Friday 1 January 2021

عقد الجواہر فی احوال البواہر


عقد الجواہر فی احوال البواہر

مصنف : سیدابو ظفر ندوی

پیشکش : طوبیٰ ریسرچ لائبریری

16جمادی الاول 1442 ہجری

AQD UL JAWAHAR FI AHWAL UL BAWAHIR

Author:SYED ABU ZAFAR NADWI

امامیہ کا بوہری فرقہ

(تعارف از مفتی محمد امجد حسین صاحب)

"عقد الجواہر فی احوال البواہر " بوھروں کی مختصر تاریخ و تعارف ہے ۔ مئولف ابو ظفر ندوی ہیں جنکا جنوبی ہند کی مسلم تاریخ کے اہم ترین ساحلی خطہ گجرات پر مختلف جہتوں سے بہت سا تصنیفی کام ہے ، کتاب 1936ء میں تالیف ہوئی 384 صفحات پر مشتمل ہے ۔ بوھروں کی تاریخ پر لٹریچر عام طور پر دستیاب نہیں۔ اہلِ علم اس کی طلب و جستجو کرتے ہیں اس لحاظ سے یہ کتاب قابل قدر ہے ۔ ای لائبریری پر میسر ہونا اہل علم کے لیئے سوغات ہے خصوصا بشریات مذاہب کا ذوق رکھنے والوں کے لیئے۔

 کتاب سے مجموعی طور پر یہ تاثر ابھرتا ہے کہ مئولف بواہر سے کافی متاثر و مرعوب ہیں ، عموما ان کے افکار، اعمال، رسوم کی تاویل ، تطبیق یا دفاع کرتے ہیں ، جیسے کتاب کے آخر حصے میں جہاں ان کے مذہبی نظم اور عہدوں کا بیان ہے یہ امر نمایاں ہے ۔

کتاب بوھروں کے نظم امامت و امارت کا شروع سے آخر تک مربوط خاکہ ہمیں فراہم کرتی ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقعہ پر مختصر تقابلی جائزہ  امامیہ اور اہل سنت کا ہو جائے۔

اہل سنت جو امت کا سواد اعظم اور ہمیشہ 90 فیصد سے زائد پر مشتمل جمہور اہل اسلام ہیں ۔ قرآن و سنت سے انہوں نے نبوت کے خصائص و کمالات اور امتیازات کا حاصل دو امر سمجھے اور ٹہرائے ہیں اور سلف سے خلف تک اہل سنت کے خاص و عام اسی کا اجتماعی شعور رکھتے ہیں اور اس باب میں کوئی بھی انسانی فرد ی، طبقہ یا نسل انبیاء کے سہیم و شریک نہیں خواہ وہ زمانہ قبل از اسلام کی انسانی تاریخ ہو یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ختم نبوت کے بعد کا دور ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ دو امر یہ ہیں

1- مامور من اللہ ہونا

2- معصوم عن الخطا ہونا ۔

نبی کے سارے کمالات ان دو اصلوں کی طرف لوٹتے ہیں اور یہیں سے پھوٹتے ہیں ۔

لہذا اہل سنت کے ہاں امام ، خلیفہ ، مجتہد ، فقیہہ ، ولی کوئی منصوص آسمانی عہدے نہیں جس پر نبی کی طرح خدائی تقرری ہوتی ہو اور ان کو مقام_عصمت حاصل ہو ، اہل سنت کے ہاں ختم نبوت کے منصوص قرآنی حکم اور بنیادی اساسی عقیدے کا بھی یہی مقتضی ہے۔ ورنہ ختم نبوت کا دعوی محض دعوی ہی رہ جائے گا جب نبوت کے متوازی کوئی اور " اصطلاح " مقرر کرکے نبوت کے خصائص اس کے لیئے ثابت کیئے جائیں ۔

امامیہ جن کے فرقے شعیہ ، راوفض باطنیہ ، اسمٰعیلیہ ، نزاریہ ، بوہریہ ، قرامطہ مشہور  ہیں صحابہ کے متاخر دور میں اسی مذکورہ اصل سے انحراف کر کےدونوں خصائص ِ نبوت عقیدہ امامت کے تناظر میں انہوں نے حضرت علی  کرم اللہ وجہہ اور ان کی اولادِ فاطمی کے لیئے منظم کیئے۔

