لغات و فرہنگ

Saturday, 26 February 2022

بغیۃ السالک اردوشرح مئوطا امام مالکؒ ۔ جلداول


 

بغیۃ السالک  اردوشرح مئوطا امام مالکؒ ۔ جلداول

مبنی بر اوجزالمسالک(از: شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ)

مترجم : مولانا منظور احمدصاحبؒ

پیشکش : طوبیٰ ریسرچ لائبریری        

بشکریہ :معاونِ خصوصی مولانا عبدالوہاب صاحب

 24رجب1443  ہجری

BUGHIYATUS SAALIK URDU SHARAH MOUTAA IMAM MAALIK

FROM:

OJAZA AL MASALIK ILA MOUTA IMAM MALIK ( SHEIKH UL HADEEZ MOULANA ZIKARRIYA KANDHELVI ALMADNI)

BY: MOULANA MANZOR AHMED

SPECIAL COURTESY OF: MOULANA ABDUL WAHAAB

DOWNLOAD

#TOOBAA_POST_NO_372

مزید کتب کے لیئے دیکھیئے  صفحہ"حدیث 

بغیۃ السالک اردوشرح مئوطا امام مالکؒ ۔ جلددوم

...............

الموطأ:الأمام مالك بن أنس

تصنيف

إمام دار الهجرة النبوية

مالك بن أنس،(۱۷۹-۹۳) رحمه الله تعالى

برواياته

يحيى الليثي، القعنبي، أبي مصعب الزهري الحدثاني

ابن بكير ،ابن القاسم ، ابن زياد، محمد بن الحسن

بزياداتها، وَزَوَائِدُهَا، وَاخْتِلَافِ الفاظها

يحققه او به نشریه او التماني وآثاره الشرع قرب و وضع روايه

أبوأسامة : سلیم بن عید الھلالی

هذه الطبعة تحتوي على - جميع روايات - كتاب الموطأ وهي مكونة من 5 مجلدات

 1 , 2 ,3 , 4 , 5 

....................

MUWATTA IMAM MALIK (English)

ENGLISH TRANSLATED WITH XHAUSTIVE NOTES :

PROF MUHAMMAD RAHIMUDDIN

  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 حیات مالک (امام مالک کے حالات زندگی)

از: علامہ سید سلیمان ندوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

امام مالک اور ان کی کتاب موطا کا مقام

از : علامہ تقی الدین ندوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الإمام مالك ومكانة كتابه الموطأ

تالیف : المحدث الجليل الأستاذ الدكتور تقي الدين الندوي

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


منهج الإمام مالك في الموطأ 

تالیف : الدکتور صبری ابراہیم احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

المحاضرة الثانية عشرة :منهج الامام مالك في  الموطأ

ا.م.د محمد خلف عبد الفهداوي

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

امام مالک اور موطاکاتعارف 

نام و نسب :

مالک نام، کنیت ابو عبداللہ، امام دارالهجرة لقب اور باپ کا نام انس تھا۔ سلسلہ نسب یہ ہے: مالک بن انس بن مالک بن ابی عامر بن عمرو بن الحارث بن غیلان بن حشد بن عمرو بن الحارث 

بلاشک آپ رحمۃ اللہ علیہ دارِ ہجرت (مدینہ منورہ) کے امام، شیخ الاسلام اور کبار ائمہ میں سے ہیں۔ آپ حجاز مقدس میں حدیث اور فقہ کے امام مانے جاتے تھے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے علم حاصل کیا اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بھی آپ کی مجالس علمی میں شریک ہوتے رہے۔

پیدائش و وفات :

آپ 93ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کی تاریخ پیدائش میں مؤرخین نے اختلاف کیا ہے لیکن امام ابو زہرہ کی تحقیق کے مطابق زیادہ صحیح تاریخ پیدائش 93ھ ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مقام پیدائش مدینۃ النبی ہی ہے۔ 

آپ رحمۃ اللہ علیہ 179ھ میں مدینہ منورہ میں ہی فوت ہوئے، چھیاسی سال کی عمر پائی۔ 117ھ میں مسند درس پر قدم رکھا اور باسٹھ برس تک علم و دین کی خدمت انجام دی۔ امام رحمۃ اللہ علیہ کا جسدِ مبارک جنتُ البقیع میں مدفون ہے۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مقام:

آپ رحمۃ اللہ علیہ امامُ المحدثین بھی ہیں اور رئیس الفقہاء بھی (4) ۔۔۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے:

إِذَا جَاءَ الأَثَرُ ،فَمَالِكٌ النَّجْمُ  (5) "جب کوئی حدیث امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی روایت سے پہنچے، اسے مضبوطی سے پکڑو کیونکہ وہ علم حدیث کے درخشاں ستارےہیں۔"

عبدالرحمٰن بن مہدی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:

"روئے زمین پر امام مالک سے بڑھ کر حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی امانت دار نہیں

امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: " ما عندى بعد التابعين انبل من مالك، ولا اجل منه، ولا اوثق ولا آمن على الحديث منه

میرے نزدیک تابعین کے بعد امام مالک سے زیادہ دانشور اور حدیث کے معاملے میں زیادہ ثقہ اور امانتدار کوئی نہیں ہے"

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے: " جماع الامة على امانته وورعه وفقهه وانه الثبت فى دين الله ۔ "امت کا آپ کی امانت، للہیت اور فقاہت پر اجماع ہے اور امام مالک اللہ کے دین میں حجت ہیں"

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے: "امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو جب حدیث کے کسی ٹکڑے میں شک پڑ جاتا تھا تو پوری کی پوری حدیث رد کر دیتے تھے" (9) امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ بھی قول ہے: " مالك حجة الله تعالىٰ على خلقه بعد التابعين " تابعين امام مالک رحمۃ اللہ علیہ بندوں کے لیے اللہ کی سب سے بڑی حجت ہیں۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ بھی فرمان ہے: " من أراد الحديث فهو عيال على مالك " امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے: "مَا أَفْتَيْتُ حَتَّى شَهِدَ لِي سَبْعُونَ أَنِّي أَهْلٌ لِذَلِكَ " یعنی "میں نے فتویٰ دینا شروع نہیں کیا۔ یہاں تک کہ مدینہ کے ستر فقہا نے اس کی شہادت دی کہ میں فتویٰ دے سکتا ہوں۔"

امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ "پانچ باتیں جس طرح امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے حق میں جمع ہو گئی ہیں، میرے علم میں کسی اور شخص میں جمع نہیں ہوئیں: (1) اس قدر دراز عمر اور ایسی عالی سند (2) آپ کے حجت اور صحیح الروایہ ہونے پر ائمہ کا اتفاق (3) ایسا عمدہ فہم اور اتنا وسیع علم (4) آپ کی عدالت، اتباعِ سنت اور دین داری پر محدثین کا اتفاق (5) فقہ و فتاویٰ میں آپ کی مسلمہ مہارت

اساتذہ :

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے اساتذہ بہت زیادہ ہیں، ان میں زیادہ معروف نافع مولیٰ ابن عمر، زھری، ابوالزناد، عبدالرحمٰن بن قاسم، ایوب سختیانی اور ثور بن زید وغیرہ ہیں۔ آپ نے صرف موطا میں جن شیوخ سے روایت کی ہے، ان کی تعدادپچانوے ہیں۔ یہ سب اساتذہ مدنی ہیں۔ موطا کے علاوہ باقی اساتذہ کی تعدادنو صد (900) ہے۔ 

تلامذہ :

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرنے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ حافظ ابن کثیر کے مطابق حدث عنه خلق من الائمة (15) "ائمہ میں سے ایک جم غفیر نے آپ سے شرفِ تلمذ کیا" حافظ ذہبی کے مطابق " حدث عنه امم لا يكادون يحصون " (16) یعنی امام صاحب سے اتنے لوگوں نے روایت کی ہے جن کا شمار تقریبا ناممکن ہے۔ ان سے روایت کرنے والوں کی تعداد تیرہ سو سے زائد بتائی گئی ہے۔ (17) امام محمد رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ بھی ان کے تلامذہ میں شامل ہیں۔ (18)

اخلاق و عادات :

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بے حد ادب کرتے تھے۔ جب نامِ مبارک زبان پر آتا، چہرہ کا رنگ متغیر ہو جاتا (19) ابو نعیم رحمۃ اللہ علیہ نے حلية الاولياه میں خود امام مالک سے روایت کی ہے کہ ہارون الرشید نے چاہا کہ موطا کو خانہ کعبہ میں آویزاں کیا جائے اور تمام مسلمانوں کو فقہی احکام میں اس کی پیروی پر مجبور کیا جائے۔ لیکن امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا:

" لا تفعل فإن أصحاب رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم اختلفوا في الفروع ، وتفرقوا في البلدان ، وكل مصيب فقال : وفقك اللّه يا أبا عبد اللّه "

"ایسا نہ کریں! ۔۔۔ خود صحابہ رضی اللہ عنہم فروع میں اختلاف کرتے تھے اور وہ ممالک میں پھیل چکے ہیں (20) اور ان میں سے ہر شخص حق پر ہے (یا درست راہ پر ہے) تو ہارون رشید نے کہا کہ: اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق عطا فرمائے، اے ابو عبداللہ!"

