لغات و فرہنگ

Wednesday, 19 March 2014

کتابُ الخراج - امام ابو یوسف ر۔ح ۔ اردو

 "اسلام کا نظام ِ محاصل"
تالیف : قاضی القضاۃ امام ابو یوسف ر۔ح
اردو ترجمہ : محمد نجات اللہ صدیقی
 باتعاون و بعنایت ِ خصوصی : مفتی امداداللہ یوسف زئ
پیشکش : طوبیٰ ریسرچ لائبریری
Written by :Imam Abu Yousaf rh.A
Urdu Translation : Nijaat Ullah Siddique

٭مصادر الفقه المالي خلال العصرالوسيط، مساهمة فقهية في التنظير للمالية الاسلامية -كتاب الخراج لأبي يوسف انموذجا

٭ المجلس التاسع والخمسون من مجالس أسمار وأفكار يعرض فيه الأستاذ رائد السمهوري كتاب الخراج للإمام أبي يوسف، بحضور نخبة من الأساتذة والباحثين(آڈیو بک/audio book)

٭ مناقشة رسالة بعنوان : القواعد والضوابط الفقهية المستخرجة من كتاب الخراج للإمام أبي يوسف (دراسة تأصيلية تطبيقية)

٭کتاب الخراج / مئولف  قاضی ابی یوسف ۔ مترجم : میر علی اصغر شعاع (دری/فارسی)

یہ ترجمہ انٹرنیٹ پر دستیاب نہیں ہوسکا
 

Title:Abu Yusuf's Kitab al-kharaj(Taxation in Islam)

Attribution:Translated and provided with an introduction and notes by A. Ben Shemesh

*not found pdf on internet 

 

Title  :Kitab-ul-kharaj / Abu Yousaf

English translation by Abid Ahmad Ali /revised by Abdul Hameed Siddiqui.

 *not found pdf on internet 

 

*ABU YUSUF'S CONTRIBUTION TO THE THEORY OF PUBLIC FINANCE

Master of Philosophy BY: SABAHUDDIN AZMI

 

*EARLY MEDIEVAL ISLAMIC ECONOMIC THOUGHT: ABU YUSUF'S (731-798 AD) ECONOMICS OF PUBLIC FINANCE

M. Nejatullah Siddiqi and S.M. Ghazanfar 

 

*THE CONTRIBUTION OF ABU YUSUF'S THOUGHT: ISLAMIC ECONOMIC LAW RENEWAL IN THE PUBLIC FINANCE

Rahmaeni Nur

*Kitab al-Kharaj: Rabia KoluK

*Kitab Al Kharaj Abu Yusuf : Sara Ellis

*Title: The Kitab-ul-Kharaj of Abu Yusuf; a study (*not found pdf on internet)

Author / Creator: Aḥmad, Muḥyī al-Dīn

Published: [Aligarh, India, 1951]

Description: xxiii, 162 [i.e. 161] ℓ.

Language: English

Thesis note: Thesis - Aligarh Muslim Univ.

Creation Date: 1951

٭معرفی ترجمہ ای  از  کتاب الخراج 

٭امام ابویوسفؒ بحیثیت ماہرِ معاشیات ٭

پی ایچ ڈی مقالہ:اسٹنٹ پروفیسر منور حسن چیمہ

٭امام ابویوسفؒ،یعقوب بن إبراہیم بن حبیب الانصاری الکوفی البغدادی (۱۱۳۔۱۸۲ھ؍ ۷۳۱۔۷۹۸ئ)، امام ابو حنیفہؒ کے نمایاں شاگرد ہیں، اور امام صاحبؒ کے فقہی مذہب کو پھیلانے والے یہی پہلے شخص ہیں۔ آپ بہت بڑے فقیہ اور حفاظ محدثین میں سے تھے۔ کوفہ میں پیدا ہوئے، حدیث و روایت میں تفقہ حاصل کیا پھر امام ابوحنیفہؒ کے ساتھ وابستہ ہو گئے۔کتاب الخراج آپ کی سب سے اہم اور باقی کتابوں کی نسبت ضخیم کتاب ہے۔ یہ دراصل خلیفہ ہارون الرشید کے ایماء پر لکھی گئی تھی اور یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں نظم الدول بالخصوص مالیاتی نظام اور اس سے متعلقہ بعض ضروری امور کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ خلیفہ ہارون الرشید کی خواہش تھی کہ انہیں اس سلسلہ میں بعض ضروری چیزوں کی تفصیلات مہیا کی جائیں، چنانچہ انہوں نے امام ابو یوسفؒ سے اپنی خواہش کا اظہار کیا اور آپ نے یہ کتاب مرتب فرمائی۔ زیر نظر مقالہ میں کتاب کا تفصیلی تعارف کرایا گیا ہے۔

