Saturday 13 May 2023

کیا حکیم الامت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانویؒ، مولانا الیاس کاندھلویؒ کی تبلیغی جماعت کے خلاف تھے؟؟؟ پہلی قسط


 

کیا حکیم الامت حضرت  مولانا شاہ اشرف علی تھانویؒ، مولانا الیاس کاندھلویؒ کی تبلیغی جماعت کے خلاف تھے؟؟؟

#پہلیـ قسط

٭چشم دید گواہ کا آپ بیتی کی روشنی میں چشم کشا بیان !!!

جب حضرت جی(مولانا الیاس کاندھلوی) نور اللہ مرقدہ نے تبلیغی کام شروع کیا اور میوات والوں کو گھروں سے نکال کر جماعتیں بنا بنا کریوپی کے علاقہ میں روانہ کرنی شروع کیں تو اکثر علماء  میں تذکرے شروع ہو گئے کہ یہ کیا ہے؟ مولانا نے یہ کیا شروع کردیا؟ حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ کےکانوں میں جب یہ خبر یں پہنچیں تو آپ گھبر اگئے اور فرمایا کہ لوگ تو علماء کی بات بھی قبول کرنے کو آمادہ نہیں۔ یہ میوات کے ان پڑھ لوگ کیا تبلیغ کریں گے۔ یہ تبلیغ نہیں بلکہ دین میں ایک نیا فتنہ ہے۔ یا امت میں ایک نیا فتنہ، فرمایا۔
حضرت جی نے دوسرے علماء کے فرمان بھی سنے۔حضرت تھانوی نور اللہ مرقدہ کا فرمان بھی سنا لیکن کسی قسم کاجواب نہ دیا۔ نہ زبانی نہ تحریری۔ وقت کا انتظار فرماتے رہے۔
حضرت جی نے ۱۹۳۳ء میں سردیوں کے موسم میں میوات سے دو سوڈھائی سو کے قریب دوماہ کے لیے لوگوں کو
نکال کر جماعتیں بنائیں۔ علاقے تجویز کیے۔ اورحضرت نے شیخ الاسلام سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ سےدہلی کی شاہ جہاں مسجد عرف جامع مسجد سے جماعتوں کو ہدایات دلا کر دعا کر اکر روانہ کرایا۔(حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ جماعتوں کو ہدایت فرما رہے تھے۔ جوش بیان میں فرمایا کہ یہ کام وہ ہے کہ اس سے باطل ختم ہو گا اور انگریزوں کی حکومت ہندوستان سے مٹ جائے گی اور اس لال قلعہ پر یہ جھنڈا  جولہلہا رہا ہے، سر نگوں ہو گا۔ ان شاء اللہ، حضرت کا یہ فرمانا تھا کہ لال قلعہ کاجھنڈ ابغیر کسی ظاہری سبب کے گر گیا۔ جامع مسجد اس وقت بھری ہوئی تھی۔ اس منظر کو دیکھ کرسب نے زور سے اللہ اکبر کہا۔ حضرت شیخ الاسلام نے ڈانٹ کر فرمایا کہ آج لوگ اپنے سارےجوش کو نعروں میں ختم کر دیتے ہیں۔ میں ایک عمل کو بتلارہا ہوں۔ اس کو سمجھو۔)۔ کچھ جماعتیں کرنال پانی پت کی طرف روانہ کیں۔ کچھ سہارنپور کے اطراف میں اور کچھ کاندھلہ کےچاروں طرف کے علاقہ میں روانہ کیں۔
وقت پورے ہونے پر ہر ایک کے لیے کوئی مقام طے کردیا کہ وہاں سب جمع ہو جانامیں آکر واپسی کی باتیں سمجھا کر اور
مصافحہ کر کے چھٹی دے دوں گا۔
کاندھلہ کے اطراف کی جماعتوں کو آخری وقت میں کاندھلہ میں ہی جمع ہونے کو فرمایا۔
وہ ایام بھی آگئے کہ جماعتوں کا وقت پورا ہو گیا۔ یہ لوگ جوکہ کاندھلہ کے اطراف میں بھیجے گئے تھے کاندھلہ میں جمع ہو گئے۔حضرت تشریف لائے بہت ہی مسرور اور مگن تھے۔ اپنے خاندان والوں سے کہہ کہہ کر پر تکلف دعوتیں کھلائیں اور ان کے کام کوخوب سراہا۔ پھر فرمایا کہ ۔
دوستو ! تم کل ساٹھ آدمی ہو ۔ اپنے میں سے صرف آٹھ آدمی آٹھ یا دس دن کے لیے مجھے ایسے دے دو کہ میں جہاں ان کوبھیجوں وہاں چلے جاویں۔ لیکن سب کو گھر کا شوق اس قدر تھا کہ کوئی بھی نہ بولا۔ آپ دو دن تک ترغیب دیتے رہے۔ کبھی حضرت مولانا احتشام الحسن صاحب ترغیب دیتے کبھی آپ دیتے۔
دوسرے یا تیسرے دن بندہ (حضرت میاں جی محمد عیسیٰ فیروز پوری)نے عرض کیا کہ حضرت میں تیارہوں۔ حضرت بہت خوش ہوئے گلے سے لگا لیا۔ خوب دعائیں دیں۔ پھر حضرت نے سارے احباب کو متوجہ کر کے فرمایا کہ یہ
بچہ(بندہ کی عمر اس وقت سترہ سال کی تھی) تیار ہے۔ کیا تم اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے۔ کہ عمر میں تم سے کم اور حوصلہ میں سب سے بلند ۔
اس کے بعد نمبر دار محراب خان صاحب فیروز پور نمک۔
منشی نصر اللہ صاحب نوح ۔