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی بے تعصبی و بے نفسی، بلکہ عالی ظرفی اور رواداری سے ہمیں بھی سبق سیکھنا چاہئے۔

مقامِ عزیمت و استقامت

امام مالک ان اربابِ صدق و صفا میں سے تھے جنہیں کوئی طاقت حق گوئی سے نہیں روک سکتی تھی۔ منصور عباسی کے زمانے میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فتویٰ دیا کہ جبری طلاق (طلاقِ مکرہ) یعنی ليس على مستكرة طلاق واقع نہیں ہوتی۔ گورنرِ مدینہ کو اندیشہ دامن گیر ہوا کہ اس فتویٰ کی زد، ابو جعفر منصور کی بیعت پر پڑے گی، جس نے جبرا اپنی رعیت سے بیعت لی تھی۔ اس نے امام ممدوح کو دارُالامارات میں طلب کیا اور آپ کی رفعت شان کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ستر کوڑے لگوائے، مشکیں اس زور سے کس دی گئیں کہ ہاتھ بازو سے جدا ہو گیا، لیکن اس تکلیف و کرب کے عالم میں آپ اونٹ کی پیٹھ پر کھڑے ہو گئے (جس پر آپ کو تذلیل و تشہیر کے لیے سوار کرایا گیا تھا) اور بلند آواز سے پکارتے بھی جاتے تھے کہ

"جو مجھ کو جانتا ہے، وہ جانتا ہے، جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ مالک بن انس ہوں، فتویٰ دیتا ہوں کہ طلاقِ جبری (مکرہ) درست نہیں"

اس واقعہ سے ان کی عزت و عظمت گھٹنے کی بجائے بڑھ گئی۔ تازیانوں کی ضربات سے شان کا رعب، داب اور جلال و جمال دو چند ہو گیا۔ امام ممدوح نے بعد میں گورنر کے معافی طلب کرنے پر فراخ دلی سے کام لیتے ہوئے معاف کر دیا۔ (21)

طریق فتویٰ و اجتہاد :

1۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اپنے اجتہاد میں قرآن کریم کے بعد احادیثِ نبوی پر اعتماد کرتے تھے جس حدیث کی سند کو صحیح سمجھتے، اسی سے مسائل کا استنباط کرتے۔

2۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اہل مدینہ کے تعامل کو یعنی جس حدیث پر فقہائے مدینہ کا عمل اور اتفاق ہو خصوصی اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں۔

3۔ پھر اقوالِ صحابہ کی طرف رجوع بھی کرتے ہیں

4۔ نص کی عدم موجودگی میں قیاس سے کام لیتے۔ کبھی کبھار مصالح مرسلہ (مصلحتِ عامہ) کے اصول کے ذریعے اجتہاد کرتے، جن کا مقصد معاشرتی مفاسد کو دور کر کے شرعی مقاصد کی حفاظت کرنا ہے۔ (22)

موطا اور اس نام کی نسبت  :

اس کا زمانہ تصنیف خلیفہ منصور کے زمانہ 136ھ سے شروع ہوتا ہے اور خلیفہ مہدی کے زمانے 158ھ میں کتاب کی شکل میں متداول ہوا۔

موطا کی تصنیف کا تعلق اس زمانے کے مسلمانوں کی اجتماعی اور سیاسی زندگی سے ہے، وسیع اسلامی سلطنت کے اطراف و اکناف میں قاضی اور مفتی جو شرعی احکام نافذ کرتے، ان میں اختلاف پایا جاتا تھا اور اس زمانے کے اہل سیاست یہ سمجھتے تھے کہ فیصلوں میں استحکام نہیں، اس بنا پر وہ چاہتے تھے کہ خلیفہ ایک جامع الاحکام کتاب مقرر کر دے جس کے مطابق سارے مقدمات کے فیصلے کیے جائیں اور اس کے خلاف فیصلہ کرنے کا امتناعی حکم جاری کر دے۔ (23)

موطا کے بارے میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ خود فرماتے ہیں:

"میری کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے، صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال ہیں پھر تابعین کے، اور رائے یعنی اجماع اہل مدینہ ہے، میں اِن سے باہر نہیں نکلا" (24)

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے موطا کو فقہی ابواب پر مرتب فرمایا ہے۔ انہوں نے صرف احادیثِ مرفوعہ پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس میں اقوالِ صحابہ اور فتاویٰ تابعین کو بھی جمع کر دیا۔

اسلوبِ موطا  :

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اس کے اندر باب کا موضوع بیان کرتے ہیں، اس کے مطابق حدیث درج کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اقوالِ صحابہ، تابعین اور اکثر مواقع پر عمل اہل مدینہ کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ بعض دفعہ ذاتی طور پر فقہی آراء پر روشنی ڈالتے ہیں۔ مثلا آپ کا یہ فتویٰ:

"امام مالک سے پوچھا گیا اگر حائضہ عورت کو طہر کے وقت پانی میسر نہ ہو تو کیا وہ تیمم کرے؟ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ہاں اس کی مثال جنبی کی طرح ہے، اگر پانی میسر نہ ہو" (25)

موطا کے لغوی معنی "روندا ہوا"، "تیار کیا ہوا" اور "نرم اور سہل بنایا ہوا" ہے۔

شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق "موطا کے معنی روندے ہوئے، چلے ہوئے کے ہیں جس طرف عام ائمہ، علماء اور اکابر چلے ہوں اور سب نے اس کے متعلق گفتگو کی ہو اور اتفاق بھی کیا ہو" (26)

مدینہ منورہ میں نقدِ حدیث اور علم رجال میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو حجت و سند تسلیم کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دس ہزار احادیث کے ذخیرے میں سے انہوں نے اپنی کتاب "موطا" کی حدیثیں منتخب کیں۔ اور پھر ہر سال نقدوجرح کی کسوٹی پر پرکھتے رہے اور بالآخر موجودہ انتخابِ موطا پر نظر ٹھہری۔

امام مالک نے فرمایا کہ چار قسم کے آدمیوں کی روایت قبول نہ کرو:

"(ا) ایسے احمق سے جس کی حماقت واضح ہو (ب) جھوٹے شخص کی روایت (ج) ہوا و ہوس کا بندہ (د) ایسے عبادت گزار بوڑھے انسان کی روایت جس کو معلوم نہ ہو کہ وہ کیا بیان کر رہا ہے۔" (27)

لہذا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ صرف اسی بات پر اکتفا نہ کرتے تھے کہ راوی عادل ہے، یاد رکھنے والا ہے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ راوی جو کچھ بیان کرتا ہے، اس کا وزن اور اس کی حیثیت سے بھی باخبر ہو جس سے وہ بیان کرتا ہے۔ اسی طرح امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے بہت سے متقی پرہیز گار لوگوں سے روایت نہیں کی، اس لیے کہ وہ ضابط نہیں تھے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ آپ اہل عراق سے حدیث کیوں نہیں لیتے؟

کہا: "اس لیے (28) کہ جب وہ ہمارے شہر آتے ہیں تو میں انہیں دیکھتا ہوں کہ وہ غیر ثقہ سے بھی حدیث لے لیتے ہیں، تو میں نے سوچا یہی حال ان کا اپنے شہر میں ہو گا۔" (29)

امام مالک بہ حیثیتِ فقہیہ

یہ ظاہر ہے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں بلکہ دوسری صدی ہجری کے تین چوتھائی حصے تک فقہ کےوہ اصطلاحی معنی نہیں قرار پائے تھے جو آج مشہور و معروف ہیں بلکہ عملی امور اور احوال میں وہی لوگ فتویٰ دیتے تھے جو ان روایات کے حامل تھے اور جس کا نام انہوں نے علم رکھا تھا اور جن کی وجہ سے وہ لوگوں کو فقہ کا شوق دلاتے تھے، یعنیی "وہ روایات جو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے پورے جوش سے فراہم کی تھیں اور جن کو اپنی کتاب موطا میں مدون کر دیا تھا۔"

اسی طرح لفظ "رائے" اس زمانے تک حجاز میں ان اصطلاحی معنوں میں مستعمل نہ تھا جو آج کل لیے جاتے ہیں، بلکہ رائے کے معنی تھے "سمجھنا اور خوبی کے ساتھ پالینا" نہ کہ قیاس اور استنباط اور فقہی احکام کے استخراج میں عقل کو کام میں لانے کی قوت کا نام۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے خود تصریح کی ہے کہ رائے سے مراد "میری رائے" نہیں بلکہ ان کے ہاں رائے سے مراد ائمہ سلف کی ایک جماعت کی رائے ہے۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ میں الامر المجتمع کہتا ہوں تو اس سے مراد وہ قول ہے جس پر اہل علم و فقہ کا بغیر کسی اختلاف کے اجماع ہو اور جب میں الامر عندنا کہتا ہوں تو اس سے مراد وہ بات ہے جس پر ہمارے ہاں کے لوگوں کا عمل ہو اور جس کے مطابق احکام جاری ہوں اور جن کو عالم و جاہل سب جانتے ہوں۔ جس چیز کے بارے میں ببلدنا کہتا ہوں تو اس سے مراد وہ شے ہے جس کو میں اقوالِ علماء میں سے پسند کرتا ہوں نیز ان کا قول ہے کہ " میں اپنے اجتہاد میں اہل مدینہ کے مذہب اور ان کی رائے (اجماع) سے باہر قدم نہیں رکھتا۔" (30)

روایاتِ موطا (موطا کے نسخے)

ابولقاسم بن محمد شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ موطا کے متعدد نسخے ہیں جن میں گیارہ زیادہ معروف ہیں اور چار ایسے ہیں جو مقبولیت اور شہرت کے بامِ عروج پر پہنچے:

موطا یحییٰ بن یحییٰ مصمودی، موطا ابن بکیر، موطا ابی مصعب اور موطا ابن وہب اور جب مطلق موطا کا نام لیا جائے تو اس سے مراد یحییٰ بن یحییٰ مصمودی کی روایت  ہی ہوتی ہے۔ (31)

موطا میں روایات کی تعداد:

مجموعی احادیث و آثار   1720

مسند (مرفوع) احادیث     600

مرسل                          222

اقوال صحابہ (موقوف)     613

اقوالِ تابعین (مقطوع)     285 (32)

موطا کی اہمیت اور مقبولیت:

