایچ ڈی کرنا چاہی لیکن موضوع
مسترد کر دیا گیا) تراجم و تفاسیر کی تلاش
میں سرگرداں رہنا زندگی کا معمول تھا اور ہے ، اسی تناظر گوجرانوالہ کے مرحوم "مکتبہ
الواحد " کی شہرت سنی تو وہاں چلا گیا ۔ مجھے عرصہ سے تفسیر بیان القرآن کی
تلخیص و تسہیل کی تلاش تھی جو حضرت مفتی ظفر احمد عثمانی ؒ نے فرمائی تھی۔یہ گوہر
نایاب مجھے وہیں سے ملا ، حسن ِ اتفاق مفتی صاحب کو بھی اس کی طلب تھی ، میں نے ان
کے لئے بھی اک نسخہ لے لیا ۔کچھ دن بعد میں مفتی صاحب کی طرف گیا تو " بیان
القرآن " کا تذکرہ چِھڑ گیا، ہمارے سامنے 5چیزیں تھیں "تلخیص بیان
القرآن تاج کمپنی" ، "تلخیص از : مفتی ظفر احمد عثمانی " ، "
خلاصئہ تفسیر بیان القرآن : از حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی ؒ ، مشمولہ معارف
القرآن" ، "معارف القرآن : ازعلامہ ادریس کاندھلوی" ، اور
"تفسیر فہم ِقرآن : از مفتی ڈاکٹر عبدالواحد صاحب "۔
٭مفتی امداداللہ یوسف زئی صاحب نے اس وقت فرمایا
:"ان سب کا تقابل کرکے دیکھا جو بات بیان القرآن کی تسہیل میں مفتی ڈاکٹر
عبدالواحد صاحب کی وہ کسی اور جگہ اتنے آسان الفاظ میں نہیں ملتی اور تسہیل کے ساتھ ساتھ بیان القرآن کی ترجمانی بھی
قائم رہتی ہے "۔گویا؎
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھّے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور
ڈاکٹر طلحہ سعد صاحب سے شناسائی الندوہ لائبریری
چھتر میں ہوئی تھی ، وہ بھی کتابوں شیدائی اور جادہ ومنزلِ احسان و سلوک کے راہی ،
ایسی ہی کچھ تہمت کی زدمیں ،بندہ ناچیز
بھی ہے ۔ ڈاکٹر سعد صاحب کے شیخ و مرشد حضرت احمد یعقوب صاحب سلسلہ رائے پوری ؒمیں
مجاز و مربی بزرگ ہیں، شیخ صاحب ،اسلام آباد میں اپنے مرید ڈاکٹر سعد صاحب کے یہاں اکثرمہمان ہوتے ہیں ، وہیں زیارت و استفادہ کی نیت سےحاضری ہو جاتی ہے ،اس بار
مفتی امجد حسین صاحب جو نا صرف عمر میں مجھ بڑے ہیں ، بلکہ ہر لحاظ سے علم و فضل ، نسبت و سلوک
،اخلاق و صفات میں، مجھ سے عالی اور بڑھے ہیں ، اس حقیر سے ہم عمروں سا معاملہ
کرتے ہیں ، یہاں تک کہ کوئی ناآشنا ہماری محفل میں آ جائے یوں لگے کہ میں مفتی ہوں
اور وہ سامع ہیں ، وہ بھی ہمرکاب و ہمسفر تھے۔ ڈاکٹر سعد صاحب نہایت وسیع المطالعہ
شخص ہیں۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے فلسفہ و افکار میں خصوصی دلچسپی رکھتے
ہیں ذاتی کتب کا ذخیرہ بھی ہزاروں میں ہے ۔ان کے ہاں حضرت احمد یعقوب صاحب کی
زیارت کے ساتھ ساتھ کوئی نا کوئی علمی بات و نکات مجلس میں زیر بحث آ ہی جاتی ہے ،۔