حافظ عبدالرحمن صاحب فیروز پور نمک۔

 حاجی سعد اللہ صاحب رائیسنہ۔

 مولوی ابراہیم صاحب شاماکا۔

 عبد اللہ سقہ فیروز پور نمک نے بھی ارادہ فرمالیا۔

 ایک لڑکا فیروزپور نمک کا اور بھی تھا۔ جس کے بارے میں صحیح یاد نہیں آرہا کہ کونساتھا۔ غالب گمان حسن خاں کا ہے۔
یہ کل آٹھ نفرکی جماعت تھی۔ منشی نصر اللہ صاحب کوامیر مقرر فرمایا اور نمبردار محراب خان کو ذمہ دار قرار دے کر
حضرت نے بہت دعاؤں کے ساتھ اس مختصر سی جماعت کومندرجہ ذیل ہدایتیں دے کر روانہ فرمایا۔

روانگی کی ہدایتیں  از حضرت مولانا الیاس کاندھلوی :-
وقت گذارنے کے اصول اور اعمال بتلانے کے بعدفرمایا تمہاری جماعت کو تھانہ بھون بھیجا جارہا ہے۔ لیکن
اس کی صورت یہ ہے کہ پہلے تھانہ بھون کے قرب وجوار میں کام کرتے رہنا اور اس قدر محنت کرنا کہ
حضرت تھانوی تک تمہاری محنت کے تذکرے پہنچنےلگیں۔ یہاں تک کہ آپ کی طرف سے تمہاری
جماعت کے تھانہ بھون پہنچنے کا حکم آجائے۔قرب و جوار میں صرف آٹھ یوم کام کرنا۔ اگر اس
عرصہ میں حضرت کا پیغام مل جائے تو تھانہ بھون چلےجانا اور اگر پیغام نہ پہنچے  تو واپس نظام الدین آجانا۔
اگر پیغام مل جائے تو بہت استغفار کرتے ہوئے اللہ سے دعائیں مانگتے ہوئے سیدھے حضرت کی خانقاہ
میں پہنچ جانا اور بہت ہی آداب و احترام کے ساتھ داخل ہونا۔ جب حضرت تمہیں بلا کر کام کے بارے