جمہور علماء نے طبقاتِ کتب حدیث کے اندر طبقہ اولیٰ میں موطاِ مالک کو شمار کیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے کتبِ حدیث کے پانچ طبقات قائم کیے ہیں جن میں موطا کو طبقہ اول میں رکھا گیا ہے بلکہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ موطا کو تمام کتبِ احادیث پر مقدم اور افضل سمجھتے ہیں۔ (33)

موطا کے بارے میں علماء و محدثین کی آراء

حافظ ابو زرعہ رازی رحمۃ اللہ علیہ جو صحیحین (بخاری و مسلم) دونوں ہی سے بخوبی واقف ہیں، ان کو موطا کی صحت کا اس درجہ یقین ہے کہ فرماتے ہیں:

لو حلف رجل بالطلاق على حديث مالك فى الموطا انها صحاح لم يحنث

"اگر کوئی شخص اس پر طلاق کا حلف اٹھا لے کہ موطا میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے جو حدیثیں بیان کی ہیں، صحیح ہیں تو وہ حانث (قسم توڑنے والا) نہ ہو گا۔ (34)

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

" ما على ظهر الارض كتاب بعد كتاب الله اصح من كتاب مالك " (35)

"روئے زمین پر کتاب اللہ کے بعد مالک رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب سے بڑھ کے کوئی کتاب صحیح نہیں"

اگرچہ بعض علماء کہتے ہیں: انما قال ذلك قبل وجود كتاب البخارى و مسلم (36)

"امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول بخاری رحمۃ اللہ علیہ و مسلم رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں کے عالم وجود میں آنے سے پہلے کا ہے۔"

حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ان للموطا لوقعا فى النفوس و مهابة فى القلوب لا يوازيها شيىء

 بلاشبہ موطا کی لوگوں میں جو وقعت اور دلوں میں جو ہیبت ہے اس کا کوئی چیز مقابلہ نہیں کر سکتی۔

حافظ ابوجعفر بن زبیر غرناطی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی موطا کی شان میں اظہارِ خیال کیا ہے (38)

قاضی ابوبکر القبس میں لکھتے ہیں: هذا اول كتاب الف فى شرائع الاسلام (39)

"شرائع اسلام کے بارے میں یہ پہلی کتاب تھی جو تالیف ہوئی"

حضرت سفیان کا قول ہے: اول من صنف الصحيح مالك والفضل للمتقدم (40)

"سب سے پہلے صحیح احادیث امام مالک نے جمع کی ہیں اور فضیلت پہلے کو ہی ہے"

شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا خیال ہے کہ

"موطا صحیحین کے لیے بمنزلہ ماں کے ہے کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ و مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اسی سے طریق روایت، تمیز رجال اور استنباط کا علم سیکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ موطا کو صرف حدیث و فقہ کے زر و جواہر پر مشتمل ایک گنجینہ سمجھنا (41) غلط ہے۔ یہ ہماری تہذیب و ثقافت کی اولین، مستند ترین اور مکمل ترین دستاویز ہے جو ہم تک پہنچی ہے۔ اس میں جہاں احادیث کو جمع کیا گیا ہے وہاں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ عہدِ صحابہ میں زندگی کا چلن کیسا تھا اور اسلام کے مرکز ثانی (مدینہ منورہ) میں جو مرکزِ انوارِ نبوت اور مبدا وحی بھی ہے، اسلام کو کس رنگ میں پیش کیا گیا، کس طرح سمجھا گیا اور اس کے احکام و مسائل کی کیا وہ فقہی شکل تھی جو صحابہ نے اپنائی۔ یعنی یہ دستاویز اس تاریخی اہمیت کی حامل ہے کہ اس کا تعلق عہدِ نبوی سے بہت قریب کا ہے۔ اس میں چالیس چالیس روایات ایسی ہیں جن میں امام صاحب اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صرف دو روایوں کا واسطہ ہے۔ اب روایات کو اصطلاحِ محدثین میں ثنايات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔" (42)

قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے نظم کے اندر موطا کو احادیث اور صحت کے اعتبار سے اصح اور استدلال و استنباط کے لحاظ سے اثبت بھی کہا ہے:

إذا ذكرت كتب العلوم فحيهل

بكتب الموطأ من تصانيف مالك

أصح أحاديثا وأثبت حجة

وأوضحها في الفقه نهجا لسالك

عليه مضى الإجماع من كل أمة

على رغم خيشوم الحسود المماحك

فعنه فخذ علم الديانة خالصا

ومنه استفد شرع النبي المبارك

وشد به كف الصيانة تهتدي

فمن حاد عنه هالك في الهوالك  (43)

 جب آپ علوم اسلامیہ کی طرف توجہ کریں تو سب سے پہلے امام مالک کی موطا کو لیں، جس کی احادیث سب سے صحیح اور قاطع دلائل ہیں، اور واضح فقہی مسائل کا منبع ہیں، ہر تند خو حاسد کی ناک خاک آلود ہونے کے باوجود ہر زمانہ میں اس کی صحت و حجت پر اجماع رہا ہے ۔۔۔

اس سے دین کا علم سیکھو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے لئے اسی سے فائدہ اٹھاؤ، اور اسے محفوظ کرنے کے لیے مضبوطی سے تھام لیں تو ہدایت پا جاؤ گے، اور جس نے اس سے علیحدگی اختیار کی تو وہ ہلاکت گاہوں میں ہلاکت ہو جائے گا"

موطا پر بہت لوگوں نے کام کیا ہے چند شروح:

1۔ مشارق الانوار از قاضی عیاض: یہ موطا اور صحیحین کی شرح ہے۔

2۔ کشف الغطاء عن الموطا از جلال الدین سیوطی: بڑی مفصل اور جامع شرح ہے۔

3۔ تنویر الحوالک از علامہ سیوطی 911ھ: کشف الغطاء کا خلاصہ ہے۔

4۔ القبس از ابن العربی: ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے ایسی اعلیٰ کتاب نہیں دیکھی۔

5۔ اوجز المسالک از محمد زکریا: 6 جلدوں میں چھپی ہے، حنفی مسلک کی ترجمان ہے۔

6۔ المنتقى از ابوالولید الباجی 474ھ: ابن عبدالبر کی شرح التمهيد کا اختصار ہے۔

7۔ كتاب التمهيد از ابن عبدالبر مالکی 463ھ: بہت ہی جامع اور مکمل شرح ہے۔

8۔ شرح زرقانی از محمد زرقانی مالکی: یہ نفیس شرح ہے، اکثر حصہ فتح الباری سے ماخوذ ہے۔

9۔ المصفى از شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ 1176ھ: فارسی ترجمہ اور تعلیقات ہیں۔

10۔ المسوىٰ از شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ: اپنے مرتبہ نسخے پر عربی تعلیقات ہیں۔

11۔ التعليق الممجد علیٰ موطا امام محمد از مولانا عبدالحی لکھنوی: موطا کی شرح ہے۔

12۔ اضاءة الحالك من الفاظ موطا مالک از محمد حبیب اللہ شنقیطی:

13۔ دليل السالك الیٰ موطا امام مالک از محمد حبیب اللہ شنقیطی:

یہ دونوں کتابیں 1354ھ میں اکٹھی شائع ہو چکی ہیں، ان میں بہت مفید معلومات ہیں۔

بشکریہ: https://habibi313.blogspot.com/2017/02/blog-post_43.html

٭حیاتِ امام مالک: از علامہ سید سلیمان ندویؒ٭

 

اوجز المسالک شرح موطأ امام مالک: منہج و اسلوب

ڈاکٹر مرسل فرمان
اسسٹنٹ پروفیسر, ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک اینڈ ریلیجیس سٹڈیز, ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ
جاوید اقبال
ایم فل ریسرچ سکالر، ہزارہ یونیورسٹی, مانسہرہ
ماخوذ hazaraislamicus.org
تعارف
دوسری صدی ہجری کے اخیر میں امام مالکؒ)م 179ھ) نے ایک مجموعہ حدیث موطأ کے نام سے پیش کیا، جس کی خصوصیات میں سے اہم بات یہ ہےکہ اگر اسکامصنّف ایک طرف امامِ حدیث ہیں تو دوسری طرف فقہ کےبھی امام ہیں،
شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ(م 1239ھ) نے موطأ کے سولہ نسخے شمار کیے ہیں[ii]، مقبولیت کی وجہ سے اس کی کئی شروح، تعلیقات اور حواشی لکھیں گئی ہیں،جن میں سے بعض کو ذکر کیا جاتا ہے،
مثلاً ابن عبدالبرؒ(م 463ھ) نے التمہید اور الاستذکار کے نام سے،
ابن رشیق القیروانی المالکیؒ(م456ھ) نے شرح موطأ کے نام سے،
ابومروان عبد الملک بن حبیب بن سلیمان القرطبی المالکیؒ(م 238ھ) نےتفسیر الموطأ کے نام سے،
احمد بن نصر الداودی المالکیؒ(م402ھ)نے النامی فی شرح الموطأکے نام سے،
ابن العربیؒ(م543ھ) نے القبس فی شرح موطأ مالک بن انس اور المسالک فی شرح المو طأ لمالک کے نام سے،
محمد بن سحنون المالکیؒ (م 256ھ)نے شرح الموطأ کے نام سے،
محمد بن یحییٰ القرافیؒ(م 1008ھ) نے شرح موطأ کے نام سے،
محمد بن سلیمان بن خلیفہؒ(م 500ھ) نے المحلی کے نام سے،
عبد اللہ ابو محمد بن محمد بن ابو القاسم الفرحونؒ(م763ھ)نے کشف الغطاء فی شرح مختصر الموطأ کے نام سے،
جلال الدین سیوطیؒ(م911ھ) نےاسعاف المبطأ فی رجال الموطأ کے نام سے،
قاضی اسماعیل بن اسحاقؒ(م 282ھ) نے شواھد الموطأ اور زیادات الموطأ کے نام سے،
عثمان بن یعقوب بن حسین الکرخیؒ(م 1171ھ)نے المھیأ فی کشف اسرار الموطأ کے نام سے،
اور ابوالولید سلیمان بن خلف باجیؒ (م 474ھ) نے المنتقیٰ کے نام سے شروحات لکھیں ہیں۔
برصغیر پاک و ہند کے علماء میں
مولانا عبد الحئی لکھنویؒ(م 1304ھ)نے التعلیق الممجد کے نام سے،
حضرت شاہ ولی اللہؒ(م 1176ھ) نے المصفی اور المسوی کے نام سے،
ا بو یوسف یعقوب لاہوریؒ(م 1098ھ)نے المصفی فی شرح الموطأ کے نام سے
اور شیخ سلام اللہؒ (م 1229ھ)[iii]نے المحلی کے نام سےاس کی شروح لکھیں ہیں۔[iv]
ان ہی شروح میں سےایک”اوجز المسالک اِلیٰ موطأمالک"بھی ہے، جس میں تقریباً ان تمام شروح کا خلاصہ ہے،
اور یہ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ (م 1402ھ)کی تصنیف ہے جو ہر قسم کے مسلکی تعصب سے بالاتر ہے اور اہلِ علم میں اس کو مقبولیت حاصل ہے، اگر اس کے منہج و اسلوب کو سامنے رکھ کر اس کا مطالعہ کیا جائے تو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒکے حالاتِ زندگی