٭اس بار جو علم الکلام و تصوف ، پر بات چِھڑی تو مفتی امجدحسین صاحب (اک جہانِ علم) نے اپنے قیمتی مطالعہ کےنچوڑ سے محفل علم کے جام و سبو کو بھر دیا فرمانے لگے " جہاں تک وحدۃ الوجود کی تشریح اور تفہیم کی بات ہے فی زمانہ اس کی نفیس اور سہل بحث مفتی ڈاکٹر عبدالواحد صاحب نے "اسلامی عقائد" میں کی ہے ، اصلاً اس کا مآخذ حضرت شاہ اسمعٰیل شہیدؒ کی کتاب "عبقات" ہے اسی" علمی انداز و ابحاث"کو ڈاکٹر مفتی صاحب نے اسلامی عقائد میں نہایت شاندار اسلوب میں سہل کر دیا ہے ۔
٭اس بار جو علم الکلام و تصوف ، پر بات چِھڑی تو مفتی امجدحسین صاحب (اک جہانِ علم) نے اپنے قیمتی مطالعہ کےنچوڑ سے محفل علم کے جام و سبو کو بھر دیا فرمانے لگے " جہاں تک وحدۃ الوجود کی تشریح اور تفہیم کی بات ہے فی زمانہ اس کی نفیس اور سہل بحث مفتی ڈاکٹر عبدالواحد صاحب نے "اسلامی عقائد" میں کی ہے ، اصلاً اس کا مآخذ حضرت شاہ اسمعٰیل شہیدؒ کی کتاب "عبقات" ہے اسی" علمی انداز و ابحاث"کو ڈاکٹر مفتی صاحب نے اسلامی عقائد میں نہایت شاندار اسلوب میں سہل کر دیا ہے ۔
ڈاکٹر طلحہ صاحب سے اثنائے گفتگو فرمایا: "
آپ کے لیئے ڈاکٹر مفتی صاحب کی کتاب" مریض و معالج کے
احکام" آپ کے شعبہ کے اعتبار سے تو مفید ہے ہی ، البتہ" اسلامی عقائد
" میں بھی آپ کی دلچسپی کا سامان بخوبی موجود ہے خاص کر ڈاکٹر مفتی صاحب نے
حیات ِبرزخی،اثباتِ راحت و عذاب قبر کے سلسلے میں جو اجزاء کے بقا و معدوم ہونے میں "خلیہcell," کی مثال سے استدلال کیا ہے یہ آپ کے لیئے ہم شعبہ(ڈاکٹر) ہونے کے
بنسبت اوروں کے زیادہ قابل فہم اور مفید
ہے۔"
حضرت مفتی محمد سعید خان صاحب کا نام پہلی بار
مفتی محمد رضوان صاحب کی زبانی سنا تھا، ان دنوں مجھے انٹر نیٹ اور میڈیا پر اسلام
کی حقیقی ترجمانی کے لیئے کسی ایسے ماہر و مشاق صاحبِ علم کی تلاش تھی جو اس نئی دنیا کےاحوال
و اشکال جسے آپ جدید ذہن کے اعترضات و اشکالات کہہ سکتے سے کماحقہ واقفیت ہو اور
پھر اسکے جوابات کا اُسلوب و معیار بھی اسی ذہنیت کو سامنےرکھ کر دینے کی صلاحیت کا
حامل ہو۔مفتی محمدرضوان صاحب نے ادارہ غفران میں اک ملاقات کے دوران فرمایا
:"بھئی آپ کے لیئے تو مفتی سعید خان صاحب ہی بہتر ہیں وہ ایسی باتیں کرتے ہیں
انٹر نیٹ اور میڈیا کی آپ اُ ن سے ملیں "۔
اُدھر نصاب پر ایسے حضرات کی بھی تلاش تھی جو
جدید ذہن کو مطمئن کر سکیں ۔ اک دن میں اور طاہر بھائی "مفتی صاحب " کی
تلاش میں نکل کھڑے ہوئے ، خیر بڑی دقت سے کیونکہ ہم اصل ٹھکانہ معلوم کیئے بغیر ہی
مری کے راستے پر محو سفر ہوگئے صرف اتنا معلوم تھا مری جاتے ہوئے "مفتی صاحب
کا ہسپتال آ تاہے" ۔خیر اِ ن دنوں مفتی صاحب "چھترپارک" کی بجائے
"تریٹ" میں ہوتے تھے ۔پہلی ملاقات ہوئی اور پھر ہم مفتی صاحب کے دَر کے ہو گئے ، کیا کیا باتیں ہوئی،
نصاب پر مفصل بات کرنے کو اک سفر میں ہم رکابی کا شرف بھی حضرت نے دیا ، ان سب کی
روئیداد بہت مفصل اس اور زیر نظر مضمون سے لگا نہیں کھاتی اسلیئے پھر کبھی سہی۔
البتہ اتنا ضرور عرض کیئے دیتا ہوں اتنے "مشترکات " کہیں اور نہیں مِلتے