چھٹے امام جعفر صادق تک یہ سلسلہ برابر چلا ، ساتوں امام کی تعیین میں دو گروہ ہوگئے اسمٰعیلیہ اور اثناعشریہ ۔ اثنا عشریہ نے جعفر صادق علیہ الرحمہ کے بیٹے موسٰی کاظمؒ کو ساتواں امام مانا جبکہ اسمٰعیلیہ نے جعفر صادق کے بڑے مرحوم بیٹے اسمٰعیل (جو جانشین تھے لیکن والد کی زندگی میں فوت ہوگئے تھے)کے بیٹے محمد کو ساتواں امام ٹہرایا۔ اسی وجہ سے اسمٰعیلیہ کہلائے ،پھر اثنا عشری بارھویں امام کے غیبوت کا دعویٰ کر کے غائب امام کے قائل ہوئے کہ اب امام مخفی رہ کے اپنے نائب کے ذریعے کارِ امامت چلائیں گے اور قرب قیامت میں ظاہر ہونگے  جبکہ اسمٰعیلیہ حاضر امام کے نظریہ پر سختی سے کاربند رہے کہ امام ایک لمحہ کے لیے بھی غائب نہیں ہوسکتا۔

اسمٰعیلیہ کی لڑی میں تیسری صدی کے اواخر میں افریقہ میں عبیدی سلطنت قائم ہوئی جو کچھ عرصہ میں مصر منتقل ہوگئی اور مصر میں فاطمی خلافت کے نام سے ان کے خلفاء جو امام حاضر بھی تھے ان کا سلسلہ جاری رہا۔ اسمٰعیلیہ میں فاطمین مصر میں اٹھارہویں امام مستنصرباللہ تھے ، یہاں انیسویں امام میں پھر اختلاف ہو کر دو گروہ ہوئے  مستعلیہ اور نزاریہ ، ایک نے مستعلی باللہ کو امام مانا  جو باپ کے بعد مصر کا فاطمی خلیفہ اور امام بنا ، بوھروں کی اصل یہی مستعلی گروہ ہے، دوسرے نے مستعلی کے بھائی نزار کو امام مانا جو بھائی کے بر مقابل امامت کا دعویدار تھا اور اسکندریہ میں اپنی امامت و حکومت کا اعلان کرکے بیعت لینی شروع کی جس پر مستعلی کی سرکاری فوجوں نے لڑائی میں اسے قتل کر دیااور نزارکے پیروکاروں نے اس کے چھوٹے بیٹے محمد کو امام مانا جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ حسن بن صباح جو نزار کا وفادار سپاہی تھا اس کو لے کر روپوش ہوگیا ۔ اسی نزاری گروہ کا سلسلہ قلعہ الموت میں حسن بن صباح کی فدائیین و حشیشین کی صورت میں آگے چلا اور پورے سو سال اس پُراسرار باطنی سلطنت نے عالم اسلام کی ناک میں دم کیئے رکھا تاآں کہ ہلاکو خان کے ہاتھوں یہ سلطنت ختم ہوگئی، آغا خانی اسمٰعیلی اسی نزاری گروہ کا تسلسل ہیں ، قلعہ الموت کے علاوہ ملتان ، سندھ میں بھی اس گروہ نے اپنی سلطنت کا ڈول ڈالا جو محمود غزنوی کی شمشیر خارا شگاف سے ختم ہوئی۔ اس اسمٰعلیہ یا آغا خانیہ گروہ میں پرنس کریم آغا خان تک امامت کا عدد49 تک پہنچا ہے اورامامِ حاضر کے تصور پر آج تک قائم ہے۔

مستعلیہ گروہ میں مستعلی کے بعد بیسواں اور مصر کے فاطمین کا آخر امام آمرباحکام اللہ تھا (490ھ تا 526) یہ نزاریوں کے فدائیوں کے ہاتھوں مقتول ہوا ، اسکے بعد اس گروہ کا "امرِ امامت" مصر سے یمن منتقل ہوگیا اور یہاں آکر ان میں بھی امام غائب کی طرح امام مستور کا تصور شروع ہوگیا ، چنانچہ آمر با حکام اللہ کا شیر خوار بیٹا طیب جو خفیہ طریقے پر مصر سے بچا کر یمن لایا گیا وہ ان کا امام مستور ہے ، امام مستور ستر و خفا میں رہ کر اپنے نائب کے ذریعے جس کو یہ گروہ داعی کہتا ہے امرِ امامت کو چلاتا ہے ۔

طیب سے ابھی تک (یعنی چھٹی صدی ہجری سے) ان میں ائمہ مستورین کا دور ہے ، معلوم نہیں وہ ائمہ مستورین کون کون ہیں یا وہ طیب ہی اثنا عشریوں کے امام مہدی کی طرح امام مستور ہے ، یہ" دعاۃ" کا سلسلہ چار سو سال یعنی دسویں صدی کے نصف تک یمن میں مسلسل چلا اور 24 داعی ہوئے پھر گجرات ہند منتقل ہوا اور اب تک جاری ہے ، سیدنا برہان الدین تک جو ابھی چند سال پہلے فوت ہوئے ان میں 52 داعی ہوئے۔ یہ مستعلیہ گروہ ہی بوھرے ہیں ، اس طرح امامیہ کے یہ تین بڑے گروہ ہوئے اثناعشریہ، اسمٰعیلیہ ، داؤدی بوہرے۔