پیدائش
آپؒ اکابر علماء دیوبند میں سے ہیں، مولانا محمد یحییٰ کاندھلویؒ(م1334ھ)کے صاحبزادے ہیں، 11 رمضان المبارک 1315ہجری میں ہندوستان کے شہر کاندھلہ میں پیدا ہوئے۔[v]
تعلیم وتربیت
آپؒ نے اپنے والد ماجد مولانا محمد یحییٰ کاندھلویؒ سے قرآن کریم حفظ کیا،[vi] 1328 ہجری تک گنگوہ میں قیا م رہا، اس عرصے میں آپؒ نے دینی رسائل، بہشتی زیور اور فارسی کی ابتدائی کتابیں گنگوہ میں رہ کر زیادہ تر اپنے چچا مولانا محمد الیاسؒ(م1363ھ) سے پڑھیں،[vii]حضرت رشید احمد گنگوہیؒ(م 1323ھ)کی وفات کے بعد مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ(م 1346ھ) کے اصرار پر مولانا محمد یحییٰ کاندھلویؒ نے سہارنپور آکر مستقل قیام فرمایا، اور مظاہر العلوم کے مدرسین میں شامل ہوگئے، شیخ الحدیث ؒ نے دینی اور عربی علوم کا باقاعدہ آغاز سہارنپور آکر 1328 ہجری میں کیا،[viii]مولانا محمد یحییٰ کاندھلویؒ تعلیم میں انتہائی مجتہدانہ مہارت رکھتے تھے، ان کا اپنا ایک انداز ِ تدریس تھا، چنانچہ انہوں شیخ الحدیثؒ کواسی خاص انداز کے ساتھ پڑھایا۔ آپؒ نے بقیہ درسیات کی تکمیل سہارنپور میں کی۔[ix] منطق آپؒ نے زیادہ تر مولانا عبد اللطیف صاحبؒ)م1373ھ)سے پڑھی[x] اور نصاب کی منتہیانہ کتب آپؒ نے اپنےوالد ماجد مولانا محمد یحییٰ کاندھلوی ؒ سے پڑھیں۔ 7محرم الحرام 13322 ھ کو ظہر کی نماز کے بعد مشکوٰۃ شریف شروع کی، 1333ھ میں دورہ حدیث کی ابتداء کی۔[xi]آپؒ نے صحاح ستہ ایک مرتبہ اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور دوسری مرتبہ صحیحین، سنن ابی داؤد، سنن ترمذی، موطأ امام محمد اور شرح معانی الاٰثار مولانا خلیل احمد ایوبی الانصاریؒ سے پڑھیں۔[xii]
تدریسی زندگی کا آغاز
یکم محرم 1335ہجری میں آپؒ نے مظاہر العلوم سہارنپور سےتدریس کا آغاز کیا[xiii] اور اپنی غیرمعمولی اہلیت، قوت مطالعہ، اور فنی مہارت کی بنیاد پر ابتدائی کتب کی ارتقائی تدریس کے بعد 13411ہجری میں حدیث کی تدریس شروع کی۔[xiv]1388ہجری تک حدیث کی تدریس کرتے رہیں، اس کے بعد آپؒ نے اپنے اکثر اوقات کو تصنیف و تالیف میں صرف کیا۔[xv]
مشہور تصانیف
آپؒ کئی کتب کے مصنف ہیں جن میں اوجز المسالک الیٰ موطأ مالک، لامع الدراری علی جامع البخاری، الکوکب الدری علیٰ جامع الترمذی، الابواب و التراجم لصحیح البخاری، فضائل اعمال، حکایات صحابہ،فضائل صدقات، تاریخ مشائخ چشتیہ، تاریخ مظاہر، تقاریر مشکوٰۃ، یادِ ایام، شرح الفیہ اردو، خصائل نبوی شرح شمائل ترمذی، شذرات الحدیث، اعتدال فی مراتب الرجال، مقدمات کتب حدیث، جزء افضل الاعمال، سیرتِ صدیق،حواشی اصول الشاشی،حواشی کلامِ پاک،تقریرِ نسائی شریف،مشائخ تصوف،فتنہ مودودیت،آپ بیتی، نظام مظاہر العلوم،مکتوباتِ تصوف اور اکابر کا رمضان وغیرہ مشہور ہیں۔[xvi]
فضائلِ اعمال کی مقبولیت کی وجہ
شیخ ابو الحسن علی ندوی ؒ (م 1420ھ) فرماتے ہیں[xvii]کہ آپؒ کی تصانیف مطبوعہ و غیر مطبوعہ کی تعداد سو سے زائد ہے، لیکن ان میں حکایات صحابہ اور کتب فضائل (یعنی فضائل نماز، فضائل قرآن، فضائل رمضان وغیرہ جن کا مجموعہ فضائل اعمال کے نام سے مرتب ہے) کو تبلیغی جماعت کے نصاب میں شامل ہونے اور افادہ عام کی وجہ سے مقبولیت حاصل ہے جس کے مطبوعہ نسخوں کی تعداد لاکھوں سے متجاوز ہے۔ شیخ ابو الحسن ندویؒ مزید فرماتے ہیں[xviii]کہ”مولانا محمد الیاس ؒ فرماتے تھے کہ فضائل کا درجہ مسائل سے پہلے ہے، فضائل سے اعمال کے اجر پر یقین ہوتا ہے جو ایمان کا مقام ہے، او ر اس سے آدمی عمل کے لئے آمادہ ہوتاہے، مسائل معلوم کرنے کی ضرورت کا احساس تب ہی ہوگا جب وہ عمل پر تیار ہوگا، اس لئے ہمارے نزدیک فضائل کی اہمیت زیادہ ہے" تو اس ضرورت کی تکمیل کے لئے فضائل ِاعمال لکھی گئی ۔
وفات
آپؒ مدینہ منورہ میں 2 شعبان 1402 ھ میں چند روز زیر علاج رہنے کے بعد رحلت فرما گئے، اور جنت البقیع میں تدفین کی گئی۔[xix]