میں پوچھیں تو صحیح صحیح اور صاف صاف مختصر الفاظ میں کام کے اصول اور طریقے عرض کر دینا۔ کسی بات
میں جھجکنا اور ڈر نامت۔
اگر حضرت دریافت کریں کہ کتنے دن ٹھہرو گے توعرض کرنا کہ تین یوم ۔ اس کے بعد اگر حضرت زیادہ ٹھہرنے کو فرماویں تو عرض کر دینا کہ جتنا حضرت فرماویں اسی قدر ٹھہرنے کو ہم تیار ہیں۔
کھانے کے بارے میں دریافت کریں تو صاف عرض کردینا کہ اپنا پکاتے ہیں۔ اگر حضرت کھانا کھلاویں تو بہت
ہی شوق اور رغبت کے ساتھ قبول کر لینا کہ بزرگوں کے سوکھے ٹکڑے بھی بڑی بڑی نعمتوں سے بہتر ہیں۔
روانگی کی ہدایات اور نصائح کے بعد دعا فرمائی۔ جس میں آپ پر اس قدر گر یہ تھا کہ سارا مجمع بھی رو تارہا۔ اس سب سےفراغت کے بعد جماعت کو روانہ فرمایا کا ندھلہ سے باہر دور تک آپ ساتھ چلتے رہے اور یہ آپ کا معمول تھا کہ جماعت روانہ کرتے وقت دور تک پہنچانے کے لئے تشریف لے جاتے۔ چلتےچلتے بھی نصائح فرماتے رہے ایک طرف آپ پر انتہائی مسرت کے آثار اور اسی میں کبھی کبھی اس قدر فکر اور بوجھ محسوس ہو تا تھاکہ آپ کے بدن مبارک میں تھر تھری پیدا ہو جاتی۔ الغرض جماعت کو دور تک پہنچا کر آپ لوٹے اور مڑ مڑ کر بار بار آپ دیکھتےجاتے اور کاندھلہ کی طرف چلتے جاتے۔ یہ ہی حال جماعت کا رہا۔
چونکہ آپ نے قیام کے مقامات طے نہیں فرمائے تھےاور فرما دیا تھا  جہاں مناسب سمجھو ٹھہر جانا۔ سفر پیدل تھا۔
مغرب کے وقت شاملی پہنچے۔ سردی کا موسم تھا اس لئےساتھیوں کا مشورہ شاملی ہی قیام کرنے کا ہو گیا۔ وہاں گشت کیا۔
لوگ جمع ہو گئے۔ مختصر سی بات رکھی تشکیل بھی کی۔ مقامی کام کرنےکے لئے جماعت بن گئی۔ رات گزار کر صبح پھر چل دئیے۔
کہاں جاویں۔ سمجھ کام نہیں کرتی تھی۔ چلتے چلتے بمقام کیڑی پہنچے وہیں ٹھہر نا طےہو گیا۔ مسجد میں داخل ہوئے۔ عصر کا وقت قریب تھا۔ وضو وغیرہ سے فارغ ہو کر تحیۃ المسجد پڑھی۔ مشورہ کیا کہ اذ ان لگ گئی۔ امام صاحب سے ملاقات کی۔ آنے کی غرض سامنے رکھی۔ امام صاحب خاموش رہے۔ مسجد میں اہل حدیث حضرات کا غلبہ تھا اس لئے نماز جلدی ہی ہو گئی۔ نماز کے بعد ایک صاحب نے امام صاحب سے پوچھا۔ یہ بسترے کیسے ہیں۔ امام صاحب نے فرمایا کہ ایک جماعت ہے جو نظام الدین سے آئی ہےاور میوات کے لوگ ہیں۔ کڑک کر کہا۔ کسی جماعت ؟ کیوں آئی
ہے ؟ کیا کرے گی ؟ یہاں ضرورت نہیں۔ ان سے کہہ دو یہاں سے چلے جاویں۔
ان باتوں کو سن کر جماعت سہمی  سی ہو گئی۔ دل ہی دل میں دعا کرتی رہی۔ اشاروں ہی اشاروں میں امیر صاحب سے
مشورہ کرتے رہے کہ امیر صاحب اٹھے۔ ان صاحب سے مصافحہ کیا اور اپنا مقصد بیان کیا اور بتایا کہ ہم گشت کر کے لوگوں کو مسجدمیں لاتے ہیں کلمہ سکھاتے ہیں، نماز کو کہتے ہیں اور اپنا پکا کرکھاتے ہیں، تو بمشکل اس پر راضی ہوئے کہ گشت و بیان کی اجازت ہے ۔ قیام کہیں اور جگہ کرنا۔

خدا کا شکر ادا کیا، بعد میں امام صاحب سے تحقیق کیا کہ یہ کون صاحب تھے تو فرمایا کہ یہ نواب عبد الکریم ہیں اور یہ چار
بھائی ہیں۔ ان میں سے دو اہلحدیث ہیں اور دو حنفی ہیں اور یہ سب سے بڑے ہیں۔ سارے بھائی ان کا اکرام اور احترام کرتے ہیں نیک ہیں۔ دیندار ہیں اور صوم و صلوۃ کے چاروں بھائی پابند ہیں۔ان کے پچاس گاؤں ہیں اور نواب عبدالکریم کے ذمہ ہی سارا نظام ہے۔ عبد الکریم خاں صاحب سے چھوٹے بھائی کا نام یاد نہیں۔تیسرے بھائی عبد الحمید خاں اور سب سے چھوٹے عبد المجید خاں ہیں۔ یہ دونوں حنفی ہیں۔ اور حضرت تھانوی سے بیعت ہیں۔
عشاء سے پہلے گشت کیا۔ بستی کے لوگوں میں سےبھی ہمراہ تھا۔ بے نمازیوں کی اکثریت تھی لیکن ذرا سمجھانے اور
ایمان و نماز کی بات سننے سے لوگ مسجد کو آتے رہے اور جس مسجدمیں مغرب کی نماز میں ایک صف بھی بمشکل ہوئی تھی۔ عشاء میں مسجد کے اندر اور مسجد کے صحن میں جگہ بھی نہ مل سکی ۔راستے اور چوپال ( مسجد کے برابر ہی چوپال تھی)ان کے اندر باہر سب بھر گئے۔