بوہروں کو داؤدی اس لیئے کہتے ہیں کہ داؤد بن قطب شاہ جب 997ھ میں داعی بنے تو شیخ سلیمان (یمن) نے ان کو داعی نہ مانا اور خود داعی ہونے کا دعویدار ہوئے اور یمن سے گجرات آکر اپنے لیئے بیعت لینی شروع کی، بہت کثرت سے بوہرے ان کے مستفید ہوئے یہ 1000ھ کا واقعہ ہے جو مغلِ اعظم اکبر کا دور ہے اسطرح اسوقت سے یہ دو گروہ ہوئے داؤدی بوہرے اور سیلمانی بوہرے  یہ واضح رہے کہ سلیمانی بوہرے سُنی ہوتے ہیں اسلیئے ان کو سُنی بوہرے کہتے ہیں اور داؤدیوں کو شعیہ بوہرے کہتے ہیں ۔ اسی طرح سیلمان سے بھی کوئی سو سال پہلے یعنی نویں صدی کے اواخر میں ان میں ایک جعفری فرقہ بھی بنا جو مُلا جعفر پٹنی کے پیروکار ہوئے ، یہ نا صرف سُنی بلکہ راسخ العقیدہ سُنی مسلمان ہیں، یہ اپنے نام کے ساتھ جعفری لگاتے ہیں ، عالم اسلام کے شہرہ آفاق ہندی محدث شیخ طاہر پٹنی صاحبِ مجمع بحارالانوار اسی سُنی جعفری بوہروں کے گروہ سے تھے۔ کتاب میں یہ سب احوال بڑے سلیقے سے مربوط انداز میں آگئے ہیں ۔
٭پڑھیئے اورآگاہ رہیئے٭