اوجز المسالک الیٰ موطأ مالک کی وجہ تالیف اور وجہ تسمیہ

شیخ الحدیثؒ نے اوجز المسالک کی تالیف 1345 ہجری میں شروع فرمائی اور اس کی تالیف پر تقریباً 30 سال سے زائد کا عرصہ صرف ہوا۔ [xx] ہندوستان میں اس کی پہلی طباعت چھ جلدوں میں ہوئی جب کہ دوسری مرتبہ اس کی طباعت قاہر ہ اور بیروت سے پندرہ جلدوں میں ہوئی[xxi]، اور اب دارالکتب العلمیۃ بیروت نے اس کی طباعت سترہ جلدوں میں کی ہے۔
آپؒ اوجز المسالک کے مقدمے میں سببِ تالیف کے بارے میں فرماتے ہیں[xxii]کہ مجھ سے بعض مخلص دوستوں نے اصرار کیا کہ موطأ امام مالک کی شرح لکھی جائے کیونکہ اس کو اہل علم میں بہت مقبولیت حاصل ہے اور اس کے مشکل مقامات کو حل کرنے کی شدید ضرورت ہے، اگرچہ اس کی بہت سے شروح لکھی گئیں ہیں، جن میں یا تو بہت اختصار سے کام لیا گیا ہے جو کہ مقصود میں مخل ہے اور یا تھکا دینے والی طوالت سے کام لیا گیا ہے۔
علامہ محمد یوسف بنوریؒ (م 1397ھ) فرماتے ہیں[xxiii] کہ ہندوستان کے اہلِ علم کی تحقیقات چونکہ عرب علماء تک نہیں پہنچیں تھیں اس لئے آپؒ نے موطأ کی شرح لکھی تاکہ اس میں ان تحقیقات کو بھی شامل کیا جائے۔
اوجز المسالک الیٰ موطأ مالک کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اوجز کے لفظی معنیٰ ہے اختصار ہے[xxiv] تو اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں فقہی مسالک کا بیان جامع مگر مختصر طور پر بیان کیا گیا ہے اور یہ موطأ امام مالک کی شرح اور ان پر لکھی جانے والی شروحات کا خلاصہ ہے،اس لئے اس کا نام اوجز المسالک الیٰ موطأ مالک رکھا گیا ہے۔
اوجز المسالک اہل علم کی نظر میں
شیخ ابو الحسن علی ندویؒ فرماتے ہیں[xxv]کہ”میں نے علامۂ حجاز مفتی مالکیہ سیدعلوی مالکی ؒ سے جو کہ اپنے دور کے نہایت متبحر اور وسیع النظر عالم تھے، اوجز کی تعریف سنی وہ اس پر تعجب کا اظہار کرتے تھے کہ خود مالکیہ کے اقوال و مسائل کا اتنا گہرا علم اور اتنی صحیح نقل موجب حیرت ہے، وہ فرماتے تھےکہ” اگر شیخ زکریا ؒ مقدمہ میں اپنے آپ کو حنفی ظاہر نہ کرتے تو میں کسی کےکہنے پر ان کو حنفی نہ مانتا اور میں ان کو مالکی بتاتا، اس لئے کہ اوجز المسالک میں مالکیہ کے جزئیات اتنی کثرت سے ہیں کہ ہمیں اپنی کتابوں میں تلاش میں دیر لگتی ہے"۔
شیخ ابو الحسن علی ندوی ؒ مزید فرماتے ہیں[xxvi] کہ امارات ِخلیج کے چیف جسٹس اور مذہبِ مالکی کے بڑے عالم جناب شیخ احمد عبدالعزیز بن مبارکؒ نے بھی اوجز المسالک الیٰ موطأ مالک کی طباعت و اشاعت میں بڑی دلچسپی لی ہے۔
اوجز کی مقبولیت کےلئے یہ بہت بڑی بات ہے کہ حنفی مسلک کے علاوہ دوسرے مسالک کے اہل علم بھی اس کو قدر کی نگا ہ سے دیکھتے ہیں، اور دوسرے مسالک کے اقوال و جزئیات کو مسلکی تعصب کے بغیر نقل کرنا بھی مؤلف کی اعتدال پسندی کا ثبوت ہے۔
اوجز المسالک الیٰ موطأ مالک پر تحقیقی کام کا جائزہ
اوجز المسالک الیٰ موطأ مالک پر مصر کے ایک سکالر صالح شعبان نے تعلیق کی ہے، جو کہ دارالکتب بیروت نے 1999ء میں شائع کی ہے، اسی طرح ڈاکٹر تقی الدین ندوی صاحب نے بھی اوجز المسالک الیٰ موطأ مالک پر تعلیق کی ہےجو کہ 2003ء میں دارالقلم دمشق سے شائع ہو ئی ہے۔
مقدمہ اوجز المسالک
مقدمے میں علمِ حدیث کا تعارف،تاریخ اور تدوین حدیث پر بحث کی گئی ہے۔ اس کے بعد موطأاور امام مالکؒ کا مفصل تعارف اور دونوں کی امتیازات و خصوصیات کا تذکر ہ کیا گیا ہے۔ موطأکی شروح اور عہد بعہد خدمات کا بھی جائز ہ لیا گیا ہے، مشائخ اور سلسلۂ اسانید کی تفصیل، امام ابوحنیفہؒ(م150ھ) کا تذکرہ اور ان کی محدثانہ حیثیت اور ان کے اصول و مسلک کا تذکرہ ہے، جس کے بعد متفرق فوائد اور توضیحات بیان کی گئی ہیں۔[xxvii]

مقدمہ کے بعد اوجز المسالک کا منہجِ توضیح
موطأ کی روایت نقل کرنے کے بعد اس کی جزئیات میں تقسیم
مقدمے کے بعد کتاب کے بقیہ حصے میں شیخ الحدیث ؒ کا منہج توضیح یہ ہے کہ آپؒ پہلے موطأکی روایت کو سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں، مثلاً:
وحدثني عن مالك عن جعفر بن محمد بن علي عن أبيه أن عمر بن الخطاب ذكر المجوس فقال: ما أدري كيف أصنع في أمرهم فقال عبد الرحمن بن عوف أشهد لسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول سنوا بهم سنة أهل الكتاب

اس کے بعد حدیث کوجزئیات میں تقسیم کرتے ہیں، پھرا یک ایک جز کی توضیح کرتے ہیں۔ پہلے حدیث کی سند اور راویوں کو ائمہ جرح و تعدیل کے اصول و اقوال کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی توضیح بیان کرتے ہیں، اور حدیث کی حیثیت کو بھی بیان کیا جاتاہے، مثلاً اسی روایت کے ذیل میں ہے کہ : (مالك عن جعفر) الصادق (بن محمد بن علي) بن سبط النبي (عن ابيه) محمد الباقر(ان عمر بن الخطاب) قال ابن عبد البر هذا منقطع ... الخ"

اس روایت کی سند کی وضاحت کے لئےشیخ الحدیثؒ نے رواۃ کو قوسین کے درمیان ذکر کرنے کے بعد وضاحت کی ہے کہ جعفر سے مراد جعفر الصادقؒ ہے اورعن ابیہ" میں ”ابیہ "سے مراد محمد الباقرؒ ہے، اس کے بعد حدیث کی حیثیت کو بھی ابن عبدالبرؒکے قول کی روشنی میں بیان فرمایا ہے کہ یہ روایت منقطع ہے، اور اس کے بعد وجہ انقطاع کو بھی بیان فرمایا ہے۔[xxviii]
توابع اور شواہد کا ذکر
مذکورہ روایت کے لئے دیگر کتب حدیث میں اگر توابع یا شواہد[xxix]موجود ہوں تو ان توابع اور شواہد کو بھی ذکر کرتے ہیں اور حوالے کے طور پر صرف کتاب کے نام پر اکتفاء کرتے ہیں مثلاً : مذکورہ روایت کے بارے میں شیخ الحدیثؒ فرماتے ہیں کہ اس کو عبدالرزاق ؒنے اپنی مصنف میں ابن جریج ؒکی سند سے روایت کیا ہے اور اسحاق بن راہویہ ؒنے عبد اللہ بن ادریس ؒکی سند سے روایت کیا ہے، اور یہ بھی منقطع ہے، اور یہ روایت بعض سندوں کے اعتبار سے مرسل ہے اور بعض سندوں کے اعتبار سے متصل ہے اور اس کےلئے طبرانی میں مسلم بن علاء الحضرمی کی روایت شاہد ہے۔
مصدر اصلی سے بلاکسی ترمیم نقلِ عبارت
شیخ الحدیث ؒ نے کتاب کے اکثر حصے میں مصادر اصلیہ سے بلا کسی ترمیم عبارات نقل کی ہیں، اور ساتھ ساتھ تصریح بھی کی ہے کہ یہ عبارت فلاں کتاب سے ماخوذ ہے یا اس کا قائل فلاں شخص ہے، مثلاً فرماتے ہیں کہ شرح اقناع میں ہے کہ :”ولا يأذن له في دخولها الحجاز غير حرم مكة إلا لمصلحة لنا: كرسالة وتجارة فيها كبير حاجة فإن لم يكن فيها كبير حاجة لم يأذن له إلا بشرط أخذ شئ من متاعها كالعشر"یہ عبارت بلاکسی ترمیم نقل کی گئی ہے اور ساتھ بتایا بھی گیا ہے کہ یہ عبارت شرح اقناع کی ہے۔[xxx]