٭کتاب الخراج (امام یوسف)ایک تعارفی مطالعہ ۔حافظ مبشر حسین

٭دستور سازی، سوشل کنٹریکٹ اوراسلام:کتاب الخراج کا ایک اساسی پہلو٭

٭امام ابو یوسفؒ کے معاشی افکار٭

٭کتاب الخراج

حضرت مولانا محمد یوسف حفظہ اللہ

کتاب الخراج دراصل اس رسالہ (خط )کا نام ہے جو امام ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم رحمہ اللہ (م162ھ)نے حکو متی مالیات کے متعلق عباسی خلیفہ ہارون الرشید (م 193 ھ)کو لکھا تھا اس میں امام ابو یو سف رحمہ اللہ نے حکومت کے ذرائع آمد اور ا س کے مصارف پر کتاب و سنت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فتاوی جات کی روشنی میں مفصل بحث کی ہے۔

سب سے پہلے آپ رحمہ اللہ نے اپنے دعوی کی تائید میں چند احادیث ذکر کی ہیں پھر ان سے علتوں کا استنباط کیا ہے اس کے بعد اقوال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ذکر کر کے مناط حکم (افعال کا مبنی ومدار) معلو م کرتے ہیں اور ان علتوں پر بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رائے کے خلاف مسائل کی بنیاد رکھتے ہیں مثلاً بعض اوقات ایک مسئلہ کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فتویٰ کے خلاف فرض کے اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر اعتراض کی شکل دیتے ہیں اور پھر ان کی جانب سے تسلی بخش دفاعی جواب دیتے ہیں۔ چنانچہ ایک فرضی اعتراض اور اس کے جواب کا نمونہ ملاحظہ ہو۔

امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ آپ رحمہ اللہ اہل خراج سے زمین کی مختلف قسم کی پیداوار، کجھور اور انگور پر مقاسمت (بٹائی)کا فتوی کیوں دیتے ہیں ؟ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زراعتی زمین اور باغات پر جو ٹیکس مقرر کیے تھے ان کے مطابق آپ رحمہ اللہ عمل کیوں نہیں کرتے ؟

قاضی القضاۃ امام یوسف رحمہ اللہ اس سوال کا مسکت، مدلل اور وزن دار جواب دیتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فتوی اس وقت کے حالات کے مطابق تھا آپ رضی اللہ عنہ نے خراج عائد کرتے وقت یہ نہیں فرمایا تھا کہ اہل خراج کے لیے یہ خراج حتمی اور دائمی ہے اور مجھے اور میرے بعد کے خلفا ء کے لیے اس میں کمی بیشی کا کوئی اختیار نہیں یہی وجہ ہے کہ جب سر زمین عراق سے حضرت حذیفہ بن یمان اور حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہماان کے عائد کردہ ٹیکس سے زیادہ آمدنی لے کر حاضر ہوئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے ان سے باز پرس کرتے ہوئے فرمایا:

"شاید تم نے اس زمین پر اتنا خراج مقرر کیا ہے جو اس کی پیداوار زائد ہے"؟

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ اگر آپ رضی اللہ عنہ کے مقرر کردہ عامل اعتراف کر لیتے کہ واقعی وہ زمین خراج کی اتنی بھاری رقم برداشت نہیں کر سکتی تو آ پ رضی اللہ عنہ ضرور اسے کم کر دیتے۔ کیوں کہ اگر آپ رضی اللہ عنہ کا عائد کردہ ٹیکس قطعی اور حتمی ہوتا اور اس میں کمی بیشی کا امکان نہ ہوتا تو آپ رضی اللہ عنہ ہر گز ان سے یہ دریافت نہ فرما تے کہ تم نے (کہیں) زمین پر اس کی پیداوار سے زیادہ بوجھ تو نہیں ڈالا ؟

