Tuesday 21 March 2023

التعوذ فی الاسلام
ALTAUZ FIL ISLAM


 

التعوذ فی الاسلام

تالیف : مولانا محمد طاہر صاحب

پیشکش : طوبیٰ ریسرچ لائبریری

28 شعبان 1444 ہجری      

بشکریہ :مولانا عبدالوہاب

ALTAUZ FIL ISLAM

BY:  MAULANA MUHAMMAD TAHIR

DOWNLOAD

#TOOBAA_POST_NO_500

مزید کتب کے لیئے دیکھیئے  صفحہ " قرآنیات " ۔

مجموعہ تعوُّذات، از: مفتی محمد سعید خان صاحب

         ٭تعوذ کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی مدظلہ اپنے دروسِ قرآن میں فرماتے ہیں:

               ٭تعوذ ۔ ذکر کی دسویں قسم تعوذ یعنی اعوذ باللہ کہنا ہے۔ اس کے لیے قرآن وسنت میں مختلف الفاظ آئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب قرآن پڑھو تو اللہ تعالیٰ کا ذکر اس طرح کرو اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم چناچہ آج تعوذ کے بارے میں کچھ عرض ہوگا۔ تعوذ کی ضرورت اس دنیا میں انسان کوئی بھی کام کرنا چاہے خواہ وہ نیکی کا ہو یا برائی کا توفیق ایزدی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ کوئی کام ازخود انجام دے سکتا ہے مگر یہ کہ ہر قدم پر نصرت خداوندی کی ضرورت ہوگی ۔ خاص طور پر جب کوئی آدمی نیک کام انجام دینا چاہتا ہے تو اس کو طرح طرح کی رکاوٹیں پیش آتی ہیں تاکہ یہ کام پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکے ۔ طرح طرح کے شرور اور فتنے راستے میں حائل ہوتے ہیں اسی لئے انسان کو تعلیم دی گئی ہے کہ کوئی بھی اچھائی کا کام شروع کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرلے انسان کے حق میں علم اور عمل دو مفید ترین چیزیں ہیں اور ہر انسان ان دونوں چیزوں کا محتاج ہے۔ علم میں عقیدہ بھی شامل ہے اور ظاہر ہے کہ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا عقیدہ اور فکر پاک ہو مگر تمام انسان اس میں کامیاب نہیں ہوپاتے کیونکہ ہر انسان اپنی قوت کے بھروسے پر یہ چیز حاصل نہیں کرسکتا جب تک اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے شامل حال نہ ہو عمل کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ کوئی بھی اچھا عمل اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی اعانت ونصرت کے بغیر انجام نہیں دیا جاسکتا ۔ حواس ظاہرہ و باطنہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے جسم میں بہت سے حواس ظاہرہ اور باطنہ ودیعت فرمائے ہیں جو اس ظاہرہ میں قوت باصرہ (دیکھنے کی طاقت ) قوت سامعہ (سننے کی طاقت) قوت ذائقہ (چکھنے کی طاقت ) قوت لامسہ (ٹٹولنے کی طاقت) اور قوت شامہ (سونگھنے کی طاقت) شامل ہیں اسی طرح حواس باطنہ میں وہم خیال جس مشترک قوت متفکرہ ذہانت اور قوت عاقلہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے دماغ میں رکھی ہیں ۔ ان ظاہری اور باطنی حواس کے علاوہ انسان میں شہوت اور غضب کا مادہ بھی ہے قوت جاذبہ جس کے ذریعے انسانی جسم غذا کو جذب کرتا ہے ۔ قوت ہاضمہ ہے جس کے ذریعے کھائی جانے والی خوراک ہضم ہوتی ہے ۔ یہ عمل معدے آنتوں اور جگر میں انجام پاتا ہے پھر قوت غاذیہ ہے جو غذاکو ٹھکانے پر پہنچاتی ہے ۔ قوت دافعہ فضلات کو جسم سے باہر نکالتی ہے اگر یہ چیزیں اندر رک جائیں تو صحت بگرجائیگی ۔ انسانی جسم میں قوت نامیہ بھی ہے جس کے ذریعے انسانی جسم کی ایک خاص حدتک نشونما ہوتی ہے۔ ایک قوت مولدہ بھی ہے جو تو لیدی مادہ کے ذریعے انسانی جسم کی ایک خاص حدتک نشونما ہوتی ہے۔ ایک قوت مولدہ بھی ہے جو تو لید مادہ کے ذریعے نسل انسانی کو آگے بڑھانے کا سبب بنتی ہے ۔ شیطان سے پناہ طلبی ان تمام قویٰ کا رخ عام طور پر نفس کی طرف ہوتا ہے اور نفس کا رخ شر کی طرف سورة یوسف میں جو ہے ان النفس لامارۃ بالسوئ (یوسف) نفس انسان کو اکثربرئی کی طرف مائل کرتا ہے مثلا آنکھ کا کام دیکھنا ہے مگر اچھی اور جائز چیز دیکھنے کی بجائے نفس اسے ناجائز حرام چیز دیکھنے پر آمادہ کریگا ۔ اسی طرح جب انسان کوئی عبادت یا دیگر نیک کام انجام دینا چاہتا ہے اور اپنے اوپر بعض پابندیاں عائد کرتا ہے تو آزادی پسند نفس نہ تو ایسی پابندیوں کو قبول کرتا ہے اور نہ ہی مشقت برداشت کرنا پسند کرتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اند رونی طور پر نفس اور بیرونی طور پر شیطان اس نیک کا م کی انجام دہی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان اندورنی اور بیرونی شرور سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کام شروع کرنے سے پہلے خدا تعالیٰ کی پنا ہ میں چلا جائے اور یہ پناہ تعوذ کے ذریعے حاصل ہوتی ہے ۔ جب کوئی شخص اعوذ باللہ کہتا ہے تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے میرے شدید دشمن شیطان سے پناہ میں رکھے تاکہ میں عبادت تلاوت یاد یگر نیکی کا کام انجام دے سکوں ۔ شیطان کے مادے سے مشتق ہے اور اس کے دو معانی آتے ہیں اس کا ایک معنی دوری ہے گویا شیطان اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہے اسی لیے اس کو رحیم یامردود اور لعین بھی کہا جاتا ہے شطن کا دوسرامعنی ہلاکت ہے اور یہ بھی شیطان پر صادق آتا ہے کیونکہ وہ اپنے غرور وتکبر کی وحسد سے بالاخرہلاک ہونے والا ہے چونکہ شیطان ہر اچھے کام میں داخل ہوتا ہے اس لیے اس کے شر سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرنا ضروری ہے حضور ﷺ پر سب سے پہلی وحی غارحرا میں نازل ہوئی ۔ ۔ تعوذ کی تعلیم ۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے سورة علق کی پہلی پانچ آیات آپ کو پڑھا ہیں (ب بخاری ص 739 ج 2) اقراباسم ربک الذی خلق خلق الانسان من علق اقرا وربک الا کرم الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم مفسر قرآن امام ابن جریر نے حضرت عبداللہ بن عباس روایت نقل کی (2 ہسلم ص 88 ج 1) ہے اول مانذل جبدیل علی النبی ﷺ قال یا محمد استعذ ثم قال قل بسم اللہ الرحمن الرحیم یعنی پہلی آیات کے نزول سے متصلا اسی دن جبرائیل (علیہ السلام) حضور ﷺ کے پاس آئے اور کہا اے محمد ! اللہ تعالیٰ سے پنا ہ حاصل کریں اور بسم اللہ الر حمن الرحیم پڑھیں ۔ اس کے ساتھ ہی آپ کو اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بھی پڑھا دیا گیا ۔ پھر آپ کو سورة فاتحہ کی تعلیم دی گئی اور وضوکا طریقہ بتلایا گیا اور پھر آپ کو نماز کے لیے کھڑا ہونے کا حکم ہوا چناچہ روایات (3 تفسیر ابن جریر طبری ص 50 ج 1) سے ثابت ہے کہ وحی کے دوسرے دن (علیہ السلام) نے نماز باجماعت ادا کی۔ آپ کے پیچھے حضرت ابوبکر صدیق حضرت علی اور حضرت خدیجہ تھیں بعض روایات میں حضرت زید کا ذکر بھی ملتا ہے۔ شریعت کا مسئلہ یہ ہے کہ قرات کے علاوہ باقی عبادات شروع کرتے وقت صرف بسم اللہ پڑھنا چاہیے جبکہ قرات سے پہلے اعوذ باللہ پڑھنا ضروری ہے ۔ امام جعفر صادق اس کی وجہ یہ بیان (4) کرتے ہیں کہ انسان کی زبان جھوٹ غیبت اور غلط باتوں سے اکثر ناپاک رہتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے پاک کلام کی تلاوت سے قبل زبان کا پاک ہونا ضروری ہے اس تعوذ کی تعلیم دی گئی ہے۔