تھے جو یہاں ملے" حضرت مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی نسبت،
کتابوں کی ارضی جنت ، تفسیر کے بے مثل ذوق اور وسیع مطالعہ ، احتساب و اختلاف کا
جراتمندانہ مئوقف و اظہار ، تصوف و سلوک کا گہرا رنگ و مشرب ، زبان و بیان میں
ٹھیٹ اردو کا بلند معیار ، شاعری، جدید افکار و نظریات کا براہ راست مطالعہ ،علوم
ِ ولی اللہی میں فنائیت ، سلف اہلسنت و
الجماعت کا محققانہ مسلک و منہج" سو اک بار اُ س گلی میں گئے تو پھر دائم
اُسی دہلیز کا پتھر ہوں میں ،گو زمانے نے کئی اُلٹ پھیر کھائے، مگر پچھلے 16 برس
کی آشنائی و معرفت بالآخر "بیع" پر منتہج ہوئی گو کہ "بیع
بالرضا" کا قرار تو ہوگیا مگر؎
بِک جائیں بازار میں ہم بھی ،لیکن اس سے کیاہوگا
جس قیمت پرتم مِلتے ہو اُتنےکہاں ہیں اپنے دام
اور جو زمانے بھر کے کرم فرماؤں نے مرشدی حضرت پر"الزامات"
کےجھوٹ کی صلیب اپنے
کاندھوں پر لاد رکھی ہے۔ صرف اک شعراکبرؔ الہ آبادی اُن کی نذر ہے؎
سورج میں لگے دھبا، فطرت کے کرشمے ہیں
بت ہم کو کہیں کافر، اللہ کی مرضی ہے
بت ہم کو کہیں کافر، اللہ کی مرضی ہے
٭پہلی ہی ملاقات میں اُس خوباں کا مثالی تذکرہ : حضرت مفتی صاحب سے پہلی ملاقات ہی نصاب کے
سلسلہ میں تھی ، سو عرض ِمدعا پیش کیا ، نصاب کے سلسلہ میں جو کتب کا خاکہ تھا وہ
سامنے رکھا ، مفتی صاحب نے بنظرِ غائر دیکھا ، پھر فرمایا کہ " اصل بات یہ ہے کہ نصاب تو اچھے سےاچھا
بن سکتا ہے، مگر مسئلہ نصابی کتب کا نہیں ، پڑھانے والے کا !!!! کورس سے کوئی
اختصاص(specialization) مقصودنہیں
ہوتا ، خاص کرخواتین کے لیئے تو پارٹ ٹائم
تعلیم میں اتنی لمبی چوڑی ترتیب اور دقیق علمی ابحاث کی ضرورت نہیں ، ایسے کورسز
میں مختصر تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا خاص اہتمام کرنا چاہیئے،اسکے لیئے ایسا
معلم چاہیئے جس کی اپنی خود کی تربیت کسی اللہ والے سے ہوئی ہو"۔
میں نے عرض کیا حضرت! اسکے لیئے تو کوئی مر د معلم چاہیئے، خواتین کو
پڑھانے کے لیئے اس میں تو مسائل پیدا ہونگے؟؟؟(ابھی تک مفتی عبداللہ صاحب سےہمارا
نہ کوئی رابطہ ہوا تھا نہ ہی ہم نے معلم کے بارے ابھی سوچا تھا ابھی تو صرف نصاب
کی ترتیب و انتخاب کا مرحلہ در پیش تھا)۔
٭مفتی صاحب نے جواباً ارشاد فرمایا " اگر ڈاکٹر مفتی
عبدالواحد صاحب براہِ راست خواتین کو پڑھائیں تو کیا اعتراض ہے ، اس میں کیا مسئلہ
ہے کسی کو ؟؟؟"۔
میں نے کہا پھر کوئی مسئلہ
نہیں ۔
حضرت مفتی صاحب نے ارشاد فرمایا " بس تو پھر ایسا معلم تلاش
کیجیئے جس کی خود کی تربیت ہوئی ہو، نصاب کی بات پھر تفصیل سے کر لیں گے"۔
گویا اس پہلی ہی ملاقات میں
ہمارے لیئے مفتی صاحب نے جو " مثالی شخصیت" پیش کی وہ " حضرت ڈاکٹر
مفتی عبدالواحد صاحب" ہی کی تھی۔
ہمارے شیخ و مرشد جامعہ مدنیہ لاہور میں حضرت
ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب کے شاگرد بھی تھے ،اس لیئے عموماًمفتی صاحب اپنے استاد
گرامی کا تذکرہ" ڈاکٹرصاحب " کے الفاظ سے کیا کرتے ہیں ۔
اُن دنوں "اَمینہ وُدود" کا قصہ میڈیا
نے سر پر اُٹھا رکھا تھا عورت کی امامت کا مسئلہ جگہ جگہ موضوعِ بحث تھا الندوہ
لائبریری ، چھتر پارک میں ، حضرت مفتی صاحب نے کسی کو فون ملایا اور بولے "حضرت
ڈاکٹر صاحب! تہمت ِ علم جو ہم پر لگ چکی ہے، اس کی وجہ سے ہر بار یہ ڈر لگا رہتا
ہے کہ آپ سے کچھ پوچھیں تو آپ ہمیں جوتے لگائیں ، مگر پوچھے بناء کوئی چارہ کار
بھی نہیں،،،،، یہ فرمائیے گا عورت کی امامت کی ممانعت پر نص کیا ہے؟؟؟"۔
ظاہر ہے دوسری طرف کا جواب تو میں نہیں سن سکتا
تھا ،،، مجھے تجسس ہوا کہ مفتی صاحب کس ڈاکٹر صاحب سے مسئلہ پوچھ رہے ہیں ،،،،،،
میں فون بند ہونے کا بے چینی سےانتظار
کرنے لگا! جیسے ہی بات ختم ہوئی میں نے، سوالیہ انداز میں کہا "ڈاکٹر
صاحب"؟؟؟؟
٭مفتی صاحب فرمایا : "جی ڈاکٹر صاحب ہمارے
استاد!!!! ڈاکٹر مفتی عبدالواحدصاحب
کو فون کیا تھا"۔
اتنا تو معلوم ہو چکا تھا کہ مفتی محمد سعید خان
صاحب جامعہ مدنیہ کے فاضل ہیں،مگر یہ انکشاف میرے لیئے نہایت خوشگواری و راحت کا
باعث تھا کہ مفتی صاحب"حضرت ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب" کے شاگرد بھی
ہیں۔
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے
انکی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
انکی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
٭اک طالبعلم کے داخلہ کی سفارش کے لئے مفتی صاحب
سے عرض کی کہ ڈاکٹر صاحب سے کردیں۔ مفتی صاحب نے صاف فرمایا کہ " بھائی !حضرت
ڈاکٹر صاحب اُصول و ضوابط کے پابند آدمی ہیں ، ان معاملات میں سفارش نہیں مانتے"۔گو،
مفتی صاحب ہی کے تعلقات کی بناء پر اُس طالب علم کو جامعہ مدنیہ میں داخلہ مل گیا۔
٭اک بار مفتی صاحب کی مجلس میں موجود تھے کہ موضوع ِ سخن " اسلامی بینک کاری "
چل نکلا۔ مفتی صاحب نے فرمایا:" حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب پر اسلامی بینک
کاری کے معاملہ میں جتنی بھی تنقید ہوئی ہے وہ سب معاصرانہ چشمک اور حسد کی بناء پر ہے، سوائے ڈاکٹر
مفتی عبدالواحد صاحب کے ،کہ وہ اک علمی چیز ہے جو رقابت و معاصرت کے فتنہ سے پاک
ہے"۔
٭یہ تو اسی شعبان 1440 ہجری کی بات ہے حضرت کی
وفات سےیوں سمجھیئے کہ بس دو ماہ قبل کی ،بروز
اتوار حضرت مفتی صاحب کی مجلس میں بیٹھے تھے ،کہ بات "حنفی تصلب ، اور درسِ
ترمذی" کی نکل پڑی روئے سخن مولانا حبیب الرحمن صاحب کی جانب تھا مفتی صاحب
نے اپنے طالبعلمی کے دَور کا واقعہ سُنایا کہ "ڈاکٹر صاحب سے شامی کی چوتھی
4جلد پڑھ رہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب نے اک
مسئلہ بیان کیا ، ہم نے عرض کیامفتی تقی