"
قلتُ"کے ساتھ زیرِ بحث مسئلے پر تبصرہ
سابقہ روایت کے ذیل میں مذکورہ مسئلے پر تبصرہ کرتے ہوئے شیخ الحدیثؒ فرماتے ہیں کہ ”قلتُ"میں کہتا ہوں کہ : مجوس سے جزیہ لینے کے سلسلے میں صراحتاً احادیث آئی ہیں۔ ان میں سے مسند احمد، بخاری، ابوداؤد اور ترمذی کی روایات ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی رائے مجوس سے جزیہ نہ لینے کی تھی یہاں تک کہ عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے گواہی دی کہ رسو ل اللہ ﷺ نے مجوس ہجر سے جزیہ وصول فرمایا ہے۔
ہر جگہ"قلتُ”سے شیخ الحدیث کا قول مراد نہیں ہوتا
شیخ الحدیثؒ زیرِ بحث مسئلے پر "قلتُ"کے ساتھ تبصرہ کرتے ہیں، لیکن ہرجگہ"قلتُ"سے آپؒ کا قول مراد نہیں ہوتا بلکہ جس کتاب سے عبارت ماخوذ ہوتی ہے صاحبِ کتاب کا قول مراد ہوتاہے مثلاً :”فان قلت ما هذه الزیادة؟ اعنی قولہ(الا ان یکون غسیلاً)قلتُ : صحیح"یہ عبارت عمدۃ القاری کی ہے،[xxxi] اور یہاں”قلتُ"کا قائل صاحب کتاب علامہ عینیؒ (م855ھ) ہیں۔[xxxii]
مشکل الفاظ کی لغوی، صرفی اور نحوی تحقیق
شیخ الحدیث ؒمشکل الفاظ کی لغوی، صرفی اور نحوی تحقیق ائمہ فن کے اقوال کی روشنی میں کرتے ہیں، اور اگر کسی جگہ، قبیلے یا قوم کا ذکر ہے تو بقدر ضرورت اس کی بھی وضاحت کرتے ہیں، مثلاً:”جزیۃ اھل الکتاب و المجوس"اس عبارت کی توضیح یوں بیان فرماتے ہیں کہ:”(اما المجوس) مجوس کے بارے میں لسان العرب میں ہے کہ:
المجوسیۃ" شہد کی مکھی کا نام ہے اور مجوسی اسی کی طرف منسوب ہےاور اس کی جمع مجوس ہے اور ابن سیدۃ ؒفرماتے ہیں کہ : مجوس ایک مشہور فرقہ ہے اور یہ لفظ جمع ہے اور اس کا واحد مجوسی ہے۔ آپؒ کے علاوہ دوسرے اہل علم کہتے ہیں کہ :یہ لفظ معرب ہے اورفارسی سے لیا گیا ہے جس کی اصل "منج کوش" ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس نام کا ایک چھوٹے کانوں والا شخص تھا جس نے سب سے پہلے مجوس کا دین اختیا ر کیا اور لوگوں کو اس دین کی طرف دعوت دینے لگا۔ تو عربوں نے اس نام کو معرب بنا یا اور"منج گوش"سےمجوس کہنے لگے۔ عرب لوگ کبھی کبھی اس لفظ یعنی”مجوس"کو کسی قبیلے کے ساتھ تشبیہ دیتے وقت غیر منصرف بھی پڑھتے ہیں اور یہ اس لئے کہ اس میں عُجمہ اور علمیت جمع ہوجاتےہیں"۔[xxxiii]
مختلف مسالک کا بیان
اگر روایت میں کسی مسئلے کا بیان ہے تو شیخ الحدیثؒ , صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ اربعہؒ کے اقوال اور دلائل کے علاوہ اہلِ ظواہر اور دیگر مجتہدین کے مسالک اور ان کی تفصیلی دلائل بھی بیان کرتے ہیں۔نیز ہر مسلک کے فروع کو اصل کتب اور بنیادی مصادر سے بیان کیا جاتاہے، تقریباً کسی بھی مسلک کی کتاب کی اصل عبارت بلا تغیر و تبدل ذکر کرتے ہیں اور ساتھ صراحت بھی کرتے ہیں کہ یہ عبارت فلاں کتاب سے ماخوذ اور اس کا قائل فلاں شخص ہے۔ بعض اوقات شیخ الحدیث ؒ قائل کااصل نام جب کہ بعض اوقات اس کی کنیت یا لقب یا صرف کتاب کےذکر پراکتفا ء کرتے ہیں مثلاً فرماتے ہیں: "یہ قول ابن عبد البر ؒکا ہے"۔[xxxiv] بعض جگہوں میں فرماتے ہیں کہ ”ابو عمرؒ فرماتے ہیں"[xxxv] تو ابن عبد البرؒ اور ابو عمرؒ کا مصداق ایک ہی ہے۔[xxxvi] اس کے ساتھ ساتھ آپؒ توضیح کے دوران فنون کی مختلف اصطلاحات سے بھی مدد لیتے ہیں، مثلاً آپؒ بعض اوقات مسلک کی تصریح کیے بغیر بیان کرتے ہیں کہ یہ مسئلہ فلاں کتاب سے لیا گیا ہے، یا فلاں شخص کا قول یہ ہے،تو ایسے بیان کے قائلین کے مسلک کو معلوم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کتاب یا قائل کے بارے میں معلوم کیا جائے کہ وہ حنفی، مالکی،حنبلی،شافعی، ظاہری یا مجتہد مطلق وغیرہ ہے۔
اصحابنا" سے ہرجگہ احناف مراد نہیں ہوتے
شیخ الحدیثؒ کا طریقہ یہ ہے کہ کسی مسلک کو ذکر کرنے کے لئے اس مسلک کی کتب سے بلا ترمیم پوری عبارت نقل کرتے ہیں تو اس میں بعض اوقات یہ الفاظ ہوتے ہیں کہ ”فقال اصحابنا" تو ان الفاظ سے مراد بعض مقامات پر تواحناف ہوتے ہیں مثلاً یہی عبارت”فقال اصحابنا"امام جصاص ؒ (م370ھ)کی احکام القرآن کی ہے[xxxvii] جو کہ شیخ الحدیثؒ نے بلاترمیم نقل کی ہے[xxxviii] اور اس سے مراد احناف ہیں کیونکہ امام جصاص ؒخود حنفی ہیں۔ لیکن ہر جگہ”اصحابنا"سےاحناف مراد نہیں ہوتے بلکہ جس کتاب سے وہ عبارت ماخوذ ہوتی ہے صاحبِ کتاب کےہم مسلک لوگ مراد ہوتے ہیں مثلاً :”قال القاضی ابو محمد و جماعۃ من اصحابنا"[xxxix]اس عبارت میں اصحاب سے مراد مالکیہ ہیں، کیونکہ یہ عبارت المنتقیٰ شرح الموطأسے لی گئی ہے جو کہ علامہ باجیؒ کی شرح ہے اور وہ مالکی ہیں۔
مطلق لقب یا کنیت کی تحقیق
شیخ الحدیثؒ بعض اوقات مطلقاً کسی قائل کا لقب یا کنیت ذکر فرماتے ہیں، مثلاً یہ کہ ”امام فرماتے ہیں"[xl]تو اس سے ہرجگہ امام ابوحنیفہ ؒمراد نہیں ہوتے یا مطقاً ذکر کرتے ہیں کہ”قاضیؒ فرماتے ہیں "[xli]تو اس سے ہر جگہ امام ابویوسفؒ مراد نہیں ہوتے بلکہ جس کتاب سے عبارت ماخوذ ہوتی ہے صاحب ِ کتاب کے مسلک کو معلوم کیا جائے کہ اس کے مسلک کے لوگ امام یا قاضی کا لقب کس کےلئے استعمال کرتے ہیں یا اس کتاب میں امام یا قاضیؒ سے مراد کون ہے۔ مثلاً ایک جگہ شیخ الحدیثؒ نے ذکر کیا ہے کہ:”ا مام فرماتے ہیں کہ درست بات یہ ہے کہ کفار کے تمام مقاصدمثلاً ان کو ان کے حال پر برقرار رکھنا،ان کےخون کی حفاظت کرنا، ان کی خواتین اور بچو ں کی حفاظت کرنا اور ان سے ہر قسم کے ضرر کو دفع کرنے کو جزیہ کا عوض بنادیا جائے گا"۔[xlii]تو یہ عبارت فروع شافعیہ میں سے حاشیہ بجیرمی سے ماخوذ ہے، اور اس کتاب میں امام سے امام الحرمین عبد الملک بن عبد اللہ بن یوسف بن محمد الجوینی، ابوالمعالی، رکن الدین(م 419 ـ 478ھ) مراد ہیں، کیونکہ شوافع کی دوسری کتب میں یہ قول ان کی طرف منسوب ہے۔[xliii]
ایک ہی نام کے مختلف اعلام کی تحقیق کا طریقہ کار
شیخ الحدیثؒ بعض اوقات ایک ہی نام کے مختلف اعلام ذکر کرتے ہیں جن میں امتیاز کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے دیکھا جائے کہ وہ عَلَم کسی حدیث کی سند میں واقع ہے یا عام فقہی عبارت میں۔ اگر حدیث کی کسی سند میں ہے تو اصول جرح و تعدیل کا لحاظ کرتے ہوئے دیکھا جائے کہ جس سے وہ روایت کررہا ہے وہ اس کے اساتذہ میں سے ہے یا نہیں , ان کا زمانہ ایک ہے یا نہیں۔ اسی طرح راوی کو بھی دیکھا جائے جو اسی سند میں اس سے روایت کررہا ہے وہ اس کے تلامذہ میں سے ہے یا نہیں، ان کا زمانہ ایک ہے یا نہیں ہے، اور اگر عام فقہی عبارت میں واقع ہے تو دیکھا جائے کہ وہ عبارت کس کتاب سے ماخوذ ہے، اس کتاب کی طرف رجوع کیا جائے اور اس میں آگے پیچھے عبارت کو مطالعہ کیا جائے کہ اس میں مذکورہ عَلَم سے کو ن مراد ہے، یا یہ دیکھاجائے کہ جس کا قول نقل کیاجارہا ہے اسی نام کو معجم المؤلفین (تالیف عمر رضا كحالہ)میں تلاش کیا جائے اور اس کی تصنیفات یا تالیفات کو معلوم کیا جائے پھر مذکورہ قول کو اس میں تلاش کیا جائے،جس کتاب میں قول مل جائے تو وہی صاحبِ کتاب مراد ہوگا، مثلاً : شیخ الحدیثؒ بعض اوقات فرماتے ہیں کہ یہ قول قرطبی کا ہے یا قرطبی فرماتے ہیں،[xliv]تو قرطبی نام کے دو عَلَم ہیں، ایک مفسر ہے اور ایک محدث ہے، تو دیکھنا یہ ہوگا کہ بات تفسیر کی ہورہی ہے یا حدیث کی، تو معجم المؤلفین سے ہمیں معلوم ہوگا کہ دونوں اعلام کی تصانیف کونسی ہیں تو تلاش کرنے پر ہمیں معلوم ہوگا کہ ایک قرطبی کی کتاب "المفہم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم" حدیث میں ہے جب کہ دوسری قرطبی کی تفسیر قرطبی ہے۔ لیکن چونکہ عبارت میں مذکورہ مسئلے کا تعلق حدیث کے ساتھ ہے لہٰذا ہم حدیث کی بات کو حدیث کی کتاب میں تلاش کریں گے۔ اگر ہمیں وہ قول "المفہم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم" میں مل جائے توعبارت میں مذکورہ عَلَم سے قرطبی محدث مراد ہوں گے, نہ کہ وہ قرطبی جو مفسر ہیں۔ ایسی صورت میں عَلَم کا تعین کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے معلوم کیا جائے کہ قول کا تعلق کس فن لغت، صرف نحو، فقہ، تفسیر یا حدیث کے ساتھ ہے، پھر اس فن کے اعتبار سے عَلَم کا تعین کیا جائے ۔