               ٭ مسنونہ تعوذات روایات میں تعوذ (1 تفسیر کثیر ص 14 ج 1 ب 2) کے مختلف الفاظ آئے ہیں ۔ جیسے اعوذ بااللہ من الشیطان الرجیم یا اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطن الرجیم یا اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطن الرجیم ۔ بعض روایات میں من الشیطن اللعین الرجیم کے الفاظ بھی آتے ہیں ۔ اس کے علاوہ استعیذباللہ اور نستعیذ باللہ بھی آتا ہے ۔ حمید ابن قیس کی روایت میں یعنی میں اللہ کی پناہ حاصل کرتا ہوں جو قادر ہے شیطان سے بچنے کے لیے جو غدار ہے بعض محدثین نے یہ الفاظ بھی نقل کیے ہیں اعوذ باللہ القوی من اشیطان الغوی میں قوی اللہ کی پناہ میں آتا ہوں اس شیطان سے جو خود گمراہ کنندہ ہے۔ حضور کریم صلی علیہ وسلم جب حضرت حسن اور حسین کو دم کرتے تو یہ الفاظ ادا فرماتے (3 ترمذی ص 57 ج 1) اعیذ کما بکلمت اللہ التامات من کل شیطن وھامۃ و من کل عین لا مۃ میں تم دونوں کو اللہ تعالیٰ کے کلمات تامہ کی پناہ میں دیتا ہوں ہر شیطان سے اور کیڑے سے اور ہر نظربد لگانے والی آنکھ سے حضور ﷺ جب کسی منزل پر اترتے تو یوں (4 عمل الیوم واللیلۃ مع ترجمہ نبوی لیل ونہارص 591 عمل الیوم والیۃ نبوی لیل ونہارص 341) کہتے اعوذ بکلمت اللہ التامات کلھا من شد ما خلق میں اللہ تعالیٰ کے کلمات تامہ کے ساتھ ہر اس پرائی سے پناہ چاہتا ہوں جو خدا تعالیٰ نے پیدا کی ہے آپ نیند سے پیدا ہونے پر یہ کلمات ادا فرماتے ۔ اعوذ بکلمت اللہ التامات من غضبہ و عقابہ ومن شدعبادہ ومن ھمذات الشیطین میں اللہ تعالیٰ کے کلمات تامہ کے ساتھ اس کے غضب سے عقاب سے اس کے بندوں کے شر سے اور شیاطین کی چھڑجھاڑ سے پناہ پکڑتا ہوں ۔ حضور ﷺ (1 ترمذی ص 57 ج 1) نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اس طرح استعاذہ فرماتے اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم من ھمذہ ونفخد ونفثہ میں اللہ کی پناہ پکڑتا ہوں شیطان مردود کی چھڑچھاڑ سے اس کے تکبر سے اور اس کے سحر سے آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا (2 عمل الیوم واللیل نبوی لیل ونہارص 65 ترمذی ص 7 ج 1) کہ بیت الخلا ہیں داخلے سے پہلے کہو اللھم انی اعوذبک من الخبث والخبائث اے اللہ میں نر اور مادہ شیاطین سے تیری ذات کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں ۔ فرمایا جو شخص یہ کلمات ادا نہیں کرتا شیطان اس کے اعضائے مستورہ کے ساتھ کھیلتے رہتے ہیں ۔ آپ نے یہ بھی سکھلایا کہ بیت الخلاء سے باہر آ کر کہو غفرانک الحمد للہ الذی اذھب عنی الاذی وعافانی اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے میرے جسم سے اذیت ناک چیز نکال دی اور مجھے عافیت عطافرمائی۔ حضور ﷺ نے سفر پر جانے کی یہ دعا سکھائی ہے (3 عمل الیوم واللیل نبوی ونہارص 34 ، ترمذی ص 182 ج 2 کتاب الدعوات ) اللھم انی اعوذبک من وعثاء السفد وکابۃ المنقلب ومن الحور بعد الکور اے اللہ ! میں تیری ذات کے ساتھ سفر کی مشقت سے واپس پلٹ کر غمگین منظر دیکھنے اور ترقی کے بعد تنزلی میں جانے سے پناہ مانگتا ہوں ۔ جب کسی کو غم واندیشہ لا حق ہوجائے تو نبی (علیہ السلام) نے اس طرح سکھایا (1 بخاری ص 941 ج 2) اللھم انی اعوذ بک من الھم والحزن والعجز ولکسل خداوندتعالیٰ ! میں تیری ذات کے ساتھ پناہ چاہتا ہوں غم کے اندیشے سے عاجزی سے اور کم ہمتی سے آپ نے اس طرح بھی استعاذہ فرمایا ہے (2 ترمذی ص 186 ج 2 کتاب الدعوت) اللھم الہمنی رشدی واعذنی من شد نفسی اے اللہ ! مجھے میری نیکی کی بابت الہام فرما اور مجھے میرے نفس کے شر سے بچا۔ حضور ﷺ سے یہ دعائیں بھی ثابت ہیں (3 بخاری ص 943 ج 2 ومسلم ص 347 ج 2) اللھم انی اعوذ بک من عذاب جھنم اے اللہ ! جہنم کے عذاب سے تیری ذات کے ساتھ پناہ پکڑتا ہوں اعوذ بک (سنن نسانی ص 329 ج 2) من عذاب القبر میں قبر کے عذاب سے پنا ہ چاہتا ہوں اعوذبک من فتنۃ المحیا والممات 5 سنن نسائی ص 346 ج 2) ومن الماثم والمغرم میں تیری پناہ چاہتا ہوں زندگی اور موت کے فتنے سے اور گناہ اور تاوان سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ حضور ﷺ جب بھی نماز پڑھتے تو قبر کے عذاب اور فتنہ سے پناہ مانگنے اللھم انی اعوذ بک من عذاب القبر والفتنۃ القبر اور دوسروں کو بھی تلقین فرماتے ۔ آپ نے اس الفاظ کے ساتھ استعاذہ فرمایا اللھم انی اعوذ بک من شد فتنۃ الغنی ومن شد فتنۃ الفقیہ اے اللہ ! میں تیری ذات کے ساتھ دولت مندی فقر کے فتنہ سے پناہ مانگتا ہوں غنی اور فقر دونوں باعث آزمائش ہیں ۔ بسا اوقات لوگ ان کے وجہ سے گناہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں لہذا آپ نے ان فتنوں سے محفوظ رہنے کے لیے استعاذہ فرمایا۔ حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا میں پناہ چاہتا ہوں من شد ماعلمت ومن شد مالم اعلم اس چیز کے شر سے جس کو میں جانتا ہوں اور اس چیز کے شر سے بھی جس کو میں نہیں جانتا ۔ آپ نے یہ بھی فرمایا (2 سنن نسائی ص 320 ج 2) من شد ما عملت ومن شدمالم اعمل میں ہر اس عمل کے شر سے پناہ پکڑتا ہوں جس کو میں نے کیا ہے اور جس کو میں نے نہیں کیا حضور ﷺ نے ہر قسم کے دشمن کے شر و سرور سے اس طرح پناہ سکھلائی (3 عمل الیوم واللیہ امام نسائی ص 325) اللھم انا نجعلک فی نحورھم ونعوذبک من شرورھم اے اللہ ہم تجھے دشمنوں کے مقابلہ میں کرتے ہیں اور ان کے شر سے تیری پناہ مانگتے ہیں ۔ آپ نے رات کو پیش آنے والے فتنوں سے بھی پناہ سکھائی اعوذ باللہ من طوارق اللیل میں رات کو آنے والے فتنوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ پکڑتا ہوں ۔ قرآنی تعوذات قرآن پاک کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض انبیاء (علیہم السلام) نے بھی بعض مواقع پر تعوذ کیا ۔ سورة بقرہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ موجود ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے قوم نے کہا ، کیا آپ ہمارے ساتھ مذاق کرتے ہیں اس کے جواب میں موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اعوذ باللہ ان اکون من الجھلین میں اللہ کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں ۔ فرمایا ٹھٹھہ کرنا جاہلوں کا کام ہے میں تو تمہیں اللہ کا کلام سنارہا ہوں ۔ حضرت نوح علیہ اسلام کے واقعہ میں آتا ہے کہ جب ان کی لغزش پر اللہ تعالیٰ نے تنبیہ فرمائی تو کہنے لگے انی اعوذبک ان اسئلک ما لیس لی بہ علم (سورۃ ہود) اے اللہ ! تیری ذات کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ تجھ سے کسی ایسی چیز کا سوال کروں جس کا مجھے علم نہیں ہے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے واقعہ کا مطالعہ کیجئے ۔ جب عزیز مصر کی بیوی نے آپ کو برائی کی ترغیب دی تو آپ نے فرمایا معاذ اللہ انہ ربی احسن مثوای (سورۃ یوسف ) پناہ بخدا ، وہ میرامربی ہے اس نے مجھے عزت دی ہے میں اس کے ناموس میں کیسے خیانت کرسکتا ہوں ۔ پھر جب یوسف (علیہ السلام) کے ایک بھائی کو چوری کے الزام میں روک لیا گیا تو بھائیوں نے کہا کہ اس کی جگہ ہم میں سے کسی ایک کو روک لو اور اس کو چھوڑدو۔ اس کے جواب میں بھی یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا معاذ اللہ ان ناخذالا من وجد نامتاعنا عندہ پناہ بخدا ! ہم تو صرف اسی شخص کو روکیں گے جس کے ہاں سے ہمارا سامان برآمد ہوا ہے حضرت مریم کے حجرہ میں تنہائی کے دوران ایک فرشتہ انسانی شکل میں پہنچ گیا ۔ آپ آگئیں اور کہنے لگیں اعوذ بالرحمن منک ان کنت تقیا (سورۃ مریم) میں خدائے رحمان کی پناہ میں آتی ہوں تجھ سے اگر تو خدا سے ڈرنے والا ہے۔ اور جب مریم پیدا ہوئیں تو ان کی والدہ نے ان القاظ کے ساتھ خدا تعالیٰ سے استعاذہ کیا انی اعیذھا بک وذریتھا من الشیطان الرجیم (آل عمران) اے خدایا ! میں اس بچی اور اس کی اولاد کو شیطان مردود کے شر سے تیری پناہ میں پناہ میں دیتی ہوں جب فرعون اور اس کے ساتھیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ہلاک کرنے کی دھمکی دی تو آپ نے کہا وانی عذت بربی وربکم ان ترجمون (الدخان) میں اپنے اور تمہارے رب سے اس بات کی پناہ پکڑتا ہوں کہ تم مجھے سنگسار کردو۔ سورۃ اعراف میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے واما ینزغنک من الشیطان نزغ فاستعذباللہ انہ سمیع علیم جب کبھی شیطان کی طرف سے چھیڑچھاڑہو تو اللہ کی پناہ طلب کرو بیشک وہ سننے والا اور جاننے والا ہے قرآن پاک میں یہ حکم بھی موجود ہے قل رب اعوذبک من ھمذت الشیطن واعوذبک رب ان یحضرورن خداوندکریم ! تیری ذات کے ساتھ پناہ چاہتا ہوں شیاطین کی چھیڑچھاڑ سے اور اس بات سے بھی پناہ چاہتا ہوں کہ وہ میرے نیک کام میں خلل اندازی کے لیے حاضر ہوں ۔ قرآن پاک کی آخری دوسورتیں جن کا حال میں درس ہوا ہے استعاذہ کے مضمون پر ہی ہیں قل اعوذ برب الناس کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگتا ہوں غرضیکہ ان دوسورتوں میں مختلف قسم کی برائیوں سے پناہ پکڑنے کا طریقہ سکھلایا گیا ہے۔ قرآن وسنت میں تعوذ کے مختلف الفاظ بیان ہوئے ہیں جن میں سے کچھ عرض کردیے گئے ہیں ۔ قرآن پاک ایک عظیم نعمت ہے جب کوئی شخص اس سے استفادہ حاصل کرنا چاہے گا تو شیطان ضرور اس کے راستے میں رکاوٹ بنے گا اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہ تعلیم دی ہے کہ جب قرآن کریم کی تلاوت کرنا چاہو تو اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھ لیا کرو ۔ سورۃ الفاتحۃ ا درس سوم 3 بسم اللہ الرحمن الرحیم شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بیحد مہربان اور رحم کرنیوالا ہے ربط مضامین کل تعوذ کے بارے میں تھوڑا سا بیان ہوا تھا ۔ قرآن پاک تلاوت شروع کرنے سے پہلے اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھنا ضروری ہے اس کی تھوڑی سی حکمت بھی عرض کی تھی ۔ مفسرین کرام فرماتے (1 تفسیرابن کثیرص 15 ج 1) ہیں کہ تعوذ میں اعتصام باللہ پایا جاتا ہے ۔ جب کوئی اعوذ باللہ پڑھتا ہے تو وہ گو یا اللہ تعالیٰ کے ساتھ چنگل مارتا ہے کہ خدا تعالیٰ اسے تمام فتنوں اور خاص طور پر شیطان کے فتنہ سے اپنی پناہ میں لے لے۔