DOWNLOAD

مزید کتب کے لیئے دیکھیئے صفحہ " دیگر مکاتب فکر " ۔

٭فاضل مصنف کا تعارف

اس بے تکلف مجلس میں مولانا سید ابوظفر ندوی بھولے بھٹکے شریک ہوتے ، وہ سید صاحبؒ کے سگے بھتیجے تھے ، ان کے والدبزرگوار حکیم مولوی سید ابوحبیب صاحب بڑے ہی عابد اور زاہد بزرگ تھے ، مجددیہ سلسلہ میں حضرت مولانا ابو احمد بھوپالی سے بیعت تھے ، ان ہی سے روحانی تربیت پاتے رہے ، سید صاحب سے اٹھارہ سال بڑے تھے،مولانا ابو ظفر صاحب نے ندوۃ العلما ء میں تعلیم پائی ، مولانا عبد الباری ندوی کے ہم درس رہے ، ان کی ملازمتوں کی داستان بڑی طویل ہے ۔ ندوہ سے فارغ ہو کر کچھ دنوں ملتان میں رہے ، پھر رنگون جا کر ایک عربی مدرسہ میں مدرس ہو گئے ، وہاں برمی زبان سیکھی، ’’برمی بول چال‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ، اپنا ’’سفرنامہ برما‘‘ بھی مرتب کیا ، رنگون سے احمد آباد چلےآئے ،جہاں گاندھی جی کے قائم کردہ کالج مہاودلیہ میں عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے ، وہاں بڑی محنت سے ’’تاریخ گجرات‘‘ لکھی ،جو بعد میں ۱۹۵۸ء؁ میں ندوۃ المصنفین دہلی سے شائع ہوئی ، ان ہی دنوں انہوں نے مراۃ احمدی کا ترجمہ ’’تاریخ اولیائے گجرات ‘‘ کے نام سے کیا ،یہ ۱۹۲۳ء؁ میں احمد آباد سے شائع ہوئی ۔ احمد آباد سے مدراس چلے آے تو وہ سیٹھ جمال کے جمالیہ کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے ، وہاں سے جناب نواب علی وزیر تعلیم ریاست جوناگڑھ نے ان کو جوناگڑھ بلالیا ، جہاں ان سے علمی و مذہبی کام لیے گئے ، یہاں کے قیام کے زمانہ میں انہوں نے اردو کے مشہور اہل قلم اختر جونا گڑھی کے ساتھ مل کر ایک علمی رسالہ ’’شہاب‘‘ کے نام سے نکالا ، احمد آباد اور جوناگڑھ میں رہنے کی وجہ سے ان کو بوہروں کی تاریخ سے دلچسپی ہوئی تو بو ہروں کے بعض اکابر کی فرمایش پر ان کی ایک تاریخ لکھی ، جب یہ چھپ کر تیار ہوئی تو بوہروں کے کچھ فرقوں کو اس کے بعض حصوں پر اعتراض ہوا ، اس لیے اس کی اشاعت روک دی گئی ،وہاں سے دارالمصنفین آئے ، تاریخ سندھ لکھنے کے لیے خاص طور بلائے گئے ، مگر وہ اس شرط پر ائے کہ ان کو دارالمصنفین کے احاطہ میں رہنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا ،وہ ندوہ میں مولانا مسعود علی ندوی سے اوپر درجہ میں تھے ، مولانا مسعود علی کا احترام اس احاطہ میں جس طرح کیا جاتا ، وہ ان کے اقتضائے طبیعت کے خلاف تھا ، اس لیے وہ شہر میں ایک مکان لے کر رہنے لگے ، وقت پر کتب خانہ آتے اور وقت پر چلے جاتے ، مولانا مسعود علی ندوی سے ملنا پسند نہ کرتے، شکل وجیہ پائی تھی ، لباس بھی اچھا پہنتے ، زلفی رکھتے تھے ، ٹوپی گول پہنتے ، مولانا مسعود علی ان کو تفریحاً شہزادہ تاج الملوک کہا کرتے ، مگر وہ مولانا مسعود علی کو لائق التفات نہ سمجھتے ، جب دونوں کا آمنا سامنا ہو جاتا تو ہم لوگوں کو ڈر لگا رہتا کہ دونوں میں اَن بن نہ ہو جائے ۔ مگر وہ شاہ صاحبؒ کے اخلاق کے معترف رہے ، ان کی تحریروں کی ادبی شان کے مداح تھے ، کہتے کہ ان سے تاریخ لکھانے کے بجائے ادبی کتابیں لکھانی چاہیے تھیں ،جس محنت اور ریاضت سے وہ اپنی علمی چیزوں کو تیار کرتے ، اس کے معترف شاہ صاحبؒ بھی رہے ، کہتے ہیں کہ ان کے جسم کو کھر چو تو اس سے ہندوستان کی تاریخ کے کسی نہ کسی پہلو کی صدا نکلے گی ، دارالمصنفین کے قیام میں ’’تاریخ سندھ‘‘ لکھی ، جو چھپ کر بہت مقبول ہوئی ،معارف میں حسب ذیل مضامین بھی لکھے : (۱) ہندوستان میں توپ کا استعمال ۲۰) ہندوستان کے کتب خانے (۳) ہندوستان میں کاغذ سازی (۴) ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے عہد میں ڈاک کا انتظام ۔ وہ کچھ دنوں کے بعد دارالمصنفین سے شانتی نکیتن چلے گئے ، وہاں سے پھر اینگلو ور نیکرلر سوسائٹی احمد آباد آ گئے ، جہاں رہ کر گجرات کی تمدنی تاریخ لکھی ، جو دارالمصنفین کے سلسلۂ تاریخ کی ایک اہم کتاب ہے ۔۱۹۵۸ء؁ میں وفات پائی، شاہ صاحبؒ نے جولائی ۱۹۵۸ء؁ کے معارف میں ان پر جو شذرات لکھے ،اس کے کچھ ٹکڑے یہ ہیں :

            ’’افسوس ہے کہ گذشتہ مہینہ ہماری جماعت کے ایک نامور رکن مولانا ابوظفر صاحب ندوی نے انتقال کیا ، ان سے دارالمصنفین کے گوناگوں تعلقات تھے ، وہ ندوہ کے مشہور فاضل ، نامور اہل قلم، حضرت سید صاحب کے حقیقی بھتیجے تھے، دارالمصنفین میں کئی سال تک رہے تھے ، ان کی پوری زندگی علم و تعلیم کی خدمت اور تالیف و تصنیف میں گذری ، علمی کمالات کے ساتھ بڑے دیندار ،نیک نفس اور سادہ مزاج تھے ، علمی کاموں کے ساتھ کچھ نہ کچھ دینی و ملی کام بھی کرتے رہتے تھے، سید صاحبؒ کے گھرانے میں وہ آخری علمی یادگار تھے ، وفات کے وقت ۷۰ سال کے قریب عمر رہی ہو گی ، اللہ تعالی اس خادم علم و دین کو اپنی رحمت سے سرفراز فرمائے"۔

سید صباح الدین عبدالرحمن کی ایک کتاب سے اقتباس

 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