ایک ہی کتاب کے دو مختلف ناموں کا ذکر
شیخ الحدیثؒ بعض اوقات ایک ہی کتاب کے مختلف نام ذکر کرتے ہیں، مثلاً فرماتے ہیں کہ : یہ مسئلہ”اتحاف"نامی کتاب میں ہے،[xlv] جب کہ دوسری جگہ اسی کتاب کو”شرح احیاء" کے نام سے ذکر تے ہیں، [xlvi]حالانکہ یہ ایک ہی نام ہے اور پورا نام اتحاف السادۃ المتقین بشرح احیاء علوم الدین"ہے جو کہ علامہ زبیدیؒ(م 1205ھ)کی تالیف ہے۔
ایک ہی نام کی دو مختلف کتابوں میں احتیاط
شیخ الحدیثؒ بعض اوقات دو مختلف کتابوں کا ایک ہی نام مؤلف کے نام کی تصریح کیے بغیر ذکر کرتے ہیں مثلاً فرماتے ہیں کہ : یہ مسئلہ محلی میں ہے۔ حالانکہ محلی نام کی ایک شرح موطأ پرمحمد بن سلیمان بن خلیفہ ؒکی ہے اوراسی نام کی دوسری شرح موطأ پر شیخ سلام اللہؒ جو شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ کی اولاد میں سے ہیں،ان کی ہے۔ تو بعض جگہوں میں اول الذکر کتاب جب کہ بعض مقامات میں ثانی الذکر کتاب مراد ہوتی ہے۔ اسی نام کی ایک کتاب علامہ ابن حزم ظاہریؒ کی بھی ہے، اسی طرح شیخ الحدیثؒ بعض اوقات فرماتے ہیں [xlvii]:”کذا فی الفتح"تو فتح سے مراد فتح الباری بھی ہوسکتی ہے اور فتح القدیر بھی مراد ہوسکتی ہے، ایسی صورت میں دونوں کتابوں کی عبارات کو دیکھ کر معلوم کیا جاسکتاہے کہ مذکورہ عبارت کونسی کتاب سے ماخوذ ہے۔
صوفیانہ اصطلاحات اور حکمتوں کا ذکر
شیخ الحدیثؒ جابجا صوفیانہ اصطلاحات اور حکمتیں بھی بیان فرماتے ہیں، مثلاً ایک جگہ علامہ عینیؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:”علماء نے کہا ہے کہ محرم پر مذکورہ لباس کی تحریم کی حکمت یہ ہے کہ وہ آسودگی سے دور رہے اور عاجز اور ذلیل کی صفت اپنائے تاکہ اس کو ہر وقت یاد رہے کہ وہ محرم ہے۔ پس وہ اپنےکثرتِ اذکار اور االلہ تعالیٰ کی عبادت کےلئے گناہوں سے بچنےاور ممنوعات سے منع ہونے کےزیادہ قریب ہواور یہ طریقہ اس کے مراقبہ کےلئے زیادہ بلیغ ہے، تاکہ اس کو اس کی موت اور کفن کا لباس اور قیامت کےدِن ننگے پیر او رننگا جسم اٹھ کر عاجزی اور ذلت کے ساتھ چلتے ہوئے پکارنے والے کی طرف چلنا یاد رہے۔ خوشبو کی تحریم میں حکمت یہ ہے کہ وہ دنیا کی زینت سے دور ر ہے۔ اس لئے بھی کہ خوشبو جماع کی طرف راغب کرنے والی چیزہے اور اس لئے بھی کہ وہ حاجی کی منافی ہے پس وہ پراگندہ بال اورغبارآلود ہوتاہے، اور اس کا حاصل یہ ہےکہ وہ اپنے تمام توجہ کو آخرت کے مقاصد کےلئے جمع کردے"۔[xlviii]
اغلاط
اوجز المسالک کا ایک نسخہ وہ ہے جس پر شیخ صالح الشعبان نے تعلیق ہے
اور ایک وہ نسخہ ہے جس پر ڈاکٹر تقی الدین ندوی نے تعلیق کی ہے،
اول الذکر میں بہت زیادہ جب کہ ثانی الذکر میں بہت کم اغلاط پائی جاتی ہیں۔
بعض اوقات یہ اغلاط کتابت کی ہوتی ہیں مثلاً : لفظ مسلم کو معلم یا ساتر کو سائر یا مند ل کو معذل لکھا گیا ہے۔[xlix]
اس قسم کی اغلاط کی تصحیح کے لئے ضروری ہے کہ اوجز کے نسخوں کا آپس میں اور مصدر اصلی کے ساتھ تقابل کیا جائے۔
بعض اوقات یہ اغلاط مصدر اصلی میں غلطی کی وجہ سے بھی ہوتی ہیں
مثلاً : شرح اقناع کی عبارت شیخ الحدیثؒ نے نقل کی ہے [l]کہ : ”ابواسحاقؒ فرماتے ہیں کہ: اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کے بعد کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس نے بیت اللہ کا حج ادا نہ کیا ہو"۔
اوجز المسالک میں یہ روایت ابو اسحاق کے حوالے سے نقل کی گئی ہے اور مصدر اصلی شرح اقناع میں بھی اسی طرح ہے۔
لیکن یہ روایت ابن اسحاق سے ہے اور سیرۃ ابن اسحاق، دلائل النبوۃ للبیہقی اور تفسیر روح المعانی میں ابن اسحاق کا ذکر ہے۔[li]تو ایسے اغلاط کی تصحیح کے لئے ضروری ہے کہ دو یا تین کتابوں سے اس کا موازنہ کیا جائے، اور اس کے بعد اس کی تصحیح کی جائے۔
عبارت ماخوذہ میں راویوں کا غیر صحیح اندراج
شیخ الحدیث ؒکا طریقہ یہ ہے کہ مصدر اصلی سے اصل عبارت بلاکسی ترمیم کے نقل کرتے ہیں لیکن بعض اوقات مصدر اصلی میں بھی بشری تقاضے کے تحت راوی کے نام کا غلط اندراج ہوتا ہے تو آپؒ بھی من و عن اسی طرح نقل کرتے ہیں مثلاً : ایک روایت کی سند میں اوجز کے ایک نسخے میں مجالد نقل کیا گیا ہے [lii]جب کہ دوسرے نسخے کے مطابق مجاہد نقل کیا گیا ہے،[liii]اور تفسیر جصاص جو کہ مصدر اصلی ہے اوراس کی عبارت نقل کی گئی ہے اس میں بھی مجالد لکھا گیا ہے،[liv] لیکن اصل میں یہ روایت بجالہ بن عبدۃ التمیمی سے مروی ہے،[lv] تو ایسی صورت میں تصحیح کے لئے روایات کے مصادر اصلیہ کا آپس میں تقابل ضروری ہے۔
عبارت یا روایت میں تسامح
شیخ الحدیثؒ ایک عبارت یاروایت نقل کرتے ہیں تو ساتھ کتاب کی صراحت بھی کرتے ہیں، لیکن بعض اوقات وہ عبارت یا روایت کسی اور کتاب سے ماخوذ ہوتی ہے، اس قسم کی تسامح شاذ و نادر واقع ہوتی ہے، مثلاً شیخ الحدیثؒ فرماتے ہیں[lvi] کہ: ”و فی شرح الاقناع ھی مغیاۃ بنزول عیسی علیہ الصلاۃ و السلام لما فی الحدیث الصحیح ۔۔الخ"یہ عبارت شرح اقناع کے حوالے سے ذکر کی گئی ہے، حالانکہ یہ عبارت شرح اقناع کی نہیں ہے بلکہ یہ حاشیہ البجیرمی کی ہے۔[lvii]
ایسی صورت اگر پیش آئے تو جس کتاب کے حوالے سے عبارت مذکور ہوتی ہے اگر اس میں نہ ملے تو اسی موضوع کی دوسری کتب یا اوجز المسالک میں زیادہ تر حوالے کے طور پر استعمال ہونے والی کتب و شروحات میں اس کی تلاش کرنی چاہیے۔
اوجز المسالک کے بعض نسخوں میں عبارات کا سقوط اور اقوال کا غلط انتساب
اوجز المسالک کے بعض نسخوں میں پوری پوری عبارات کا سقوط ہے، اور بعض جگہوں میں اقوال کا غلط انتساب بھی ہے، اوجز کا وہ نسخہ جس پر صالح الشعبان نے تعلیق کی ہے اس میں کئی جگہوں میں عبارات کا سقوط ہے مثلاً : "ومنها سنة تسع او عشر حکاه العيني عن امام الحرمين وبهٖ جزم ابن القيم في الهدی و عزاه الیٰ غير واحد من السلف"یہ عبارت مذکورہ نسخے میں نہیں ہے،[lviii]اور وہ نسخہ جس پر ڈاکٹر تقی الدین ندوی صاحب نے تعلیق کی ہے اس میں یہ عبارت موجود ہے،[lix] اسی طرح کئی دیگر جگہوں میں عبارات کا سقوط ہے، اور دونوں نسخوں میں بعض اوقات اقوال کا غلط انتساب بھی ہے[lx] مثلاً :”قال الزيلعي و يؤيد هٰذ ا المذهب"یہ عبارت دونوں نسخوں میں اسی طرح لکھی گئی ہے لیکن یہ قول امام نووی ؒ کا ہے، اور انہوں نے شرح المہذب میں بعینہٖ یہی عبارت نقل کی ہے۔[lxi] اسی طرح اول الذکر نسخے میں ایک جگہ امام ابویوسفؒ کے قول کا انتساب امام ابوحنیفہؒ کی طرف کیا گیا ہے[lxii] مثلاً : "وهو قول ابي حنيفة المرجوع اليه"حالانکہ درست عبارت ہے :"وهو قول ابي يوسف من الحنفيه المرجوع اليه"۔[lxiii]اس قسم کی اغلاط کی تصحیح کے لئے اوجز کے نسخوں میں آپس کے تقابل کے بعد مصدر اصلی کے ساتھ تقابل کیا جائے۔