عشاء کی نماز ادا کی۔ دعا کے بعد اعلان ہوا۔ اور سارا مجمع بیٹھ گیا۔ منشی نصر اللہ صاحب نے بیان کیا۔ آخر میں اپنے ساتھ کام کرنے کی دعوت دی۔ بہت سے لوگوں نے ارادے کیے پھر دعا کی۔
نواب عبد الکریم خاں صاحب نے فرمایا کہ آپ حضرات میری خطا کو معاف فرماویں۔ مجھے تمہارا کام بہت پسند آیا ہے۔میں چاہتا ہوں ہمارے سارے گاؤں کے کاشتکار نمازی بن جاویں۔ لیکن ہماری کوئی کوشش کار گر نہ ہو سکی۔ آپ والی شکل بہت ہی مؤثر ہے اس لیے آپ یہاں ہی قیام فرمائیں۔ میں خود اورمیرے بھائیوں یا ہمارے لڑکوں میں سے کوئی نہ کوئی آپ کے ہروقت ساتھ رہے گا۔ اور کھانے کا آپ فکر نہ کرنا اس کا انتظام ہم کریں گے۔جماعت نے کھانے سے تو معذرت کر دی۔ صرف ایک وقت کی دعوت ان حضرات کے اصرار کی وجہ سے قبول کی۔ آٹھ دن کا نظام بنایا اور اس چھوٹی سی ریاست میں گاؤں گاؤں پھر کر کامکرتے رہے۔ ہر بستی میں مسجدیں بھر گئیں۔
نواب عبد الحمید خاں اور ان کے بھائی کا معمول تھا کہ دونوں میں ایک روزانہ تھانہ بھون جائے اور حضرت کی مجلسوں
میں شرکت کرے اس لیے یہ حضرات جماعت کی کار گذاری حضرت کو سناتے رہے اور ادھر ہم سے بھی حضرت کے تاثرات کا ذکر کرتے رہے۔ اور فرمایا کرتے کہ حضرت تمہارے کام سےبہت ہی خوش ہیں۔
یہ جماعت جمعہ شاملی میں پڑھ کر اسی دن کیڑی پہنچ گئی تھی اور ہفتہ کو جمعرات تک کا نظام بن گیا تھا۔
جمعرات کی صبح میں نواب عبد الحمید خاں صاحب نےفرمایا کہ حضرت نے فرمایا کہ جماعت سے کہنا کہ جمعہ تھانہ بھون
آکر پڑھے۔
حضرت جی کے فرمان کی وجہ سے جماعت کو انتظار تھا کہ وہ مبارک دن کب آئے گا کہ حضرت تھانوی کا حکم آئے اور ہم تھانہ بھون حاضر ہوں چنانچہ نواب صاحب کا پیغام کیا تھا گویا عید کے چاندکی اطلاع مل گئی۔
رات گزارنی بھاری ہو گئی اکثر نے نماز۔ تلاوت اور ذکرمیں رات گذاری اور فجر کی نماز کے بعد ہی روانگی کی تیاری میں
لگ گئے۔ آج سورج نے نکلنے میں بھی اپنا ناز دکھایا۔ خدا خدا کر کےاشراق کا وقت ہو اور نماز اشراق ادا کرتے ہی جماعت تھانہ بھون کو روانہ ہو گئی۔ سب ساتھیوں کو اس قدر خوشی تھی کہ شوق میں پاؤں زمین پر نہ لگتے تھے صبح صبح ہی تھانہ بھون میں سیدھے خانقاہ امدادیہ والی مسجد میں پہنچ گئے۔حضرت کے خدام منتظر تھے۔ ہاتھوں ہاتھ جماعت کو
لیا۔ شمالی جانب مدرسہ میں سامان رکھایا۔ ڈھیلہ۔ استنجا خانہ۔غسل خانہ وغیرہ بتلائے اور فرمایا کہ اپنی ضرورتوں سے فارغ ہوجاؤ۔ نماز جمعہ کے بعد حضرت سے ملاقات ہو گی۔ اتنے میں حضرت مولانا ظفر احمد صاحب مد ظلہ العالی تشریف لے آئے۔آپ کو ہم پہچانتے تھے کیونکہ آپ کی میوات اور نظام الدین تشریف آوری ہوتی رہتی تھی۔ آپ نے جماعت کو بٹھایا اور رہنےسہنے اور کام کرنے کے اصول معلوم کئے۔ امیر صاحب اور نمبردار محراب خانصاحب نے سارے اصول عرض کر دیے۔ آپ نے فرمایا کہ بعینہ حضرت کے سامنے بتا دینا اگر تم کچھ بھول جاؤ
گے تو میں یاد دہانی کرادوں گا اور آپ نے حضرت کی خدمت میں حاضری کے آداب اور اصول بھی بتلا دیے پھر تشریف لے گئے۔
جماعت اپنی اپنی ضرورتوں سے فارغ ہو کر مسجد میں اگلی صف میں جگہ لے کر نماز، تلاوت میں مشغول ہو گئی۔
جمعہ کی اذان ہوئی۔ لوگ آنے شروع ہوئے،مسجد بھرگئی ۔ حضرت بھی تشریف لائے جماعت پر ایک نظر ڈالی اور منبرپر تشریف لے گئے۔ مؤذن نے خطبہ کی اذان دی اور حضرت نےخطبہ اور نماز جمعہ پڑھائی۔
نماز سے فراغت کے بعد کوئی صاحب آئے اور فرمایا کہ جماعت کو حضرت یاد فرمارہے ہیں۔ چنانچہ جماعت حاضر خدمت ہو گئی۔ حضرت مصافحہ کرتے رہے اور اپنے بائیں جانب( یہ جگہ مخصوص مہمانوں کے لیے مقرر تھی اور جس کو حضرت بٹھاتے وہ ہی بیٹھ سکتا تھا۔ دوسرے حضرات سامنے یا دائیں جانب بیٹھا کرتے تھے) بیٹھنے