علاوہ ازیں خراج کی کمی بیشی کے جواز کی بڑی واضح دلیل حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کا وہ جواب ہے جو انہوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کیا کہ "میں نے زمین پر اتنا ہی بوجھ ڈالا ہے جس کی وہ متحمل ہو سکتی ہے بلکہ اس کے بعد بھی کافی بچت ہو جاتی ہے "

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے دست راست اور شاگرد جلیل قاضی امام ابویو سف رحمہ اللہ نےاس کتاب میں بہت سے مسائل میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے اپنا اختلاف بھی ذکر کرتے ہیں جس سے فقہا ء کرام نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جن مسائل میں آپ رحمہ اللہ نے اپنے استاد اور شیخ امام اعظم رحمہ اللہ سے اختلاف کا ذکر نہیں کیا ان میں ضرور دونوں حضرات متفق ہیں اور جن مسائل کو بلا اختلاف ذکر کیا وہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے افکار وآراء ہیں۔

تاہم امام ابو یوسف رحمہ اللہ جب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے بیان کرتے ہیں تو اسے دلیل و برہان سے آراستہ کرتے ہوئے قیاس و استحسان کی وجہ بھی ذکر کرتے ہیں اور علمی امانت کا حق ادا کرنے کی غرض سے اپنی دلیل کے بجائے اپنے استاد کے استدلال کا زیادہ اہتمام کرتے ہیں اس کی نظیر حسب ذیل مسئلہ میں ہی ملاحظہ کر لیجیے۔

وہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بے آباد زمین کو آباد کر نا چاہے تو اس کے لیے حاکم وقت کی اجازت ضروری ہے یا نہیں ؟ امام ابو یوسف رحمہ اللہ حاکم وقت کی اجازت ضروری نہیں سمجھتے کیوں کہ آباد کرنے کی وجہ سے آباد کار اس زمین کا مالک بن جائے گا مگر امام اعظم رحمہ اللہ حاکم وقت کی اجازت لازم قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ دونوں نظریات اور ان کے دلائل سے متعلق امام ابو یو سف رحمہ اللہ نے جو کچھ سپرد قلم کیا ہے وہ لائق توجہ اور غور طلب ہے۔

موصوف لکھتے ہیں :حدیث مبارکہ:

" من احیا ارضاً میتۃً فہی لہ"

( المعجم الاوسط للطبرانی رقم الحدیث601)

(جس نے بنجر زمین کو آباد کیا وہ اس کی ملکیت ہوگی)کے بارے میں امام اعظم رحمہ اللہ یہ فرماتے ہیں کہ بنجر زمین آباد کا ر کی ملکیت تب ہو گی جب حاکم وقت کی اجازت کے ساتھ آبا د کی جائے اگر کوئی آدمی بلا اجازت آبا د کرے گا تو وہ اس کا مالک متصور نہ ہو گا حاکم وقت کو اختیار حاصل ہو گا چاہے تو وہ زمین بحق سرکار ضبط کر لے اور چاہے تو اسے بطور جاگیر بخش دے۔

امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے پو چھا گیا کہ امام اعظم رحمہ اللہ نے ضرور کسی دلیل کے پیش نظر یہ مسئلہ اختیار کیا ہو گا امید ہے کہ آپ رحمہ اللہ نے امام صاحب رحمہ اللہ سے ان کی حجت سنی ہو گی اس سے ہمیں آگاہ فر مائیں جواباً امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے فر مایا۔

امام اعظم رحمہ اللہ کی دلیل یہ ہے کہ آبادی حاکم وقت کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں اس لیے اجازت حاکم ضرور ی ہے مثلاً دو شخص ایک خاص جگہ کو آباد کرنا چاہتے ہیں اور ہر ایک ان میں سے دوسرے کے حق میں رکاوٹ ہے۔ ایک کہتا ہے میں آباد کروں گا دوسرا کہتا ہے میں آباد کروں گا تو آپ بتائیے کس کو حق دار قرار دیں گے ؟