عثمانی صاحب نے یہ مسئلہ یوں لکھا ہے ،حضرت ڈاکٹر صاحب فرمانے لگے : بھائی مسئلہ
صحیح ایسے ہے جیسے ہم نے بتایا البتہ
ہماری اتنی مارکیٹ ویلیو نہیں ہے جتنی مفتی صاحب کی ہے"۔گویازبانِ حال سے ارشاد ہو رہا ہے؎
اس فن میں کوئی بے تہہ کیا ہو میرا معارض
اول تو میں سَند ہوں پھر یہ مری زباں ہے
آہ! یہ آخری تذکرہ تھا حضرت ڈاکٹر صاحب کی وفات
سے قبل جو شیخ مفتی صاحب سے سُنا۔إِنَّا
لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
بحیثیتِ مجموعی اگر حضرتؒ کی ذات وصفات پر اک طائرانہ نظر ڈالیں توبلا شک و شبہ یہ
تسلیم کیئے بناء چارہ کار نہیں حضرت اپنے عہد کی نہایت عبقری شخصیت تھے ، علمی
وقار و متانت کے ساتھ بھرپور انتقادی ذہنیت کے حامل تھے ، اور مسلک و مشرب میں
سختی سے اہلسنت علمائے دیوبند کے نقشِ قدم
پہ کاربند تھے،اس معاملہ میں اپنے ، پرائے کی تقسیم یامعمولی رُو رعایت کے کسی
صورت قائل نہیں تھے۔ بلکہ خاص کر اپنوں کی بے اعتدالی پر محاسبہ کرنے والوں
کے تاحیات امام و پیش رَورہے۔ یہ احقر کاتاثر
ہے اور عین ممکن ہے غلط ہی ہو کہ حضرت ڈاکٹرصاحبؒ اپنے منہج و مزاج کے اعتبار
سےٹھیٹ اس قافلہ سلف کے رفیق و ہم نوا تھے جسکا طرۂ امتیاز اب بھی یہ ہے؎
اپنا یہ حال کہ جی ہار چکے لٹ بھی چکے
اور محبت وہی انداز پرانے مانگے
"دشتِ سلوک" کی سیاحی اور"منزلِ عشق "کے راہی
بخوبی جانتے ہیں ، اس راہ میں کیسی کیسی قیامتیں برپا ہوتی ہیں، کبھی رقابتوں ،رنجشوں سے پالا پڑتا ہے ،کبھی
حسد و عداوتیں گھیرا تنگ کرنے لگتی ہیں،اور
سب سے بڑھ عقیدت و ارادت ہی پہاڑ بن کر راہِ
حق میں حائل ہو جاتی ہے اس سے کڑا امتحان اک" زندہ دل" کا اور کیا ہوگا؟،ڈاکٹرمفتی
صاحبؒ اس طریق میں بھی اپنےعہد کے اُن چنیدہ ہستیوں میں سے تھے جنھیں "جرمِ
عشق" پہ "ناز" تھا ۔ وہ اپنی ڈھب کے پکے ،اپنی لگن کے سچے ، منزلِ عشق کی جانب روزِ روشن کی طرح واضح اور اُجھلی شاہراہ پر" میرِ کارواں "تھے
۔ اظہار ِحق میں کسی مصلحت تو کیا پاسِ عقیدت وارادت کےرواداربھی نہیں تھے جو بات حق سمجھی وہ بات
ببانگ ِدھل اُن کے قلم سے نکلی، کسی ملامتی کی ملامت کوکبھی خاطر میں نہیں لائے۔ مفتی
صاحبؒ اُس کاروان و قبیلہ کی روایات کے
امین تھےجسکےعَلم بردارحضرت خواجہ فخر الدین دہلویؒ اور امام ِ ربانی مولانا رشید
احمد گنگوہیؒ رہے۔گویا؎
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے اَزل سے قلندروں کا طریق
اَلَّذِيۡنَ
اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ طُوۡبٰى لَهُمۡ وَحُسۡنُ مَاٰبٍ ﴿۲۹﴾ سورہ
الرعد
"جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے ان کے لیے خوشخبری
اور اچھا ٹھکانا ہے"۔
یہ
مژدۂ جانفزا بالمعموم اہلِ ایمان کے لیئے تو ہے ہی ،بلاشبہ حضرت ڈاکٹر مفتی صاحبؒ کی