کا اشارہ فرماتے رہے۔ جب مصافحہ سے فارغ ہو گئے اور جماعت بیٹھ گئی تو حضرت نے پہلے خیریت معلوم کی۔ اور پھر کام کےاصول اور طریقے اور رہنے سہنے کا نظام معلوم کیا۔ امیر جماعت نے سب عرض کر دیا جس میں یہ بھی بتلا دیا کہ ہم اپنا کھانا کھاتے ہیں اور یہ کہ کسی ایک نماز سے پہلے گشت کر کے لوگوں کو مسجدمیں لاکر کلمہ و نماز کی اہمیت اور ضرورت بیان کر کے ان کے سیکھنےکے لیے وقت فارغ کرنے کو کہتے ہیں جسے ہم تشکیل کے نام سےموسوم کرتے ہیں۔قیام کے بارے میں حضرت نے دریافت کیا۔ تو امیرصاحب نے عرض کیا کہ اس بارے میں مقامی حضرات کےمشورے سے جو طے ہو جاوے وہاں قیام کر لیتے ہیں(ابتداء میں یہ ہی اصول تھا کہ مسجد میں قیام کرنے کو نہ کہا جاوے کیوں کہ اس کو لوگ معیوب سمجھتے تھے)۔حضرت نے فرمایا کہ آپ لوگوں کا قیام مولوی نصیر احمد
صاحب کی کوٹھی (یہ کوٹھی حضرت کی مسجد کے بالکل قریب تھی)میں تجویز ہوا ہے۔ اور کام کے بارے میں مولوی ظفر احمد صاحب تجویز ہوئے ہیں کہ وہ آپ کے ساتھ رہیں گے ۔ حضرت مولانا ظفر احمد صاحب کو مخاطب کر کے فرمایاکہ جماعت کو ساتھ لے جاکر عصر کی نماز فلاں مسجد اور مغرب کی فلاں میں اور عشاء کی جامع مسجد میں پڑھنا۔ اور ان کے کام کواچھے طرح دیکھنا۔ اور سمجھنا اور کل صبح نماز کے بعد معہ جماعت کے میرے پاس یہاں آکر کارگذاری سنانا۔
حضرت کی مجلس کے ختم پر حضرت مولانا ظفر احمدصاحب جماعت کو لے کر نظام کے مطابق مسجد میں گئے اور
راستے میں فرماتے جارہے تھے کہ تمہارا ہمارے یہاں آنا سمجھ میں توآیا نہیں لیکن حضرت سے استفادہ و استغاضہ حاصل کرنے کاموقع مل جائے گا کہ اتنے میں مقررہ مسجد آئی اور گشت شروع کردیا حضرت مولانا ہی رہبری فرما رہے تھے پہلے پہلی ایک ایسےآدمی سے ملاقات ہوئی جو کوٹ پتلون پہنے ہوئے تھا اور حضرت مولانا اسے خوب پہچانتے تھے۔ جماعت کے متکلم نے سلام کیاسلام و مصافحہ کے بعد ایمان کی باتیں کی اور کلمہ طیبہ پڑھنے کو
عرض کیا وہ صاحب پہلے تو شرمائے لیکن حضرت کے فرمانےسے انہوں نے کلمہ پڑھا۔ کلمہ میں کئی غلطیاں نکلیں۔ جماعت کے متکلم نے ہمت افزائی کرتے ہوئے یاد کرنے اور عصر کی نمازکو مسجد میں ادا کرنے کی درخواست کی وہ ساتھ ہو گے تقریبا آدھ گھنٹہ گشت ہوا تھا کہ بہت سے بے نمازی ملے جو سمجھانے سےمسجدمیں آگئے۔ اور بہت سے لوگوں کو کلمہ بالکل یاد نہیں تھا اور اکثر کی غلطیاں نکلیں یہ حال دیکھ کر حضرت مولانا سہم گئے اور شرم سی چھا گئی اس مسجد میں نماز اور بیان سے جب فارغ ہو گئے تو مولانا نےدوسری مسجد کی راہ لی۔ جماعت سے پوچھا ہی نہیں جماعت ساتھ ہولی۔ دوسری مسجد میں مغرب سے پہلے گشت اور نماز کے بعد بیان ہوا پھر حضرت مولانا جامع مسجد لے گئے وہاں بھی عشاء سے قبل گشت عشاء کے بعد بیان ہوا۔ جماعت کے آدمی نے تقریباً پونہ گھنٹہ بیان کیا لیکن مجمع اس قدر تھا کہ جامع مسجد اندر اور باہر سےبھری ہوتی تھی وہاں کے لوگوں کا بیان تھا کہ اس مسجد میں جمعہ کےدن بھی کبھی اتنے لوگ جمع نہ ہو سکے ،کچھ مجمع ،کچھ قصبہ کا حال سامنےآیا کہ تقریبا ستر پچھتر فی صدی بے نمازی یہ بھی میں ڈرتے ہوئےلکھ رہا ہوں ورنہ بے نمازیوں کی تعداد کی نسبت اس سے بھی زیادہ تھی حضرت مولانا ظفر احمد صاحب سے نہ رہا گیا اور فرمانے لگے کہ اگر تم لوگ اجازت دو تو میں کچھ کہہ لوں۔
جماعت نے بخوشی منظور کر لیا بلکہ عرض کیا کہ حضرت ہم تو حکماًبیان کرتے رہیں ورنہ اصل بیان ہر جگہ آپ کا ہی ہوناچاہیے تھا۔" حضرت نے بیان شروع کیا تقریباً ڈھائی گھنٹہ بیان فرمایا اور اہل قصبہ کو خوب شرم دلائی اور اپناز عم ظاہر فرمایا کہ ہم تو یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ جب کہ تھانہ بھون سے آج پورے ہند کےلوگ فیض حاصل کرنے یہاں آرہے ہیں تو تھانہ بھون تو سب دیندار اور نمازی اور بہت ترقی پذیر ہو گا۔ لیکن آج تم نے ہماری ناک کٹوادی کہ یہ میوات کے ان پڑھ لوگ یہاں اگر تم کو کلمہ صحیح کرار ہے ہیں اور مسجدوں میں پہنچارہے ہیں حضرت جب یہ سنیں گے تو کس قدر غم ہو گا۔"