اسی طرح ایسی بنجر زمین کو کوئی آدمی آباد کرنا چاہے جوکسی کے صحن میں واقع ہو اور صاحب مکان اس بات کو تسلیم کرتا ہو کہ اس زمین پر اسے کوئی حق حاصل نہیں مگر اس کے باوجو د وہ بضد ہو کہ " میں کسی کو یہ زمین آباد نہ کرنے دوں گا کیوں کہ اس سے مجھے ضرر اور تکلیف لاحق ہو گی اب بتائیے کہ فیصلہ کس کے حق میں ہو گا ؟

تو ایسے مواقع پر امام اعظم رحمہ اللہ نے اجازت حاکم کو شرط قرار دیا ہے کہ وہ جو فیصلہ صادر کرے گا وہ نا فذ العمل ہوگا آباد کار کے حق میں اس کا اجازت نامہ بھی معتبر ہو گا اور آباد کاری سے منع کرنا بھی درست ہوگا۔

امام اعظم رحمہ اللہ کا یہ قول معاشرے میں امن سلامتی کی فضا پیدا کرنے اور نزاع و فساد کے خاتمے پر مبنی ہے کسی بھی طرح حدیث کے خلاف نہیں۔ حدیث کے خلاف اس وقت ہوتا جب امام اعظم رحمہ اللہ یہ کہتے کہ حاکم وقت کی اجازت کے باوجود بھی وہ زمین آباد کار کی ملکیت شمار نہ ہوگی حالانکہ اذن حاکم سے آباد شدہ زمین کو امام صاحب رحمہ اللہ آباد کا ر کی ملکیت تسلیم کرتے ہیں۔ لہذا یہ بات واضح ہوئی کہ امام اعظم رحمہ اللہ کا یہ قول حدیث کے موافق ہے مخالف نہیں۔

مگر میری (امام ابو یوسف رحمہ اللہ)کی رائے یہ ہے کہ جب باہمی ضرر ونزاع کا اندیشہ نہ ہو تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فر مان عالی شان

"من احیا ارضاً میتۃً فہی لہ "

عام اجازت پر محمول ہوگا یعنی حاکم وقت کی اجازت آباد کاری کے لیے شرط نہ ہو گی۔ مگر جب لڑائی اور نقصان کا خطرہ ہو تو اس حدیث مبارکہ

" ولیس لعرق ظالم حق "

(المعجم الاوسط للطبرانی حدیث601)

(ظالم شخص کا اس پر کوئی حق نہیں ہے)کے مطابق فتوی ہو گا۔لہذا اس صورت میں آباد کار کی ملکیت ثابت نہ ہوگی۔

غرضیکہ اسی طرح جہاں بھی امام ابو یوسف رحمہ اللہ اپنے استاذ محترم کا اختلاف ذکر کرتے ہیں وہاں اگر وہ مقام محتاج تفصیل ہو تو اس کے دلائل بھی تفصیلاً بیان کرتے ہیں جیساکہ مذکورہ بالا مسئلہ میں انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ میرے شیخ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے حدیث کی مخالفت نہیں کی بلکہ اس کے عموم کی تخصیص کی ہے یا مطلق کو مقید کردیا ہے۔ اور جہاں تفصیل کی ضرورت نہ ہو تو وہاں اجمال پر ہی اکتفا ء کرتے ہیں۔

الغرض حقیقت یہ ہے کہ اختلاف کا ذکر کرنے میں امام ابو یوسف رحمہ اللہ کا طر ز بیان ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ آخر میں یہ بات واضح رہے کہ کتاب الخراج خالص امام ابو یوسف رحمہ اللہ کی آراء پر مشتمل ہے اس میں دوسرے فقہاء کرام کے اقوال نہیں ہیں اور انصاف یہ ہے کہ کتاب الخراج اپنے موضوع پر ایک ایسا بے مثال فقہی سر مایہ ہے جس کی اس دور میں مثال نہیں ملتی۔