حسنات،باقیات صالحات کا سلسلہ اس قدر دراز و دوامی ہے کہ جہاں حسن ِ ظن ،گمان کی سرحد پار
کرکے یقین کی پُر بہار وادی میں خیمہ زن ہو جائے وہاںطیبینِ اہل ایمان کے لیئے اک
اور زمزمئہ ربانی ذہن کو جگمگاتے ہوئے، کانوں میں رس گھول رہا ہے۔
الَّذِيۡنَ
تَتَوَفّٰٮهُمُ الۡمَلٰۤٮِٕكَةُ طَيِّبِيۡنَۙ يَقُوۡلُوۡنَ سَلٰمٌ عَلَيۡكُمُۙ
ادۡخُلُوۡا الۡجَـنَّةَ بِمَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۳۲﴾سورہ
النحل
"وفات
کے وقت جب فرشتوں نے ان کی روح قبض کی تھی تب یہ بہت ہی پاکیزہ زندگی گذارتے تھے
اور فرشتوں نے ان کی روح کو ہدیۂ سلام کے ساتھ قبض کیا تھا اور ان کو یہ بشارت بھی
دی تھی کہ تمھارے نیک کاموں کے بدلے میں تم جنت میں داخل ہوجانا"۔(ترجمانی:
مولانا عبدالکریم پاریکھؒ،تشریح القرآن،دہلی)
"٭طیبین: جو لوگ کفر و شرک، فسق و
فجور کی آلودگیوں سے پاک رہے، ان کی روحیں صحیح معرفت و محبت الہیٰ سے معمور رہتی
ہیں، اور یہ قدرۃً اپنی جانیں بڑے سرور و شوق کے ساتھ جان آفریں کوسپرد کرتے ہیں٭ سَلٰمٌ:فرشتوں کا زبان سے یہ کہتے جانا ظاہر ہے کہ
مومنین کی تعظیم و اکرام کے لیئے ہوگا"۔(تفسیر ماجدی،جلد2،ص783،کراچی)
چھوٹا منہ بڑی بات ، لیکن اسے کہنے میں احقر کو کوئی باک یا عار نہیں :"حضرت ڈاکٹر مفتی صاحبؒ، اُس زمرۂ طیبین
و متقِین میں سے تھے جن کے لئے ایمان
و وجدان گواہی دیتا ہے کہ اس نغمۂ سرمدی میں
جوبشارت بوقتِ سکرات و نزاع اہلِ ایمان و احسان کو سنائی گئی ہے وہ حرف بہ حرف حضرتِ
والاؒ پر صادق آتی ہے۔
يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ
الْمُطْمَئِنَّةُ (27) ارْجِعِي إِلَىٰ
رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً (28) فَادْخُلِي فِي
عِبَادِي (29) وَادْخُلِي جَنَّتِي (30)سورہ الفجر
الوداع ، حضرت ڈاکٹر صاحب الوداع!!!!
گو اپنا نامۂ اعمال حسنات سےخالی ، سیئات سے آلودہ ، روسیاہی نمایاں ،خیر
سے تہی دامن ، شکستہ کشکول،دریدہ پیراہن، جہالت سے لبریز ، بے عملی سے داغدار ہوں
،،،، پچھلی ربع صدی پہ نظر کرتا ہوں ،خالقِ کون و مکان کے بے پایہ احسانات و
انعامات کے بوجھ سے دُہرا ہوا جاتا ہوں،ناسپاسی و ناشکری ہوگی اگر اُن "عباد
اللہ" جو انعاماتِ الہیہ میں سے سب سے بیش قیمت ہیں ، جن کے "فیض و
ہدایت" سےمیری دینی حیات عبارت ہے ،جو اپنے زمانہ کے عہد ساز صلحا و علماء تھے ،
ان کی مجلس و محفل میں حاضری کا شرف حاصل ہوا ،،،،، جیسے پہلے عرض کیا کہ نامۂ اعمال
تو سیاہ ہی ہے ، مگرجب کبھی ان نورانی و
احسانی ہستیوں کا کاروان راہ گزرِ خیال میں جلوہ گر ہوتا ہے تو اپنی تمام تر
کوتاہیوں کے باجود بصد عجز و ناز ،یہ "دعا ئے پیغمبرانہ " احساسِ اُمید
کو گدگدانے لگتی ہے عفو و درگذر کرنے والے
رب کے دَر پر صدا لگاتی ہے:" یا رحیم و یا غفور یا ارحم الرحِمین یا مالک الملک!!!