حضرت مولانا کے بیان کی وجہ سے رات کے بارہ بج گئےتھے دو کا نیں بند ہو چکیں ، جماعت دن بھر کی مشغولی اور حضرت مولانا کی ہم رکابی کی وجہ سے کچھ پکا  نہ سکی۔ اور بھوک کا یہ حال کہ گو یا آج ہی سب دنوں کی جمع ہو کر لگ گئی ہے حضرت مولانا آگےآگے جماعت پیچھے پیچھے چلتی رہی اور خاموشی سے چپکے چپکے مشورہ کر کے دو آدمی بازار بھیج دیے کہ کسی طرح کچھ نہ کچھ لے کر آویں۔چاہےچنے ہی مل جاویں بہت سے لوگ ساتھ لگ گئے تھے دو
آدمیوں کے نکل جانے سے کسی کو پتہ بھی نہ چلا اور مولوی نصیراحمد صاحب کی کوٹھی پر پہنچا کر حضرت مولانا اپنے گھر اوردوسرے لوگ اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہو گئے۔ یہ دو آدمی بازار گھومتے رہے کچھ نہ ملا پھر ایک بھڑموجا (یعنی چنابھوننے والا )کے گھر کا انداز کر کے کہ وہ کالا ہو رہا تھا دھویں کے اثرات چاروںطرف دیوار اور چھپر پر نمودار تھے۔ دروازہ کٹھکٹھایا پہلے تو وہ چورسمجھا اور شور کرنے کا ارادہ کیا جب ان لوگوں نے بیٹری کے ذریعہ اپنے کو دکھایا اور بتلایا کہ ہم چور نہیں ہیں جماعت والے ہیں شایدتم نے بھی دن کو گشت کرتے دیکھا ہو گا۔ اس نے اقرار کیا اور اسےتسلی ہو گئی ۔دو آبہ میں یہ دستور تھا کہ چنے والا گڑ بھی رکھتا تھا اس لیے ان دونوں نے بھنے ہوئے چنے اور گڑ خرید لئے۔ اور اسے پیسہ دے کر کو ٹھی پر آگئے۔ جماعت خوش ہو گئی کوٹھی میں سناٹا تھا۔کسی فرد کا پتہ نہیں صرف دربان باہر کے دروازے میں گہری نیندمیں خراٹے بھر رہا تھا پھر بھی احتیاطا کھٹر کی اور دروازے بند کر کےآہستہ آہستہ چنے چبا کر سو گئے اور امیر صاحب نے تاکید کردی کہ کسی سے تذکرہ تک نہ کرنا آج رات میں ہم نے چنے چبائے تھے۔
تہجد میں سب اٹھے کوٹھی میں ہی نوافل اور ذکر جہری با تسبیحات اور تلاوت سے فراغت حاصل کر کے فجر کی نماز
حضرت تھانوی کے پیچھے مسجد میں ادا کی۔ نماز کے بعد حضرت نے فورا جماعت کو بلایا جماعت حاضر ہوئی اور دوسرے حضرات بھی آکربیٹھ گئے۔ حضرت تھانوی، مولانا ظفر احمد صاحب کی طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا کہ اس کام کو کیسا پایا؟ حضرت مولانا کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور قصبہ کا حال اور جماعت کے ذریعہ نفع کی شکل بیان فرمائی۔ پھر حضرت نے جماعت سے دریافت فرمایاکہ رات کیسی گذری عرض کیا کہ حضرت بہت اچھی گذری ہرطرح سے آرام پایا۔ حضرت نے پھر اہل مجلس سے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ہے کہ ان کو اس وقت چائے پلائے مولوی نصیر احمد
صاحب نے عرض کیا کہ حضرت مجھے اجازت ہو جائے۔ فرمایا خالص چائے نہیں کچھ اور بھی اس کے ساتھ ہو وہ تشریف لےگئے اور تھوڑے عرصہ کے بعد ایک دیگچی  چائے کی بھری ہوئی اور ایک ٹوکر ابسکٹ تازہ تازہ لے کر آئے اور دس بارہ چینی کےبڑے بڑے پیالے۔ حضرت نے فرمایا بھر بھر کر دو اور دسترخوان بچھا کر سارے بسکٹ ان کے سامنے ڈالد و تا کہ خوب سیر ہوکر کھا لیں۔ چنانچہ پیالے بھر بھر کر ہر ایک کے سامنے رکھے گئےاور بسکٹ بھی پھیلا دئے گئے۔ لیکن جماعت والوں نے ہاتھ نہ لگایا۔ حضرت بار بار فرماتے رہے اور جماعت والے خاموشی سےسنتے رہے۔ حضرت سمجھ گئے اور فرمایا بھائیو ! مجھ سے غلطی ہو گئی میں بالکل بھول گیا تمہارا تو اصول ہی یہ ہے کہ اپنا کھاتے ہو اورمیں خود بھی اصولی آدمی ہوں اور اصولوں کی پابندی کو لازمی سمجھتا ہوں۔ یہ بہت ہی پسندیدہ صفت ہے کہ تم نے اپنے اصولوں کی پابندی کی، اچھا یہ بتاؤ کہ مولوی الیاس نے دعوت قبول کرنے کابھی کوئی اصول بتلایا ہے یا صرف انکار ہی انکار کا اصول رکھا ہے۔جماعت والوں نے عرض کیا حضرت دعوت قبول کرنے کا بھی اصول بتلایا ہے۔
حضرت :۔ اس کی کیا صورت ہے ؟"
امیر جماعت : "جس کام کے لیے ہم نے گھر چھوڑا ہے۔وہ بھی اس میں وقت لگانے کا ارادہ نکل جانے کا نقد ارادہ کرے ۔
حضرت :۔ کتنا وقت تم لوگ مانگتے ہو؟
امیر جماعت :۔ تین چلے
حضرت: اگر کوئی تین چلے نہ دے سکے تو ؟
امیر جماعت :۔ ایک چلہ دیدے
حضرت: اگر ایک چلہ بھی نہ دے سکے تو ؟
امیر جماعت :۔ بیس یوم کو نکل جائے۔
حضرت : اچھا کم سے کم کتنے وقت دینے پر دعوت قبول کرلیتے ہو ؟
امیر جماعت : " تین یوم ہمارے ساتھ رہنے پر "