http://equranlibrary.com/tafseer/mualimulirfan/1/1

 

"Al-taʿawwudh fi al-islam" refers to seeking refuge in Allah (God) from the evil influences of Satan and other malevolent forces. It is a crucial aspect of Islamic belief and practice and is often recited during various acts of worship.

The term "taʿawwudh" is derived from the Arabic word "ʿawwadh," which means seeking refuge or protection. In Islam, the phrase "a'udhu billahi min ash-shaytan ir-rajeem" (I seek refuge in Allah from Satan, the accursed) is recited before reciting the Quran, performing ablution, and other religious activities. This recitation is intended to protect oneself from the influence of Satan and other negative forces.

The act of seeking refuge in Allah is also an expression of faith and trust in the power and protection of God. It is a reminder that humans are vulnerable to evil influences and that seeking refuge in Allah is the best defense against them.

In addition to reciting the taʿawwudh, Muslims are also encouraged to seek refuge in Allah through various other means. These include performing good deeds, seeking knowledge, and following the guidance of the Quran and the Prophet Muhammad (peace be upon him).

Overall, the concept of taʿawwudh emphasizes the importance of seeking protection from negative influences and turning to Allah for help and guidance. It is a fundamental aspect of Islamic belief and practice and serves as a reminder of the power and protection of God.

"Tauz" in Urdu means "protection" or "refuge". It is often used in the context of seeking protection or refuge from something. For example, the phrase "Tauz-o-tasbih" is used to seek protection from negative influences or to ward off evil.

 

مکمل تحریر اور تبصرے>>

Monday 20 March 2023

پیرکامل حضرت مولانا حبیب اللہ مختار شہید کے شجراتِ طریقت
PEER E KAMIL HAZRAT MAULANA HABIBULLAH MUKHTAR SHAHEED KAY SHAJRAAT E TAREEQAT


 

پیرکامل حضرت مولانا حبیب اللہ مختار شہید کے شجراتِ طریقت

تالیف : مفتی احسان الحق صاحب

پیشکش : طوبیٰ ریسرچ لائبریری

27 شعبان 1444 ہجری      

بشکریہ :مفتی احسان الحق صاحب

PEER E KAMIL HAZRAT MAULANA HABIBULLAH MUKHTAR SHAHEED

KAY SHAJRAAT E TAREEQAT

BY:  MUFTI IHSAN UL HAQ

DOWNLOAD

#TOOBAA_POST_NO_499

مزید کتب کے لیئے دیکھیئے  صفحات " اکابر علمائے اہل سنت(دیوبند) "۔ و " تزکیہ احسان و سلوک " ۔

مکمل تحریر اور تبصرے>>