فَاطِرَ
السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ
تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ(101) سورہ
یوسف
"اے آسمانوں اور زمین کے خالق تو ہی میرا
کارساز دنیا وآخرت میں ہے، مجھے دنیا سے اپنا فرمانبردار اُٹھائیے اور مجھے صالحین
میں جا ملائیے"۔(ترجمہ: مولانا عبدالماجد دریا بادیؒ)
ہم بحیثیت مجموعی(سب سے پہلے میں بذاتِ خود) مردہ
پرست ہیں ، جب کوئی بڑی ہستی گذر جاتی ہے تو اس کے کمالات و صفات کے اعتراف کا
سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔حالانکہ زندگی ایسے حضرات اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ ان
کے کمالِ علم و فن کو سراہا جائے،ہمارا معاشرہ رول ماڈل کی تلاش میں بھٹک رہا، اگر
ہم اپنے اہلِ علم و اتقیا اور صلحا کی زندگی میں ہی خراجِ تحسین پیش کریں تو
یقیناً ہمارے علمی و اخلاقی بحران سے نجات پانے کاسامان ہماری نئی نسل کو فراہم ہو
جائے۔لیکن نا جانے ہم اس سے کتراتے کیوں ہیں؟ خالد شریفؔ نے اس غیرشریفانہ رویہ
یوں بیان کیا ہے؎
یہ مرے عہد کا منشورِ
ستائش ٹھہرا
وہ جو اَب ہم میں نہیں ہے
وہ بہت اچھا تھا
زیرِنظرسطور
میں بھی کئی حضرات بقیدِ حیات ہیں،اللہ عزوجل اُن حضرات کی عمر میں برکت عطا
فرمائے تادیر اُنھیں ہم پر سایہ افگن رکھے،حضرت علامہ ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی دامت
برکاتھم ، محترم مفتی محمد رضوان صاحب،جناب مفتی محمد اقبال علوی صاحب،اورشیخ
ومرشدی مفتی محمد سعید خان صاحب،کی محافل و مجالس کے ساتھ ساتھ روابط و تعلقات
عشرہ ،دو عشرہ پر مبنی ہیں ۔روئیدادِ اسفارِ تبلیغ ،احوال ِزیاراتِ حضرت علامہ
قاضی مظہر حسین صاحب، امام اہلسنت علامہ سرفراز خان صفدر صاحبؒ،حضرت خواجۂ خواجگان
امامِ نقشبند مولانا خواجہ خان محمد صاحبؒ،مفکر اسلام مولانا زاہدالراشدی صاحب، محبی و مکرمی علامہ عبدالقیوم حقانی
صاحب،حضرت حافظ موسیٰ بھٹوصاحب کے اسفار کی یاداشتیں۔سوچتا ہوں اب لکھنا بیٹھا ہوں
تو سب کچھ ہی سپرد ِقرطاس کر دوں۔مگرکارزارِ حیات میں غم ِروزگار دلفریب ہوا چاہتا
ہے ، اورکارِ جہان دراز سے درازتر ۔ اگر کچھ دیر کے لئے گستاخی معاف آپ علامہ
اقبال ؒ کے اشعار"مجاز" پر محمول کر لیں تو میری کیفیت آپ بخوبی سمجھ
سکتے ہیں؎
ترے عشق کی
انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی ديکھ
کيا چاہتا ہوں
ستم ہو کہ ہو
وعدہِ بے حِجابی
کوئی بات صبر آزما
چاہتا ہوں
بھری بزم ميں راز
کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب
ہوں ، سزا چاہتا ہوں
یہ بے ربط و بے ترتیب سطور صرف حافظہ کی بنیاد پر قلم برداشتہ سپردِ قرطاس کی ہیں، واقعاتی ترتیب یا سنین کی تعین و تصحیح کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی ،بس جو یادیں تھیں وہ اک لَڑی میں پَرو کر نذرِ قارئین کر دی ہیں۔
عرفان
اکبر
12-07-2019
اِنا لِله واِنا اليه راجعون.