حضرت: اگر کوئی اتنا بھی وقت نہ لگا سکے تو ؟
امیر جماعت :۔ آخری حد یہ ہے کہ چوبیس گھنٹہ ہمارے ساتھ رہے۔
حضرت: "اگر یہ بھی نہ ہو سکے اور وہ معذور ہو تو ؟"
امیر جماعت :۔ پھر ہم اس کے عذر کو دیکھیں گے اگر وہ واقعی شرعا معذور ہے تو اس سے کہا جائے گا کہ عذر کے ختم ہونے پر نکلنے کا پختہ وعدہ اور ارادہ کرے اور اس وقت تک اس کام کے لیے دل سےدعا کر تار ہے۔
حضرت یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ میراجی چاہتا ہے کہ آپ لوگوں کی دعوت کروں۔ لیکن میں اس قدر
معذور ہو چکا ہوں کہ گھر سے مسجد تک آنے جانے میں بھی دقت ہوتی ہے۔ اگر آپ حضرات کے نزدیک میرا یہ عذر قبول ہو تومیری دعوت قبول کر لو۔ ورنہ میں بخوشی اس پر راضی ہوں کہ تم بے جھجک انکار کر دو۔

٭اہل اللہ کے دستر خوان کے سوکھے ٹکڑےبھی بڑی بڑی نعمتوں سے زیادہ قیمتی ہیں٭
 "یہ سن کر پوری جماعت رونے لگی اور امیر صاحب نے روتے ہوئے عرض کیا کہ حضرت جی نے ہم کو یہ اصول بتایا ہےکہ اہل اللہ کی دعوت بے عذر قبول کر لینا کیوں کہ ان کےدستر خوان کے سوکھے ٹکڑے بھی دنیا کی بڑی بڑی نعمتوں سےزیادہ قیمتی ہیں۔ اور اللہ کا شکر ادا کرنا کہ زہے قسمت کہ اللہ نےاپنے ولی کے دستر خوان پر کھانے کا موقع عنایت فرمایا۔ اور اسےبزرگوں کی شفقت اور کرم یقین کرنا"۔
اسے سن کر حضرت باغ باغ ہو گئے اور ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہو گئی اور بار بار فرماتے رہے۔