 

 ٭ زکات کی رقم سے سڑکوں کی مرمت سے متعلق ”کتاب الخراج“ کی ایک عبارت کی وضاحت


سوال

امام ابو یوسف رحمہ اللہ کی ”کتاب الخراج‘‘  میں ایک عبارت ہے :

" من يسْتَحق مَال الصَّدقَات:

فَيُقَسَّمُ ذَلِكَ أَجْمَعُ لِمَنْ سَمَّى اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي كِتَابِهِ. قَالَ اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ فِيمَا أَنْزَلَ عَلَى نَبِيِّهِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: {إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ} [التَّوْبَة: 60] ؛ فَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ قَدْ ذَهَبُوا وَالْعَامِلُونَ عَلَيْهَا يُعْطِيهِمُ الْإِمَامُ مَا يَكْفِيهِمْ، وَإِنْ كَانَ أَقَلَّ مِنَ الثُّمُنِ أَوْ أَكْثَرَ أُعْطِيَ الْوَالِي مِنْهَا مَا يَسَعُهُ وَيَسَعُ عُمَّالَهُ مِنْ غَيْرِ سَرَفٍ وَلا تَقْتِيرٍ، وَقُسِّمَتْ بَقِيَّةُ الصَّدَقَاتِ بَيْنَهُمْ؛ فَلِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ سَهْمٌ، وَلِلْغَارِمِينَ -وَهُمُ الَّذِينَ لَا يَقْدِرُونَ عَلَى قَضَاءِ دُيُونِهِمْ- سَهْمٌ، وَفِي أَبْنَاءِ السَّبِيلِ الْمُنْقَطِعِ بِهِمْ سَهْمٌ يُحْمَلُونَ بِهِ وَيُعَانُونَ، وَفِي الرِّقَابِ سَهْمٌ، وَفِي الرَّجُلِ يَكُونُ لَهُ الرَّجُلُ الْمَمْلُوكِ أَوْ أَبٌ مَمْلُوكٌ أَوْ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ أَوْ أُمٌّ أَوِ ابْنَةٌ أَوْ زَوْجَةٌ أَوْ جَدٌّ أَوْ جَدَّةٌ أَوْ عَمٌّ أَوْ عَمَّةٌ أَوْ خَالٌ أَوْ خَالَةٌ وَمَا أَشْبَهَ هَؤُلاءِ فَيُعَانُ هَذَا فِي شِرَاء هَذَانِ وَيُعَانُ مِنْهُ الْمُكَاتَبُونَ، وَسَهْمٌ فِي إِصْلاحِ طُرُقِ الْمُسْلِمِينَ، وَهَذَا يَخْرُجُ بَعْدَ إِخْرَاجِ أَرْزَاقِ الْعَامِلِينَ عَلَيْهَا، وَيُقَسَّمُ سَهْمُ الْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ مِنْ صَدَقَةِ مَا حَوْلَ كُلِّ مَدِينَةٍ فِي أَهْلِهَا وَلايَخْرُجُ مِنْهَا فَيُتَصَدَّقُ بِهِ عَلَى أَهْلِ مَدِينَةٍ أُخْرَى، وَأَمَّا غَيْرُهُ فَيَصْنَعُ بِهِ الْإِمَامُ مَا أَحَبَّ مِنْ هَذِهِ الْوُجُوهِ الَّتِي سَمَّى اللَّهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ وَإِنْ صَيَّرَهَا فِي صِنْفٍ وَاحِدٍ مِمَّنْ سَمَّى اللَّهُ تَعَالَى ذكره أَجْزَأَ". (کتاب الخراج ، صفحہ 81 ، ط دارالمعرفۃ ، بیروت)

اس میں جملہ سَهْمٌ فِي إِصْلاحِ طُرُقِ الْمُسْلِمِينَ“  کا کیا ترجمہ اور مفہوم ہے ۔ کتاب الخراج کے دو اردو تراجم میں اس کا ترجمہ "ایک حصہ مسلمانوں کی سڑکوں کی مرمت کے لیے رکھا جائے گا" کیا گیا ہے۔ اس کی وضاحت فرمادیں!