ReplyDeleteبہت افسوس ہوا خبر سن کر۔
اس تحریر کے بعد نیٹ پر دیکھا کہ ۲۲ جون کو وفات پائی محترم مفتی صاحب نے ۔
اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے ۔ آمین
ان کی کتابیں اور مضامین اکثر مطالعہ میں رہے ۔
بہت تحقیقی مضامین ہوتے ہیں ۔ ؎
اور آپ کا یہ مشاہدہ بالکل صحیح ہے جو ان کی کتابوں میں حوالوں سے متعلق آپ نے ان سے بات کی ۔
اصل میں ان کا طرزچونکہ پرانے علما کا سا تھا اس لئے ۔
یہاں تک کہ یوں لگتا تھا جیسے وہ حوالوں میں بھی براہ راست نہیں دیکھتے بلکہ کسی اکابر عالم کی کتاب سے دیکھ کر ہی یا حافظہ میں جو کچھ ہے اس سے نقل کرتے ہیں ۔
ہاں البتہ اب ان کے شاگرد اگر ان کی کتب کو شائع کریں تو تحقیق و تخریج کے ساتھ کر سکتے ہیں ۔
اور کرنا بھی چاہیے ۔ کیونکہ مفتی صاحب نے آپ سے جو وجہ فرمائی ۔ اس کے برعکس
عوام سے زیادہ غالباََ دوسرے حضرات وہ کتب پڑھتے ہیں ۔
جیسے مولانا زکریاؒ کی اسلامی سیاست کا تحقیق شدہ نسخہ طبع ہو چکا ہے ۔
یا اکابر علما دیوبند کی کتب بھی جدید تحقیق سے طبع ہورہی ہیں۔
کاش کہ مولانا نعمانیؒ بھی دیوبندی اکابر میں ہوتے تو ان کی بھی کتب اور تحقیقات جدید انداز میں شایع ہو جاتیں ۔
جو کہ ان کے صاحبزادے مولانا عبد الشہید صاحب اس آس پہ لے کہ بیٹھے ہیں کہ کوئی بڑا مکتبہ ان سے فرمائش کرے گا کہ ہم ان کو طبع کرتے ہیں ۔ معلوم نہیں اب ان کا کیا ہوا۔
ایک بات تو بتائیں یہ مفتی رضوان صاحب اپنی تحقیی تحاریر دور دراز مفتیوں تک کو تائید یا تبصرہ کے لئے بھیجتے ہین ۔ مفتی سعید خان صاحب کو کیوں نہیں بھیجتے ۔
کیا ان کے تفردات یا روشن خیالی کے ڈر سے ؟
باقی آپ کے علمی اسفار کا پڑھ کر بہت خوشی ہوئی ۔
والسلام
ابن عثمان
والسلام ، بھائی میری اطلاع تک مفتی محمد رضوان صاحب اپنی کتب برابر حضرت مفتی عثمانی صاحب کو بھیجتے ہیں یہ معلوم نہیں کہ اس پر حضرت کا ردِ عمل کیا آتا ہے ، یہ بات آپ مفتی رضوان صاحب سے براہِ راست بآسانی پوچھ سکتے ہیں۔نمبر مجھ سے مل جائے گا
ReplyDeleteمفتی تقی عثمانی صاحب کو تو وہ سب سے پہلے بھیجتے ہیں اور ان کا تبصرہ سب سے پہلے نمبر پر شائع بھی کرتے ہیں ۔
ReplyDeleteمیں نے تو مفتی سعید خان صاحب کا نام لکھا ہے کہ مفتی رضوان ان کو قریب ہوتے ہوئے بھی نہیں بھیجتے۔
مفتی رضوان صاحب کا نمبر ضرور دیں ۔ اگر پبلش نا کرنا چاہیں تو ای میل کردیں۔
ibneusman3@gmail.com
اور ساتھ اوقات کے بارے میں بھی راہنمائی فرمادیں کہ ان کو کسی علمی بات کے لئے فون کیا جائے تو کن اوقات میں کیا جائے ۔کیونکہ وہ بڑے مفتی ہیں اور مصروف ہوتے ہوں گے۔
اسی طرح مفتی سعید خان صاحب کا بھی کیا رابطہ نمبر مل سکتا ہے ؟
جزاک اللہ
بھائی آپ کو نمبر ای میل کر دیتا ہوں
ReplyDeleteاز اول تا آخر حرف بحرف پڑھا.... انتہائی سوز و گداز کے عالم میں لکھی گئی تحریر ہے جس نے اپنے پڑھنے کے دوران مسلسل اشکبار رکھا
ReplyDelete