اوجز لمسالک کی خصوصیات

1۔ موطأ کے مختلف نسخوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے وضاحت کے ساتھ روایت اور اس روایت کے توابع کا ذکر

2
۔ صحت و سقم کے اعتبار سے جرح و تعدیل کے اصول کی روشنی میں روایت اور اس کے توابع کا جائزہ
3
۔ روایت کی جزئیات میں تقسیم اور روایت کے ہر جز کی توضیح وتحقیق
4
۔ زیر بحث مسئلے پر قرآن کریم کی آیات سے استدلال, قرآن کریم کی آیات اور روایات میں زیر بحث الفاظ کی لغوی، نحوی اور صرفی تحقیق۔بعض جگہوں میں قرآن کریم کی آیات میں مختلف قراءا ت کی وضاحت اور مختلف معانی کے احتمالات کا ذکر
5
۔ بقدرِ ضرورت جگہ، قوم اور قبیلے کی توضیح اور مستند تاریخ کا بیان
6
۔ اصل مسئلے کی توضیح، نيزصحابہ کرام رضی اللہ عنہم، ائمہ اربعہ، اہل ظواہر اور دیگر مجہتدین ؒکے اقوال اور ان کے دلائل کاذکر
7
۔ ہر مسلک کی بنیادی مصادر سے مسئلے کی توضیح, ہر مسلک کی مستند کتاب سے اصل عبارت کی نقل اور اس کے ساتھ مصنف یا قائل کی تصریح اور ہر مسلک کی بلاتعصب، اعتدال کے ساتھ وضاحت
8
۔ صوفیانہ اصطلاحات اورحکمتوں کابیان
9
۔ ایک مسئلہ بیان کرنے کے بعد دوسری جگہ اس کے حوالے پر اکتفاء اور زیربحث مسئلے پرشیخ الحدیثؒ کی رائے
خلاصۃ البحث
موطأ مالک پر عرب و عجم علماء نے کئی شروحات لکھیں ہیں، جن میں ایک شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا ؒ کی اوجز المسالک الیٰ موطأ مالک بھی ہے، جس میں تقریباً ان تمام شروحات کا خلاصہ ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعینؒ کے اقوال و فتاوٰی جات اور مذاہبِ اربعہ کے علاوہ اہل ظواہر کے مسلک کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ شیخ الحدیث ؒنے بہترین اور ایک نئے انداز میں یہ شرح لکھی ہے، لیکن اس کے منہج و اسلوب کو سمجھے بغیر اس سے استفادہ کرنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، کیونکہ شیخ الحدیثؒ نے مسالک ِمختلفہ کو اصل مصادر سے بلاکسی ترمیم نقل کیا ہے اور من و عن وہی عبارات نقل کی ہیں جو کہ مصادر اصلیہ میں ہیں اور ساتھ ساتھ قائلین یا کتب کی تصریح بھی کی ہے۔ لہذا ان مصادر اصلیہ کے منہج و اسلوب کو سمجھ کر اس کے پس منظر میں اوجز کے منہج و اسلوب کو سمجھا جا سکتاہے۔ فقہ کے میدان میں یہ ایک قابل قدر کام ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی وحوالہ جات

بنوری, علامہ محمد یوسف.مقدمہ اوجز المسالک الیٰ موطأ مالک .تعلیق: ڈاکٹر تقی الدین ندوی. ط: 2003ء، دار القلم دمشق، 1/14
[ii]
دہلویؒ, شاہ عبد العزیز محدث. بستان المحدثین. مترجم: عبد السمیع دیوبندی.ط: 1976ء، ایچ ایم سعید کمپنی, کراچی،ص 29-70
[iii]
شیخ سلام اللہ ؒ : شیخ عبد الحق محدث دہلوی ؒ کی اولاد میں سے ہیں ، آپؒ کی وفات کے بعد یہ شرح چھپ نہ سکی، البتہ نصف ِ اخیر مظاہر العلوم سہارنپور میں موجود ہے۔ [لکھنوی, محمد عبد الحئی.التعلیق الممجد علیٰ موطأ. تعلیق:تقی الدین ندوی .ط: 1991ء، دار السنہ و السیرہ، بمبئی،1/104]
[iv]
مقدمہ اوجز المسالک, 1/113
[v]
ندویؒ، ابو الحسن علی.حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ.ط: 2003ء،مکتبہ اسلام گوئن روڈ ، لکھنؤ، ص 49
[vi]
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ ، ص54
[vii]
أیضاً، ص 55
[viii]
أیضاً، ص 56
[ix]
أیضاً, ص56، 57
[x]
أیضاً، ص 56
[xi]
أیضاً، ص60
[xii]
مقدمہ اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک، 1/19، 20
[xiii]
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ، ص66
[xiv]
أیضاً، ص67
[xv]
أیضاً، ص 107
[xvi]
مقدمہ اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک، 1/22،21؛ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ،241 تا 245؛ حافظ محمد اکبر شاہ صاحب بخاری.اکابر علماء دیوبند .ط: 1999ء، ادارہ اسلامیات لاہور، ص 275
[xvii]
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ، ص250
[xviii]
أیضاً، ص252
[xix]
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ، ص 175 تا 183؛ اکابر علماء دیوبند، ص 275
[xx]
أیضاً، ص 175 تا 183
[xxi]
مقدمہ اوجز المسالک از تقی الدین ندوی، 1/7
[xxii]
أیضاًؒ، ص47 تا 48
[xxiii]
تصدیر از علامہ محمد یوسف بنوری علیٰ اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک،1/ 24
[xxiv]
محمد بن مكرم بن منظور افریقی مصری،لسان العرب، 5/427،دار صادر – بيروت، س ط ن
[xxv]
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاکاندھلویؒ، ص 244
[xxvi]
ایضاً
[xxvii]
مقدمہ اوجز المسالک، مولانا محمد زکریا ؒ، 1/47 تا 254
[xxviii]
اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک، 6/200
[xxix]
غریب اور منفرد حدیث کے راوی لفظ اور معنیٰ میں یا صرف معنیٰ میں دوسرے راوی کی موافقت اور مشارکت کریں، اگر صحابی ایک ہو تو متابع ہے اور اگر صحابی مختلف ہو تو اس کو شاہد کہا جاتا ہے۔ [الطحان, محمو د. تیسیر مصطلح الحدیث . ط: 1999ء، مکتبہ قدوسیہ ، لاہور، ص133]
[xxx]
اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک، 6/233؛ الشربينى, شمس الدين ،محمد بن أحمد الخطيب الشافعی شرح الاقناع. ط:ندارد، 2/225
[xxxi]
علامہ بدر الدین عینیؒ. عمدۃ القاری.ط: ندارد، 14/276، 277
[xxxii]
اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک 6/389
[xxxiii]
أیضاً, 6/189
[xxxiv]
أیضاً, 6/241
[xxxv]
أیضاً, 6/226
[xxxvi]
اس کی دلیل یہ ہے کہ اوجز کے مذکورہ صفحے پر الاستذکار سے عبارت ماخوذ ہے جو کہ ابن عبد البر ؒ کی کتاب ہے اور آپؒ کی کنیت ابو عمر ہے۔ [أبو عمر يوسف بن عبد الله بن عبد البر النمری.الاستذکار. ط:2000ء،دارالکتب العلمیہ، بیروت، 3/150]
[xxxvii]
أحمد بن علی المكنی بأبی بكر الرازي الجصاص الحنفی. احکام القرآن. 1405ھ،دار احیاء التراث العربی، 4/283
[xxxviii]
اوجز المسالک الیٰ مؤطا مالک، 6/193
[xxxix]
أیضاً، 6/254
[xl]
أیضاً، 6/186
[xli]
أیضاً، 6/213
[xlii]
أیضاً، 6/186
[xliii]
تقی الدين أبی بكر بن محمد الحسينی الدمشقی الشافعیؒ. کفایۃ الاخیار.ط: 1994ء، دار الخیر دمشق، 1/ 508
[xliv]
اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک، 6/376
[xlv]
أیضاً، 6/272
[xlvi]
أیضاً، 6/384
[xlvii]
أیضاً، 6/348
[xlviii]
أیضاً، 6/364
[xlix]
أیضاً، 6/124،113،210
[l]
أیضاً، 6/325
[li]
محمد بن إسحاق بن يسار. سیرۃ ابن اسحاق.ط: معهد الدراسات والأبحاث للتعريف، 2/73؛ امام بیہقی ابوبکر احمد بن حسین بن علی البیہقی . دلائل النبوۃ.ط: 1988ء، دار الکتب العلمیہ بیروت ، 2/46؛ شهاب الدين محمود ابن عبد الله الحسينی الآلوسی.تفسیر روح المعانی.ط: 1415ھ،دار الكتب العلميہ بيروت، 2 / 230؛ شرح الاقناع، 1/ 230
[lii]
اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک ، تعلیق تقی الدین ندوی، 6/193
[liii]
اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک تعلیق صالح الشعبان، 6/104
[liv]
أحمد بن علی المكنی بأبی بكر الرازی الجصاص الحنفیؒ.احکام القرآن.ط:1405ھ، دار احياء التراث العربى، بيروت، 4/286
[lv]
أبو بكر أحمد بن عمرو بن عبد الخالق البزارؒ .مسندالبزار .ط: 2009ء ، مکتبہ العلوم و الحکم، مدینہ منورہ، 3 / 268؛ سليمان بن داود بن الجارودؒ.مسندطیالسی .ط:ندارد، الهجر للطباعہ والنشر، 1/181؛ ابو الحسن علی بن عمرالدارقطنیؒ. سنن دارقطنی .ط:ندار، 3/94
[lvi]
اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک، 6/187
[lvii]
سليمان بن محمد بن عمر البجيرمی الشافعیؒ . حاشیہ البجیرمی علی الخطیب .ط: 1996ء، دار الكتب العلميہ بيروت،5/158
[lviii]
اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک ، تعلیق صالح الشعبان، 6/183
[lix]
اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک تعلیق تقی الدین ندوی، 6/323
[lx]
اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک ، تعلیق صالح الشعبان، 6/105؛ اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک تعلیق تقی الدین ندوی، 6/195
[lxi]
أبو زكريا محی الدين یحیی بن شرف النوویؒ. المجموع شرح مہذب للنووی .ط: دار الفکر، بیروت، 19/390
[lxii]
اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک تعلیق صالح الشعبان، 6/165
[lxiii]
اوجز المسالک الیٰ موطاء مالک تعلیق تقی الدین ندوی، 6/294