جواب

امام ابو یوسف رحمہ اللہ کی ”کتاب الخراج“ کی مذکورہ عبارت میں اس جملے سَهْمٌ فِي إِصْلاحِ طُرُقِ الْمُسْلِمِينَ  کا ترجمہ مذکورہ تراجم میں جو کیا گیا ہے وہ درست ہے کہ ”ایک حصہ مسلمانوں کی سڑکوں کی مرمت کے لیے رکھا جائے گا" یعنی جیسے راستہ وغیرہ میں چٹان یا پتھر وغیرہ ہو ان کو کاٹ کرراستہ بنانے کے اخراجات، اسی طرح پل وغیرہ بنانے کے لیےیہ رقم مختص ہوگی۔

لیکن اس بارے میں وضاحت یہ ہے کہ : یہ امام ابویوسف رحمہ اللہ کا ایک قول تھا، بعد میں انہوں نے اس سے رجوع کرلیا تھا، یہی وجہ ہے کہ فقہاءِ احناف کے متون،شروح اور فتاوی کسی میں بھی اس قول کو نقل نہیں کیا گیا، اس کی وضاحت علامہ عبد العزیز بن محمد الرحبی الحنفی (المتوفی 1184ھ) اپنی کتاب الخراج کی شرح

فقه الملوک ومفتاح الرتاج المرصد علی خزانة کتاب الخراج

  میں  تحریر فرماتے ہیں:

" مصنف رحمہ اللہ (امام ابویوسف )نے اس حصے سے وہ حصہ مراد لیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ارشاد ”وفی سبیل اللہ“ میں ہے، اور انہوں نے "سبیل" کو حقیقی معنی پر محمول کیا ہے اور وہ راستہ ہے، تو انہوں نے اسے بھی زکات اور صدقاتِ واجبہ کے مصارف میں شمار کردیا، پھر بعد میں اپنے اس قول سے رجوع کرلیا ، اس لیے کہ فقہاء نے متون اور شروح میں ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد ”وفی سبیل اللہ“ سے امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک مجاہدین فقراء مراد ہیں،اور امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک حج کے سفر کرنے والے فقراء  مراد ہیں، جب کہ مصالحِ مسلمین جس میں راستوں کی اصلاح بھی شامل ہے اور پل کی تعمیر ات وغیرہ میں زکات کی رقم صرف کرنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ اس میں زکات کا رکن ”تملیک“ کا معنی نہیں پایا جاتا،  بلکہ ان پر جزیہ، خراج، اہلِ حرب کے ہدایا وغیرہ سے خرچ کیا جائے گا۔ ملاحظہ ہو:

"(وسهم) منها يصرف (في اصلاح طرق المسلمين) كقطع الصخور التي لاتسلك الطرق معها إلا بمشقة، وبناء القناطر ونصب الجسور ...

تنبيه: الظاهر أن المولف رحمه الله أراد بهذا السهم هنا السهم المذكور في قوله تعالى:"وفي سبيل الله" وحمل السبيل علي معناه الحقيقي، وهو الطريق، فجعله المصرف، ثم رجع عنه، لما ذكره الفقهاء في المتون والشروح  أن المراد بقوله تعالى: "وفي سبيل الله" فقراء منقطعي الغزاة  عند أبي يوسف ، وفقراء منقطعي الحاج عند محمد  رحمهما الله ، وأن مصالح المسلمين، ومنها إصلاح الطرق، وبناء القناطر والجسور، لايجوز صرف الزكاة فيها لانعدام ركنها وهو التمليك، وإنما يصرف عليها من مال الجزية والخراج وهدايا أهل الحرب وما صالحونا به على ترك قتالهم وما أشبه ذلك، لأنه ماخوذ بقوة المسلمين فيصرف في مصالحهم".(1/544، ط: مطبعۃ الارشاد، بغداد، 1473) فقط واللہ اعلم

 فتوی نمبر : 144004201197 دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

    مزید کتب کے لئیے دیکھئیے صفحہ " فقہی احکام  

3 comments:

  1. اسلام علیکم
    مجھے یہ کتاب سنگل صحفہ سکینگ پر چاہیے
    یا کتاب ملکمل کورئیر کروادیں ہر اس کا ہدیہ بھی بتادیں
    contact us
    www.facebook.com/msmianjee

    کتابُ الخراج
    "اسلام کا نظام ِ محاصل"
    تالیف : قاضی القضاۃ امام ابو یوسف ر۔ح
    اردو ترجمہ : محمد نجات اللہ صدیقی
    باتعاون و بعنایت ِ خصوصی : مفتی امداداللہ یوسف زئ

    ReplyDelete

  2. كتاب الخراج
    الوصف
    يُعدّ كتاب الخراج لأبي يوسف يعقوب إبراهيم الأنصاري الكوفي (توفي في عام 798؛ 182 هـ) أحد أوائل الكُتُب في الفقه، وقد كتبه أبو يوسف بطلب من الخليفة العباسي هارون الرشيد (763 أو 766-809). وكان أبو يوسف أشهر طلاب أبي حنيفة، وهو يُعدّ مع شيخه الشهير أحد مؤسسي المذهب الحنفي في الفقه. أوضح أبو يوسف في مقدمة الكتاب أن الخليفة طلب منه أن يكتب مُصنَّفاً يتناول فيه جمْع جمع الخَراج والعُشُور والصدقات والأمور ذات الصلة التي كانت تتطلب البتّ فيها. وكان هارون الرشيد يهدف من ذلك إلى الاستهداء بالعمل في فكّ الضيق عن رعيَّته وتحسين أوضاعهم الاقتصادية. يتضمن العمل فصولاً مثل "تفصيل أرض العُشر والخَراج والعرب والعجم وأهل الشرك وأهل الكتاب وغيرهم"، كما يحتوي على كمية ملحوظة من المعلومات التاريخية والجغرافية عن القرون الأولى للإسلام. ويمكن ملاحظة ذلك في الوصف المتعلق بفتح أراضي البيزنطيين والساسانيين كما ورد في فصل في أرض الشام والجزيرة على سبيل المثال. أُكمِلت هذه النسخة من مخطوطة كتاب الخراج في دمشق نحو نهاية شهر رجب عام 1144 هـ (يناير 1732). ومن الواضح أن قائمة المحتويات، التي يبدو أنها كانت نُزعتْ وأُعيد لصقها بالكتاب في المكان الخطأ، كانت قد كُتبت بعد ذلك بقرن تقريباً في 16 من ذي الحجة 1245 هـ (يونيو 1830) في سراييفو (البوسنة والهرسك الحاليتين). وأُعيدت طباعة هذا العمل في طبعات متعددة في العصر الحديث وتُرجم من لغته الأصلية العربية إلى الإنجليزية والروسية والفرنسية.
    https://www.wdl.org/ar/item/11225

    ReplyDelete
  3. كتاب الخراج وإرساء قواعد النظام المالي الإسلامي
    https://islamonline.net/27269
    بعد استقرار حركة الفتوحات الإسلامية منذ منتصف القرن الثاني للهجرة كان المسلمون قد وصلوا إلى السند شرقا والأندلس غربا، وهذا الاتساع حدا برجال الدولة وخلفائها إلى التفكير في تنظيم إدارتها وضبط شئونها، وخلافا للشائع من اتجاه المسلمين نحو اقتباس النظم المختلفة من الحضارات المجاورة فإنا واجدون في هذه الحقبة المبكرة بعض المؤلفات التي وضعها الفقهاء الأوائل ويستشف منها مدى الجهد الذي بذلوه لتحويل الأحكام والقواعد الفقهية ذات الطابع الفردي إلى بنى وهياكل-إدارية وقانونية ومالية- قابلة للتطبيق المؤسسي، ومن هذه المؤلفات (السير الكبير) للإمام الشيباني الذي وضع الإطار القانوني لتعاملات الدولة مع غيرها و(كتاب الخراج) لأبي يوسف صاحب الإمام أبو حنيفة الذي صاغ أسس النظام المالي للدولة.

    ReplyDelete