٭مولانا الیاس نےیاس کو آس سے بدل دیا۔ مولا نا الیاس نے یاس کو آس سےبدل دیا٭۔
اس کے بعد فرمایا کہ یہ چائے اور بسکٹ میرے عزیزمولوی نصیر صاحب کی طرف سے ہے اور میں ان کی سفارش کرتا ہوں کہ تم اسے قبول کر لو اور چار وقت کھانے کی دعوت میری طرف سے قبول کر لو۔ دو دو پہر دو شام ناشتہ میں تمہیں اختیار کہ اپنا کرو یا کسی دوسرے کا اپنی شرائط کے ماتحت قبول کر لو۔
کسی کو حضرات صحابہ کو دیکھنا ہو تو ان لوگوں کو دیکھ لو:

پھر اہل مجلس کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ کسی کو یہ دیکھنا ہو کہ حضرات صحابہ کیسے تھے تو ان لوگوں کو دیکھ لو۔
پھر فرمایا کہ ایک بات رہ گئی۔ وہ یہ کہ تھانہ بھون میں کتنےدن قیام رہے گا۔ امیر جماعت نے عرض کیا کہ حضرت جی نےفرمایا کہ تین دن تھانہ بھون میں ٹھہر نالیکن اگر حضرت کی طرف سے زیادہ دن ٹھہرنے کا حکم ہو تو پھر جتنا حضرت فرماویں اتنےدن ٹھہر جانا۔
حضرت اس کو سن کر اور بھی زیادہ خوش ہوئے اور فرمایا۔
کہ اس قصبہ میں باون مسجد یں ہیں اس لئے کم سے کم آٹھ یوم کاقیام چاہتا ہوں۔ جماعت نے بخوشی منظور کر لیا اور حضرت نےبہت دعائیں دیں۔ اور فرمایا کہ

" اللہ رب العزت جس سے جو کام چاہیں لے لیتے ہیں۔ یہ کام مولانا الیاس کے حصہ میں آیا  ۔بہت ہی اونچا کام ہے اور مجھے امید ہے کہ اس کام سے امت کو نفع ہو گا۔ اللہ اسے قبول فرمادیں۔ اور اس میں برکت فرمادیں۔ اوراپنی تائید و نصرت کو شامل حال فرمادیں اور شر و شرور اور فتن سےحفاظت فرماویں"۔
حضرت نے مولانا ظفر احمد صاحب سے فرمایا کہ اس جماعت کا آٹھ دن کا نظام بنا دو اور خود بھی ان کی نصرت کرتے
رہنا۔ اور اہل مجلس سے فرمایا تم سب لوگ بھی ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گذارنے کی کوشش کرتے رہنا۔
حضرت مولانا ظفر احمد صاحب نے مسجدوں کی ترتیب دی اور گشت و تعلیم کے اوقات مقرر کئے۔ آٹھ دن تک قصبہ
میں محنت ہوتی رہی اور ہر طرف چلت پھرت، چہل پہل نظرآنے لگی۔ حضرت نے ایک وقت اپنی حاضری کا مقرر فرمایا تھا۔
اس میں کار گذاری سنتے اور خوب دعائیں دیتے رہے۔ آٹھ کے دن کے بعد جب واپسی کے ارادے سے دعا کی خاطر حاضر ہوئے توفرمایا جی تو بھر انہیں۔ لیکن بھائی تم لوگ بھی اہل ضرورت ہو۔گھر کے تقاضے تمہارے ساتھ بھی لگے ہوئے ہیں اس لئے خوشی سے اجازت دیتا ہوں لیکن واپسی میں رام پور منیہاران میں بھی قیام کرتے ہوئے جائیں تو بہت اچھا ہے کہ وہاں میرے خاص لوگ ہیں اور وہاں کئی خصوصیتیں حاصل ہیں۔ جماعت نے وعدہ کر لیا اور حضرت نے بہت دعاؤں کے بعد جماعت کو روانہ کر دیا۔رام پور منیہاران میں دو دن کام کر کے جماعت نظام الدین آگئی۔

٭ الحاج حضرت میاں جی محمد عیسیٰ فیروزپوری، حضرت مولانا الیاس کاندھلویؒ کے ابتدائی دور کے مقرب و مخلص رفقاء میں سے تھے، ان کا یہ رسالہ  " ادارہ اشاعت دینیات ، نظام الدین، دہلی سے شائع ہوا تھا"۔

٭تبلیغی تحریک کی ابتداء اور اس کے بنیادی اصول/ص39 تا 64

مولف : الحاج حضرت میاں جی محمد عیسیٰ فیروزپوری

ناشر: عمران اکیڈمی، 40/B، اردو بازار ، لاہور

#TOOBAA_POST_NO_513

مزید کتب کے لیئے دیکھیئے  صفحہ "دعوت و تبلیغ ، تحریک ایمان  " ۔

 

 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